(مرفوع) وقال محمود: حدثنا ابو اسامة، قال: حدثنا هشام بن عروة، قال: اخبرتني فاطمة بنت المنذر، عن اسماء بنت ابي بكر، قالت: دخلت على عائشة رضي الله عنها والناس يصلون، قلت: ما شان الناس؟ فاشارت براسها إلى السماء، فقلت: آية، فاشارت براسها اي نعم، قالت: فاطال رسول الله صلى الله عليه وسلم جدا حتى تجلاني الغشي وإلى جنبي قربة فيها ماء ففتحتها فجعلت اصب منها على راسي فانصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقد تجلت الشمس فخطب الناس وحمد الله بما هو اهله، ثم قال: اما بعد، قالت: ولغط نسوة من الانصار فانكفات إليهن لاسكتهن فقلت لعائشة ما قال، قالت: قال: ما من شيء لم اكن اريته إلا قد رايته في مقامي هذا حتى الجنة والنار، وإنه قد اوحي إلي انكم تفتنون في القبور مثل او قريب من فتنة المسيح الدجال، يؤتى احدكم فيقال له ما علمك بهذا الرجل فاما المؤمن او قال الموقن شك هشام، فيقول هو رسول الله هو محمد صلى الله عليه وسلم: جاءنا بالبينات والهدى، فآمنا واجبنا واتبعنا وصدقنا، فيقال له: نم صالحا قد كنا نعلم إن كنت لتؤمن به، واما المنافق او قال المرتاب شك هشام فيقال له: ما علمك بهذا الرجل، فيقول: لا ادري سمعت الناس يقولون شيئا، فقلت: قال هشام: فلقد قالت لي فاطمة فاوعيته غير انها ذكرت ما يغلظ عليه.(مرفوع) وَقَالَ مَحْمُودٌ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ الْمُنْذِرِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ، قُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ؟ فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَقُلْتُ: آيَةٌ، فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا أَيْ نَعَمْ، قَالَتْ: فَأَطَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِدًّا حَتَّى تَجَلَّانِي الْغَشْيُ وَإِلَى جَنْبِي قِرْبَةٌ فِيهَا مَاءٌ فَفَتَحْتُهَا فَجَعَلْتُ أَصُبُّ مِنْهَا عَلَى رَأْسِي فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ فَخَطَبَ النَّاسَ وَحَمِدَ اللَّهَ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، قَالَتْ: وَلَغَطَ نِسْوَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَانْكَفَأْتُ إِلَيْهِنَّ لِأُسَكِّتَهُنَّ فَقُلْتُ لِعَائِشَةَ مَا قَالَ، قَالَتْ: قَالَ: مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَكُنْ أُرِيتُهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا حَتَّى الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَإِنَّهُ قَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ مِثْلَ أَوْ قَرِيبَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، يُؤْتَى أَحَدُكُمْ فَيُقَالُ لَهُ مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوْ قَالَ الْمُوقِنُ شَكَّ هِشَامٌ، فَيَقُولُ هُوَ رَسُولُ اللَّهِ هُوَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى، فَآمَنَّا وَأَجَبْنَا وَاتَّبَعْنَا وَصَدَّقْنَا، فَيُقَالُ لَهُ: نَمْ صَالِحًا قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ إِنْ كُنْتَ لَتُؤْمِنُ بِهِ، وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوْ قَالَ الْمُرْتَابُ شَكَّ هِشَامٌ فَيُقَالُ لَهُ: مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ، فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا، فَقُلْتُ: قَالَ هِشَامٌ: فَلَقَدْ قَالَتْ لِي فَاطِمَةُ فَأَوْعَيْتُهُ غَيْرَ أَنَّهَا ذَكَرَتْ مَا يُغَلِّظُ عَلَيْهِ.
