كتاب الصيد والذبائح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: شکار کے احکام و مسائل 17. باب مَا جَاءَ مَنْ أَمْسَكَ كَلْبًا مَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ) باب: کتا پالنے سے ثواب میں کمی کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ایسا کتا پالا یا رکھا جو سدھایا ہوا شکاری اور جانوروں کی نگرانی کرنے والا نہ ہو تو اس کے ثواب میں سے ہر دن دو قیراط کے برابر کم ہو گا“ ۱؎۔
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا: «أو كلب زرع» ”یا وہ کتا کھیتی کی نگرانی کرنے والا نہ ہو“، ۳- اس باب میں عبداللہ بن مغفل، ابوہریرہ، اور سفیان بن أبی زہیر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصید والذبائح 6 (5482)، صحیح مسلم/المساقاة 10 (البیوع 31)، (1574)، سنن النسائی/الصید 12 (4289) و 13 (4291-4292) (تحفة الأشراف: 7549)، وط/الاستئذان 5 (13)، و مسند احمد (2/4، 8، 37، 47، 60)، وسنن الدارمی/الصید 2 (2047) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: قیراط ایک وزن ہے جو اختلاف زمانہ کے ساتھ بدلتا رہا ہے، یہ کسی چیز کا چوبیسواں حصہ ہوتا ہے، کتا پالنے سے ثواب میں کمی کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں: ایسے گھروں میں فرشتوں کا داخل نہ ہونا، گھر والے کی غفلت کی صورت میں برتن میں کتے کا منہ ڈالنا، پھر پانی اور مٹی سے دھوئے بغیر اس کا استعمال کرنا، ممانعت کے باوجود کتے کا پالنا، گھر میں آنے والے دوسرے لوگوں کو اس سے تکلیف پہنچنا وغیرہ وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2534)
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکاری یا جانوروں کی نگرانی کرنے والے کتے کے علاوہ دیگر کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا ابن عمر رضی الله عنہما سے کہا گیا: ابوہریرہ رضی الله عنہ یہ بھی کہتے تھے: «أو كلب زرع» یا کھیتی کی نگرانی کرنے والے کتے (یعنی یہ بھی مستثنیٰ ہیں)، تو ابن عمر رضی الله عنہما نے کہا: ابوہریرہ رضی الله عنہ کے پاس کھیتی تھی (اس لیے انہوں نے اس کے بارے میں پوچھا ہو گا)۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 17 (3323)، (دون ما استشنیٰ منہا) صحیح مسلم/المساقاة 10 (البیوع 31) (1571)، سنن النسائی/الصید 9 (4382- 4284)، سنن ابن ماجہ/الصید 1 (3202)، (دون ماستثنی منھا) (تحفة الأشراف: 7353)، وط/الاستئذان 5 (14)، و مسند احمد (2/22-23، 113، 132، 136)، سنن الدارمی/الصید 3 (2050) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2549)
عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک چہرے سے درخت کی شاخوں کو ہٹا رہے تھے اور آپ خطبہ دے رہے تھے، آپ نے فرمایا: ”اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہیں تو میں انہیں مارنے کا حکم دیتا ۱؎، سو اب تم ان میں سے ہر سیاہ کالے کتے کو مار ڈالو، جو گھر والے بھی شکاری، یا کھیتی کی نگرانی کرنے والے یا بکریوں کی نگرانی کرنے والے کتوں کے سوا کوئی دوسرا کتا باندھے رکھتے ہیں ہر دن ان کے عمل (ثواب) سے ایک قیراط کم ہو گا“۔
۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- یہ حدیث بسند «حسن البصریٰ عن عبد الله بن مغفل عن النبي صلى الله عليه وسلم» مروی ہے۔ تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1486 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کتوں کو دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق آپ نے اس لیے کہا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: «وما من دآبة في الأرض ولا طائر يطير بجناحيه إلا أمم أمثالكم» ”یعنی: جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے قسم کے پرند ہیں جو اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ تمہاری طرح کے گروہ نہ ہوں“۔ (سورة الأنعام: ۳۸) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شکار، جانوروں اور کھیتی کی حفاظت کے لیے کتے پالنا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3204)
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بھی جانوروں کی نگرانی کرنے والے یا شکاری یا کھیتی کی نگرانی کرنے والے کتے کے سوا کوئی دوسرا کتا پالے گا تو ہر روز اس کے ثواب میں سے ایک قیراط کم ہو گا“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- عطا بن ابی رباح نے کتا پالنے کی رخصت دی ہے اگرچہ کسی کے پاس ایک ہی بکری کیوں نہ ہو۔ اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحرث 3 (3322) وبدء الخلق 17 (3324)، صحیح مسلم/المساقاة 10 (البیوع 31)، (19)، سنن ابی داود/ الصید 1 (2844)، سنن النسائی/الصید 14 (4294)، سنن ابن ماجہ/الصید 2 (3204)، (تحفة الأشراف: 15271)، و مسند احمد (2/267، 345) (صحیح) (لیس عند (خ) ”أو صید“ إلا معلقا بعد الحدیث 2323)۔»
وضاحت: ۱؎: عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے مروی حدیث رقم: ۱۴۸۷ میں دو قیراط کا ذکر ہے، اس کی مختلف توجیہ کی گئی ہیں: (۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ایک قیراط کی خبر دی جسے ابوہریرہ رضی الله عنہ نے روایت کی، بعد میں دو قیراط کی خبر دی جسے ابن عمر رضی الله عنہما نے روایت کی۔ (۲) ایک قیراط اور دو قیراط کا فرق کتے کے موذی ہونے کے اعتبار سے ہو سکتا ہے، (۳) یہ ممکن ہے کہ دو قیراط کی کمی کا تعلق مدینہ منورہ سے ہو، اور ایک قیراط کا تعلق اس کے علاوہ سے ہو۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3205)
|