كِتَاب الْعِتْقِ غلامی سے آزادی کا بیان The Book of Emancipating Slaves 2. باب إِنَّمَا الْوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ: باب: ولاء اسی کو ملے گی جو آزاد کرے۔ Chapter: Al-Wala' (Right of inheritance) belongs to the one who manumits the slave وحدثنا يحيي بن يحيي ، قال: قرات على مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن عائشة ، انها ارادت ان تشتري جارية تعتقها، فقال اهلها: نبيعكها على ان ولاءها لنا، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " لا يمنعك ذلك، فإنما الولاء لمن اعتق ".وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ جَارِيَةً تُعْتِقُهَا، فَقَالَ أَهْلُهَا: نَبِيعُكِهَا عَلَى أَنَّ وَلَاءَهَا لَنَا، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " لَا يَمْنَعُكِ ذَلِكِ، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ ". حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ انہوں نے ایک لونڈی خرید کر اسے آزاد کرنے کا ارادہ کیا۔ اس کے مالکوں نے کہا: ہم اس شرط پر یہ کنیز آپ کو بیچیں گے کہ اس کا حقِ ولاء ہمارا ہو گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: "یہ (شرط) تمہیں (اس کو خرید کر آزاد کرنے سے) نہ روکے (اس کنیز کو ضرور آزادی ملنی چاہئے) بلاشبہ ولاء کا حق اسی کا ہے جس نے (غلام یا کنیز کو) آزاد کیا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک لونڈی آزاد کرنے کے لیے خریدنے کا ارادہ کیا، تو اس کے مالکوں نے کہا، ہم آپ کو اس شرط پر بیچیں گے کہ اس کی نسبت آزادی ہماری طرف ہو گی۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کی شرط تمہیں آزادی دینے سے نہ روکے، کیونکہ ولاء تو صرف آزاد کرنے والے کا حق ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن ابن شهاب ، عن عروة ، ان عائشة ، اخبرته: ان بريرة جاءت عائشة تستعينها في كتابتها، ولم تكن قضت من كتابتها شيئا، فقالت لها عائشة: ارجعي إلى اهلك، فإن احبوا ان اقضي عنك كتابتك ويكون ولاؤك لي، فعلت، فذكرت ذلك بريرة لاهلها فابوا، وقالوا: إن شاءت ان تحتسب عليك، فلتفعل ويكون لنا ولاؤك، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ابتاعي فاعتقي، فإنما الولاء لمن اعتق "، ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ما بال اناس يشترطون شروطا ليست في كتاب الله، من اشترط شرطا ليس في كتاب الله، فليس له، وإن شرط مائة مرة شرط الله احق واوثق ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، أَنَّ عَائِشَةَ ، أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ بَرِيرَةَ جَاءَتْ عَائِشَةَ تَسْتَعِينُهَا فِي كِتَابَتِهَا، وَلَمْ تَكُنْ قَضَتْ مِنْ كِتَابَتِهَا شَيْئًا، فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ: ارْجِعِي إِلَى أَهْلِكِ، فَإِنْ أَحَبُّوا أَنْ أَقْضِيَ عَنْكِ كِتَابَتَكِ وَيَكُونَ وَلَاؤُكِ لِي، فَعَلْتُ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ بَرِيرَةُ لِأَهْلِهَا فَأَبَوْا، وَقَالُوا: إِنْ شَاءَتْ أَنْ تَحْتَسِبَ عَلَيْكِ، فَلْتَفْعَلْ وَيَكُونَ لَنَا وَلَاؤُكِ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ابْتَاعِي فَأَعْتِقِي، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ "، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مَا بَالُ أُنَاسٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَلَيْسَ لَهُ، وَإِنْ شَرَطَ مِائَةَ مَرَّةٍ شَرْطُ اللَّهِ أَحَقُّ وَأَوْثَقُ ". لیث نے ہمیں ابن شہاب سے حدیث بیان کی، انہوں نے عروہ سے روایت کی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ بریرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی۔ وہ ان سے اپنی مکاتبت (قیمت ادا کر کے آزادی کا معامدہ کرنے) کے سلسلے میں مدد مانگ رہی تھی، اس نے اپنی مکاتبت کی رقم میں سے کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سے کہا: اپنے مالکوں کے پاس جاؤ، اگر وہ پسند کریں کہ میں تمہاری مکاتبت کی رقم ادا کروں اور تمہارا حقِ ولاء میرے لیے ہو، تو میں (تمہاری قیمت کی ادائیگی) کر دوں گی۔ بریرہ رضی اللہ عنہا نے یہ اپنے مالکوں سے کہی تو انہوں نے انکار کر دیا، اور کہا: اگر وہ تمہارے ساتھ نیکی کرنا چاہتی ہیں تو کریں، لیکن تمہاری ولاء کا حق ہمارا ہی ہو گا۔ اس پر انہوں (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: "تم خرید لو اور آزاد کر دو، کیونکہ ولاء کا حق اسی کا ہے جس نے آزاد کیا۔" پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (منبر پر) کھڑے ہوئے اور فرمایا: "لوگوں کو کیا ہوا ہے وہ ایسی شرطیں رکھتے ہیں جو اللہ کی کتاب (کی تعلیمات) میں نہیں۔ جس نے ایسی شرط رکھی جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہے تو اسے اس کا کوئی حق نہیں چاہے وہ سو مرتبہ شرط رکھ لے۔ اللہ کی شرط زیادہ حق رکھتی ہے اور وہی زیادہ مضبوط ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، بریرہ ان کے پاس اپنی مکاتبت کی رقم کی ادائیگی کے سلسلہ میں مدد لینے کے لیے آئی، اور اس نے اپنی مکاتبت کی رقم میں سے کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا، تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اسے کہا، اپنے مالکوں کے پاس جاؤ، اگر وہ چاہیں تو میں تمہارا تمام بدل کتابت ادا کر دیتی ہوں اور تیری نسبت آزادی میری طرف ہو گی، میں رقم دے دیتی ہوں، حضرت بریرہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اس کا تذکرہ اپنے مالکوں سے کیا، تو انہوں نے اس سے انکار کر دیا اور کہا، اگر وہ تمہیں رقم دے کر ثواب لینا چاہتی ہے، تو وہ ثواب کمائے (نسبت اس کی طرف نہیں ہو گی) نسبت آزادی ہماری ہی طرف ہو گی، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: اسے خرید لے، نسبت تو صرف آزاد کرنے والے کا حق ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر فرمایا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے، وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کے قانون، حکم کی رو سے درست نہیں، جس نے ایسی شرط لگائی، جو اللہ کے حکم میں روا نہیں ہے، تو وہ اس کا مطالبہ نہیں کر سکے گا، اگرچہ سو دفعہ شرط لگا لے، اللہ کی شرط ہی صحیح ہے اور مضبوط ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني ابو الطاهر ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم انها، قالت: جاءت بريرة إلي، فقالت: يا عائشة، إني كاتبت اهلي على تسع اواق في كل عام اوقية بمعنى حديث الليث، وزاد فقال: لا يمنعك ذلك منها ابتاعي واعتقي، وقال في الحديث، ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس، فحمد الله واثنى عليه، ثم قال: اما بعد.حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا، قَالَتْ: جَاءَتْ بَرِيرَةُ إِلَيَّ، فَقَالَتْ: يَا عَائِشَةُ، إِنِّي كَاتَبْتُ أَهْلِي عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُوقِيَّةٌ بِمَعْنَى حَدِيثِ اللَّيْثِ، وَزَادَ فَقَالَ: لَا يَمْنَعُكِ ذَلِكِ مِنْهَا ابْتَاعِي وَأَعْتِقِي، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ. یونس نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے عروہ بن زبیر سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: بریرہ میرے پاس آئی اور کہنے لگی: عائشہ! میں نے اپنے مالکوں سے 9 اوقیہ پر مکاتبت (قیمت کی ادائیگی پر آزاد ہو جانے کا معاہدہ) کیا ہے، ہر سال میں ایک اوقیہ (40 درہم ادا کرنا) ہے، آگے لیث کی حدیث کے ہم معنی ہے اور (اس میں) یہ اضافہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہیں ان کی یہ بات (بریرہ کو آزاد کرنے سے) نہ روکے۔ اسے خریدو اور آزاد کر دو۔" اور (یونس نے) حدیث میں کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: "امابعد!" (خطبہ دیا جس میں شرط والی بات ارشاد فرمائی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس بریرہ آئی اور کہنے لگی، اے عائشہ! میں نے اپنے مالکوں سے 9 اوقیہ پر کتابت کی، ہر سال ایک اوقیہ (چالیس درہم) ادا کرنا ہو گا، آگے اوپر والی حدیث اور اس میں یہ اضافہ ہے (ان کا شرط لگانا، تمہیں خریدنے سے نہ روکے، خرید اور آزاد کر دے) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں خطاب کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی پھر فرمایا: ”اما بعد۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا ابو كريب محمد بن العلاء الهمداني ، حدثنا ابو اسامة ، حدثنا هشام بن عروة ، اخبرني ابي ، عن عائشة ، قالت: دخلت علي بريرة، فقالت: