Note: Copy Text and to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الضَّحَايَا
کتاب: قربانی کے مسائل
1. باب مَا جَاءَ فِي إِيجَابِ الأَضَاحِي
باب: قربانی کے وجوب کا بیان۔
حدیث نمبر: 2789
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيُّ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ الصَّدَفِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ، قَالَ الرَّجُلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا أُضْحِيَّةً أُنْثَى، أَفَأُضَحِّي بِهَا قَالَ: لَا، وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ وَتَقُصُّ شَارِبَكَ، وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ، فَتِلْكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اضحی کے دن (دسویں ذی الحجہ کو) مجھے عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے مقرر و متعین فرمایا ہے، ایک شخص کہنے لگا: بتائیے اگر میں بجز مادہ اونٹنی یا بکری کے کوئی اور چیز نہ پاؤں تو کیا اسی کی قربانی کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تم اپنے بال کتر لو، ناخن تراش لو، مونچھ کتر لو، اور زیر ناف کے بال لے لو، اللہ عزوجل کے نزدیک (ثواب میں) بس یہی تمہاری پوری قربانی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الضحایا 1 (4370)، (تحفة الأشراف: 8909)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/169) (حسن)» ‏‏‏‏ (البانی کے نزدیک یہ حدیث عیسیٰ کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، جبکہ عیسیٰ بتحقیق ابن حجر صدوق ہیں، اور اسی وجہ سے شیخ مساعد بن سلیمان الراشد نے احکام العیدین للفریابی کی تحقیق وتخریج میں اسے حسن قرار دیا ہے، نیز ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود: 2؍ 370)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (1479)
عيسي بن ھلال: صدوق، و ثقه ابن حبان والحاكم وغيرھما و حديثه حسن
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2789 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2789  
فوائد ومسائل:
فی الواقع جس کسی کے پاس وسعت نہ ہو کہ وہ قربانی کرسکے۔
تو نہ صرف یہ کہ اسے قربانی معاف ہے۔
بلکہ اگر وہ عید الاضحیٰ کے دن نماز عید کے بعد مذکورہ کام کرلے گا تو اللہ تعالیٰ اسے اس پر ہی قربانی کا اجر عطا فرما دے گا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2789   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4370  
´جو قربانی نہ پائے تو کیا کرے؟`
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: مجھے قربانی کے دن (دسویں ذی الحجہ) کو عید منانے کا حکم ہوا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس دن کو اس امت کے لیے عید کا دن بنایا ہے، وہ شخص بولا: اگر میرے پاس سوائے ایک دو دھاری بکری کے کچھ نہ ہو تو آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا میں اس کی قربانی کروں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم (قربانی کے دن) ۱؎ اپنے بال، ناخن کاٹو، اپنی مونچھ تراشو اور ناف کے نیچے کے بال ک [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4370]
اردو حاشہ:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت واضح ہے کہ جو شخص قربانی کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، اس کے لیے شریعت کا حکم یہ ہے کہ وہ اپنی جسمانی صفائی ستھرائی کا خاص اہتمام کرے۔ عید والے دن اپنے بال اور ناخن تراشے۔ اپنی مونچھیں کاٹے اور زیر ناف بالوں کی صفائی کرے۔ یہ اہتمام اس کے لیے قربانی کرنے کے قائم مقام ہوگا۔ ان شاء اللہ۔
(2)عید کے دن بننا سنورنا اور صفائی ستھرائی کا اہتمام کرنا مستحب ہے چونکہ یہ لوگوں کے اجتماع کا دن ہے، اس لیے اس دن کی خاطر خاص طور پر نہانا دھونا، اچھا لباس پہننا، خوشبو لگانا اور شریعت کے بتلائے ہوئے دیگر امور بجا لانا مطلوب اور شریعت مطہرہ کی نظر میں پسندیدہ عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قربانی نہ کر سکنے کے باوجود مذکورہ امور کو کما حقہ بجا لانا، اجر و ثواب میں مکمل قربانی کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔
(3) یہ حدیث مبارکہ قربانی کرنے کی خصوصی اہمیت بھی اجاگر کرتی ہے کیونکہ قربانی کرنے کا اس قدر بنانا مستحب قرار دیا گیا ہے تاکہ قربانی کرنے والے لوگوں کے ساتھ بدنی مشابہت ہو جائے۔
(4) معلوم ہوا قربانی کی طاقت نہ رکھنے والے شخص کو قربانی معاف ہے۔ ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا﴾
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4370