اور محمود بن غیلان (امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ) نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہ مجھے فاطمہ بنت منذر نے خبر دی، ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے کہا کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی۔ لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے (اس بے وقت نماز پر تعجب سے پوچھا کہ) یہ کیا ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے پوچھا کیا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا (کیونکہ سورج گہن ہو گیا تھا) اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک نماز پڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھ کو غشی آنے لگی۔ قریب ہی ایک مشک میں پانی بھرا رکھا تھا۔ میں اسے کھول کر اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ پھر جب سورج صاف ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم کر دی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مناسب تعریف بیان کی۔ اس کے بعد فرمایا «امابعد» ! اتنا فرمانا تھا کہ کچھ انصاری عورتیں شور کرنے لگیں۔ اس لیے میں ان کی طرف بڑھی کہ انہیں چپ کراؤں (تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اچھی طرح سن سکوں مگر میں آپ کا کلام نہ سن سکی) تو پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ انہوں نے بتایا کہ آپ نے فرمایا کہ بہت سی چیزیں جو میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھی تھیں، آج اپنی اس جگہ سے میں نے انہیں دیکھ لیا۔ یہاں تک کہ جنت اور دوزخ تک میں نے آج دیکھی۔ مجھے وحی کے ذریعہ یہ بھی بتایا گیا کہ قبروں میں تمہاری ایسی آزمائش ہو گی جیسے کانے دجال کے سامنے یا اس کے قریب قریب۔ تم میں سے ہر ایک کے پاس فرشتہ آئے گا اور پوچھے گا کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ مومن یا یہ کہا کہ یقین والا (ہشام کو شک تھا) کہے گا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، ہمارے پاس ہدایت اور واضح دلائل لے کر آئے، اس لیے ہم ان پر ایمان لائے، ان کی دعوت قبول کی، ان کی اتباع کی اور ان کی تصدیق کی۔ اب اس سے کہا جائے گا کہ تو تو صالح ہے، آرام سے سو جا۔ ہم پہلے ہی جانتے تھے کہ تیرا ان پر ایمان ہے۔ ہشام نے شک کے اظہار کے ساتھ کہا کہ رہا منافق یا شک کرنے والا تو جب اس سے پوچھا جائے گا کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا ہے تو وہ جواب دے گا کہ مجھے نہیں معلوم میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا اسی کے مطابق میں نے بھی کہا۔ ہشام نے بیان کیا کہ فاطمہ بنت منذر نے جو کچھ کہا تھا۔ میں نے وہ سب یاد رکھا۔ لیکن انہوں نے قبر میں منافقوں پر سخت عذاب کے بارے میں جو کچھ کہا وہ مجھے یاد نہیں رہا۔
Narrated Fatima bint Al-Mundhir:Asma' bint Abi Bakr As-Siddiq said, "I went to 'Aishah and the people were offering Salat. I asked her, 'What is wrong with the people ?' She pointed towards the sky with her head. I asked her, 'Is there a sign ?' 'Aishah nodded with her head meaning 'Yes'." Asma' added, "Allah's Messenger (saws) prolonged the Salat to such an extent that I fainted. There was a waterskin by my side and I opened it and poured some water on my head. When Allah's Messenger (saws) finished Salat, and the solar eclipse had cleared, the Prophet (saws) addressed the people and praised Allah as He deserves and said, 'Amma ba'du'." Asma' further said, "Some Ansari women started talking, so I turned to them in order to make them quiet. I asked 'Aishah what the Prophet (saws) had said. 'Aishah said: 'He said, 'I have seen things at this place of mine which were never shown to me before; (I have seen) even Paradise and Hell. And, no doubt it has been revealed to me that you (people) will be put in trial in your graves like or nearly like the trial of Masih Ad-Dajjal. (The angels) will come to everyone of you and ask him, 'What do you know about this man (Prophet Muhammad (saws)) ?" The faithful believer or firm believer (Hisham was in doubt which word the Prophet (saws) used), will say, 'He is Allah's Messenger (saws) and he is Muhammad (saws) who came to us with clear evidences and guidance. So we believed him, accepted his teachings and followed and trusted his teaching.' Then the angels will tell him to sleep (in peace) as they have come to know that he was a believer. But the hypocrite or a doubtful person (Hisham is not sure as to which word the Prophet (saws) used), will be asked what he knew about this man (Prophet Muhammed (saws)). He will say, 'I do not know but I heard the people saying something (about him) so I said the same' " Hisham added, "Fatima told me that she remembered that narration completely by heart except that she said about the hypocrite or a doubtful person that he will be punished severely."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 13, Number 44
(مرفوع) حدثنا محمد بن معمر، قال: حدثنا ابو عاصم، عن جرير بن حازم، قال: سمعت الحسن يقول: حدثنا عمرو بن تغلب،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بمال او سبي فقسمه فاعطى رجالا وترك رجالا، فبلغه ان الذين ترك عتبوا فحمد الله، ثم اثنى عليه، ثم قال: اما بعد فوالله إني لاعطي الرجل وادع الرجل، والذي ادع احب إلي من الذي اعطي، ولكن اعطي اقواما لما ارى في قلوبهم من الجزع والهلع واكل اقواما إلى ما جعل الله في قلوبهم من الغنى والخير فيهم عمرو بن تغلب"، فوالله ما احب ان لي بكلمة رسول الله صلى الله عليه وسلم حمر النعم، تابعه يونس.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ يَقُولُ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِمَالٍ أَوْ سَبْيٍ فَقَسَمَهُ فَأَعْطَى رِجَالًا وَتَرَكَ رِجَالًا، فَبَلَغَهُ أَنَّ الَّذِينَ تَرَكَ عَتَبُوا فَحَمِدَ اللَّهَ، ثُمَّ أَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ وَأَدَعُ الرَّجُلَ، وَالَّذِي أَدَعُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الَّذِي أُعْطِي، وَلَكِنْ أُعْطِي أَقْوَامًا لِمَا أَرَى فِي قُلُوبِهِمْ مِنَ الْجَزَعِ وَالْهَلَعِ وَأَكِلُ أَقْوَامًا إِلَى مَا جَعَلَ اللَّهُ فِي قُلُوبِهِمْ مِنَ الْغِنَى وَالْخَيْرِ فِيهِمْ عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ"، فَوَاللَّهِ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِكَلِمَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُمْرَ النَّعَمِ، تَابَعَهُ يُونُسُ.
