كِتَاب الْفِتَنِ کتاب: فتنوں کے بیان میں 10. بَابُ إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا: باب: جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے سے بھڑ جائیں تو ان کے لیے کیا حکم ہے؟
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایک شخص نے جس کا نام نہیں بتایا، ان سے امام حسن بصری نے بیان کیا کہ میں ایک مرتبہ باہمی فسادات کے دنوں میں میں اپنے ہتھیار لگا کر نکلا تو ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے راستے میں ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے پوچھا کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے لڑکے کی (جنگ جمل و صفین میں) مدد کرنی چاہتا ہوں، انہوں نے کہا لوٹ جاؤ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب دو مسلمان اپنی تلواروں کو لے کر آمنے سامنے مقابلہ پر آ جائیں تو دونوں دوزخی ہیں۔ پوچھا گیا یہ تو قاتل تھا، مقتول نے کیا کیا (کہ وہ بھی ناری ہو گیا)؟ فرمایا کہ وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنے کا ارادہ کئے ہوئے تھا۔ حماد بن زید نے کہا کہ پھر میں نے یہ حدیث ایوب اور یونس بن عبید سے ذکر کی، میرا مقصد تھا کہ یہ دونوں بھی مجھ سے یہ حدیث بیان کریں، ان دونوں نے کہا کہ اس حدیث کی روایت حسن بصری نے احنف بن قیس سے اور انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کی۔ ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا کہا ہم سے حماد بن زید نے یہی حدیث بیان کی اور مؤمل بن ہشام نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب، یونس، ہشام اور معلی بن زیاد نے امام حسن بصری سے بیان کیا، ان سے احنف بن قیس اور ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اس کی روایت معمر نے بھی ایوب سے کی ہے اور اس کی روایت بکار بن عبدالعزیز نے اپنے باپ سے کی اور ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے اور غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ربعی بن حراش نے، ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ اور سفیان ثوری نے بھی اس حدیث کو منصور بن معتمر سے روایت کیا، پھر یہ روایت مرفوعہ نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
|