صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں
The Book of Manumission (of Slaves)
13. بَابُ مَنْ مَلَكَ مِنَ الْعَرَبِ رَقِيقًا فَوَهَبَ وَبَاعَ وَجَامَعَ وَفَدَى وَسَبَى الذُّرِّيَّةَ:
13. باب: اگر عربوں پر جہاد ہو اور کوئی ان کو غلام بنائے پھر ہبہ کرے یا عربی لونڈی سے جماع کرے یا فدیہ لے یہ سب باتیں درست ہیں یا بچوں کو قید کرے۔
(13) Chapter. Whoever possessed Arab slaves and gave them as a presents, or sold them, or had a sexual relation with the females among them, or accepted their ransom, or took their offspring as captives.
حدیث نمبر: Q2539
Save to word اعراب English
وقوله تعالى: ضرب الله مثلا عبدا مملوكا لا يقدر على شيء ومن رزقناه منا رزقا حسنا فهو ينفق منه سرا وجهرا هل يستوون الحمد لله بل اكثرهم لا يعلمون سورة النحل آية 75.وَقَوْلِهِ تَعَالَى: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلا عَبْدًا مَمْلُوكًا لا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ وَمَنْ رَزَقْنَاهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَجَهْرًا هَلْ يَسْتَوُونَ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لا يَعْلَمُونَ سورة النحل آية 75.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ النحل میں) فرمایا «ضرب الله مثلا عبدا مملوكا لا يقدر على شىء ومن رزقناه منا رزقا حسنا فهو ينفق منه سرا وجهرا هل يستوون الحمد لله بل أكثرهم لا يعلمون» اللہ تعالیٰ نے ایک مملوک غلام کی مثال بیان کی ہے جو بےبس ہو اور ایک وہ شخص جسے ہم نے اپنی طرف سے روزی دی ہو، وہ اس میں پوشیدہ اور ظاہرہ خرچ بھی کرتا ہو کیا یہ دونوں شخص برابر ہیں (ہرگز نہیں) تمام تعریف اللہ کے لیے ہے۔ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں۔

حدیث نمبر: 2539
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابن ابي مريم، قال: اخبرنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، ذكر عروة، ان مروان، والمسور بن مخرمة اخبراه،" ان النبي صلى الله عليه وسلم قام حين جاءه وفد هوازن، فسالوه ان يرد إليهم اموالهم وسبيهم؟ فقال: إن معي من ترون، واحب الحديث إلي اصدقه، فاختاروا إحدى الطائفتين، إما المال، وإما السبي، وقد كنت استانيت بهم، وكان النبي صلى الله عليه وسلم انتظرهم بضع عشرة ليلة حين قفل من الطائف، فلما تبين لهم ان النبي صلى الله عليه وسلم غير راد إليهم إلا إحدى الطائفتين، قالوا: فإنا نختار سبينا، فقام النبي صلى الله عليه وسلم في الناس فاثنى على الله بما هو اهله، ثم قال: اما بعد،" فإن إخوانكم قد جاءونا تائبين، وإني رايت ان ارد إليهم سبيهم، فمن احب منكم ان يطيب ذلك فليفعل، ومن احب ان يكون على حظه حتى نعطيه إياه من اول ما يفيء الله علينا فليفعل، فقال الناس: طيبنا لك ذلك، قال: إنا لا ندري من اذن منكم ممن لم ياذن، فارجعوا حتى يرفع إلينا عرفاؤكم امركم، فرجع الناس فكلمهم عرفاؤهم، ثم رجعوا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبروه انهم طيبوا واذنوا، فهذا الذي بلغنا عن سبي هوازن". وقال انس: قال عباس للنبي صلى الله عليه وسلم: فاديت نفسي وفاديت عقيلا.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ذَكَرَ عُرْوَةُ، أَنَّ مَرْوَانَ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ، فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ؟ فَقَالَ: إِنَّ مَعِي مَنْ تَرَوْنَ، وَأَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ، فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ، إِمَّا الْمَالَ، وَإِمَّا السَّبْيَ، وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِهِمْ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَظَرَهُمْ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنْ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ، قَالُوا: فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ،" فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ قَدْ جَاءُونَا تَائِبِينَ، وَإِنِّي رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ، فَقَالَ النَّاسُ: طَيَّبْنَا لَكَ ذَلِكَ، قَالَ: إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ، فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا، فَهَذَا الَّذِي بَلَغَنَا عَنْ سَبْيِ هَوَازِنَ". وَقَالَ أَنَسٌ: قَالَ عَبَّاسٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَادَيْتُ نَفْسِي وَفَادَيْتُ عَقِيلًا.
ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ مجھے لیث نے خبر دی، انہیں عقیل نے، انہیں ابن شہاب نے کہ عروہ نے ذکر کیا کہ مروان اور مسور بن مخرمہ نے انہیں خبر دی کہ جب قبیلہ ہوازن کی بھیجے ہوئے لوگ (مسلمان ہو کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ان سے ملاقات فرمائی، پھر ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے درخواست کی کہ ان کے اموال اور قیدی واپس کر دیے جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے (خطبہ سنایا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دیکھتے ہو میرے ساتھ جو لوگ ہیں (میں اکیلا ہوتا تو تم کو واپس کر دیتا) اور بات وہی مجھے پسند ہے جو سچ ہو۔ اس لیے دو چیزوں میں سے ایک ہی تمہیں اختیار کرنی ہو گی، یا اپنا مال واپس لے لو، یا اپنے قیدیوں کو چھڑا لو، اسی لیے میں نے ان کی تقسیم میں بھی دیر کی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے لوٹتے ہوئے (جعرانہ میں) ہوازن والوں کا وہاں پر کئی راتوں تک انتظار کیا تھا۔ جب ان لوگوں پر یہ بات پوری طرح ظاہر ہو گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو چیزوں (مال اور قیدی) میں سے صرف ایک ہی کو واپس فرما سکتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ ہمیں ہمارے آدمی ہی واپس کر دیجئیے جو آپ کی قید میں ہیں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے خطاب فرمایا، اللہ کی تعریف اس کی شان کے مطابق کرنے کے بعد فرمایا امابعد! یہ تمہارے بھائی ہمارے پاس نادم ہو کر آئے ہیں اور میرا بھی خیال یہ ہے کہ ان کے آدمی جو ہماری قید میں ہیں، انہیں واپس کر دیے جائیں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے ان کے آدمیوں کو واپس کرے وہ ایسا کر لے اور جو شخص اپنے حصے کو چھوڑنا نہ چاہے (اور اس شرط پر اپنے قیدیوں کو آزاد کرنے کے لیے تیار ہو کہ ان قیدیوں کے بدلے میں) ہم اسے اس کے بعد سب سے پہلی مال غنیمت میں سے جو اللہ تعالیٰ ہمیں دے گا اس کے (اس) حصے کا بدلہ اس کے حوالہ کر دیں گے تو وہ ایسا کر لے۔ لوگ اس پر بول پڑے کہ ہم اپنی خوشی سے قیدی کو واپس کرنے کے لیے تیار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا لیکن ہم پر یہ ظاہر نہ ہو سکا کہ کس نے ہمیں اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے۔ اس لیے سب لوگ (اپنے خیموں میں) واپس جائیں اور سب کے ذمہ دار آ کر ان کی رائے سے ہمیں آگاہ کریں۔ چنانچہ سب لوگ چلے آئے اور ان کے سرداروں نے (ان سے گفتگو کی) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ سب نے اپنی خوشی سے اجازت دے دی ہے۔ یہی وہ خبر ہے جو ہمیں ہوازن کے قیدیوں کے سلسلے میں معلوم ہوئی ہے۔ (زہری نے کہا) اور انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (جب بحرین سے مال آیا) کہا تھا کہ (بدر کے موقع پر) میں نے اپنا بھی فدیہ دیا تھا اور عقیل رضی اللہ عنہ کا بھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Marwan and Al-Miswar bin Makhrama: When the delegates of the tribe of Hawazin came to the Prophet and they requested him to return their properties and captives. The Prophet stood up and said to them, "I have other people with me in this matter (as you see) and the most beloved statement to me is the true one; you may choose either the properties or the prisoners as I have delayed their distribution." The Prophet had waited for them for more than ten days since his arrival from Ta'if. So, when it became evident to them that the Prophet was not going to return them except one of the two, they said, "We choose our prisoners." The Prophet got up amongst the people and glorified and praised Allah as He deserved and said, "Then after, these brethren of yours have come to us with repentance, and I see it logical to return them the captives. So, whoever amongst you likes to do that as a favor, then he can do it, and whoever of you likes to stick to his share till we recompense him from the