صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
كِتَاب الْعِتْقِ
کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں
The Book of Manumission (of Slaves)
13. بَابُ مَنْ مَلَكَ مِنَ الْعَرَبِ رَقِيقًا فَوَهَبَ وَبَاعَ وَجَامَعَ وَفَدَى وَسَبَى الذُّرِّيَّةَ:
باب: اگر عربوں پر جہاد ہو اور کوئی ان کو غلام بنائے پھر ہبہ کرے یا عربی لونڈی سے جماع کرے یا فدیہ لے یہ سب باتیں درست ہیں یا بچوں کو قید کرے۔
(13) Chapter. Whoever possessed Arab slaves and gave them as a presents, or sold them, or had a sexual relation with the females among them, or accepted their ransom, or took their offspring as captives.
حدیث نمبر: Q2539
Save to word اعراب English
وقوله تعالى: ضرب الله مثلا عبدا مملوكا لا يقدر على شيء ومن رزقناه منا رزقا حسنا فهو ينفق منه سرا وجهرا هل يستوون الحمد لله بل اكثرهم لا يعلمون سورة النحل آية 75.وَقَوْلِهِ تَعَالَى: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلا عَبْدًا مَمْلُوكًا لا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ وَمَنْ رَزَقْنَاهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَجَهْرًا هَلْ يَسْتَوُونَ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لا يَعْلَمُونَ سورة النحل آية 75.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ النحل میں) فرمایا «ضرب الله مثلا عبدا مملوكا لا يقدر على شىء ومن رزقناه منا رزقا حسنا فهو ينفق منه سرا وجهرا هل يستوون الحمد لله بل أكثرهم لا يعلمون» اللہ تعالیٰ نے ایک مملوک غلام کی مثال بیان کی ہے جو بےبس ہو اور ایک وہ شخص جسے ہم نے اپنی طرف سے روزی دی ہو، وہ اس میں پوشیدہ اور ظاہرہ خرچ بھی کرتا ہو کیا یہ دونوں شخص برابر ہیں (ہرگز نہیں) تمام تعریف اللہ کے لیے ہے۔ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں۔
حدیث نمبر: 2539
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابن ابي مريم، قال: اخبرنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، ذكر عروة، ان مروان، والمسور بن مخرمة اخبراه،" ان النبي صلى الله عليه وسلم قام حين جاءه وفد هوازن، فسالوه ان يرد إليهم اموالهم وسبيهم؟ فقال: إن معي من ترون، واحب الحديث إلي اصدقه، فاختاروا إحدى الطائفتين، إما المال، وإما السبي، وقد كنت استانيت بهم، وكان النبي صلى الله عليه وسلم انتظرهم بضع عشرة ليلة حين قفل من الطائف، فلما تبين لهم ان النبي صلى الله عليه وسلم غير راد إليهم إلا إحدى الطائفتين، قالوا: فإنا نختار سبينا، فقام النبي صلى الله عليه وسلم في الناس فاثنى على الله بما هو اهله، ثم قال: اما بعد،" فإن إخوانكم قد جاءونا تائبين، وإني رايت ان ارد إليهم سبيهم، فمن احب منكم ان يطيب ذلك فليفعل، ومن احب ان يكون على حظه حتى نعطيه إياه من اول ما يفيء الله علينا فليفعل، فقال الناس: طيبنا لك ذلك، قال: إنا لا ندري من اذن منكم ممن لم ياذن، فارجعوا حتى يرفع إلينا عرفاؤكم امركم، فرجع الناس فكلمهم عرفاؤهم، ثم رجعوا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبروه انهم طيبوا واذنوا، فهذا الذي بلغنا عن سبي هوازن". وقال انس: قال عباس للنبي صلى الله عليه وسلم: فاديت نفسي وفاديت عقيلا.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ذَكَرَ عُرْوَةُ، أَنَّ مَرْوَانَ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ، فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ؟ فَقَالَ: إِنَّ مَعِي مَنْ تَرَوْنَ، وَأَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ، فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ، إِمَّا الْمَالَ، وَإِمَّا السَّبْيَ، وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِهِمْ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَظَرَهُمْ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنْ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ، قَالُوا: فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ،" فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ قَدْ جَاءُونَا تَائِبِينَ، وَإِنِّي رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ، فَقَالَ النَّاسُ: طَيَّبْنَا لَكَ ذَلِكَ، قَالَ: إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ، فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا، فَهَذَا الَّذِي بَلَغَنَا عَنْ سَبْيِ هَوَازِنَ". وَقَالَ أَنَسٌ: قَالَ عَبَّاسٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَادَيْتُ نَفْسِي وَفَادَيْتُ عَقِيلًا.
ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ مجھے لیث نے خبر دی، انہیں عقیل نے، انہیں ابن شہاب نے کہ عروہ نے ذکر کیا کہ مروان اور مسور بن مخرمہ نے انہیں خبر دی کہ جب قبیلہ ہوازن کی بھیجے ہوئے لوگ (مسلمان ہو کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ان سے ملاقات فرمائی، پھر ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے درخواست کی کہ ان کے اموال اور قیدی واپس کر دیے جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے (خطبہ سنایا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دیکھتے ہو میرے ساتھ جو لوگ ہیں (میں اکیلا ہوتا تو تم کو واپس کر دیتا) اور بات وہی مجھے پسند ہے جو سچ ہو۔ اس لیے دو چیزوں میں سے ایک ہی تمہیں اختیار کرنی ہو گی، یا اپنا مال واپس لے لو، یا اپنے قیدیوں کو چھڑا لو، اسی لیے میں نے ان کی تقسیم میں بھی دیر کی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے لوٹتے ہوئے (جعرانہ میں) ہوازن والوں کا وہاں پر کئی راتوں تک انتظار کیا تھا۔ جب ان لوگوں پر یہ بات پوری طرح ظاہر ہو گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو چیزوں (مال اور قیدی) میں سے صرف ایک ہی کو واپس فرما سکتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ ہمیں ہمارے آدمی ہی واپس کر دیجئیے جو آپ کی قید میں ہیں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے خطاب فرمایا، اللہ کی تعریف اس کی شان کے مطابق کرنے کے بعد فرمایا امابعد! یہ تمہارے بھائی ہمارے پاس نادم ہو کر آئے ہیں اور میرا بھی خیال یہ ہے کہ ان کے آدمی جو ہماری قید میں ہیں، انہیں واپس کر دیے جائیں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے ان کے آدمیوں کو واپس کرے وہ ایسا کر لے اور جو شخص اپنے حصے کو چھوڑنا نہ چاہے (اور اس شرط پر اپنے قیدیوں کو آزاد کرنے کے لیے تیار ہو کہ ان قیدیوں کے بدلے میں) ہم اسے اس کے بعد سب سے پہلی مال غنیمت میں سے جو اللہ تعالیٰ ہمیں دے گا اس کے (اس) حصے کا بدلہ اس کے حوالہ کر دیں گے تو وہ ایسا کر لے۔ لوگ اس پر بول پڑے کہ ہم اپنی خوشی سے قیدی کو واپس کرنے کے لیے تیار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا لیکن ہم پر یہ ظاہر نہ ہو سکا کہ کس نے ہمیں اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے۔ اس لیے سب لوگ (اپنے خیموں میں) واپس جائیں اور سب کے ذمہ دار آ کر ان کی رائے سے ہمیں آگاہ کریں۔ چنانچہ سب لوگ چلے آئے اور ان کے سرداروں نے (ان سے گفتگو کی) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ سب نے اپنی خوشی سے اجازت دے دی ہے۔ یہی وہ خبر ہے جو ہمیں ہوازن کے قیدیوں کے سلسلے میں معلوم ہوئی ہے۔ (زہری نے کہا) اور انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (جب بحرین سے مال آیا) کہا تھا کہ (بدر کے موقع پر) میں نے اپنا بھی فدیہ دیا تھا اور عقیل رضی اللہ عنہ کا بھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Marwan and Al-Miswar bin Makhrama: When the delegates of the tribe of Hawazin came to the Prophet and they requested him to return their properties and captives. The Prophet stood up and said to them, "I have other people with me in this matter (as you see) and the most beloved statement to me is the true one; you may choose either the properties or the prisoners as I have delayed their distribution." The Prophet had waited for them for more than ten days since his arrival from Ta'if. So, when it became evident to them that the Prophet was not going to return them except one of the two, they said, "We choose our prisoners." The Prophet got up amongst the people and glorified and praised Allah as He deserved and said, "Then after, these brethren of yours have come