وقال عمر صيده ما اصطيد، وطعامه ما رمى به، وقال ابو بكر الطافي حلال. وقال ابن عباس طعامه ميتته إلا ما قذرت منها، والجري لا تاكله اليهود ونحن ناكله. وقال شريح صاحب النبي صلى الله عليه وسلم كل شيء في البحر مذبوح. وقال عطاء اما الطير فارى ان يذبحه. وقال ابن جريج قلت لعطاء صيد الانهار وقلات السيل اصيد بحر هو قال نعم، ثم تلا: {هذا عذب فرات سائغ شرابه وهذا ملح اجاج ومن كل تاكلون لحما طريا}. وركب الحسن- عليه السلام- على سرج من جلود كلاب الماء. وقال الشعبي لو ان اهلي اكلوا الضفادع لاطعمتهم. ولم ير الحسن بالسلحفاة باسا. وقال ابن عباس كل من صيد البحر ما صاده نصراني او يهودي او مجوسي. وقال ابو الدرداء في المري ذبح الخمر النينان والشمس.وَقَالَ عُمَرُ صَيْدُهُ مَا اصْطِيدَ، وَطَعَامُهُ مَا رَمَى بِهِ، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ الطَّافِي حَلاَلٌ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ طَعَامُهُ مَيْتَتُهُ إِلاَّ مَا قَذِرْتَ مِنْهَا، وَالْجِرِّيُّ لاَ تَأْكُلُهُ الْيَهُودُ وَنَحْنُ نَأْكُلُهُ. وَقَالَ شُرَيْحٌ صَاحِبُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّ شَيْءٍ فِي الْبَحْرِ مَذْبُوحٌ. وَقَالَ عَطَاءٌ أَمَّا الطَّيْرُ فَأَرَى أَنْ يَذْبَحَهُ. وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ قُلْتُ لِعَطَاءٍ صَيْدُ الأَنْهَارِ وَقِلاَتِ السَّيْلِ أَصَيْدُ بَحْرٍ هُوَ قَالَ نَعَمْ، ثُمَّ تَلاَ: {هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَائِغٌ شَرَابُهُ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَمِنْ كُلٍّ تَأْكُلُونَ لَحْمًا طَرِيًّا}. وَرَكِبَ الْحَسَنُ- عَلَيْهِ السَّلاَمُ- عَلَى سَرْجٍ مِنْ جُلُودِ كِلاَبِ الْمَاءِ. وَقَالَ الشَّعْبِيُّ لَوْ أَنَّ أَهْلِي أَكَلُوا الضَّفَادِعَ لأَطْعَمْتُهُمْ. وَلَمْ يَرَ الْحَسَنُ بِالسُّلَحْفَاةِ بَأْسًا. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ كُلْ مِنْ صَيْدِ الْبَحْرِ مَا صَادَهُ نَصْرَانِيٌّ أَوْ يَهُودِيٌّ أَوْ مَجُوسِيٌّ. وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ فِي الْمُرِي ذَبَحَ الْخَمْرَ النِّينَانُ وَالشَّمْسُ.
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ دریا کا شکار وہ ہے جو «تدبير» یعنی جال وغیرہ سے شکار کیا جائے اور اس کا کھانا وہ ہے جسے پانی نے باہر پھینک دیا ہو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جو دریا کا جانور مر کر پانی کے اوپر تیر کر آئے وہ حلال ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ”اس کا کھانا“ سے مراد دریا کا مردار ہے، سوا اس کے جو بگڑ گیا ہو۔ بام، جھینگے، مچھلی کو یہودی نہیں کھاتے، لیکن ہم (فراغت سے) کھاتے ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی شریح رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہر دریائی جانور مذبوحہ ہے۔ اسے ذبح کی ضرورت نہیں۔ عطاء نے کہا کہ دریائی پرندے کے متعلق میری رائے ہے کہ اسے ذبح کرے۔ ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاء بن ابی رباح سے پوچھا، کیا نہروں کا شکار اور سیلاب کے گڑھوں کا شکار بھی دریائی شکار ہے (کہ اس کا کھانا بلا ذبح جائز ہو) کہا کہ ہاں۔ پھر انہوں نے (دلیل کے طور پر) سورۃ النحل کی اس آیت کی تلاوت کی «هذا عذب فرات سائغ شرابه وهذا ملح أجاج ومن كل تأكلون لحما طريا» کہ ”یہ دریا بہت زیادہ میٹھا ہے اور یہ دوسرا دریا بہت زیادہ کھارا ہے اور تم ان میں سے ہر ایک سے تازہ گوشت (مچھلی) کھاتے ہو .“ اور حسن رضی اللہ عنہ دریائی کتے کے چمڑے سے بنی ہوئی زین پر سوار ہوئے اور شعبی نے کہا کہ اگر میرے گھر والے مینڈک کھائیں تو میں بھی ان کو کھلاؤں گا اور حسن بصری کچھوا کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ دریائی شکار کھاؤ خواہ نصرانی نے کیا ہو یا کسی یہودی نے کیا ہو یا مجوسی نے کیا ہو اور ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ شراب میں مچھلی ڈال دیں اور سورج کی دھوپ اس پر پڑے تو پھر وہ شراب نہیں رہتی۔
