دیت، قصاص اور حد کے مسائل दयत, क़सास और सज़ाएं اگر قتل کا معاملہ مشتبہ ہو تو دیت کون دے گا؟ “ अगर क़त्ल के मआमले में शक हो तो दयत कौन देगा ”
سیدنا سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کو ان کی قوم کے بزرگوں نے بتایا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ دونوں بھوک کی وجہ سے خیبر گئے تو محیصہ نے آ کر بتایا کہ عبداللہ بن سہل قتل ہو گئے اور انہیں کنویں یا چشمے کے پاس پھینک دیا گیا ہے۔ پھر وہ یہودیوں کے پاس آئے تو کہا: اللہ کی قسم! تم نے انہیں (عبداللہ بن سہل کو) قتل کیا ہے۔ یہودیوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے انہیں قتل نہیں کیا۔ پھر وہ اپنی قوم کے پاس آئے اور انہیں یہ بات بتائی پھر وہ اور ان کے بڑے بھائی حویصہ رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو محیصہ جو خیبر گئے تھے باتیں کرنے کی کوشش کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محیصہ سے فرمایا: ”بڑے کو بات کرنے دو، بڑی عمر والے کو بات کرنے دو“، تو حویصہ نے بات کی پھر محیصہ نے بات کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا تو وہ تمہارے ساتھی کی دیت دیں یا جنگ کے لئے تیار ہو جائیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی طرف لکھ بھیجا تو انہوں نے جوابی تحریر میں کہا: اللہ کی قسم! ہم نے اسے قتل نہیں کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمٰن کو کہا: ”کیا تم قسم کھاتے ہو اور اپنے ساتھی کے خون کے حق دار بنتے ہو؟“ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے لئے یہودی قسم کھائیں؟“ انہوں نے کہا: وہ مسلمان نہیں ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے دیت عطا فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف ایک سو اونٹنیاں بھیجیں حتی کہ وہ ان کے گھر میں داخل کی گئیں۔ سہل رضی اللہ عنہ نے کہا: ان میں سے سرخ اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی۔
تخریج الحدیث: «525- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 877/2، 878 ح 1696، ك 44 ب 1 ح 1) التمهيد 150/24، 151، الاستذكار: 1725، و أخرجه البخاري (7192) ومسلم (1669/6) من حديث مالك به، وفي رواية يحيي بن يحيي: ”ورجال“.»
قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح
|