إن اهلي كاتبوني على تسع اواق، في تسع سنين في كل سنة اوقية، فاعينيني، فقلت لها: إن شاء اهلك ان اعدها لهم عدة واحدة، واعتقك ويكون الولاء لي، فعلت فذكرت ذلك لاهلها، فابوا إلا ان يكون الولاء لهم، فاتتني فذكرت ذلك، قالت: فانتهرتها، فقالت: لا ها الله إذا قالت، فسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم فسالني، فاخبرته، فقال: " اشتريها واعتقيها، واشترطي لهم الولاء، فإن الولاء لمن اعتق "، ففعلت، قالت: ثم خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم عشية، فحمد الله واثنى عليه بما هو اهله، ثم قال: " اما بعد فما بال اقوام يشترطون شروطا ليست في كتاب الله، ما كان من شرط ليس في كتاب الله عز وجل، فهو باطل، وإن كان مائة شرط كتاب الله احق وشرط الله اوثق، ما بال رجال منكم يقول احدهم اعتق فلانا والولاء لي إنما الولاء لمن اعتق "وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: دَخَلَتْ عَلَيَّ بَرِيرَةُ، فَقَالَتْ: إِنَّ أَهْلِي كَاتَبُونِي عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ، فِي تِسْعِ سِنِينَ فِي كُلِّ سَنَةٍ أُوقِيَّةٌ، فَأَعِينِينِي، فَقُلْتُ لَهَا: إِنْ شَاءَ أَهْلُكِ أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ عَدَّةً وَاحِدَةً، وَأُعْتِقَكِ وَيَكُونَ الْوَلَاءُ لِي، فَعَلْتُ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِأَهْلِهَا، فَأَبَوْا إِلَّا أَنْ يَكُونَ الْوَلَاءُ لَهُمْ، فَأَتَتْنِي فَذَكَرَتْ ذَلِكَ، قَالَتْ: فَانْتَهَرْتُهَا، فَقَالَتْ: لَا هَا اللَّهِ إِذَا قَالَتْ، فَسَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَنِي، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: " اشْتَرِيهَا وَأَعْتِقِيهَا، وَاشْتَرِطِي لَهُمُ الْوَلَاءَ، فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ "، فَفَعَلْتُ، قَالَتْ: ثُمَّ خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشِيَّةً، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا بَعْدُ فَمَا بَالُ أَقْوَامٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، مَا كَانَ مِنْ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ كِتَابُ اللَّهِ أَحَقُّ وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ، مَا بَالُ رِجَالٍ مِنْكُمْ يَقُولُ أَحَدُهُمْ أَعْتِقْ فُلَانًا وَالْوَلَاءُ لِي إِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ " ابواسامہ نے کہا: ہمیں ہشام بن عروہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھے میرے والد نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی، انہوں نے کہا: بریرہ میرے پاس آئی اور کہنے لگی: میرے مالکوں نے میرے ساتھ 9 سالوں میں 9 اوقیہ (کی ادائیگی) کے بدلے مکاتبت کی ہے۔ ہر سال میں ایک اوقیہ (ادا کرنا) ہے۔ میری مدد کریں۔ میں نے اس سے کہا: اگر تمہارے مالک چاہیں کہ میں انہیں یکمشت گن کر دوں اور تمہیں آزاد کر دوں اور ولاء کا حق میرا ہو، تو میں ایسا کر لوں گی۔ اس نے یہ بات اپنے مالکوں سے کی تو انہوں نے (اسے ماننے سے) انکار کر دیا الا یہ کہ حقِ ولاء ان کا ہو۔ اس کے بعد وہ میرے پاس آئی اور یہ بات مجھے بتائی۔ کہا: تو میں نے اس پر برہمی کا اظہار کیا، اور کہا: اللہ کی قسم! پھر ایسا نہیں ہو سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سنی تو مجھ سے پوچھا، میں نے آپ کو (پوری) بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے خریدو اور آزاد کر دو، ان کے لیے ولاء کی شرط رکھ لو، کیونکہ (اصل میں تو) ولاء کا حق اسی کا ہے جس نے آزاد کیا۔" میں نے ایسا ہی کیا۔ کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کے وقت خطبہ دیا، اللہ کی حمد و ثنا جو اس کے شایانِ شان تھی بیان کی، پھر فرمایا: "امابعد! لوگوں کو کیا ہوا ہے؟ وہ ایسی شرطیں رکھتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں (جائز) نہیں۔ جو بھی شرط اللہ کی کتاب میں (روا) نہیں، وہ باطل ہے، چاہے وہ سو شرطیں ہوں، اللہ کی کتاب ہی سب سے سچی اور اللہ کی شرط سب سے مضبوط ہے۔ تم میں سے بعض لوگوں کو کیا ہوا ہے، ان میں سے کوئی کہتا ہے: فلاں کو آزاد تم کرو اور حقِ ولاء میرا ہو گا۔ (حالانکہ) ولاء کا حق اسی کا ہے جس نے آزاد کیا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، میرے پاس بریرہ رضی اللہ تعالی عنہا آئی اور کہا، میرے مالکوں نے میرے ساتھ، نو سال کے عرصہ کے لیے نو اوقیہ پر کتابت کی ہے، ہر سال ایک اوقیہ دینا ہو گا، آپ میرا تعاون فرمائیں، تو میں نے اسے جواب دیا، اگر تیرے مالک چاہیں تو میں ساری رقم یکمشت ادا کر کے تمہیں آزاد کر دیتی ہوں اور نسبت آزادی میری طرف ہو گی، تو میں ایسا کر دیتی ہوں، اس نے اس کا ذکر اپنے مالکوں سے کیا انہوں نے ولاء اپنے لیے لیے بغیر، اس سے انکار کر دیا، تو اس نے آ کر مجھے بتایا تو میں نے اس کی سرزنش کی، اور کہا، اللہ کی قسم! تب نہیں ہو گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بات سن لی اور مجھ سے پوچھا، تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خرید لو اور اسے آزاد کر دو، اور ان کی ولاء کی شرط مان لو، ولاء تو اس کو ملنی ہے، جس نے آزادی دی۔ تو میں نے ایسا کیا، پھر شام کو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب فرمایا: اللہ کی حمد و ثناء بیان کی جو اس کی شان کے لائق ہے، پھر فرمایا: ”امابعد! لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں، جن کی اللہ کے حکم میں گنجائش نہیں ہے؟ جو شرط بھی ایسی ہو گی، جس کی اللہ کے قانون میں گنجائش نہیں، تو وہ باطل ہے، اگرچہ سو شرط ہوں، اللہ کا حکم ہی صحیح سے اور اللہ کی شرط ہی مستحکم ہے، تم میں سے کچھ مردوں کو کیا ہو گیا ہے، ان میں سے کوئی کہتا ہے تم فلاں کو آزاد کر دو اور نسبت آزادی میری طرف ہو گی، ولاء تو بس آزاد کرنے والے کے لیے ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابن نمیر، وکیع اور جریر سب نے ہشام بن عروہ سے اسی سند کے ساتھ ابواسامہ کی حدیث کے ہم معنی روایت بیان کی، لیکن جریر کی حدیث میں ہے، کہا: اس (بریرہ رضی اللہ عنہا) کا شوہر غلام تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (شادی برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے میں) اختیار دیا تو اس نے خود کو (نکاح کی بندش سے آزاد دیکھنا) پسند کیا۔ اگر اس کا شوہر آزاد ہوتا تو آپ اسے یہ اختیار نہ دیتے، اور ان کی حدیث میں امابعد کے الفاظ نہیں ہیں۔ (یہ الفاظ خطبے کی طرف اشارہ کرتے ہیں امام صاحب اپنے پانچ اساتذہ کی اسناد سے ہشام بن عروہ کی سند سے ہی مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں، ہشام کے شاگرد جریر کی روایت میں یہ اضافہ ہے، اور بریرہ کا خاوند غلام تھا، اس لیے (بریرہ کی آزادی پر) آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا (کہ وہ اس کے نکاح میں رہے یا نہ رہے) تو اس نے اپنے لیے علیحدگی پسند کی اور اگر وہ (شوہر) آزاد ہوتا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم اسے (بریرہ کو) اختیار نہ دیتے، اور ان حضرات کی روایت میں (امابعد) کا لفظ نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا زهير بن حرب ، ومحمد بن العلاء ، واللفظ لزهير، قالا: حدثنا ابو معاوية ، حدثنا هشام بن عروة ، عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: كان في بريرة ثلاث قضيات اراد اهلها ان يبيعوها ويشترطوا ولاءها، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: " اشتريها واعتقيها، فإن الولاء لمن اعتق "، قالت: وعتقت، فخيرها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاختارت نفسها، قالت: وكان الناس يتصدقون عليها وتهدي لنا، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " هو عليها صدقة، وهو لكم هدية فكلوه ".حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كَانَ فِي بَرِيرَةَ ثَلَاثُ قَضِيَّاتٍ أَرَادَ أَهْلُهَا أَنْ يَبِيعُوهَا وَيَشْتَرِطُوا وَلَاءَهَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " اشْتَرِيهَا وَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ "، قَالَتْ: وَعَتَقَتْ، فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا، قَالَتْ: وَكَانَ النَّاسُ يَتَصَدَّقُونَ عَلَيْهَا وَتُهْدِي لَنَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ، وَهُوَ لَكُمْ هَدِيَّةٌ فَكُلُوهُ ". ہشام بن عروہ نے ہمیں عبدالرحمٰن بن قاسم سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: بریرہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں تین فیصلے ہوئے: اس کے مالکوں نے چاہا کہ اسے بیچ دیں اور اس کے حقِ ولاء کو (اپنے لیے) مشروط کر دیں، میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ نے فرمایا: "اسے خریدو اور آزاد کر دو، کیونکہ ولاء اسی کا حق ہے جس نے آزاد کیا۔" (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: وہ آزاد ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا، اس نے اپنی ذات (کو آزاد رکھنے) کا انتخاب کیا۔ (حضرت عائشہ نے) کہا: لوگ اس پر صدقہ کرتے تھے اور وہ (اس میں سے کچھ) ہمیں ہدیہ کرتی تھی، میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی تو آپ نے فرمایا: "وہ اس پر صدقہ ہے اور تم لوگوں کے لیے ہدیہ ہے، لہذا اسے کھا لیا کرو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، بریرہ کے سلسلہ میں تین فیصلے ہوئے (تین مقدمات بنے) اس کے مالکوں نے اسے بیچنا چاہا اور اپنے لیے ولاء کی شرط کے ساتھ، میں نے اس کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو خرید لے اور اسے آذاد کر دے، کیونکہ ولاء تو اسے ہی ملے گا جو آزاد کرے گا۔ اور وہ آزاد ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا اور اس نے اپنے نفس کو اختیار کیا، (اپنے خاوند مغیث سے علیحدگی اختیار کر لی) اور لوگ اس کو صدقہ دیتے تھے اور وہ اس میں سے ہمیں تحفہ دیتی تھی، میں نے اس کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اس کے لیے صدقہ ہے اور تمہارے لیے ہدیہ ہے، اس لیے اسے کھا لو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا حسين بن علي ، عن زائدة ، عن سماك ، عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن ابيه ، عن عائشة ، انها اشترت بريرة من اناس من الانصار واشترطوا الولاء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الولاء لمن ولي النعمة "، وخيرها رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان زوجها عبدا، واهدت لعائشة لحما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو صنعتم لنا من هذا اللحم "، قالت عائشة: تصدق به على بريرة، فقال: " هو لها صدقة ولنا هدية ".وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا اشْتَرَتْ بَرِيرَةَ مِنْ أُنَاسٍ مِنْ الْأَنْصَارِ وَاشْتَرَطُوا الْوَلَاءَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْوَلَاءُ لِمَنْ وَلِيَ النِّعْمَةَ "، وَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ زَوْجُهَا عَبْدًا، وَأَهْدَتْ لِعَائِشَةَ لَحْمًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ صَنَعْتُمْ لَنَا مِنْ هَذَا اللَّحْمِ "، قَالَتْ عَائِشَةُ: تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ: " هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ ". سماک نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ انہوں نے بریرہ رضی اللہ عنہ کو انصار کے لوگوں سے خریدا، انہوں نے ولاء کی شرط لگائی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ولاء (کا حق) اسی کے لیے ہے جس نے (آزادی کی) نعمت کا اہتمام کیا۔" اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا جبکہ اس کا شوہر غلام تھا۔ اور اس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو گوشت ہدیہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم ہمارے لیے اس گوشت سے (سالن) تیار کرتیں؟" حضرت عائشہ نے کہا: یہ (گوشت) بریرہ پر صدقہ کیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا: "وہ اس کے لیے صدقہ تھا اور ہمارے لیے ہدیہ ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے بریرہ کو انصاریوں سے خریدا، اور انہوں نے ولاء کی شرط لگائی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولاء اس کے لیے ہے جس نے احسان کیا ہے (آزادی دی ہے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا، اور اس کا شوہر غلام تھا، اور اس نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو بطور ہدیہ گوشت دیا، تو اسے کاش! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس گوشت سے ہمارے لیے سالن تیار کرتیں؟“ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: یہ تو بریرہ کو صدقہ دیا گیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ہمارے لیے تحفہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت عبد الرحمن بن القاسم ، قال: سمعت القاسم ، يحدث عن عائشة ، انها ارادت ان تشتري بريرة للعتق، فاشترطوا ولاءها، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " اشتريها واعتقيها، فإن الولاء لمن اعتق "، واهدي لرسول الله صلى الله عليه وسلم لحم، فقالوا للنبي صلى الله عليه وسلم: هذا تصدق به على بريرة، فقال: " هو لها صدقة وهو لنا هدية "، وخيرت، فقال عبد الرحمن: وكان زوجها حرا، قال شعبة: ثم سالته عن زوجها، فقال: لا ادري.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ ، يُحَدِّثُ عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ لِلْعِتْقِ، فَاشْتَرَطُوا وَلَاءَهَا، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " اشْتَرِيهَا وَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ "، وَأُهْدِيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَحْمٌ، فَقَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَذَا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ: " هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَهُوَ لَنَا هَدِيَّةٌ "، وَخُيِّرَتْ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: وَكَانَ زَوْجُهَا حُرًّا، قَالَ شُعْبَةُ: ثُمَّ سَأَلْتُهُ عَنْ زَوْجِهَا، فَقَالَ: لَا أَدْرِي. ہمیں محمد بن جعفر نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے قاسم سے سنا، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث بیان کر رہے تھے کہ انہوں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کرنے کے لیے خریدنا چاہا تو ان لوگوں (مالکوں) نے اس کی ولاء کی شرط لگا دی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس بات کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: "اسے خریدو اور آزاد کر دو کیونکہ ولاء اسی کے لیے ہے جس نے آزاد کیا۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے (بریرہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے) گوشت کا ہدیہ بھیجا گیا تو انہوں (گھر والوں) نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: یہ بریرہ پر صدقہ کیا گیا ہے، آپ نے فرمایا: "وہ اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔" اور اسے اختیار دیا گیا۔ عبدالرحمٰن نے کہا: اس کا شوہر آزاد تھا۔ شعبہ نے کہا: میں نے پھر سے اس کے شوہر کے بارے میں ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نہیں جانتا (وہ آزاد تھا یا غلام۔ شک کے بغیر، یقین کے ساتھ کی گئی روایت یہی ہے کہ وہ غلام تھا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، اس نے بریرہ کو آزاد کرنے کے لیے خریدنا چاہا تو انہوں نے اس کی ولاء کی شرط لگائی، تو میں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو خرید لے اور اس کو آزاد کر دے، ولاء تو اسے ہی ملے گا جو آزاد کرے گا۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ میں گوشت پیش کیا گیا، اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا یہ بریرہ کو صدقہ میں دیا گیا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔“ اور اسے اختیار دیا گیا، اور عبدالرحمٰن نے کہا، اس کا خاوند آزاد تھا، شعبہ کہتے ہیں، پھر میں نے اس سے اس کے خاوند کے بارے میں پوچھا؟ تو کہا، مجھے معلوم نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابوداؤد نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں شعبہ نے اسی سند سے اسی کے ہم معنی حدیث بیان کی شعبہ نے پہلی سند سے اس طرح روایت بیان کی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: بریرہ رضی اللہ عنہا کا شوہر غلام تھا امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ کی سند سے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی حدیث، عروہ کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ بیان کرتے ہیں، بریرہ رضی اللہ تعالی عنہا کا خاوند غلام تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني ابو الطاهر ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني مالك بن انس ، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن ، عن القاسم بن محمد ، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انها قالت: كان في بريرة ثلاث سنن، خيرت على زوجها حين عتقت، واهدي لها لحم، فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم والبرمة على النار، فدعا بطعام، فاتي بخبز وادم من ادم البيت، فقال: " الم ار برمة على النار فيها لحم؟ "، فقالوا: بلى يا رسول الله، ذلك لحم تصدق به على بريرة، فكرهنا ان نطعمك منه، فقال: " هو عليها صدقة وهو منها لنا هدية "، وقال النبي صلى الله عليه وسلم فيها: " إنما الولاء لمن اعتق ".وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ فِي بَرِيرَةَ ثَلَاثُ سُنَنٍ، خُيِّرَتْ عَلَى زَوْجِهَا حِينَ عَتَقَتْ، وَأُهْدِيَ لَهَا لَحْمٌ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْبُرْمَةُ عَلَى النَّارِ، فَدَعَا بِطَعَامٍ، فَأُتِيَ بِخُبْزٍ وَأُدُمٍ مِنْ أُدُمِ الْبَيْتِ، فَقَالَ: " أَلَمْ أَرَ بُرْمَةً عَلَى النَّارِ فِيهَا لَحْمٌ؟ "، فَقَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَلِكَ لَحْمٌ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَكَرِهْنَا أَنْ نُطْعِمَكَ مِنْهُ، فَقَالَ: " هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ وَهُوَ مِنْهَا لَنَا هَدِيَّةٌ "، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا: " إِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ ". ربیعہ بن ابوعبدالرحمٰن نے قاسم بن محمد سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: بریرہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں تین سنتیں (متعین) ہوئیں: جب وہ آزاد ہوئی تو اس کے شوہر کے حوالے سے اسے اختیار دیا گیا۔ اسے گوشت کا ہدیہ بھیجا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے تو ہنڈیا چولھے پر تھی، آپ نے کھانا طلب فرمایا تو آپ کو روٹی اور گھر کے سالنوں میں سے ایک سالن پیش کیا گیا، آپ نے فرمایا: "کیا میں نے آگ پر چڑھی ہنڈیا نہیں دیکھی جس میں گوشت تھا؟" گھر والوں نے جواب دیا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! وہ گوشت بریرہ رضی اللہ عنہا پر صدقہ کیا گیا تھا تو ہمیں اچھا نہ لگا کہ ہم آپ کو اس میں سے کھلائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرایا: " وہ اس پر صدقہ ہے اور اس کی طرف سے ہمارے لیے ہدیہ ہے۔" نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی (بریرہ رضی اللہ عنہا) کے بارے میں فرمایا تھا: "حقِ ولاء اسی کے لیے ہے جس نے آزاد کیا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ بریرہ کے واقعات، تین رویے (طرز عمل) معلوم ہوئے، جب آزاد ہوئی تو اسے خاوند کے سلسلہ میں اختیار ملا، اور اسے گوشت دیا گیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں آئے جبکہ ہنڈیا چولہے پر تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا طلب کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روٹی اور گھر میں تیار کیا گیا سالن پیش کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیا مجھے چولہے پر گوشت والی ہنڈیا دکھائی نہیں دے رہی؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم کو جواب ملا، کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! وہ گوشت بریرہ کو صدقہ میں ملا ہے، اس لیے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں کھلانا پسند نہیں کیا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اس پر صدقہ ہے اور اس کی طرف سے ہمارے لیے تحفہ ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: ”ولاء آزاد کرنے والے کے لیے ہی ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے چاہا کہ ایک لونڈی خرید کر آزاد کریں تو اس کے مالکوں نے (اسے بیچنے سے) انکار کیا، الا یہ کہ حقِ ولاء ان کا ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی تو آپ نے فرمایا: "یہ شرط تمہیں (نیکی سے) نہ روکے، کیونکہ حق ولاء اسی کا ہے جس نے آزاد کیا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آزاد کرنے کے لیے ایک لونڈی خریدنے کا ارادہ کیا، تو لونڈی کے مالکوں نے ولاء اپنے لیے ہونے کے بغیر، اس سے انکار کر دیا، تو اس نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کی بیجا شرط تمہیں اس مقصد سے نہ روکے، کیونکہ ولاء تو اس کو ملنی ہے، جس نے آزاد کیا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|