من كتاب العيدين عیدین کے مسائل 224. باب إِذَا اجْتَمَعَ عِيدَانِ في يَوْمٍ: عید و جمعہ ایک ہی دن پڑ جائے تو کیا کریں
ایاس بن ابی رملہ نے کہا: میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ موجود تھا کہ انہوں نے سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا تم نے عید اور جمعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دن میں پایا تھا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تب پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا؟ زید نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھ لی پھر جمعہ میں رخصت دی اور فرمایا: ”جس کا جی چاہے پڑھ لے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1653]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1070]، [نسائي 1590]، [ابن ماجه 1310، وغيرهم] وضاحت:
(تشریح حدیث 1650) صحیح ابن خزیمہ میں ہے: اور جس کا جی نہ چاہے نہ پڑ ھے مگر نمازِ ظہر ضروری پڑھنی ہے۔ اس حدیث میں عید اور جمعہ ایک دن پڑ جانے پر عید کی نماز پڑھ لینے کے بعد اختیار دیا گیا ہے کہ چاہے تو جمعہ پڑھے اور چاہے تو ظہر کی نماز پڑھ لے۔ افضل ترین یہ ہے کہ امام اگر جمعہ پڑھائے تو جمعہ پڑھ لیا جائے، اور اگر ظہر کی نماز پڑھائے تو ظہر کی نماز پڑھ لے، انفرادی طور پر کوئی عمل اختیار کرنا مناسب نہیں۔ اس حدیث میں اسلافِ کرام کا آپس میں ایک دوسرے کا احترام کرنا بھی معلوم ہوا، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کس طرح سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے معلومات حاصل کر رہے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ میرا مرتبہ و مقام تو ان سے بلند ہے میں کیوں ان سے سوال کروں۔ «(رضي اللّٰه عنهم و أرضاهم)» قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کی نماز کے لئے نکلتے تو واپس دوسرے راستے سے ہوتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1654]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [بخاري 986]، [ترمذي 541]، [ابن حبان 2815]، [موارد الظمآن 592] وضاحت:
(تشریح حدیث 1651) اس حدیث سے عید کی نماز کے لئے ایک راستے سے جانا اور دوسرے سے واپس آنے کی سنّت معلوم ہوئی تاکہ ہر طرف کے اشجار و احجار اور بقعات الارض پر نقش ثبت ہوں، اور قیامت کے دن اس اطاعت و فرماں برداری کی سب شہادت دیں (واللہ اعلم)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
|