سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: شکار کے احکام و مسائل
The Book on Hunting
17. باب مَا جَاءَ مَنْ أَمْسَكَ كَلْبًا مَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ)
17. باب: کتا پالنے سے ثواب میں کمی کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About How Much Is Deducted From The Reward Of One Who Keeps A Dog
حدیث نمبر: 1490
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبيد بن اسباط بن محمد القرشي , حدثنا ابي , عن الاعمش , عن إسماعيل بن مسلم , عن الحسن , عن عبد الله بن مغفل , قال: إني لممن يرفع اغصان الشجرة عن وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يخطب , فقال: " لولا ان الكلاب امة من الامم , لامرت بقتلها , فاقتلوا منها كل اسود بهيم , وما من اهل بيت يرتبطون كلبا , إلا نقص من عملهم كل يوم قيراط , إلا كلب صيد , او كلب حرث , او كلب غنم " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن , وقد روي هذا الحديث من غير وجه , عن الحسن , عن عبد الله بن مغفل , عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ , حَدَّثَنَا أَبِي , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُسْلِمٍ , عَنْ الْحَسَنِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ , قَالَ: إِنِّي لَمِمَّنْ يَرْفَعُ أَغْصَانَ الشَّجَرَةِ عَنْ وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ , فَقَالَ: " لَوْلَا أَنَّ الْكِلَابَ أُمَّةٌ مِنَ الْأُمَمِ , لَأَمَرْتُ بِقَتْلِهَا , فَاقْتُلُوا مِنْهَا كُلَّ أَسْوَدَ بَهِيمٍ , وَمَا مِنْ أَهْلِ بَيْتٍ يَرْتَبِطُونَ كَلْبًا , إِلَّا نَقَصَ مِنْ عَمَلِهِمْ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ , إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ , أَوْ كَلْبَ حَرْثٍ , أَوْ كَلْبَ غَنَمٍ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ , وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , عَنْ الْحَسَنِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بھی جانوروں کی نگرانی کرنے والے یا شکاری یا کھیتی کی نگرانی کرنے والے کتے کے سوا کوئی دوسرا کتا پالے گا تو ہر روز اس کے ثواب میں سے ایک قیراط کم ہو گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- عطا بن ابی رباح نے کتا پالنے کی رخصت دی ہے اگرچہ کسی کے پاس ایک ہی بکری کیوں نہ ہو۔ اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

وضاحت:
۱؎: عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے مروی حدیث رقم: ۱۴۸۷ میں دو قیراط کا ذکر ہے، اس کی مختلف توجیہ کی گئی ہیں: (۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ایک قیراط کی خبر دی جسے ابوہریرہ رضی الله عنہ نے روایت کی، بعد میں دو قیراط کی خبر دی جسے ابن عمر رضی الله عنہما نے روایت کی۔ (۲) ایک قیراط اور دو قیراط کا فرق کتے کے موذی ہونے کے اعتبار سے ہو سکتا ہے، (۳) یہ ممکن ہے کہ دو قیراط کی کمی کا تعلق مدینہ منورہ سے ہو، اور ایک قیراط کا تعلق اس کے علاوہ سے ہو۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحرث 3 (3322) وبدء الخلق 17 (3324)، صحیح مسلم/المساقاة 10 (البیوع 31)، (19)، سنن ابی داود/ الصید 1 (2844)، سنن النسائی/الصید 14 (4294)، سنن ابن ماجہ/الصید 2 (3204)، (تحفة الأشراف: 15271)، و مسند احمد (2/267، 345) (صحیح) (لیس عند (خ) ”أو صید“ إلا معلقا بعد الحدیث 2323)۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3205)

   جامع الترمذي1490عبد الله بن مغفللولا أن الكلاب أمة من الأمم لأمرت بقتلها فاقتلوا منها كل أسود بهيم وما من أهل بيت يرتبطون كلبا إلا نقص من عملهم كل يوم قيراط إلا كلب صيد أو كلب حرث أو كلب غنم
   جامع الترمذي1486عبد الله بن مغفللولا أن الكلاب أمة من الأمم لأمرت بقتلها كلها فاقتلوا منها كل أسود بهيم
   سنن أبي داود2845عبد الله بن مغفللولا أن الكلاب أمة من الأمم لأمرت بقتلها فاقتلوا منها الأسود البهيم
   سنن ابن ماجه3205عبد الله بن مغفللولا أن الكلاب أمة من الأمم لأمرت بقتلها فاقتلوا منها الأسود البهيم وما من قوم اتخذوا كلبا إلا كلب ماشية أو كلب صيد أو كلب حرث إلا نقص من أجورهم كل يوم قيراطان
   سنن النسائى الصغرى4285عبد الله بن مغفللولا أن الكلاب أمة من الأمم لأمرت بقتلها فاقتلوا منها الأسود البهيم وأيما قوم اتخذوا كلبا ليس بكلب حرث أو صيد أو ماشية فإنه ينقص من أجره كل يوم قيراط

