(مرفوع) حدثنا محمد بن معمر، قال: حدثنا ابو عاصم، عن جرير بن حازم، قال: سمعت الحسن يقول: حدثنا عمرو بن تغلب،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بمال او سبي فقسمه فاعطى رجالا وترك رجالا، فبلغه ان الذين ترك عتبوا فحمد الله، ثم اثنى عليه، ثم قال: اما بعد فوالله إني لاعطي الرجل وادع الرجل، والذي ادع احب إلي من الذي اعطي، ولكن اعطي اقواما لما ارى في قلوبهم من الجزع والهلع واكل اقواما إلى ما جعل الله في قلوبهم من الغنى والخير فيهم عمرو بن تغلب"، فوالله ما احب ان لي بكلمة رسول الله صلى الله عليه وسلم حمر النعم، تابعه يونس.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ يَقُولُ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِمَالٍ أَوْ سَبْيٍ فَقَسَمَهُ فَأَعْطَى رِجَالًا وَتَرَكَ رِجَالًا، فَبَلَغَهُ أَنَّ الَّذِينَ تَرَكَ عَتَبُوا فَحَمِدَ اللَّهَ، ثُمَّ أَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ وَأَدَعُ الرَّجُلَ، وَالَّذِي أَدَعُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الَّذِي أُعْطِي، وَلَكِنْ أُعْطِي أَقْوَامًا لِمَا أَرَى فِي قُلُوبِهِمْ مِنَ الْجَزَعِ وَالْهَلَعِ وَأَكِلُ أَقْوَامًا إِلَى مَا جَعَلَ اللَّهُ فِي قُلُوبِهِمْ مِنَ الْغِنَى وَالْخَيْرِ فِيهِمْ عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ"، فَوَاللَّهِ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِكَلِمَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُمْرَ النَّعَمِ، تَابَعَهُ يُونُسُ.
ہم سے محمد بن معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم نے جریر بن حازم سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے امام حسن بصری سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال آیا یا کوئی چیز آئی۔ آپ نے بعض صحابہ کو اس میں سے عطا کیا اور بعض کو کچھ نہیں دیا۔ پھر آپ کو معلوم ہوا کہ جن لوگوں کو آپ نے نہیں دیا تھا انہیں اس کا رنج ہوا، اس لیے آپ نے اللہ کی حمد و تعریف کی پھر فرمایا «امابعد» ! اللہ کی قسم! میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور بعض کو نہیں دیتا لیکن میں جس کو نہیں دیتا وہ میرے نزدیک ان سے زیادہ محبوب ہیں جن کو میں دیتا ہوں۔ میں تو ان لوگوں کو دیتا ہوں جن کے دلوں میں بے صبری اور لالچ پاتا ہوں لیکن جن کے دل اللہ تعالیٰ نے خیر اور بےنیاز بنائے ہیں، میں ان پر بھروسہ کرتا ہوں۔ عمرو بن تغلب بھی ان ہی لوگوں میں سے ہیں۔ اللہ کی قسم! میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک کلمہ سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب ہے۔
Narrated `Amr bin Taghlib: Some property or something was brought to Allah's Apostle and he distributed it. He gave to some men and ignored the others. Later he got the news of his being admonished by those whom he had ignored. So he glorified and praised Allah and said, "Amma ba'du. By Allah, I may give to a man and ignore another, although the one whom I ignore is more beloved to me than the one whom I give. But I give to some people as I feel that they have no patience and no contentment in their hearts and I leave those who are patient and self-content with the goodness and wealth which Allah has put into their hearts and `Amr bin Taghlib is one of them." `Amr added, By Allah! Those words of Allah's Apostle are more beloved to me than the best red camels.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 13, Number 45
