حدثنا نصر بن علي الجهضمي ، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا عبد الله بن عون ، عن محمد بن سيرين ، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة ، عن ابيه ، قال: لما كان ذلك اليوم قعد على بعيره واخذ إنسان بخطامه، فقال " اتدرون اي يوم هذا؟، قالوا: الله ورسوله اعلم، حتى ظننا انه سيسميه سوى اسمه، فقال: اليس بيوم النحر؟، قلنا: بلى يا رسول الله، قال: فاي شهر هذا؟، قلنا: الله ورسوله اعلم، قال: اليس بذي الحجة؟، قلنا: بلى يا رسول الله، قال: فاي بلد هذا؟، قلنا: الله ورسوله اعلم، قال: حتى ظننا انه سيسميه سوى اسمه، قال: اليس بالبلدة؟، قلنا: بلى يا رسول الله، قال: فإن دماءكم، واموالكم، واعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، فليبلغ الشاهد الغائب "، قال: ثم انكفا إلى كبشين املحين فذبحهما، وإلى جزيعة من الغنم، فقسمها بيننا،حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ ذَلِكَ الْيَوْمُ قَعَدَ عَلَى بَعِيرِهِ وَأَخَذَ إِنْسَانٌ بِخِطَامِهِ، فَقَالَ " أَتَدْرُونَ أَيَّ يَوْمٍ هَذَا؟، قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ سِوَى اسْمِهِ، فَقَالَ: أَلَيْسَ بِيَوْمِ النَّحْرِ؟، قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَأَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: أَلَيْسَ بِذِي الْحِجَّةِ؟، قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَأَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ سِوَى اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَ بِالْبَلْدَةِ؟، قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ "، قَالَ: ثُمَّ انْكَفَأَ إِلَى كَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ فَذَبَحَهُمَا، وَإِلَى جُزَيْعَةٍ مِنَ الْغَنَمِ، فَقَسَمَهَا بَيْنَنَا،
یزید بن زریع نے کہا: ہمیں عبداللہ بن عون نے محمد بن سیرین سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبدالرحمان بن ابی بکرہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے کہا: جب وہ دن تھا، (جس کا آگے ذکر ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھے اور ایک انسان نے اس کی لگام پکڑ لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا دن ہے؟" لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ حتی کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کے نام کے سوا اسے کوئی اور نام دیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا یہ قربانی کا دن نہیں؟" ہم نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! فرمایا: یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاننے والے ہیں، فرمایا: "کیا یہ ذوالحجہ نہیں؟" ہم نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "یہ کون سا شہر ہے؟" ہم نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ کہا: ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کے (معروف) نام کے سوا اسے کوئی اور نام دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا یہ البلدہ (حرمت والا شہر) نہیں؟" ہم نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ تمہارے خوب، تمہارے مال اور تمہاری ناموس (عزتیں) تمہارے لیے اسی طرح حرمت والے ہیں جس طرح اس شہر میں، اس مہینے میں تمہارا یہ دن حرمت والا ہے، یہاں موجود شخص غیر موجود کو یہ پیغام پہنچا دے۔" کہا: پھر آپ دو چتکبرے (سفید و سیاہ) مینڈھوں کی طرف مڑے، انہیں ذبح کیا اور بکریوں کے گلے کی طرف (آئے) اور انہیں ہمارے درمیان تقسیم فرمایا۔
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب وہ دن (قربانی کا دن) آیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھ گئے اور ایک انسان نے اس کی نکیل پکڑ لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم جانتے ہو یہ کون سا دن ہے؟“ لوگوں نے جواب دیا، اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں حتی کہ ہم نے یہ خیال کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم اس دن کا نام، اس کے نام کے علاوہ رکھیں گے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا قربانی کا دن نہیں ہے؟“ ہم نے کہا، ضرور، اے اللہ کے رسول! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”تو یہ مہینہ کون سا ہے؟“ ہم نے کہا، اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ذوالحجہ نہیں ہے؟“ ہم نے عرض کیا، کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”تو یہ کون سا شہر ہے؟“ حتی کہ ہم نے خیال کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا البلدہ (مکہ) نہیں ہے؟“ ہم نے کہا، جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تمہارے خون، مال اور عزتیں تم پر حرام ہیں، جس طرح یہ دن، تمہارے اس ماہ میں، تمہارے اس شہر میں حرام ہے تو موجود، غیر موجود تک پہنچا دے۔“ راوی کہتے ہیں، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم دو سرمئی مینڈھوں کی طرف پلٹے اور انہیں ذبح کیا اور بکریوں کے ایک گلے (گروہ) کی طرف پلٹے اور انہیں ہمارے درمیان تقسیم فرمایا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4384
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ثم انكفاء: سے آخر تک کا جملہ راوی کا وہم ہے، اس کا تعلق خطبہ عید الاضحیٰ سے ہے، جس کو راوی نے خطبہ حج سے ملا دیا ہے، اس لیے امام بخاری نے یہ ٹکڑا حذف کر دیا ہے، ابن عون کی حدیث میں یہ جملہ موجود ہے، لیکن آگے قرۃ کی روایت میں موجود نہیں ہے اور اس حدیث میں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اشهر حرم کی حرمت اب بھی برقرار ہے، اس لیے اس میں جنگ کا آغاز کرنا یا باہمی قتل و قتال کرنا جائز نہیں ہے، ہاں، اگر دشمن حملہ آور ہو تو مدافعت میں جنگ کرنا درست ہے۔