كِتَاب الضَّحَايَا کتاب: قربانی کے مسائل 13. باب فِي ذَبَائِحِ أَهْلِ الْكِتَابِ باب: اہل کتاب کے ذبیحوں کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ «فكلوا مما ذكر اسم الله عليه» ”سو جس جانور پر اللہ کا نام لیا جائے اس میں سے کھاؤ“ (سورۃ الانعام: ۱۱۸) «ولا تأكلوا مما لم يذكر اسم الله عليه» ”اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو“ (سورۃ الانعام: ۱۲۱) تو یہ آیت منسوخ ہو چکی ہے، اس میں سے اہل کتاب کے ذبیحے مستثنیٰ ہو گئے ہیں (یعنی ان کے ذبیحے درست ہیں)، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وطَعام الذين أوتوا الكتاب حل لكم وطعامكم حل لهم» ”اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے“ (سورۃ المائدہ: ۵)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 6259) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے جو یہ فرمایا ہے: «وإن الشياطين ليوحون إلى أوليائهم» ”اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں“ (سورۃ المائدہ: ۱۲۱) تو اس کا شان نزول یہ ہے کہ لوگ کہتے تھے: جسے اللہ نے ذبح کیا (یعنی اپنی موت مر گیا) اس کو نہ کھاؤ، اور جسے تم نے ذبح کیا اس کو کھاؤ، تب اللہ نے یہ آیت اتاری «ولا تأكلوا مما لم يذكر اسم الله عليه» ”ان جانوروں کو نہ کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا“ (سورۃ الانعام: ۱۲۱)۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الضحایا 40 (4448)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 4 (3173)، (تحفة الأشراف: 6111) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: ہم اس جانور کو کھاتے ہیں جسے ہم ماریں اور جسے اللہ مارے اسے ہم نہیں کھاتے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «ولا تأكلوا مما لم يذكر اسم الله عليه» ۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر الأنعام 6 (3069)، (تحفة الأشراف: 5568) (صحیح)» (یہود کا تذکرہ وہم ہے اصل معاملہ مشرکین کا ہے، ترمذی میں کسی کا تذکرہ نہیں ہے صرف الناس ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح لكن ذكر اليهود فيه منكر والمحفوظ أنهم المشركون
|