أعطي الرجل وأدع الرجل والذي أدع أحب إلي من الذي أعطي أعطي أقواما لما في قلوبهم من الجزع والهلع وأكل أقواما إلى ما جعل الله في قلوبهم من الغنى والخير منهم عمرو بن تغلب فقال عمرو ما أحب أن لي بكلمة رسول الله حمر النعم
أعطي الرجل وأدع الرجل والذي أدع أحب إلي من الذي أعطي ولكن أعطي أقواما لما أرى في قلوبهم من الجزع والهلع وأكل أقواما إلى ما جعل الله في قلوبهم من الغنى والخير فيهم عمرو بن تغلب
أعطي قوما أخاف ظلعهم وجزعهم وأكل أقواما إلى ما جعل الله في قلوبهم من الخير والغنى منهم عمرو بن تغلب فقال عمرو بن تغلب ما أحب أن لي بكلمة رسول الله حمر النعم
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 923
حدیث حاشیہ: سبحان اللہ صحابہ کے نزدیک آنحضرت ﷺ کا ایک حکم فرمانا، جس سے آپ کی رضامندی ہو، ساری دنیا کا مال ودولت ملنے سے زیادہ پسند تھا، اس حدیث سے آنحضرت ﷺ کا کمال خلق ثابت ہوا کہ آپ کسی کی ناراضگی پسند نہیں فرماتے تھے نہ کسی کی دل شکنی۔ آپ ﷺ نے ایسا خطبہ سنایا کہ جن لوگوں کو نہیں دیا تھا وہ ان سے بھی زیادہ خوش ہوئے جن کو دیا تھا (وحیدی) آپ ﷺ نے یہاں بھی لفظ أما بعد! استعمال فرمایا۔ یہی مقصود باب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 923
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:923
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے خلق عظیم کا پتہ چلتا ہے کہ آپ کو نہ تو کسی کی ناراضی گوارا تھی اور نہ آپ کسی کی دل شکنی ہی کرتے تھے، نیز صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی آپ سے دلی محبت اور قلبی تعلق تھا۔ اس حدیث کی مکمل وضاحت کتاب فرض الخمس میں آئے گی۔ بإذن اللہ
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 923
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3145
3145. حضرت عمرو بن تغلب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو مال دیا اور کچھ لوگوں کونہ دیا جن کو نہ دیا وہ ناراض ہوئے تو آپ نے فرمایا: ”میں جن لوگوں کو دیتا ہوں مجھے ان کی کج روی اور بے صبری کا اندیشہ ہوتا ہے اور دوسروں کو میں اس خیر اور استغنا کے سپرد کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں پیدا فرمائی ہے۔ ان میں سے عمرو بن تغلب ؓ بھی ہیں۔“ حضرت عمرو بن تغلب کابیان ہے کہ میری نسبت رسول اللہ ﷺ نے جو ارشاد فرمایا اگر مجھے اس کے بدلے سرخ اونٹ بھی مل جاتے تو اتنا خوش نہ ہوتا۔ ابو عاصم کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ عمرو بن تغلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس مال یا قیدی آئے تھے جنھیں آپ نےتقسیم فرمایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3145]
حدیث حاشیہ: حدیث اور باب میں مطابقت یہ کہ آنحضرت ﷺ نے اموال غنیمت کو اپنی صواب دید کے مطابق تقسیم فرمایا، جس میں اہم ترین اسلامی مصالح شامل تھے، اعتراض کرنے والوں کو بھی آپ نے احسن طریق سے مطمئن فرمادیا۔ ثابت ہوا کہ ایسے مواقع پر خلیفہ اسلام کو کچھ خصوصی اختیارات دئیے گئے ہیں، مگر ان کا فرض ہے کہ کوئی ذاتی غرض فاسد بیچ میں شامل نہ ہو، محض رضائے خدا و رسول و سربلندی اسلام مدنظر ہو، روایت میں مذکور حضرت عمرو بن تغلبص عبدی ہیں۔ قبیلہ عبدالقیس سے ان کا تعلق ہے، مشہور انصاری صحابی ہیں۔ رضي اللہ عنه
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3145
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3145
