وقال ابن عيينة عن وخلف بن حوشب كانوا يستحبون ان يتمثلوا بهذه الابيات عند الفتن، قال امرؤ القيس الحرب اول ما تكون فتية تسعى بزينتها لكل جهول حتى إذا اشتعلت وشب ضرامها ولت عجوزا غير ذات حليل شمطاء ينكر لونها وتغيرت مكروهة للشم والتقبيلوَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ وخَلَفِ بْنِ حَوْشَبٍ كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يَتَمَثَّلُوا بِهَذِهِ الْأَبْيَاتِ عِنْدَ الْفِتَنِ، قَالَ امْرُؤُ الْقَيْسِ الْحَرْبُ أَوَّلُ مَا تَكُونُ فَتِيَّةً تَسْعَى بِزِينَتِهَا لِكُلِّ جَهُولِ حَتَّى إِذَا اشْتَعَلَتْ وَشَبَّ ضِرَامُهَا وَلَّتْ عَجُوزًا غَيْرَ ذَاتِ حَلِيلِ شَمْطَاءَ يُنْكَرُ لَوْنُهَا وَتَغَيَّرَتْ مَكْرُوهَةً لِلشَّمِّ وَالتَّقْبِيلِ
ابن عیینہ نے خلف بن حوشب سے بیان کیا کہ سلف فتنہ کے وقت ان اشعار سے مثال دینا پسند کرتے تھے۔ جن میں امراء القیس نے کہا ہے۔ ابتداء میں اک جواں عورت کی صورت ہے یہ جنگ۔۔۔ دیکھ کر ناداں اسے ہوتے ہیں عاشق اور دنگ۔۔۔ جبکہ بھڑکے شعلے اس کے پھیل جائیں ہر طرف۔۔۔ تب وہ ہو جاتی ہے بوڑھی اور بدل جاتی ہے رنگ۔۔۔ ایسی بدصورت کو رکھے کون چونڈا ہے سفید۔۔۔ سونگھنے اور چومنے سے اس کے سب ہوتے ہیں تنگ۔
(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا ابي، حدثنا الاعمش، حدثنا شقيق، سمعت حذيفة، يقول: بينا نحن جلوس عند عمر، إذ قال: ايكم يحفظ قول النبي صلى الله عليه وسلم في الفتنة؟، قال:" فتنة الرجل في اهله وماله وولده وجاره تكفرها الصلاة والصدقة، والامر بالمعروف والنهي عن المنكر، قال: ليس عن هذا اسالك، ولكن التي تموج كموج البحر، قال: ليس عليك منها باس يا امير المؤمنين، إن بينك وبينها بابا مغلقا، قال عمر: ايكسر الباب ام يفتح؟، قال: بل يكسر، قال عمر: إذا لا يغلق ابدا، قلت: اجل، قلنا لحذيفة: اكان عمر يعلم الباب؟، قال: نعم، كما يعلم ان دون غد ليلة وذلك اني حدثته حديثا ليس بالاغاليط، فهبنا ان نساله من الباب، فامرنا مسروقا، فساله، فقال: من الباب؟، قال: عمر".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا شَقِيقٌ، سَمِعْتُ حُذَيْفَةَ، يَقُولُ: بَيْنَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ عُمَرَ، إِذْ قَالَ: أَيُّكُمْ يَحْفَظُ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ؟، قَالَ:" فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصَّدَقَةُ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ، قَالَ: لَيْسَ عَنْ هَذَا أَسْأَلُكَ، وَلَكِنِ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ، قَالَ: لَيْسَ عَلَيْكَ مِنْهَا بَأْسٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا، قَالَ عُمَرُ: أَيُكْسَرُ الْبَابُ أَمْ يُفْتَحُ؟، قَالَ: بَلْ يُكْسَرُ، قَالَ عُمَرُ: إِذًا لَا يُغْلَقَ أَبَدًا، قُلْتُ: أَجَلْ، قُلْنَا لِحُذَيْفَةَ: أَكَانَ عُمَرُ يَعْلَمُ الْبَابَ؟، قَالَ: نَعَمْ، كَمَا يَعْلَمُ أَنَّ دُونَ غَدٍ لَيْلَةً وَذَلِكَ أَنِّي حَدَّثْتُهُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالْأَغَالِيطِ، فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَهُ مَنِ الْبَابُ، فَأَمَرْنَا مَسْرُوقًا، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: مَنِ الْبَابُ؟، قَالَ: عُمَرُ".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شقیق نے بیان کیا، انہوں نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے پوچھا: تم میں سے کسے فتنہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ انسان کا فتنہ (آزمائش) اس کی بیوی، اس کے مال، اس کے بچے اور پڑوسی کے معاملات میں ہوتا ہے جس کا کفارہ نماز، صدقہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کر دیتا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھتا بلکہ اس فتنہ کے بارے میں پوچھتا ہوں جو دریا کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ امیرالمؤمنین آپ پر اس کا کوئی خطرہ نہیں اس کے اور آپ کے درمیان ایک بند دروازہ رکاوٹ ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا یا کھولا جائے گا؟ بیان کیا توڑ دیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ پھر تو وہ کبھی بند نہ ہو سکے گا۔ میں نے کہا جی ہاں۔ ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا عمر رضی اللہ عنہ اس دروازہ کے متعلق جانتے تھے؟ فرمایا کہ ہاں، جس طرح میں جانتا ہوں کہ کل سے پہلے رات آئے گی کیونکہ میں نے ایسی بات بیان کی تھی جو بےبنیاد نہیں تھی۔ ہمیں ان سے یہ پوچھتے ہوئے ڈر لگا کہ وہ دروازہ کون تھے۔ چنانچہ ہم نے مسروق سے کہا (کہ وہ پوچھیں) جب انہوں نے پوچھا کہ وہ دروازہ کون تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ دروازہ عمر رضی اللہ عنہ تھے۔