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1490 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1490  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث رقم: 1487 میں دوقیراط کا ذکر ہے،
اس کی مختلف توجیہ کی گئی ہیں:

(1)
آپ ﷺ نے پہلے ایک قیراط کی خبر دی جسے ابوہریرہ نے روایت کی،
بعد میں دوقیراط کی خبردی جسے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کی۔

(2)
ایک قیراط اور دو قیراط کا فرق کتے کے موذی ہونے کے اعتبار سے ہوسکتا ہے-
(3)
یہ ممکن ہے کہ دوقیراط کی کمی کا تعلق مدینہ منورہ سے ہو،
اور ایک قیراط کا تعلق اس کے علاوہ سے ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1490   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4285  
´کس قسم کے کتوں کو مارنے کا حکم دیا گیا۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے بھی امتوں (مخلوقات) میں سے ایک امت (مخلوق) ہیں ۱؎ تو میں ان سب کو قتل کا ضرور حکم دیتا، اس لیے تم ان میں سے بالکل کالے کتے کو (جس میں کسی اور رنگ کی ذرا بھی ملاوٹ نہ ہو) قتل کرو، اس لیے کہ جن لوگوں نے بھی کھیت، شکار یا جانوروں کی رکھوالی کرنے والے کتوں کے علاوہ کسی کتے کو رکھا تو ان کے اجر میں سے روزانہ ایک قیراط کم ہوتا ہے ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4285]
اردو حاشہ:
(1) کھيتي اور جانوروں کي حفاظت کے ليے اور شکار کرنے کي خاطر کتا رکھا جا سکتا ہے۔ اس صورت ميں انسان گناہ گار نہيں ہوگا۔ اسي طرح اشد ضرورت کي بنا پر گھر کي رکھوالي کے ليے بھي اس کي اجازت ہو سکتي ہے جس نے مذکورہ صورتوں کے علاوہ کتا رکھا تو وہ شخص بہت گناہ گار ہوگا اور نہايت خسارے ميں ہے اس ليے کہ بلا ضرورت کتا رکھنے والے شخص کے نيک اعمال ميں سے روزانہ ايک قيراط وزن کم کرديا جاتا ہےذرا سوچيے کہ يہ کس قدر عظيم نقصان ہے۔
(2) انسان کو نيک اعمال کرکےان کي حفاظت کرتے رہنا چاہيے‘ اور ايسے برے اعمال سے گريز کرنا چاہيے جنکي وجہ سے نيک اعمال کي بربادي لازم آتي ہو۔ دوسرے لفظوں ميں ہم يہ کہہ سکتے ہيں کہ زيادہ سے زيادہ نيک اعمال کرنے اور برے اعمال سے بچنے کي ترغيب بھي اس حديث ميں معلوم ہوتي ہے۔
(3) اس حديث ميں اللہ تعالیٰ کے اس عظيم لطف و کرم کي طرف بھي اشارہ ہے جو وہ اپني معزز مخلوق انسان پر فرماتا ہے‘ يعني جس چيز سے لوگوں کو کسي قسم کا فائدہ ہو سکتا ہے اسے ان کے ليے مباح اور جائز فرما دينا. سبحان الله و بحمده، سبحان الله العظيم.
(4) اس سے يہ بھي معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپني امت کے ليے ان کي معاش و معاد کے تمام امور، جن کے وہ محتاج اور ضرورت مند تھے، بيان فرما ديے۔
(5) اس حديث مبارکہ سے يہ اصول اور قاعدہ معلوم ہوا کہ نفع نقصان دونوں کي حامل چيز ميں اگر مصلحت راجح ہو تو اسے ترجيح حاصل ہوگي، يعني مصلحتِ راجحہ کا لحاظ رکھا جائے گا۔ تفصيل اس اجمال کي يہ ہے کہ کتے ميں نفع و نقصان کي دونوں صفات پائي جاتي ہيں۔ عام طور پر اس ميں نقصان و فساد والي صفت کا غلبہ ہوتا ہے، اس ليے کتا رکھنے سے احتراز کا حکم ديا گيا ہے، تا ہم جہاں اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچنا راجح تھا، وہاں عام حکم سے استشنا فرما ديا گيا۔ واللہ أعلم