(موقوف) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن ابن جريج، قال: اخبرني عمرو، انه سمع جابرا رضي الله عنه، يقول:" غزونا جيش الخبط، وامر ابو عبيدة فجعنا جوعا شديدا فالقى البحر حوتا ميتا لم ير مثله، يقال له: العنبر، فاكلنا منه نصف شهر، فاخذ ابو عبيدة عظما من عظامه فمر الراكب تحته".(موقوف) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" غَزَوْنَا جَيْشَ الْخَبَطِ، وَأُمِّرَ أَبُو عُبَيْدَةَ فَجُعْنَا جُوعًا شَدِيدًا فَأَلْقَى الْبَحْرُ حُوتًا مَيِّتًا لَمْ يُرَ مِثْلُهُ، يُقَالُ لَهُ: الْعَنْبَرُ، فَأَكَلْنَا مِنْهُ نِصْفَ شَهْرٍ، فَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ عَظْمًا مِنْ عِظَامِهِ فَمَرَّ الرَّاكِبُ تَحْتَهُ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے کہا کہ مجھے عمرو نے خبر دی اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم غزوہ خبط میں شریک تھے، ہمارے امیر الجیش ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ تھے۔ ہم سب بھوک سے بیتاب تھے کہ سمندر نے ایک مردہ مچھلی باہر پھینکی۔ ایسی مچھلی دیکھی نہیں گئی تھی۔ اسے عنبر کہتے تھے، ہم نے وہ مچھلی پندرہ دن تک کھائی۔ پھر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی ایک ہڈی لے کر (کھڑی کر دی) تو وہ اتنی اونچی تھی کہ ایک سوار اس کے نیچے سے گزر گیا۔
Narrated Jabir: We went out in a campaign and the army was called The Army of the Khabt, and Abu 'Ubaida was our commander. We were struck with severe hunger. Then the sea threw a huge dead fish called Al- `Anbar, the like of which had never been seen. We ate of it for half a month, and then Abu 'Ubaida took one of its bones (and made an arch of it) so that a rider could easily pass under it.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 67, Number 401
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، اخبرنا سفيان، عن عمرو، قال: سمعت جابرا، يقول:" بعثنا النبي صلى الله عليه وسلم ثلاث مائة راكب، واميرنا ابو عبيدة نرصد عيرا لقريش فاصابنا جوع شديد حتى اكلنا الخبط، فسمي جيش الخبط، والقى البحر حوتا، يقال له: العنبر، فاكلنا نصف شهر، وادهنا بودكه حتى صلحت اجسامنا، قال: فاخذ ابو عبيدة ضلعا من اضلاعه فنصبه فمر الراكب تحته وكان فينا رجل، فلما اشتد الجوع نحر ثلاث جزائر، ثم ثلاث جزائر، ثم نهاه ابو عبيدة".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرًا، يَقُولُ:" بَعَثَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مِائَةِ رَاكِبٍ، وَأَمِيرُنَا أَبُو عُبَيْدَةَ نَرْصُدُ عِيرًا لِقُرَيْشٍ فَأَصَابَنَا جُوعٌ شَدِيدٌ حَتَّى أَكَلْنَا الْخَبَطَ، فَسُمِّيَ جَيْشَ الْخَبَطِ، وَأَلْقَى الْبَحْرُ حُوتًا، يُقَالُ لَهُ: الْعَنْبَرُ، فَأَكَلْنَا نِصْفَ شَهْرٍ، وَادَّهَنَّا بِوَدَكِهِ حَتَّى صَلَحَتْ أَجْسَامُنَا، قَالَ: فَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ ضِلَعًا مِنْ أَضْلَاعِهِ فَنَصَبَهُ فَمَرَّ الرَّاكِبُ تَحْتَهُ وَكَانَ فِينَا رَجُلٌ، فَلَمَّا اشْتَدَّ الْجُوعُ نَحَرَ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ثُمَّ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ثُمَّ نَهَاهُ أَبُو عُبَيْدَةَ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، ان سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سو سوار روانہ کئے۔ ہمارے امیر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ تھے۔ ہمیں قریش کے تجارتی قافلہ کی نقل و حرکت پر نظر رکھنی تھی پھر (کھانا ختم ہو جانے کی وجہ سے) ہم سخت بھوک اور فاقہ کی حالت میں تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ہم سلم کے پتے (خبط) کھا کر وقت گزارتے تھے۔ اسی لیے اس مہم کا نام ”جیش الخبط“ پڑ گیا اور سمندر نے ایک مچھلی باہر ڈال دی۔ جس کا نام عنبر تھا۔ ہم نے اسے آدھے مہینہ تک کھایا اور اس کی چربی تیل کے طور پر اپنے جسم پر ملی جس سے ہمارے جسم تندرست ہو گئے۔ بیان کیا کہ پھر ابو عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے اس کی ایک پسلی کی ہڈی لے کر کھڑی کی تو ایک سوار اس کے نیچے سے گزر گیا۔ ہمارے ساتھ ایک صاحب (قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما) تھے جب ہم بہت زیادہ بھوکے ہوئے تو انہوں نے یکے بعد دیگر تین اونٹ ذبح کر دیئے۔ بعد میں ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے انہیں اس سے منع کر دیا۔
Narrated Jabir: The Prophet sent us as an army unit of three hundred warriors under the command of Abu 'Ubaida to ambush a caravan of the Quraish. But we were struck with such severe hunger that we ate the Khabt (desert bushes), so our army was called the Army of the Khabt. Then the sea threw a huge fish called Al-`Anbar and we ate of it for half a month and rubbed our bodies with its fat till our bodies became healthy. Then Abu Ubaida took one of its ribs and fixed it over the ground and a rider passed underneath it. There was a man amongst us who slaughtered three camels when hunger became severe, and he slaughtered three more, but after that Abu 'Ubaida forbade him to do so.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 67, Number 402