to us with repentance, and I see it logical to return them the captives. So, whoever amongst you likes to do that as a favor, then he can do it, and whoever of you likes to stick to his share till we recompense him from the very first war booty which Allah will give us, then he can do so (i.e. give up the present captives)." The people unanimously said, "We do that (return the captives) willingly." The Prophet said, "We do not know which of you has agreed to it and which have not, so go back and let your leaders forward us your decision." So, all the people then went back and discussed the matter with their leaders who returned and informed the Prophet that all the people had willingly given their consent to return the captives. This is what has reached us about the captives of Hawazin. Narrated Anas that `Abbas said to the Prophet, "I paid for my ransom and `Aqil's ransom."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 46, Number 716


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 2540
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابن ابي مريم، قال: اخبرنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، ذكر عروة، ان مروان، والمسور بن مخرمة اخبراه،" ان النبي صلى الله عليه وسلم قام حين جاءه وفد هوازن، فسالوه ان يرد إليهم اموالهم وسبيهم؟ فقال: إن معي من ترون، واحب الحديث إلي اصدقه، فاختاروا إحدى الطائفتين، إما المال، وإما السبي، وقد كنت استانيت بهم، وكان النبي صلى الله عليه وسلم انتظرهم بضع عشرة ليلة حين قفل من الطائف، فلما تبين لهم ان النبي صلى الله عليه وسلم غير راد إليهم إلا إحدى الطائفتين، قالوا: فإنا نختار سبينا، فقام النبي صلى الله عليه وسلم في الناس فاثنى على الله بما هو اهله، ثم قال: اما بعد،" فإن إخوانكم قد جاءونا تائبين، وإني رايت ان ارد إليهم سبيهم، فمن احب منكم ان يطيب ذلك فليفعل، ومن احب ان يكون على حظه حتى نعطيه إياه من اول ما يفيء الله علينا فليفعل، فقال الناس: طيبنا لك ذلك، قال: إنا لا ندري من اذن منكم ممن لم ياذن، فارجعوا حتى يرفع إلينا عرفاؤكم امركم، فرجع الناس فكلمهم عرفاؤهم، ثم رجعوا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبروه انهم طيبوا واذنوا، فهذا الذي بلغنا عن سبي هوازن". وقال انس: قال عباس للنبي صلى الله عليه وسلم: فاديت نفسي وفاديت عقيلا.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ذَكَرَ عُرْوَةُ، أَنَّ مَرْوَانَ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ، فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ؟ فَقَالَ: إِنَّ مَعِي مَنْ تَرَوْنَ، وَأَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ، فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ، إِمَّا الْمَالَ، وَإِمَّا السَّبْيَ، وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِهِمْ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَظَرَهُمْ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنْ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ، قَالُوا: فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ،" فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ قَدْ جَاءُونَا تَائِبِينَ، وَإِنِّي رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ، فَقَالَ النَّاسُ: طَيَّبْنَا لَكَ ذَلِكَ، قَالَ: إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ، فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا، فَهَذَا الَّذِي بَلَغَنَا عَنْ سَبْيِ هَوَازِنَ". وَقَالَ أَنَسٌ: قَالَ عَبَّاسٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَادَيْتُ نَفْسِي وَفَادَيْتُ عَقِيلًا.
ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ مجھے لیث نے خبر دی، انہیں عقیل نے، انہیں ابن شہاب نے کہ عروہ نے ذکر کیا کہ مروان اور مسور بن مخرمہ نے انہیں خبر دی کہ جب قبیلہ ہوازن کی بھیجے ہوئے لوگ (مسلمان ہو کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ان سے ملاقات فرمائی، پھر ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے درخواست کی کہ ان کے اموال اور قیدی واپس کر دیے جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے (خطبہ سنایا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دیکھتے ہو میرے ساتھ جو لوگ ہیں (میں اکیلا ہوتا تو تم کو واپس کر دیتا) اور بات وہی مجھے پسند ہے جو سچ ہو۔ اس لیے دو چیزوں میں سے ایک ہی تمہیں اختیار کرنی ہو گی، یا اپنا مال واپس لے لو، یا اپنے قیدیوں کو چھڑا لو، اسی لیے میں نے ان کی تقسیم میں بھی دیر کی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے لوٹتے ہوئے (جعرانہ میں) ہوازن والوں کا وہاں پر کئی راتوں تک انتظار کیا تھا۔ جب ان لوگوں پر یہ بات پوری طرح ظاہر ہو گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو چیزوں (مال اور قیدی) میں سے صرف ایک ہی کو واپس فرما سکتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ ہمیں ہمارے آدمی ہی واپس کر دیجئیے جو آپ کی قید میں ہیں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے خطاب فرمایا، اللہ کی تعریف اس کی شان کے مطابق کرنے کے بعد فرمایا امابعد! یہ تمہارے بھائی ہمارے پاس نادم ہو کر آئے ہیں اور میرا بھی خیال یہ ہے کہ ان کے آدمی جو ہماری قید میں ہیں، انہیں واپس کر دیے جائیں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے ان کے آدمیوں کو واپس کرے وہ ایسا کر لے اور جو شخص اپنے حصے کو چھوڑنا نہ چاہے (اور اس شرط پر اپنے قیدیوں کو آزاد کرنے کے لیے تیار ہو کہ ان قیدیوں کے بدلے میں) ہم اسے اس کے بعد سب سے پہلی مال غنیمت میں سے جو اللہ تعالیٰ ہمیں دے گا اس کے (اس) حصے کا بدلہ اس کے حوالہ کر دیں گے تو وہ ایسا کر لے۔ لوگ اس پر بول پڑے کہ ہم اپنی خوشی سے قیدی کو واپس کرنے کے لیے تیار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا لیکن ہم پر یہ ظاہر نہ ہو سکا کہ کس نے ہمیں اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے۔ اس لیے سب لوگ (اپنے خیموں میں) واپس جائیں اور سب کے ذمہ دار آ کر ان کی رائے سے ہمیں آگاہ کریں۔ چنانچہ سب لوگ چلے آئے اور ان کے سرداروں نے (ان سے گفتگو کی) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ سب نے اپنی خوشی سے اجازت دے دی ہے۔ یہی وہ خبر ہے جو ہمیں ہوازن کے قیدیوں کے سلسلے میں معلوم ہوئی ہے۔ (زہری نے کہا) اور انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (جب بحرین سے مال آیا) کہا تھا کہ (بدر کے موقع پر) میں نے اپنا بھی فدیہ دیا تھا اور عقیل رضی اللہ عنہ کا بھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Marwan and Al-Miswar bin Makhrama: When the delegates of the tribe of Hawazin came to the Prophet and they requested him to return their properties and captives. The Prophet stood up and said to them, "I have other people with me in this matter (as you see) and the most beloved statement to me is the true one; you may choose either the properties or the prisoners as I have delayed their distribution." The Prophet had waited for them for more than ten days since his arrival from Ta'if. So, when it became evident to them that the Prophet was not going to return them except one of the two, they said, "We choose our prisoners." The Prophet got up amongst the people and glorified and praised Allah as He deserved and said, "Then after, these brethren of yours have come to us with repentance, and I see it logical to return them the captives. So, whoever amongst you likes to do that as a favor, then he can do it, and whoever of you likes to stick to his share till we recompense him from the very first war booty which Allah will give us, then he can do so (i.e. give up the present captives)." The people unanimously said, "We do that (return the captives) willingly." The Prophet said, "We do not know which of you has agreed to it and which have not, so go back and let your leaders forward us your decision." So, all the people then went back and discussed the matter with their leaders who returned and informed the Prophet that all the people had willingly given their consent to return the captives. This is what has reached us about the captives of Hawazin. Narrated Anas that `Abbas said to the Prophet, "I paid for my ransom and `Aqil's ransom."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 46, Number 716


