كتاب الفرائض عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: وراثت کے احکام و مسائل 5. باب مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ الإِخْوَةِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ باب: حقیقی بھائیوں کی میراث کا بیان۔
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ تم لوگ یہ آیت پڑھتے ہو «من بعد وصية توصون بها أو دين» ”تم سے کی گئی وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد (میراث تقسیم کی جائے گی ۱؎)“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وصیت سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا۔ (اگر حقیقی بھائی اور علاتی بھائی دونوں موجود ہوں تو) حقیقی بھائی وارث ہوں گے، علاتی بھائی (جن کے باپ ایک اور ماں دوسری ہو) وارث نہیں ہوں گے، آدمی اپنے حقیقی بھائی کو وارث بناتا ہے علاتی بھائی کو نہیں“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الوصایا 7 (2715)، و یأتي برقم 2122 (تحفة الأشراف: 10043)، و أحمد (1/79، 131، 144) (حسن) (متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کا راوی ”حارث اعور“ ضعیف ہے، دیکھیے: الإرواء رقم: 1667)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: آیت کے سیاق سے ایسا لگتا ہے کہ پہلے میت کی وصیت پوری کی جائے گی، پھر اس کا قرض ادا کیا جائے گا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق پہلے قرض ادا کیا جائے گا، پھر وصیت کا نفاذ ہو گا، یہی تمام علماء کا قول بھی ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2715)
اس سند سے بھی علی رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2715)
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا: ”حقیقی بھائی وارث ہوں گے نہ کہ علاتی بھائی“۔
۱- ہم اس حدیث کو صرف ابواسحاق کی روایت سے جانتے ہیں، ابواسحاق سبیعی روایت کرتے ہیں حارث سے اور حارث، علی رضی الله عنہ سے، ۲- بعض اہل علم نے حارث کے بارے میں کلام کیا ہے، ۳- عام اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الوصایا 7 (2715) (زیادةً علی الحدیث المذکور) و في الفرائض 10 (2739) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن انظر ما قبله (2094)
|