عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ «فكلوا مما ذكر اسم الله عليه»”سو جس جانور پر اللہ کا نام لیا جائے اس میں سے کھاؤ“(سورۃ الانعام: ۱۱۸) «ولا تأكلوا مما لم يذكر اسم الله عليه»”اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو“(سورۃ الانعام: ۱۲۱) تو یہ آیت منسوخ ہو چکی ہے، اس میں سے اہل کتاب کے ذبیحے مستثنیٰ ہو گئے ہیں (یعنی ان کے ذبیحے درست ہیں)، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وطَعام الذين أوتوا الكتاب حل لكم وطعامكم حل لهم»”اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے“(سورۃ المائدہ: ۵)۔
Narrated Ibn Abbas: The verse: "So eat of (meats) on which Allah's name hath been pronounced" and the verse: "Eat not of (meats) on which Allah's name hath not been pronounced" were abrogated, meaning an exception was made therein by the verse: "The food of the people of the Book is lawful unto you and yours is lawful unto them. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 15 , Number 2811
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2817
فوائد ومسائل: 1۔ ان آیات میں طعام اور چیزوں سے مراد بالخصوص حلال ذبح شدہ جانور ہی ہیں۔
2۔ جو اپنی موت مرے یا ذبح کے وقت عمداً نام نہ لیا جائے۔ تو وہ مردار اور حرام ہے۔ (مچھلی اور ٹڈی کا استثناء معلوم ومعروف ہے۔ ) 3۔ اہل کتاب جب اپنے شرعی انداز میں ذبح کریں۔ تو ان کا ذبیحہ حلال ہے۔ بخلاف مجوسیوں اور ہندوں وغیرہ کے الا یہ کہ واضح ہوجائے کہ اہل کتاب نے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہے۔ یا ذبح ہی نہیں کیا۔ جیسے آج کل یورپ میں ذبح کرنے کی بجائے مشینی جھٹکے سے جانور کو مارا جاتا ہے۔ یہ سراسر غیر شرعی طریقہ ہے۔ جس سے جانور مردار کے حکم میں ہوجاتا ہے۔ جس کا کھانا جائز نہیں۔ ملحوظہ۔ یہ روایت ضعیف ہے۔ اور بعض کے نزدیک اس میں صرف یہودیوں کا ذکر صحیح نہیں۔ بلکہ مشرکوں نے یہ اعتراض کیا تھا اور مذکورہ جواب نازل ہوا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2817