ہم سے محمد بن معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم نے جریر بن حازم سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے امام حسن بصری سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال آیا یا کوئی چیز آئی۔ آپ نے بعض صحابہ کو اس میں سے عطا کیا اور بعض کو کچھ نہیں دیا۔ پھر آپ کو معلوم ہوا کہ جن لوگوں کو آپ نے نہیں دیا تھا انہیں اس کا رنج ہوا، اس لیے آپ نے اللہ کی حمد و تعریف کی پھر فرمایا «امابعد» ! اللہ کی قسم! میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور بعض کو نہیں دیتا لیکن میں جس کو نہیں دیتا وہ میرے نزدیک ان سے زیادہ محبوب ہیں جن کو میں دیتا ہوں۔ میں تو ان لوگوں کو دیتا ہوں جن کے دلوں میں بے صبری اور لالچ پاتا ہوں لیکن جن کے دل اللہ تعالیٰ نے خیر اور بےنیاز بنائے ہیں، میں ان پر بھروسہ کرتا ہوں۔ عمرو بن تغلب بھی ان ہی لوگوں میں سے ہیں۔ اللہ کی قسم! میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک کلمہ سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب ہے۔
Narrated `Amr bin Taghlib: Some property or something was brought to Allah's Apostle and he distributed it. He gave to some men and ignored the others. Later he got the news of his being admonished by those whom he had ignored. So he glorified and praised Allah and said, "Amma ba'du. By Allah, I may give to a man and ignore another, although the one whom I ignore is more beloved to me than the one whom I give. But I give to some people as I feel that they have no patience and no contentment in their hearts and I leave those who are patient and self-content with the goodness and wealth which Allah has put into their hearts and `Amr bin Taghlib is one of them." `Amr added, By Allah! Those words of Allah's Apostle are more beloved to me than the best red camels.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 13, Number 45
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، قال: حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال: اخبرني عروة، ان عائشة اخبرته،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج ذات ليلة من جوف الليل، فصلى في المسجد فصلى رجال بصلاته، فاصبح الناس فتحدثوا فاجتمع اكثر منهم فصلوا معه، فاصبح الناس فتحدثوا فكثر اهل المسجد من الليلة الثالثة، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلوا بصلاته، فلما كانت الليلة الرابعة عجز المسجد عن اهله حتى خرج لصلاة الصبح، فلما قضى الفجر اقبل على الناس فتشهد، ثم قال: اما بعد، فإنه لم يخف علي مكانكم لكني خشيت ان تفرض عليكم فتعجزوا عنها"، تابعه يونس.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ ذَاتَ لَيْلَةٍ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ، فَصَلَّى فِي الْمَسْجِدِ فَصَلَّى رِجَالٌ بِصَلَاتِهِ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا فَاجْتَمَعَ أَكْثَرُ مِنْهُمْ فَصَلَّوْا مَعَهُ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا فَكَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ، فَلَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الرَّابِعَةُ عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهِ حَتَّى خَرَجَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ، فَلَمَّا قَضَى الْفَجْرَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَتَشَهَّدَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَيَّ مَكَانُكُمْ لَكِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ فَتَعْجِزُوا عَنْهَا"، تَابَعَهُ يُونُسُ.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے عقیل سے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت اٹھ کر مسجد میں نماز پڑھی اور چند صحابہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے۔ صبح کو ان صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے دوسرے لوگوں سے اس کا ذکر کیا چنانچہ (دوسرے دن) اس سے بھی زیادہ جمع ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ دوسری صبح کو اس کا چرچا اور زیادہ ہوا پھر کیا تھا تیسری رات بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز شروع کر دی۔ چوتھی رات جو آئی تو مسجد میں نمازیوں کی کثرت سے تل رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ لیکن آج رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز نہ پڑھائی اور فجر کی نماز کے بعد لوگوں سے فرمایا، پہلے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا پھر فرمایا۔ «امابعد» ! مجھے تمہاری اس حاضری سے کوئی ڈر نہیں لیکن میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے، پھر تم سے یہ ادا نہ ہو سکے۔ اس روایت کی متابعت یونس نے کی ہے۔
