94 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا عاصم بن ابي النجود، عن ابي وائل، عن عبد الله بن مسعود قال: كنا نسلم علي رسول الله صلي الله عليه وسلم في الصلاة قبل ان ناتي ارض الحبشة فيرد علينا، فلما رجعنا سلمت عليه وهو يصلي فلم يرد علي، فاخذني ما قرب وما بعد، فجلست حتي قضي رسول الله صلي الله عليه وسلم الصلاة، فقلت له: يا رسول الله قد سلمت عليك وانت تصلي فلم ترد علي السلام، فقال: «إن الله قد يحدث من امره ما يشاء، وإنه مما احدث ان لا تكلموا في الصلاة» قال سفيان: هذا اجود ما وجدنا عند عاصم في هذا الوجه94 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا عَاصِمُ بْنُ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ قَبْلَ أَنْ نَأْتِيَ أَرْضَ الْحَبَشَةِ فَيَرُدُّ عَلَيْنَا، فَلَمَّا رَجَعْنَا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ، فَأَخَذَنِي مَا قَرُبَ وَمَا بَعُدَ، فَجَلَسْتُ حَتَّي قَضَي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ سَلَّمْتُ عَلَيْكَ وَأَنْتَ تُصَلِّي فَلَمْ تَرُدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ، فَقَالَ: «إِنَّ اللَّهَ قَدْ يُحْدِثُ مِنْ أَمْرِهِ مَا يَشَاءُ، وَإِنَّهُ مِمَّا أَحْدَثَ أَنْ لَا تَكَلَّمُوا فِي الصَّلَاةِ» قَالَ سُفْيَانُ: هَذَا أَجْوَدُ مَا وَجَدْنَا عِنْدَ عَاصِمٍ فِي هَذَا الْوَجْهِ
94- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حبشہ سے آنے سے پہلے ہم نماز کے دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جواب دے دیا کرتے تھے، جب ہم (حبشہ) سے واپس آئے، تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز ادا کررہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا تو مجھے پریشان کن قسم کے خیالات آنے لگے، میں وہاں بیٹھ گیا، یہاں تک کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کی، تو میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کسی بھی معاملے میں جو چاہے نیا حکم دے سکتا ہے اور اس بارے میں نیا حکم یہ ہے کہ تم لوگ نماز کے دوران کلام نہ کرو۔“ سفیان کہتے ہیں: عاصم سے ہمیں جو روایات ملی ہیں: یہ ان میں سب سے بہترین ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه البخاري 1199، ومسلم: 538،وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:4971، وابن حبان فى "صحيحه"، برقم: 2243»