كِتَاب الْجُمُعَةِ کتاب: جمعہ کے بیان میں 15. بَابُ مِنْ أَيْنَ تُؤْتَى الْجُمُعَةُ وَعَلَى مَنْ تَجِبُ: باب: جمعہ کے لیے کتنی دور والوں کو آنا چاہیے اور کن لوگوں پر جمعہ واجب ہے؟
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الجمعہ میں) ارشاد ہے «إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة» ”جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان ہو (تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو)“ عطاء نے کہا کہ جب تم ایسی بستی میں ہو جہاں جمعہ ہو رہا ہے اور جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو تمہارے لیے جمعہ کی نماز پڑھنے آنا واجب ہے۔ اذان سنی ہو یا نہ سنی ہو۔ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ (بصرہ سے) چھ میل دور مقام زاویہ میں رہتے تھے، آپ یہاں کبھی اپنے گھر میں جمعہ پڑھ لیتے اور کبھی یہاں جمعہ نہیں پڑھتے۔ (بلکہ بصرہ کی جامع مسجد میں جمعہ کے لیے تشریف لایا کرتے تھے)۔
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے عبیداللہ بن ابی جعفر نے کہ محمد بن جعفر بن زبیر نے ان سے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ نے، آپ نے کہا کہ لوگ جمعہ کی نماز پڑھنے اپنے گھروں سے اور اطراف مدینہ گاؤں سے (مسجد نبوی میں) باری باری آیا کرتے تھے۔ لوگ گردوغبار میں چلے آتے، گرد میں اٹے ہوئے اور پسینہ میں شرابور۔ اس قدر پسینہ ہوتا کہ تھمتا (رکتا) نہیں تھا۔ اسی حالت میں ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ اس دن (جمعہ میں) غسل کر لیا کرتے تو بہتر ہوتا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
|