very first war booty which Allah will give us, then he can do so (i.e. give up the present captives)." The people unanimously said, "We do that (return the captives) willingly." The Prophet said, "We do not know which of you has agreed to it and which have not, so go back and let your leaders forward us your decision." So, all the people then went back and discussed the matter with their leaders who returned and informed the Prophet that all the people had willingly given their consent to return the captives. This is what has reached us about the captives of Hawazin. Narrated Anas that `Abbas said to the Prophet, "I paid for my ransom and `Aqil's ransom."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 46, Number 716


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2539 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2539  
حدیث حاشیہ:
یہ طویل حدیث حضرت امام بخاری ؒ کئی جگہ لائے ہیں اور اس سے آپ نے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے۔
حضرت امام نے باب منعقدہ کے ذیل آیت قرآنی کو نقل فرمایا جس سے آپ نے باب کا مطلب یوں ثابت کیا کہ آیت میں یہ قید نہیں ہے کہ وہ غلام عرب کا نہ ہو عجمی ہو بلکہ عربی اور عجمی دونوں کو شامل ہے۔
حدیث میں قبیلہ عربی ہوازن کے قیدیوں کا ذکر ہے جو جنگ ہوازن میں کامیابی کے بعد مسلمانوں کے ہاتھ لگے تھے۔
اس سے بھی مقصد باب ثابت ہوا کہ لونڈی غلام بوقت مناسب عربوں کو بھی بنایا جاسکتا ہے۔
جب آپ ﷺ اس جنگ سے فارغ ہوکر واپس ہوئے تو آپ واپس ہی ہوئے تھے کہ وفد ہوازن اپنے ایسے ہی مطالبات لے کر حاضر ہوگیا۔
آپ ﷺ نے ان کے مطالبات میں سے صرف قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ منظور فرمالیا مگر اس شرط کے ساتھ کہ دیگر جملہ مسلمان بھی اس پر تیار ہوجائیں۔
چنانچہ جملہ اہل اسلام ان غلاموں کو واپس کرنے پر تیار ہوگئے۔
مگر یہ لوگ شمار میں بہت تھے۔
اس لیے ان میں سے ہر ایک کی رضا مندی فرداً فرداً معلوم کرنی ضروری تھی۔
آپ نے یہ حکم دیا کہ تم جاؤ اور اپنے اپنے چودھریوں سے جو کچھ تم کو منظور ہو وہ بیان کرو، ہم ان سے پوچھ لیں گے۔
چنانچہ یہی ہوا اور آنحضرت ﷺ نے ان کے جملہ مردوں عورتوں کو واپس کرادیا۔
بحرین کے مال کی آمد پر آنحضرت ﷺ نے تقسیم کے لیے اعلان عام فرمادیا تھا، اس وقت حضرت سیدنا عباس ؓ نے اس مال کی درخواست کے ساتھ کہا تھا کہ میں اس کا بہت زیادہ مستحق ہوں، کیوں کہ بدر کے موقع پر میں نہ صرف اپنا بلکہ حضرت عقیل ؓ کا بھی زر فدیہ ادا کرکے خالی ہاتھ ہوچکا ہوں۔
اس پر آپ ﷺ نے ان کو اجازت دی تھی کہ وہ جس قدر روپیہ خود آپ اٹھاسکیں لے جائیں۔
اسی طرف اشارہ ہے اور یہ بھی کہ عربوں کو بھی بحالت مقررہ غلام بنایا جاسکتا ہے کہ جنگ بدر میں حضرت عباس ؓ اور حضرت عقیل ؓ جیسے اشراف قریش کو بھی دور غلامی سے گزرنا پڑا۔
کاش یہ معزز حضرات شروع ہی میں اسلام سے مشرف ہوجاتے۔
مگر سچ ہے ﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ﴾ (القصص: 56)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2539   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2539  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں قبیلۂ ہوازن کے قیدیوں کا ذکر ہے جو غزوۂ حنین میں کامیابی کے بعد مسلمانوں کے ہاتھ لگے تھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد، یعنی عربوں کو غلام بنایا جا سکتا ہے اور انہیں ہبہ بھی کیا جا سکتا ہے جیسا کہ بنو ہوازن کے ساتھ ہوا۔
ہبہ کی دلیل یہ ہے کہ نبی ﷺ نے ان تمام قیدیوں کو جو غلام بن چکے تھے، ان کے ورثاء کو ہبہ کر دیا، یعنی واپس کر دیا جنہیں لونڈی غلام بنا لیا گیا تھا۔
اسی طرح حضرت عباس ؓاور حضرت عقیل جیسے اشراف قریش کو بھی دور غلامی سے گزرنا پڑا۔
انہوں نے فدیہ دے کر اس سے رہائی حاصل کی۔
(2)
اس حدیث کے آخر میں معلق روایت ہے جسے امام بخاری ؒ نے خود ہی کتاب الصلاۃ، حدیث: 421 متصل سند سے بیان کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2539   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.