كِتَاب الْقَسَامَةِ وَالْمُحَارِبِينَ وَالْقِصَاصِ وَالدِّيَاتِ قتل کی ذمہ داری کے تعین کے لیے اجتماعی قسموں، لوٹ مار کرنے والوں (کی سزا)، قصاص اور دیت کے مسائل The Book of Muharibin, Qasas (Retaliation), and Diyat (Blood Money) 9. باب تَغْلِيظِ تَحْرِيمِ الدِّمَاءِ وَالأَعْرَاضِ وَالأَمْوَالِ: باب: خون اور عزت اور مال کا حق کیسا سخت ہے۔ Chapter: Emphasis on the sanctity of Blood, Honor and Wealth حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، ويحيى بن حبيب الحارثي وتقاربا في اللفظ، قالا: حدثنا عبد الوهاب الثقفي ، عن ايوب ، عن ابن سيرين ، عن ابن ابي بكرة ، عن ابي بكرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " إن الزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السماوات والارض السنة اثنا عشر شهرا، منها اربعة حرم، ثلاثة متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب شهر مضر الذي بين جمادى وشعبان، ثم قال: اي شهر هذا؟، قلنا: الله ورسوله اعلم، قال: فسكت حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه، قال: اليس ذا الحجة؟، قلنا: بلى، قال: فاي بلد هذا؟، قلنا: الله ورسوله اعلم، قال: فسكت، حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه، قال: اليس البلدة؟، قلنا: بلى، قال: فاي يوم هذا؟، قلنا: الله ورسوله اعلم، قال: فسكت، حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه، قال: اليس يوم النحر؟، قلنا: بلى يا رسول الله، قال: فإن دماءكم واموالكم، قال محمد: واحسبه قال واعراضكم حرام عليكم كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا، وستلقون ربكم، فيسالكم عن اعمالكم، فلا ترجعن بعدي كفارا او ضلالا يضرب بعضكم رقاب بعض، الا ليبلغ الشاهد الغائب، فلعل بعض من يبلغه يكون اوعى له من بعض من سمعه، ثم قال: الا هل بلغت؟ "، قال ابن حبيب في روايته: ورجب مضر، وفي رواية ابي بكر فلا ترجعوا بعدي ,حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَيَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنْ ابْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبٌ شَهْرُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ، ثُمَّ قَالَ: أَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَ ذَا الْحِجَّةِ؟، قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: فَأَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَسَكَتَ، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَ الْبَلْدَةَ؟، قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: فَأَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَسَكَتَ، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ؟، قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ وَأَعْرَاضَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، وَسَتَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ، فَيَسْأَلُكُمْ عَنْ أَعْمَالِكُمْ، فَلَا تَرْجِعُنَّ بَعْدِي كُفَّارًا أَوْ ضُلَّالًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ، أَلَا لِيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَلَعَلَّ بَعْضَ مَنْ يُبَلِّغُهُ يَكُونُ أَوْعَى لَهُ مِنْ بَعْضِ مَنْ سَمِعَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟ "، قَالَ ابْنُ حَبِيبٍ فِي رِوَايَتِهِ: وَرَجَبُ مُضَرَ، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ فَلَا تَرْجِعُوا بَعْدِي , ابوبکر بن ابی شیبہ اور یحییٰ بن حبیب حارثی۔۔ دونوں کے الفاظ قریب قریب ہیں۔۔ دونوں نے کہا: ہمیں عبدالوہاب ثقفی نے ایوب سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابن سیرین سے، انہوں نے ابن ابی بکرہ سے، انہوں نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ زمانہ گھوم کر اپنی اسی حالت پر آ گیا ہے (جو اس دن تھی) جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال کے بارہ مہینے ہیں، ان میں سے چار حرمت والے ہیں، تین لگاتار ہیں: ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور (ان کے علاوہ) رجب جو مضر کا مہینہ ہے، (جس کی حرمت کا قبیلہ مضر قائل ہے) جو جمادیٰ اور شعبان کے درمیان ہے۔" اس کے بعد آپ نے پوچھا: " (آج) یہ کون سا مہینہ ہے؟" ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ کہا: آپ خاموش ہو گئے حتی کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اسے اس کے (معروف) نام کے بجائے کوئی اور نام دیں گے۔ (پھر) آپ نے فرمایا: "کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟" ہم نے جواب دیا: کیوں نہیں! (پھر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "یہ کون سا شہر ہے؟" ہم نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول سب سے بڑھ کر جاننے والے ہیں۔ کہا: آپ خاموش رہے حتی کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کے (معروف) نام سے ہٹ کر اسے کوئی اور نام دیں گے، (پھر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کیا یہ البلدہ (حرمت والا شہر) نہیں؟" ہم نے جواب دیا: کیوں نہیں! (پھر) آپ نے پوچھا: "یہ کون سا دن ہے؟" ہم نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول سب سے بڑھ کر جاننے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: "کیا یہ یوم النحر (قربانی کا دن) نہیں ہے؟" ہم نے جواب دیا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! (پھر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ تمہارے خون، تمہارے مال۔۔ محمد (بن سیرین) نے کہا: میرا خیال ہے، انہوں نے کہا:۔۔ اور تمہاری عزت تمہارے لیے اسی طرح حرمت والے ہیں جس طرح اس مہینے میں، اس شہر میں تمہارا یہ دن حرمت والا ہے، اور عنقریب تم اپنے رب سے ملو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا، تم میرے بعد ہرگز دوبارہ گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو، سنو! جو شخص یہاں موجود ہے وہ اس شخص تک یہ پیغام پہنچا دے جو یہاں موجود نہیں، ممکن ہے جس کو یہ پیغام پہنچایا جائے وہ اسے اس آدمی سے زیادہ یاد رکھنے والا ہو جس نے اسے (خود مجھ سے) سنا ہے۔" پھر فرمایا: "سنو! کیا میں نے (اللہ کا پیغام) ٹھیک طور پر پہنچا دیا ہے؟" ابن حبیب نے اپنی روایت میں "مضر کا رجب" کہا: اور ابوبکر کی روایت میں ("تم میرے بعد ہرگز دوبارہ" کے بجائے) "میرے بعد دوبارہ" (تاکید کے بغیر) ہے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمانہ گھوم کر اپنی اس حالت کی طرف آ گیا ہے، جس پر اس وقت تھا، جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تھا، سال کے بارہ (12) ماہ ہیں، جن میں سے چار محترم (عزت و احترام والے) ہیں، تین متواتر ہیں، ذوالقعدہ، ذوالحجۃ، محرم اور رجب مضریوں کا مہینہ جو جمادی ثانی اور شعبان کے درمیان میں آتا ہے۔“ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون سا ماہ ہے؟“ ہم نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے حتی کہ ہم نے خیال کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ کا کوئی اور نام رکھیں گے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ذوالحجہ نہیں ہے؟“ ہم نے کہا، کیوں نہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تو یہ کون سا شہر ہے؟“ ہم نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت اختیار کیا حتی کہ ہم نے خیال کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا یہ البلدہ (مکہ مکرمہ) نہیں ہے؟“ ہم نے کہا، کیوں نہیں! وہی ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”تو یہ کون سا دن ہے؟“ ہم نے کہا، اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے حتی کہ ہم نے گمان کیا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کا نام کوئی اور رکھیں گے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا یہ قربانی کا دن نہیں ہے؟“ ہم نے کہا، جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ، تمہارے خون، تمہارے اموال، (محمد بن سیرین کہتے ہیں)، میرا خیال ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”تمہاری عزتیں، تمہارے لیے محترم ہیں، جس طرح تمہارا یہ دن، تمہارے اس شہر میں، تمہارے اس ماہ میں محترم ہے اور تم یقینا اپنے رب سے ملو گے، وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا تو میرے بعد تم کافر یا گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگے، خبردار! موجود، غیر موجود تک پیغام پہنچا دے، ہو سکتا ہے، جن کو بات پہنچائی جائے، ان میں سے بعض سننے والوں میں سے اس کو زیادہ یاد رکھے“ پھر آپ نے فرمایا: ”خبردار! کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟“ ابن حبیب نے اپنی روایت میں رجب مضر کہا ہے اور ابوبکر کی روایت میں ہے، فلا ترجعوا،