Narrated Shaqiq: I heard Hudhaifa saying, "While we were sitting with `Umar, he said, 'Who among you remembers the statement of the Prophet about the afflictions?' Hudhaifa said, "The affliction of a man in his family, his property, his children and his neighbors are expiated by his prayers, Zakat (and alms) and enjoining good and forbidding evil." `Umar said, "I do not ask you about these afflictions, but about those afflictions which will move like the waves of the sea." Hudhaifa said, "Don't worry about it, O chief of the believers, for there is a closed door between you and them." `Umar said, "Will that door be broken or opened?" I said, "No. it will be broken." `Umar said, "Then it will never be closed," I said, "Yes." We asked Hudhaifa, "Did `Umar know what that door meant?" He replied, "Yes, as I know that there will be night before tomorrow morning, that is because I narrated to him a true narration free from errors." We dared not ask Hudhaifa as to whom the door represented so we ordered Masruq to ask him what does the door stand for? He replied, "`Umar."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 88, Number 216
(مرفوع) حدثنا سعيد بن ابي مريم، اخبرنا محمد بن جعفر، عن شريك بن عبد الله، عن سعيد بن المسيب، عن ابي موسى الاشعري، قال:" خرج النبي صلى الله عليه وسلم يوما إلى حائط من حوائط المدينة لحاجته، وخرجت في إثره، فلما دخل الحائط جلست على بابه، وقلت: لاكونن اليوم بواب النبي صلى الله عليه وسلم، ولم يامرني، فذهب النبي صلى الله عليه وسلم وقضى حاجته، وجلس على قف البئر، فكشف عن ساقيه ودلاهما في البئر، فجاء ابو بكر يستاذن عليه ليدخل، فقلت: كما انت حتى استاذن لك، فوقف، فجئت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا نبي الله، ابو بكر يستاذن عليك، قال: ائذن له وبشره بالجنة، فدخل، فجاء عن يمين النبي صلى الله عليه وسلم، فكشف عن ساقيه ودلاهما في البئر، فجاء عمر، فقلت: كما انت حتى استاذن لك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ائذن له وبشره بالجنة، فجاء عن يسار النبي صلى الله عليه وسلم، فكشف عن ساقيه فدلاهما في البئر، فامتلا القف، فلم يكن فيه مجلس، ثم جاء عثمان، فقلت: كما انت حتى استاذن لك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ائذن له وبشره بالجنة معها بلاء يصيبه، فدخل فلم يجد معهم مجلسا فتحول حتى جاء مقابلهم على شفة البئر، فكشف عن ساقيه ثم دلاهما في البئر، فجعلت اتمنى اخا لي وادعو الله ان ياتي، قال ابن المسيب: فتاولت ذلك قبورهم اجتمعت ها هنا، وانفرد عثمان.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ:" خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا إِلَى حَائِطٍ مِنْ حَوَائِطِ الْمَدِينَةِ لِحَاجَتِهِ، وَخَرَجْتُ فِي إِثْرِهِ، فَلَمَّا دَخَلَ الْحَائِطَ جَلَسْتُ عَلَى بَابِهِ، وَقُلْتُ: لَأَكُونَنَّ الْيَوْمَ بَوَّابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَأْمُرْنِي، فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَضَى حَاجَتَهُ، وَجَلَسَ عَلَى قُفِّ الْبِئْرِ، فَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ وَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْهِ لِيَدْخُلَ، فَقُلْتُ: كَمَا أَنْتَ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ لَكَ، فَوَقَفَ، فَجِئْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْكَ، قَالَ: ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، فَدَخَلَ، فَجَاءَ عَنْ يَمِينِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ وَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ، فَجَاءَ عُمَرُ، فَقُلْتُ: كَمَا أَنْتَ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ لَكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، فَجَاءَ عَنْ يَسَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ فَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ، فَامْتَلَأَ الْقُفُّ، فَلَمْ يَكُنْ فِيهِ مَجْلِسٌ، ثُمَّ جَاءَ عُثْمَانُ، فَقُلْتُ: كَمَا أَنْتَ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ لَكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ مَعَهَا بَلَاءٌ يُصِيبُهُ، فَدَخَلَ فَلَمْ يَجِدْ مَعَهُمْ مَجْلِسًا فَتَحَوَّلَ حَتَّى جَاءَ مُقَابِلَهُمْ عَلَى شَفَةِ الْبِئْرِ، فَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ ثُمَّ دَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ، فَجَعَلْتُ أَتَمَنَّى أَخًا لِي وَأَدْعُو اللَّهَ أَنْ يَأْتِيَ، قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ: فَتَأَوَّلْتُ ذَلِكَ قُبُورَهُمُ اجْتَمَعَتْ هَا هُنَا، وَانْفَرَدَ عُثْمَانُ.
