نکاح کے مسائل لونڈی کو آزاد کرنے اور اس سے شادی کرنے کا بیان۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خیبر میں آئے تو ہم نے خیبر کے پاس صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بھی سوار ہو گئے اور میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے سوار تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی سواری کو) خیبر میں داخل کر دیا اور میرا گھٹنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کو لگ رہا تھا (کیونکہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے چادر ہٹ گئی تھی، اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کی سفیدی دیکھ رہا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستی (خیبر) میں داخل ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ((”اﷲاکبر خربت خیبر“)) کا نعرہ لگایا یعنی اللہ سب سے بڑا ہے اور خیبر برباد ہو گیا۔ اور فرمایا جب ہم کسی قوم کے صحن (میدان) میں اترے (تو جس قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا جا رہا ہے اس کی صبح بری ہوئی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ (نعرے) تین مرتبہ لگائے۔ سیدنا انس نے کہا کہ قوم (یہود) اپنے کام کاج کے لئے جا رہی تھی۔ (وہ لشکر کو دیکھ کر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سن کر) کہنے لگے کہ اللہ کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لشکر کے ساتھ پہنچ گئے ہیں۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے خیبر کو طاقت کے ساتھ فتح کیا اور قیدی ایک جگہ اکٹھے کئے گئے۔ پھر سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! قیدیوں میں سے مجھے کوئی لونڈی دے دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ اور کوئی سی بھی لونڈی لے لو۔ انہوں نے صفیہ رضی اللہ عنہا (جو کہ قیدیوں میں تھیں) کو پسند کیا اور لے گئے، تو ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے دحیہ رضی اللہ عنہ کو صفیہ بنت حیی دیدی جو کہ بنو قریظہ اور بنو نظیر کے سردار کی بیٹی ہے، وہ صرف آپ کو ہی لائق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دحیہ رضی اللہ عنہ اور اس باندی کو بلاؤ۔ وہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو لائے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دحیہ رضی اللہ عنہ سے) فرمایا کہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کوئی اور لونڈی لے لو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کر کے ان سے شادی کر لی۔ ثابت نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اے ابوحمزہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو (یعنی ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو) حق مہر کتنا دیا تھا؟ تو انس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ان کا مہر ان کی اپنی ذات تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو آزاد کیا اور نکاح کر لیا (یہی آزادی ان کا حق مہر تھا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی سفر میں ہی تھے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو بنایا سنوارا اور تیار کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا دیا۔ صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عروس کی حالت میں کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے پاس کھانے کی کوئی چیز ہو تو وہ لے آئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دسترخوان بچھا دیا تو کوئی شخص پنیر لایا تو کوئی کھجور لایا اور کوئی گھی لے آیا۔ صحابہ کرام نے ان تمام چیزوں کو ملا کر حسیس بنائی (اور کھائی) یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اپنی لونڈی کو آزاد کرے اور پھر اس سے نکاح کر لے تو اس کو دوہرا ثواب ہے۔
|