أَحَادِيثُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الَّتِي قَالَ فِيهَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وہ روایات جن میں یہ الفاظ ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا، یا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کرتے ہوئے دیکھا۔ حدیث نمبر 488
488- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گیا، ہمارے ساتھ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزارش کی: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )! کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وہ چیز کھانے کے لئے پیش نہ کریں جو ام عفیق نے ہمیں تحفے کے طور پر دی ہے، وہ کچھ بھونی ہوئی گوہ لے آئیں۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ملاحظہ کیا، تو تین مرتبہ تھوک پھینکا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھایا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت کی کہ ہم اسے کھا لیں۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک برتن پیش کیا گیا، جس میں دودھ موجود تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف موجود تھا، اور سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”لڑکے پینے کا حق تو تمہارا بنتا ہے، اگر تم چاہو تو خالد کے لئے ایثار کردو۔“
میں نے عرض کی: میں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بچائے ہوئے کے بارے میں کسی کے لئے ایثار نہیں کروں گا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ کسی کو کھانے کے لئے کچھ عطا کرے، تو وہ یہ پڑھے: ”اے اللہ تو ہمارے لئے اس میں برکت دے اور ہمیں اس کے بدلے میں اس سے زیادہ بہتر عطا کر۔“ اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ پینے کے لئے دودوھ عطا کرے، تو وہ یہ پڑھے: ”اے اللہ تو ہمارے لئے اس میں برکت عطا کر اور ہمیں یہ مزید عطا کر“۔(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) میرے علم کے مطابق اس (دودھ) کے علاوہ ایسی کوئی چیز نہیں ہے، جو کھانے اور پینے (یعنی بھوک اور پیاس) دونوں کے لئے کافی ہو۔“ تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف على بن زيد بن جدعان ولكن الحديث صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2575، 5389، 5391، 5400، 5402، 5537، 7358، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1945، 1946، 1947، 1948، ومالك فى «الموطأ» برقم:، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5221، 5223، 5263، 5267، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4327، 4328، 4329، 4330، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4809، 4810، 4811، 4812، 6593، 6619، 6667، 10045، 10046، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3730، 3793، 3794، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3455، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2060، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3241، 3322، 3426، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1929، وأخرجه أبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2335، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 24834»
|