Narrated Aisha: Once in the middle of the night Allah's Apostle (p.b.u.h) went out and prayed in the mosque and some men prayed with him. The next morning the people spoke about it and so more people gathered and prayed with him (in the second night). They circulated the news in the morning, and so, on the third night the number of people increased greatly. Allah's Apostle (p.b.u.h) came out and they prayed behind him. On the fourth night the mosque was overwhelmed by the people till it could not accommodate them. Allah's Apostle came out only for the Fajr prayer and when he finished the prayer, he faced the people and recited "Tashah-hud" (I testify that none has the right to be worshipped but Allah and that Muhammad is His Apostle), and then said, "Amma ba'du. Verily your presence (in the mosque at night) was not hidden from me, but I was afraid that this prayer (Prayer of Tahajjud) might be made compulsory and you might not be able to carry it out."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 13, Number 46
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ نے ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء کے بعد کھڑے ہوئے۔ پہلے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا، پھر اللہ تعالیٰ کے لائق اس کی تعریف کی، پھر فرمایا «امابعد» ! زہری کے ساتھ اس روایت کی متابعت ابومعاویہ اور ابواسامہ نے ہشام سے کی، انہوں نے اپنے والد عروہ سے اس کی روایت کی، انہوں نے ابوحمید سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «امابعد» ! اور ابوالیمان کے ساتھ اس حدیث کو محمد بن یحییٰ نے بھی سفیان سے روایت کیا۔ اس میں صرف «امابعد» ہے۔
Narrated Abu Hummaid As-Sa`idi: One night Allah's Apostle (p.b.u.h) stood up after the prayer and recited "Tashah-hud" and then praised Allah as He deserved and said, "Amma ba'du."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 13, Number 47
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھ سے علی بن حسین نے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے۔ میں نے سنا کہ کلمہ شہادت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «امابعد» ! شعیب کے ساتھ اس روایت کی متابعت محمد بن ولید زبیدی نے زہری سے کی ہے۔
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن ابان، قال: حدثنا ابن الغسيل، قال: حدثنا عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: صعد النبي صلى الله عليه وسلم المنبر، وكان آخر مجلس جلسه متعطفا ملحفة على منكبيه قد عصب راسه بعصابة دسمة فحمد الله واثنى عليه، ثم قال:" ايها الناس إلي، فثابوا إليه، ثم قال: اما بعد، فإن هذا الحي من الانصار يقلون ويكثر الناس، فمن ولي شيئا من امة محمد صلى الله عليه وسلم فاستطاع ان يضر فيه احدا او ينفع فيه احدا فليقبل من محسنهم ويتجاوز عن مسيئهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْغَسِيلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: صَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ، وَكَانَ آخِرَ مَجْلِسٍ جَلَسَهُ مُتَعَطِّفًا مِلْحَفَةً عَلَى مَنْكِبَيْهِ قَدْ عَصَبَ رَأْسَهُ بِعِصَابَةٍ دَسِمَةٍ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ إِلَيَّ، فَثَابُوا إِلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ هَذَا الْحَيَّ مِنْ الْأَنْصَارِ يَقِلُّونَ وَيَكْثُرُ النَّاسُ، فَمَنْ وَلِيَ شَيْئًا مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَطَاعَ أَنْ يَضُرَّ فِيهِ أَحَدًا أَوْ يَنْفَعَ فِيهِ أَحَدًا فَلْيَقْبَلْ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيَتَجَاوَزْ عَنْ مُسِيئِهِمْ".
ہم سے اسماعیل بن ابان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن غسیل عبدالرحمٰن بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے۔ منبر پر یہ آپ کی آخری بیٹھک تھی۔ آپ دونوں شانوں سے چادر لپیٹے ہوئے تھے اور سر مبارک پر ایک پٹی باندھ رکھی تھی۔ آپ نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا لوگو! میری بات سنو۔ چنانچہ لوگ آپ کی طرف کلام مبارک سننے کے لیے متوجہ ہو گئے۔ پھر آپ نے فرمایا «امابعد» ! یہ قبیلہ انصار کے لوگ (آنے والے دور میں) تعداد میں بہت کم ہو جائیں گے پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا جو شخص بھی حاکم ہو اور اسے نفع و نقصان پہنچانے کی طاقت ہو تو انصار کے نیک لوگوں کی نیکی قبول کرے اور ان کے برے کی برائی سے درگزر کرے۔
Narrated Ibn `Abbas: Once the Prophet ascended the pulpit and it was the last gathering in which he took part. He was covering his shoulder with a big cloak and binding his head with an oily bandage. He glorified and praised Allah and said, "O people! Come to me." So the people came and gathered around him and he then said, "Amma ba'du." "From now onward the Ansar will decrease and other people will increase. So anybody who becomes a ruler of the followers of Muhammad and has the power to harm or benefit people then he should accept the good from the benevolent amongst them (Ansar) and overlook the faults of their wrong-doers."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 13, Number 49