3145. حضرت عمرو بن تغلب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو مال دیا اور کچھ لوگوں کونہ دیا جن کو نہ دیا وہ ناراض ہوئے تو آپ نے فرمایا: ”میں جن لوگوں کو دیتا ہوں مجھے ان کی کج روی اور بے صبری کا اندیشہ ہوتا ہے اور دوسروں کو میں اس خیر اور استغنا کے سپرد کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں پیدا فرمائی ہے۔ ان میں سے عمرو بن تغلب ؓ بھی ہیں۔“ حضرت عمرو بن تغلب کابیان ہے کہ میری نسبت رسول اللہ ﷺ نے جو ارشاد فرمایا اگر مجھے اس کے بدلے سرخ اونٹ بھی مل جاتے تو اتنا خوش نہ ہوتا۔ ابو عاصم کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ عمرو بن تغلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس مال یا قیدی آئے تھے جنھیں آپ نےتقسیم فرمایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3145]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عمرو بن تغلبؓ عہدی قبیلہ عبدالقیس سے ان کا تعلق ہے چونکہ یہ کامل الایمان تھے اس لیے رسول اللہ ﷺکے حوصلہ افزا بیان سے خوش ہو گئے۔ 2۔ اس روایت کے مطابق رسول اللﷺ نے مال غنیمت کو اپنی صوابدید خرچ کیا جس میں اہم ترین مصالح تھیں۔ اعتراض کرنے والوں کو بھی آپ نے اچھے انداز سے مطمئن کردیا بلاشبہ ایسے مواقع پر خلیفہ اسلام کو کچھ خصوصی اختیارات حاصل ہوتے ہیں اس کے باوجود ان کا فرض ہے کہ ایسے مواقع پر محض اللہ کی رضا اور اسلام کی سر بلندی مقصود ہو۔ ذاتی اغراض کو اس میں کوئی دخل نہ ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3145
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7535
7535. سیدنا عمرو بن تغلب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے اس میں سے کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ کو نہ دیا۔ اس کے بعد آپ کو معلوم ہوا کہ اس تقسیم پر کچھ لوگ ناراض ہوئے ہیں تو آپ نےفرمایا: ”میں ایک شخص کو دیتا ہوں اور دوسرے کو چھوڑ دیتا ہوں اور جسے میں نہیں دیتا وہ مجھے اس سے زیادہ پیارا ہوتا ہے جسے دیتا ہوں۔ جن لوگوں کو دیتا ہوں وہ اس لیے کہ ان کے دلوں میں گھبراہٹ اور بے چینی ہوتی ہے، جبکہ دوسرے لوگوں پر اعتماد کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو بے نیازی اور بھلائی عطا فرمائی ہے۔ ان میں عمرو بن تغلب بھی ہیں۔“(یہ سن کر) سیدنا عمرو بن تغلب ؓ نے کہا: رسول اللہﷺ کے کلمہ تحسین کے مقابلے میں مجھے سرخ اونٹ بھی ملتے تو میں انہیں ہرگز پسند نہ کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7535]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس عنوان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ انسان کا خالق ہے، اس کی صفات واخلاق اور کردار کا بھی پیدا کرنے والا ہے۔ جب وہ صفات واخلاق کا خالق ہے تو اس کے افعال واعمال کا بھی وہی خالق ہوگا۔ قراءت جو قاری کا عمل ہے وہ اللہ تعالیٰ کا تخلیق کیا ہوا ہے جبکہ معتزلہ کہتے ہیں کہ انسان اپنے اعمال کا خود خالق ہے۔ اس اعتبار سے یہ حضرات اللہ (وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ) کے ساتھ شریک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ 2۔ پیش کی گئی آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مال کی کثرت سے انسان کی طبیعت میں فیاضی پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس کے بخل میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اس کی بے ثباتی، بے قراری اور گھبراہٹ کو ختم کرنے کا فطری طریقہ بھی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے، چنانچہ اگلی آٹھ آیات میں ایسے اعمال کا ذکر ہے جن سے اس کی اصلاح ہوجاتی ہے اور اہل ایمان کی طبیعت میں اطمینان وسکون اور ٹھراؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7535