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہیں شریک بن عبداللہ نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے باغات میں کسی باغ کی طرف اپنی کسی ضرورت کے لیے گئے، میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں داخل ہوئے تو میں اس کے دروازے پر بیٹھ گیا اور اپنے دل میں کہا کہ آج میں آپ کا دربان بنوں گا حالانکہ آپ نے مجھے اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ آپ اندر چلے گئے اور اپنی حاجت پوری کی۔ پھر آپ کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ گئے اور اپنی دونوں پنڈلیوں کو کھول کر انہیں کنوئیں میں لٹکا لیا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور اندر جانے کی اجازت چاہی۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ یہیں رہیں، میں آپ کے لیے اجازت لے کر آتا ہوں۔ چنانچہ وہ کھڑے رہے اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا نبی اللہ! ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو۔ چنانچہ وہ اندر آ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب آ کر انہوں نے بھی اپنی پنڈلیوں کو کھول کر کنوئیں میں لٹکا لیا۔ اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ آئے۔ میں نے کہا ٹھہرو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لوں (اور میں نے اندر جا کر آپ سے عرض کیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو بھی اجازت دے اور بہشت کی خوشخبری بھی۔ خیر وہ بھی آئے اور اسی کنوئیں کی منڈیر پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب بیٹھے اور اپنی پنڈلیاں کھول کر کنوئیں میں لٹکا دیں۔ اور کنوئیں کی منڈیر بھر گئی اور وہاں جگہ نہ رہی۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ آئے اور میں نے ان سے بھی کہا کہ یہیں رہئیے یہاں تک کہ آپ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگ لوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دو اور جنت کی بشارت دے دو اور اس کے ساتھ ایک آزمائش ہے جو انہیں پہنچے گی۔ پھر وہ بھی داخل ہوئے، ان کے ساتھ بیٹھنے کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ چنانچہ وہ گھوم کر ان کے سامنے کنوئیں کے کنارے پر آ گئے پھر انہوں نے اپنی پنڈلیاں کھول کر کنوئیں میں پاؤں لٹکا لیے، پھر میرے دل میں بھائی (غالباً ابوبردہ یا ابورہم) کی تمنا پیدا ہوئی اور میں دعا کرنے لگا کہ وہ بھی آ جاتے، ابن المسیب نے بیان کیا کہ میں نے اس سے ان کی قبروں کی تعبیر لی کہ سب کی قبریں ایک جگہ ہوں گی لیکن عثمان رضی اللہ عنہ کی الگ بقیع غرقد میں ہے۔
Narrated Abu Musa Al-Ash`ari: The Prophet went out to one of the gardens of Medina for some business and I went out to follow him. When he entered the garden, I sat at its gate and said to myself, "To day I will be the gatekeeper of the Prophet though he has not ordered me." The Prophet went and finished his need and went to sit on the constructed edge of the well and uncovered his legs and hung them in the well. In the meantime Abu Bakr came and asked permission to enter. I said (to him), "Wait till I get you permission." Abu Bakr waited outside and I went to the Prophet and said, "O Allah's Prophet! Abu Bakr asks your permission to enter." He said, "Admit him, and give him the glad tidings of entering Paradise." So Abu Bakr entered and sat on the right side of the Prophet and uncovered his legs and hung them in the well. Then `Umar came and I said (to him), "Wait till I get you permission." The Prophet said, "Admit him and give him the glad tidings of entering Paradise." So `Umar entered and sat on the left side of the Prophet and uncovered his legs and hung them in the well so that one side of the well became fully occupied and there remained no place for any-one to sit. Then `Uthman came and I said (to him), "Wait till I get permission for you." The Prophet said, "Admit him and give him the glad tidings of entering Paradise with a calamity which will befall him." When he entered, he could not find any place to sit with them so he went to the other edge of the well opposite them and uncovered his legs and hung them in the well. I wished that a brother of mine would come, so I invoked Allah for his coming. (Ibn Al-Musaiyab said, "I interpreted that (narration) as indicating their graves. The first three are together and the grave of `Uthman is separate from theirs.")
