Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ
کتاب: ذبیح اور شکار کے بیان میں
12. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ} :
باب: سورۃ المائدہ کی اس آیت کی تفسیر کہ ”حلال کیا گیا ہے تمہارے لیے دریا کا شکار کھانا“۔
حدیث نمبر: 5493
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" غَزَوْنَا جَيْشَ الْخَبَطِ، وَأُمِّرَ أَبُو عُبَيْدَةَ فَجُعْنَا جُوعًا شَدِيدًا فَأَلْقَى الْبَحْرُ حُوتًا مَيِّتًا لَمْ يُرَ مِثْلُهُ، يُقَالُ لَهُ: الْعَنْبَرُ، فَأَكَلْنَا مِنْهُ نِصْفَ شَهْرٍ، فَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ عَظْمًا مِنْ عِظَامِهِ فَمَرَّ الرَّاكِبُ تَحْتَهُ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے کہا کہ مجھے عمرو نے خبر دی اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم غزوہ خبط میں شریک تھے، ہمارے امیر الجیش ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ تھے۔ ہم سب بھوک سے بیتاب تھے کہ سمندر نے ایک مردہ مچھلی باہر پھینکی۔ ایسی مچھلی دیکھی نہیں گئی تھی۔ اسے عنبر کہتے تھے، ہم نے وہ مچھلی پندرہ دن تک کھائی۔ پھر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی ایک ہڈی لے کر (کھڑی کر دی) تو وہ اتنی اونچی تھی کہ ایک سوار اس کے نیچے سے گزر گیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5493 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5493  
حدیث حاشیہ:
یہ غزوہ سنہ 8ھ میں کیا گیا تھا۔
جس میں بھوک کی وجہ سے لوگوں نے پتے کھائے۔
اسی لیے اسے جیش الخبط کہا گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5493   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5493  
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ غزوہ 8 ہجری میں ہوا۔
خبط ایک درخت کے پتے ہیں جسے اونٹ کھاتے ہیں۔
اس جنگ میں بھوک کی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو درختوں کے پتے کھانے پڑے، اس لیے اس جنگ کا نام "جیش الخبط" مشہور ہوا۔
اس وقت فاقے کا عالم تھا کہ فی کس ایک کھجور روزانہ ملتی تھی۔
ایسے حالات میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سمندر کی طرف گئے تو وہاں پہاڑ کی مانند ایک بہت بڑی مچھلی دیکھی۔
وہ اتنی بڑی تھی کہ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی گئیں تو اونٹ ان کے نیچے سے نکل گیا اور پسلیوں کی بلندی تک نہ پہنچ سکا۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے مچھلی کو اضطراری حالت میں نہیں کھایا بلکہ یہ ان کے لیے حلال اور مباح تھی جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ جب ہم مدینہ طیبہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ نے فرمایا:
یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے رزق تھا۔
اگر اس میں سے کوئی باقی بچا ہے تو ہمیں بھی کھلاؤ۔
چنانچہ انہوں نے کچھ باقی ماندہ ٹکڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا اور آپ نے تناول فرمایا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4362)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5493