أَحَادِيثُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منقول روایات حدیث نمبر 12
وسمعت الزهري يقول: سمعت مالك بن اوس بن الحدثان النصري يقول: سمعت عمر بن الخطاب يقول: سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول: «الذهب بالورق ربا إلا ها وها، والبر بالبر ربا إلا ها وها، والشعير بالشعير ربا إلا ها وها، والتمر بالتمر ربا إلا ها وها» قال الحميدي: قال سفيان: وهذا اصح حديث روي عن النبي صلي الله عليه وسلم في هذا يعني في الصرف سیدنا مالک بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں ایک سو دینار لے کر آیا، میں ان کے ذریعے ”بیع صرف“ کرنا چاہتا تھا، تو سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ بولے: ہم ”بیع صرف“ کرنا چاہتے ہیں، تم انتظار کرو کہ ہمار خزانچی ”غابہ“ سے آ جائے۔ انہوں نے مجھ سے ایک سو دینار وصول کر لئے، تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: تم اس سے الگ نہ ہونا، کیونکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے، ”چاندی کے عوض میں سونے کا لین دین سود ہے ماسوائے اس کے جو دست بدست ہو۔ گندم کے عوض گندم کا لین دین سود ہے ماسوائے اس کے جو دست بدست ہو۔ جو کے عوض جو کا لین دین سود ہے ماسوائے اس کے جو دست بدست ہو۔ کھجور کے عوض کھجور کا لین دین سود ہے ماسوائے اس کے جو دست بدست ہو۔“
راوی کہتے ہیں: جب زہری آئے، تو انہوں نے اس کلام کو نقل نہیں کیا۔ ویسے میں نے زہری کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے مالک بن اوس کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”چاندی کے عوض میں سونے کا لین دین سود ہے، ماسوائے اس کے جو دست بدست ہو۔ گندم کے عوض گندم کا لین دین سود ہے ماسوائے اس کے جو دست بدست ہو۔ جو کے عوض جو کا لین دین سود ہے ماسوائے اس کے جو دست بدست ہو۔ کھجور کے عوض کھجور کا لین دین سود ہے مسوائے اس کے جو دست بدست ہو۔“ حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان نے یہ بات بیان کی ہے اس بارے میں منقول احادیث میں یہ روایت سب سے زیادہ مستند ہے۔ سفیان کی مراد یہ تھی کہ ”بیع صرف“ جو روایت منقول ہیں۔ تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2134، 2170، 2174، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1586، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4572، 4586، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6105، 6120، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3348، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1243، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2620، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2253، 2259، 2260، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10585، 10601، وأحمد فى «مسنده» برقم: 164، 244، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 149، 208، 209، 234، والطبراني فى «الصغير» برقم: 178»
|