سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
أبواب قيام الليل
ابواب: قیام الیل کے احکام و مسائل
Prayer (Abwab Qiyam ul Lail)
22. باب أَىُّ اللَّيْلِ أَفْضَلُ
باب: رات کا کون سا حصہ عبادت کے لیے زیادہ بہتر ہے؟
Chapter: What Part Of The Night Is Best (For Prayer)?
حدیث نمبر: 1315
Save to word مکررات اعراب English
(قدسي) حدثنا القعنبي، عن مالك، عن ابن شهاب، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، وعن ابي عبد الله الاغر، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" ينزل ربنا تبارك وتعالى كل ليلة إلى سماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخر، فيقول: من يدعوني فاستجيب له، من يسالني فاعطيه، من يستغفرني فاغفر له".
(قدسي) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَعَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْأَغَرِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ، فَيَقُولُ: مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ، مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ، مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا رب ہر رات جس وقت رات کا آخری ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے، آسمان دنیا پر اترتا ہے ۱؎، پھر فرماتا ہے: کون مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اسے دوں؟ کون مجھ سے مغفرت طلب کرتا ہے کہ میں اس کی مغفرت کر دوں؟۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/التھجد 14 (1145)، والدعوات 14 (6321)، والتوحید 35 (7494)، صحیح مسلم/المسافرین 24 (758)، سنن الترمذی/الصلاة 212 (446)، والدعوات 79 (3498)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 182 (1366)، (تحفة الأشراف: 13463، (صحیح)15241)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ القرآن 8 (30)، مسند احمد (2/264، 267، 283، 419، 487)، سنن الدارمی/الصلاة 168 (1519)، ویأتي برقم (4733)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے اللہ رب العزت کے لئے نزول کی صفت ثابت ہوتی ہے، اللہ تعالی کے اسماء و صفات کے بارے میں صحیح عقیدہ یہ ہے کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول سے اس سلسلے میں ثابت ہے اس پر ہم صدق دل سے ایمان لے آئیں اور ان صفات کا نہ تو انکار کریں، اور نہ ان کے حقیقی معانی کو معطل کریں، اور نہ ہی کسی صفت کو کسی مخلوق کی صفت کے مشابہ قرار دیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «ليس كمثله شيئ وهو السميع البصير» ۔ بعض لوگوں نے اس حدیث کی یہ تاویل کی ہے کہ اللہ کی رحمت اترتی ہے یا اس کا حکم اترتا ہے، لیکن یہ سراسر غلط ہے، یہ تاویل کسی طور سے بھی حدیث کے الفاظ کے ساتھ میل نہیں کھاتی، کیوں کہ اگر رحمت اترتی یا حکم اترتا تو وہ یہ کیسے کہتا کہ جو مجھ سے دعا کرے گا میں اسے قبول کروں گا، جو مانگے گا میں دوں گا، جو استغفار کرے گا میں اس کی مغفرت کروں گا ، یہ تو خاص شان کبریائی ہے، دوسرے یہ کہ اللہ کی رحمت ہر جگہ موجود ہے «ورحمتي وسعت كل شيئ» تو خاص تہائی رات میں نزول (اترنے) کے کیا معنیٰ؟! تیسرے یہ کہ رحمت اتر کر آسمان دنیا ہی پر رہ گئی تو ہمیں اس سے کیا فائدہ ہوا! اگر ہم تک آتی تو ہمیں فائدہ پہنچتا، اس لئے بہتر طریقہ وہی ہے جو محققین اہل سنت و اہل حدیث کا ہے کہ اس قسم کی حدیثیں یا آیتیں جن میں اللہ جل جلالہ کی صفات مذکور ہیں جیسے: اترنا، چڑھنا، ہنسنا، تعجب کرنا، دیکھنا، سننا، عرش کے اوپر ہونا، وغیرہ وغیرہ، ان سب صفات و افعال باری تعالی کو ان کے ظاہر پر محمول کیا جائے، لیکن یہ مخلوقات کی صفات کے مشابہ نہیں ہیں، جیسے اللہ تعالی کی ذات مخلوقات کی ذات کے مشابہ نہیں ہے۔

Narrated Abu Hurairah: The Messenger of Allah ﷺ as saying: Our Lord who is blessed and exalted descends every night to the lowest heaven when the last one-third of the night remains, and says: Who supplicated Me so that I may answer him ? Who asks of Me so that I may give to him ? Who asks My forgiveness so that I may forgive him ?
USC-MSA web (English) Reference: Book 5 , Number 1310


قال الشيخ الألباني: صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.