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 88, Number 217
(مرفوع) حدثني بشر بن خالد، اخبرنا محمد بن جعفر، عن شعبة، عن سليمان، سمعت ابا وائل، قال: قيل لاسامة: الا تكلم هذا؟، قال: قد كلمته ما دون ان افتح بابا اكون اول من يفتحه، وما انا بالذي اقول لرجل بعد ان يكون اميرا على رجلين انت خير بعد ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" يجاء برجل فيطرح في النار فيطحن فيها كطحن الحمار برحاه، فيطيف به اهل النار، فيقولون: اي فلان، الست كنت تامر بالمعروف وتنهى عن المنكر؟، فيقول: إني كنت آمر بالمعروف ولا افعله، وانهى عن المنكر وافعله".(مرفوع) حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، قَالَ: قِيلَ لِأُسَامَةَ: أَلَا تُكَلِّمُ هَذَا؟، قَالَ: قَدْ كَلَّمْتُهُ مَا دُونَ أَنْ أَفْتَحَ بَابًا أَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يَفْتَحُهُ، وَمَا أَنَا بِالَّذِي أَقُولُ لِرَجُلٍ بَعْدَ أَنْ يَكُونَ أَمِيرًا عَلَى رَجُلَيْنِ أَنْتَ خَيْرٌ بَعْدَ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" يُجَاءُ بِرَجُلٍ فَيُطْرَحُ فِي النَّارِ فَيَطْحَنُ فِيهَا كَطَحْنِ الْحِمَارِ بِرَحَاهُ، فَيُطِيفُ بِهِ أَهْلُ النَّارِ، فَيَقُولُونَ: أَيْ فُلَانُ، أَلَسْتَ كُنْتَ تَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ؟، فَيَقُولُ: إِنِّي كُنْتُ آمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا أَفْعَلُهُ، وَأَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَفْعَلُهُ".
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم کو جعفر نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں سلیمان نے کہ میں نے ابووائل سے سنا، انہوں نے کہا کہ اسامہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ (عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ) سے گفتگو کیوں نہیں کرتے (کہ عام مسلمانوں کی شکایات کا خیال رکھیں) انہوں نے کہا کہ میں نے (خلوت میں) ان سے گفتگو کی ہے لیکن (فتنہ کے) دروازہ کو کھولے بغیر کہ اس طرح میں سب سے پہلے اس دروازہ کو کھولنے والا ہوں گا میں ایسا آدمی نہیں ہوں کہ کسی شخص سے جب وہ دو آدمیوں پر امیر بنا دیا جائے یہ کہوں کہ تو سب سے بہتر ہے۔ جبکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص کو (قیامت کے دن) لایا جائے گا اور اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر وہ اس میں اس طرح چکی پیسے گا جیسے گدھا پیستا ہے۔ پھر دوزخ کے لوگ اس کے چاروں طرف جمع ہو جائیں گے اور کہیں گے، اے فلاں! کیا تم نیکیوں کا حکم کرتے اور برائیوں سے روکا نہیں کرتے تھے؟ وہ شخص کہے گا کہ میں اچھی بات کے لیے کہتا تو ضرور تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور بری بات سے روکتا بھی تھا لیکن خود کرتا تھا۔
Narrated Abu Wail: Someone said to Usama, "Will you not talk to this (Uthman)?" Usama said, "I talked to him (secretly) without being the first man to open an evil door. I will never tell a ruler who rules over two men or more that he is good after I heard Allah's Apostle saying, 'A man will be brought and put in Hell (Fire) and he will circumambulate (go around and round) in Hell (Fire) like a donkey of a (flour) grinding mill, and all the people of Hell (Fire) will gather around him and will say to him, O so-and-so! Didn't you use to order others for good and forbid them from evil?' That man will say, 'I used to order others to do good but I myself never used to do it, and I used to forbid others from evil while I myself used to do evil.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 88, Number 218