أَحَادِيثُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منقول روایات حدیث نمبر 23
قال: واخري تقولونها لبعض من يقتل في مغازيكم هذه قتل فلان شهيدا، او مات فلان شهيدا، ولعله ان يكون قد اوقر دف راحلته او عجزها ذهبا، وقام يلتمس التجارة فلا تقولوا ذاكم، ولكن قولوا كما قال رسول الله صلي الله عليه وسلم، او كما قال محمد صلي الله عليه وسلم: «من قتل في سبيل الله فهو في الجنة» قال سفيان: كان ايوب ابدا يشك فيه هكذا او قال سفيان: فإن كان حماد بن زيد حدث به هكذا وإلا فلم يحفظ 23- ابوعجفاء سلمی بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: خبردار! تم لوگ عورتوں کے مہر زیادہ مقرر نہ کرو، کیونکہ اگر یہ چیز دنیا میں عزت افزائی کا، یا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تقویٰ کا ذریعہ ہوتی، تو تم میں سے زیادہ لائق تم میں سے زیادہ حقدار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
میرے علم کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج میں سے جس خاتون کے ساتھ بھی شادی کی، یا اپنی صاحبزادیوں میں سے جس صاحبزادی کی بھی شادی کی، ان میں سے کسی کا مہر ”بارہ اوقیہ“ سے زیادہ نہیں تھا، لیکن آج تم میں سے کوئی ایک شخص اپنی بیوی کا مہر زیادہ ادا کرتا ہے، یہاں تک کہ اس کے دل میں اس عورت کے لیے عداوت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ یہ کہتا ہے: تمہاری وجہ سے مجھے پریشانی اٹھانا پڑی ہے۔ راوی کہتے ہیں: میں ایک نوجوان شخص تھا مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ ”علق القربہ“ سے کیا مراد ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ بھی ارشاد فرمایا: دوسری بات یہ ہے کہ تم لوگ کسی جنگ میں قتل ہوجانے والے شخص کے بارے میں یہ کہتے ہو فلاں شخص شہادت کی موت مارا گیا ہے یا فلاں شخص شہادت کی موت مرا ہے، حالانکہ ہوسکتا ہے اس نے اپنی سوری کے جانور پر بوجھ لادا ہوا ہو، یا وہ سونے اور چاندی کو لے کر تجارت کرنے جارہا ہو، تم لوگ یہ بات نہ کہو، بلکہ تم یوں کہو، جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جو شخص اللہ کی راہ میں قتل ہوگا وہ جنت میں جائے گا۔“ سفیان کہتے ہیں: ایوب نامی راوی ہمیشہ اس روایت کے الفاظ میں اسی طرح شک کا اظہار کرتے تھے۔ سفیان نامی راوی کہتے ہیں: اگر حماد بن زید نے بھی اس روایت کو انہی الفاظ میں نقل کیا ہے، پھر تو ٹھیک ہے ورنہ یہ روایت محفوظ نہیں ہے۔ تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وقد استوفينا تخريجه في موارد الظمآن 184/4-185 برقم 1259، وصحيح ابن حبان برقم 4620»
|