كِتَاب الضَّحَايَا کتاب: قربانی کے مسائل 1. باب مَا جَاءَ فِي إِيجَابِ الأَضَاحِي باب: قربانی کے وجوب کا بیان۔
مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم (حجۃ الوداع کے موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! (سن لو) ہر سال ہر گھر والے پر قربانی اور «عتیرہ» ہے ۱؎ کیا تم جانتے ہو کہ «عتیرہ» کیا ہے؟ یہ وہی ہے جس کو لوگ «رجبیہ» کہتے ہیں“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «عتیرہ» منسوخ ہے یہ ایک منسوخ حدیث ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأضاحي 19(1518)، سنن النسائی/الفرع والعتیرة 1(4229)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي2 (3125)، (تحفة الأشراف: 11244)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/215، 5/76) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: «عتیرہ» وہ ذبیحہ ہے جو اوائل اسلام میں رجب کے پہلے عشرہ میں ذبح کیا جاتا تھا، اسی کا دوسرا نام «رجبیہ» بھی تھا، بعد میں «عتیرہ» منسوخ ہو گیا۔ قال الشيخ الألباني: حسن
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اضحی کے دن (دسویں ذی الحجہ کو) مجھے عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے مقرر و متعین فرمایا ہے“، ایک شخص کہنے لگا: بتائیے اگر میں بجز مادہ اونٹنی یا بکری کے کوئی اور چیز نہ پاؤں تو کیا اسی کی قربانی کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، تم اپنے بال کتر لو، ناخن تراش لو، مونچھ کتر لو، اور زیر ناف کے بال لے لو، اللہ عزوجل کے نزدیک (ثواب میں) بس یہی تمہاری پوری قربانی ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الضحایا 1 (4370)، (تحفة الأشراف: 8909)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/169) (حسن)» (البانی کے نزدیک یہ حدیث عیسیٰ کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، جبکہ عیسیٰ بتحقیق ابن حجر صدوق ہیں، اور اسی وجہ سے شیخ مساعد بن سلیمان الراشد نے احکام العیدین للفریابی کی تحقیق وتخریج میں اسے حسن قرار دیا ہے، نیز ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود: 2؍ 370)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
|