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا نصر بن علي الجهضمي ، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا عبد الله بن عون ، عن محمد بن سيرين ، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة ، عن ابيه ، قال: لما كان ذلك اليوم قعد على بعيره واخذ إنسان بخطامه، فقال " اتدرون اي يوم هذا؟، قالوا: الله ورسوله اعلم، حتى ظننا انه سيسميه سوى اسمه، فقال: اليس بيوم النحر؟، قلنا: بلى يا رسول الله، قال: فاي شهر هذا؟، قلنا: الله ورسوله اعلم، قال: اليس بذي الحجة؟، قلنا: بلى يا رسول الله، قال: فاي بلد هذا؟، قلنا: الله ورسوله اعلم، قال: حتى ظننا انه سيسميه سوى اسمه، قال: اليس بالبلدة؟، قلنا: بلى يا رسول الله، قال: فإن دماءكم، واموالكم، واعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، فليبلغ الشاهد الغائب "، قال: ثم انكفا إلى كبشين املحين فذبحهما، وإلى جزيعة من الغنم، فقسمها بيننا،حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ ذَلِكَ الْيَوْمُ قَعَدَ عَلَى بَعِيرِهِ وَأَخَذَ إِنْسَانٌ بِخِطَامِهِ، فَقَالَ " أَتَدْرُونَ أَيَّ يَوْمٍ هَذَا؟، قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ سِوَى اسْمِهِ، فَقَالَ: أَلَيْسَ بِيَوْمِ النَّحْرِ؟، قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَأَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: أَلَيْسَ بِذِي الْحِجَّةِ؟، قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَأَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ سِوَى اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَ بِالْبَلْدَةِ؟، قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ "، قَالَ: ثُمَّ انْكَفَأَ إِلَى كَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ فَذَبَحَهُمَا، وَإِلَى جُزَيْعَةٍ مِنَ الْغَنَمِ، فَقَسَمَهَا بَيْنَنَا، یزید بن زریع نے کہا: ہمیں عبداللہ بن عون نے محمد بن سیرین سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبدالرحمان بن ابی بکرہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے کہا: جب وہ دن تھا، (جس کا آگے ذکر ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھے اور ایک انسان نے اس کی لگام پکڑ لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا دن ہے؟" لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ حتی کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کے نام کے سوا اسے کوئی اور نام دیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا یہ قربانی کا دن نہیں؟" ہم نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! فرمایا: یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاننے والے ہیں، فرمایا: "کیا یہ ذوالحجہ نہیں؟" ہم نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "یہ کون سا شہر ہے؟" ہم نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ کہا: ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کے (معروف) نام کے سوا اسے کوئی اور نام دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا یہ البلدہ (حرمت والا شہر) نہیں؟" ہم نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ تمہارے خوب، تمہارے مال اور تمہاری ناموس (عزتیں) تمہارے لیے اسی طرح حرمت والے ہیں جس طرح اس شہر میں، اس مہینے میں تمہارا یہ دن حرمت والا ہے، یہاں موجود شخص غیر موجود کو یہ پیغام پہنچا دے۔" کہا: پھر آپ دو چتکبرے (سفید و سیاہ) مینڈھوں کی طرف مڑے، انہیں ذبح کیا اور بکریوں کے گلے کی طرف (آئے) اور انہیں ہمارے درمیان تقسیم فرمایا۔ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب وہ دن (قربانی کا دن) آیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھ گئے اور ایک انسان نے اس کی نکیل پکڑ لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم جانتے ہو یہ کون سا دن ہے؟“ لوگوں نے جواب دیا، اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں حتی کہ ہم نے یہ خیال کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم اس دن کا نام، اس کے نام کے علاوہ رکھیں گے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا قربانی کا دن نہیں ہے؟“ ہم نے کہا، ضرور، اے اللہ کے رسول! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”تو یہ مہینہ کون سا ہے؟“ ہم نے کہا، اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ذوالحجہ نہیں ہے؟“ ہم نے عرض کیا، کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”تو یہ کون سا شہر ہے؟“ حتی کہ ہم نے خیال کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا البلدہ (مکہ) نہیں ہے؟“ ہم نے کہا، جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تمہارے خون، مال اور عزتیں تم پر حرام ہیں، جس طرح یہ دن، تمہارے اس ماہ میں، تمہارے اس شہر میں حرام ہے تو موجود، غیر موجود تک پہنچا دے۔“ راوی کہتے ہیں، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم دو سرمئی مینڈھوں کی طرف پلٹے اور انہیں ذبح کیا اور بکریوں کے ایک گلے (گروہ) کی طرف پلٹے اور انہیں ہمارے درمیان تقسیم فرمایا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حماد بن مسعدہ نے ہمیں ابن عون سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: محمد (بن سیرین) نے کہا: عبدالرحمان بن ابی بکرہ نے اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے کہا: جب وہ دن تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھے۔ کہا: اور ایک آدمی نے اس کی باگ۔۔ یا کہا: لگام۔۔ تھام لی۔۔۔ آگے یزید بن زریع کی حدیث کی طرح بیان کیا۔ امام صاحب ایک دوسرے استاد سے، ابن عون ہی کی سند سے بیان کرتے ہیں کہ جب وہ دن آیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ پر بیٹھے، اور ایک آدمی نے مہار یا نکیل پکڑی ہوئی تھی، آگے مذکورہ بالا روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
یحییٰ بن سعید نے کہا: ہمیں قرہ بن خالد نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں محمد بن سیرین نے عبدالرحمان بن ابی بکرہ سے اور ایک اور آدمی سے، جو میرے خیال میں عبدالرحمان بن ابی بکرہ سے افضل ہے، حدیث بیان کی، نیز ابو عامر عبدالملک بن عمرو نے کہا: ہمیں قرہ نے یحییٰ بن سعید کی (مذکورہ) سند کے ساتھ حدیث بیان کی۔۔ اور انہوں (ابو عامر) نے اس آدمی کا نام حمید بن عبدالرحمان بتایا (یہ بصرہ کے فقیہ ترین راوی ہیں)۔۔ انہوں نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قربانی کے دن خطبہ دیا اور پوچھا: "یہ کون سا دن ہے؟"۔۔ اور انہوں (قرہ) نے ابن عون کی حدیث کے مانند حدیث بیان کی، البتہ انہوں نے "عزت و ناموس" کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ ہی: "پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھوں کی طرف مڑے" اور اس کے بعد والا حصہ بیان کیا۔ انہوں نے (اپنی) حدیث میں کہا: "جیسے تمہارے اس شہر میں، تمہارے اس مہینے میں تمہارا یہ دن اس وقت تک قابل احترام ہے جب تم اپنے رب سے ملو گے۔ سنو! کیا میں نے (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا؟" لوگوں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ! گواہ رہنا" امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ کی سند سے قرۃ بن خالد کے واسطے سے محمد بن سیرین سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرۃ اور بقول ابن سیرین عبدالرحمٰن بن ابی بکرۃ سے ایک دوسرا بہتر آدمی حمید بن عبدالرحمٰن، دونوں حضرت ابوبکرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قربانی کے دن خطبہ ارشاد فرمایا اور پوچھا،: ”یہ کون سا دن ہے؟“ آگے ابن عون کی روایت کی طرح حدیث بیان کی، لیکن اعراضكم
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|