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 2541
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن الحسن بن شقيق، اخبرنا عبد الله، اخبرنا ابن عون، قال: كتبت إلى نافع فكتب إلي،" إن النبي صلى الله عليه وسلم اغار على بني المصطلق وهم غارون، وانعامهم تسقى على الماء، فقتل مقاتلتهم وسبى ذراريهم واصاب يومئذ جويرية". حدثني به عبد الله بن عمر، وكان في ذلك الجيش.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ، قَالَ: كَتَبْتُ إِلَى نَافِعٍ فَكَتَبَ إِلَيَّ،" إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَغَارَ عَلَى بَنِي الْمُصْطَلِقِ وَهُمْ غَارُّونَ، وَأَنْعَامُهُمْ تُسْقَى عَلَى الْمَاءِ، فَقَتَلَ مُقَاتِلَتَهُمْ وَسَبَى ذَرَارِيَّهُمْ وَأَصَابَ يَوْمَئِذٍ جُوَيْرِيَةَ". حَدَّثَنِي بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَكَانَ فِي ذَلِكَ الْجَيْشِ.
ہم سے علی بن حسن نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو ابن عون نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نافع رحمہ اللہ کو لکھا تو انہوں نے مجھے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو مصطلق پر جب حملہ کیا تو وہ بالکل غافل تھے اور ان کے مویشی پانی پی رہے تھے۔ ان کے لڑنے والوں کو قتل کیا گیا، عورتوں بچوں کو قید کر لیا گیا۔ انہیں قیدیوں میں جویریہ رضی اللہ عنہا (ام المؤمنین) بھی تھیں۔ (نافع رحمہ اللہ نے لکھا تھا کہ) یہ حدیث مجھ سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کی تھی، وہ خود بھی اسلامی فوج کے ہمراہ تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Aun: I wrote a letter to Nafi` and Nafi` wrote in reply to my letter that the Prophet had suddenly attacked Bani Mustaliq without warning while they were heedless and their cattle were being watered at the places of water. Their fighting men were killed and their women and children were taken as captives; the Prophet got Juwairiya on that day. Nafi` said that Ibn `Umar had told him the above narration and that Ibn `Umar was in that army.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 46, Number 717


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 2542
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن ابن محيريز، قال: رايت ابا سعيد رضي الله عنه، فسالته، فقال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة بني المصطلق، فاصبنا سبيا من سبي العرب، فاشتهينا النساء، فاشتدت علينا العزبة، واحببنا العزل، فسالنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" ما عليكم ان لا تفعلوا ما من نسمة كائنة إلى يوم القيامة إلا وهي كائنة".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ، قَالَ: رَأَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ بَنِي الْمُصْطَلِقِ، فَأَصَبْنَا سَبْيًا مِنْ سَبْيِ الْعَرَبِ، فَاشْتَهَيْنَا النِّسَاءَ، فَاشْتَدَّتْ عَلَيْنَا الْعُزْبَةُ، وَأَحْبَبْنَا الْعَزْلَ، فَسَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَفْعَلُوا مَا مِنْ نَسَمَةٍ كَائِنَةٍ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِلَّا وَهِيَ كَائِنَةٌ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے، انہیں محمد بن یحییٰ بن حبان نے، ان سے ابن محیریز نے کہ میں نے ابوسعید رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو ان سے ایک سوال کیا، آپ نے جواب میں کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بنی مصطلق کے لیے نکلے۔ اس غزوے میں ہمیں (قبیلہ بنی مصطلق کے) عرب قیدی ہاتھ آئے (راستے ہی میں) ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی اور عورت سے الگ رہنا ہم کو مشکل ہو گیا۔ ہم نے چاہا کہ عزل کر لیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم عزل کر سکتے ہو، اس میں کوئی قباحت نہیں لیکن جن روحوں کی بھی قیامت تک کے لیے پیدائش مقدر ہو چکی ہے وہ تو ضرور پیدا ہو کر رہیں گی (لہٰذا تمہارا عزل کرنا بیکار ہے)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn Muhairiz: I saw Abu Sa`id and asked him about coitus interruptus. Abu Sa`id said, "We went with Allah's Apostle, in the Ghazwa of Bani Al-Mustaliq and we captured some of the 'Arabs as captives, and the long separation from our wives was pressing us hard and we wanted to practice coitus interruptus. We asked Allah's Apostle (whether it was permissible). He said, "It is better for you not to do so. No soul, (that which Allah has) destined to exist, up to the Day of Resurrection, but will definitely come, into existence."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 46, Number 718


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 2543
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا زهير بن حرب، حدثنا جرير، عن عمارة بن القعقاع، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: لا ازال احب بني تميم، وحدثني ابن سلام، اخبرنا جرير بن عبد الحميد، عن المغيرة، عن الحارث، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة، وعن عمارة، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة، قال:" ما زلت احب بني تميم منذ ثلاث، سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول فيهم، سمعته يقول: هم اشد امتي على الدجال، قال: وجاءت صدقاتهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هذه صدقات قومنا، وكانت سبية منهم عند عائشة، فقال: اعتقيها، فإنها من ولد إسماعيل".(مرفوع) حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَا أَزَالُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ، وحَدَّثَنِي ابْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَنْ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" مَا زِلْتُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ مُنْذُ ثَلَاثٍ، سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِيهِمْ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ: هُمْ أَشَدُّ أُمَّتِي عَلَى الدَّجَّالِ، قَالَ: وَجَاءَتْ صَدَقَاتُهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَذِهِ صَدَقَاتُ قَوْمِنَا، وَكَانَتْ سَبِيَّةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ عَائِشَةَ، فَقَالَ: أَعْتِقِيهَا، فَإِنَّهَا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ".
ہم سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے عمارہ بن قعقاع، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا رہا ہوں (دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا) مجھ سے ابن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو جریر بن عبدالحمید نے خبر دی، انہیں مغیرہ نے، انہیں حارث نے، انہیں ابوزرعہ نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے، (تیسری سند) اور مغیرہ نے عمارہ سے روایت کی، انہوں نے ابوزرعہ سے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، تین باتوں کی وجہ سے جنہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ دجال کے مقابلے میں میری امت میں سب سے زیادہ سخت مخالف ثابت ہوں گے۔ انہوں نے بیان کیا کہ (ایک مرتبہ) بنو تمیم کے یہاں سے زکوٰۃ (وصول ہو کر آئی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ہماری قوم کی زکوٰۃ ہے۔ بنو تمیم کی ایک عورت قید ہو کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اسے آزاد کر دے کہ یہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: I have loved the people of the tribe of Bani Tamim ever since I heard, three things, Allah's Apostle said about them. I heard him saying, These people (of the tribe of Bani Tamim) would stand firm against Ad-Dajjal." When the Sadaqat (gifts of charity) from that tribe came, Allah's Apostle said, "These are the Sadaqat (i.e. charitable gifts) of our folk." `Aisha had a slave-girl from that tribe, and the Prophet said to `Aisha, "Manumit her as she is a descendant of Ishmael (the Prophet).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 46, Number 719


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.