(6) ايک مخلوق عربي میں أمة من الأمم يعني امتوں ميں سے ايک امت، کے الفاظ ہيں اللہ تعالي نے کسي مخلوق کو بے فائدہ نہيں بنايا، خواہ وقتي طور پر کسي کے ليے نقصان دہ ثانت ہو مگر مجموعي طور پر ہر مخلوق انسان کے ليے بلا واسطہ بالواسطہ مفيد ہے، مثلاََ: کتے حفاظت کا کام ديتے ہيں۔ شکار بھي کرتے ہيں۔ بعض ايسے مقامات ہوتے ہيں جہاں کتوں کے علاوہ شکار کيا ہي نہيں جا سکتا۔ اور بھي بہت سے فوائد ہيں جن کو اللہ تعالیٰ ہي جانتا ہے جو خالق و رازق ہے، اس ليے کسي بھي مخلوق کو مکمل طور پر ختم کر دينا حکمت الہٰيہ کے منافي ہے، نيز يہ انساني بقا کے بھي خلاف ہے، لہٰذا صرف موذي کو ختم کيا جائے، مثلاََ: باؤلا کتا، بہت کاٹنے والا کتا يا آوارہ اور فالتو کتا وغيرہ۔
(7) خالص سياہ کتا يہ بہت ڈراؤنا ہوتا ہے۔ ايک حديث ميں يوں بيان کيا گيا ہے کہکالا کتا شيطان ہے۔ جس طرح برے اور شرارتي انسان کو شيطان کہہ ديا جاتا ہے، اسي طرح ڈراؤنے اور موذي کتے کو بھي شيطان کہا جا سکتا ہے۔ شيطان کسي کا نام نہيں بلکہ يہ وصف ہے۔ جس ميں بھي پايا جائے، وہ شيطان ہے۔
(8) ايک قيراط ايک قيراط سے مراد کيا ہے؟ اس ميں تفصيل ہے اور وہ اس طرح کہ قيراط کا اطلاق دو طرح کے وزن پر ہوتا تھا۔ ايک انتہائي معمولي وزن پر اور دوسرے انتہائي غير معمولي وزن پر۔ معمولي وزن پر اس طرح کہ ايک دينار بيس قيراط کا ہوتا ہے، اور دينار ساڑھے چار ماشے، يعني 4.374 گرام کا ہوتا ہے. گويا ايک قيراط کا وزن تقربياََ 220 ملي گرام بنتا ہے۔ دوسري قسم کا قيراط وہ ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے احد پہاڑ کے برابر قرار ديا ہے۔ اس کي مقدار کو اللہ تعالیٰ ہي جانتا ہے۔ يہاں اس حديث ميں قيراط سے مراد کون سا قيراط ہے؟ تو اس کي بابت اہل علم کي آراء مختلف ہيں۔ بعض اہل علم نے اس معمولي وزن مراد ليا ہے جبکہ بعض نے غير معمولي وزن۔ ہمارا رجحان پہلي رائے کي طرف ہے۔ اس کي ايک وجہ تو يہ ہے کہ شريعت مطہرہ کا مزاج نرمي کرنا ہے، سختي اور شدت نہيں اور نرمي پہلي صورت ميں ہے نہ کہ دوسري ميں۔ دوسري وجہ يہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مطلقاََ قيراط فرمايا ہے، کسي قسم کا تعين نہيں کيا، يہ تو معلوم بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کي رحمت، اس کے غصے اور سزا سے کہيں زيادہ وسيع ہے، اس ليے سزا ميں تخفيقف اور فضل ميں تکثير والے ضابطے کي بنياد پر بھي يہي بات راجح معلوم ہوتي ہے کہ قيراط سے مراد پہلي صورت ہوگی اور يہي ارحم الراحمين کے فضل و کرم اور اس کي رحمت و مہرباني کا تقاضا ہے ﴿وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ﴾ (الأعراف:156/7) اس سب کچھ کے باوجود حتمي اور يقيني طور پر صرف ايک بات کہي جا سکتي ہے کہ اللہ ہي کے علم ميں ہے کہ اس حديث ميں قيراط سے مراد کونسا قيراط ہے؟ بہر حال ايک مومن شخص کو اس سے بھي بچنا چاہيے کہ وہ کسي ايسے کام کا مرتکب ہو کہ جس کي وجہ سے اس کے نيک اعمال ميں سے ذرہ بھر کمي کر دي جائے۔أعاذنا الله منه
(9) کمي ہوتي رہے گي يعني ہر روز کي ہوئی نيکيوں ميں سے اتني مقدار ضائع ہوتي رہے گي کيونکہ ضرورت کے بغير کتا گھر والوں کے ليے بھي نقصان دہ ہے اور گزرنے والوں کے ليے بھي؟ مزيد برآں يہ کہ کتے ميں باؤلا ہونے کے امکانات بھي ہوتے ہيں۔ ايسي صورت ميں وہ لوگوں کے ليے خوف ناک اذيت اور موت کا سبب بھي بنے گا۔ بہر حال بے فائدہ کتا رکھنے والے کے ليے يہ حديث بہت بڑي و عيد ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4285   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2845  
´شکار یا کسی اور کام کے لیے کتا رکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے بھی امتوں میں سے ایک امت ہیں ۱؎ تو میں ان کے قتل کا ضرور حکم دیتا، تو اب تم ان میں سے خالص کالے کتوں کو قتل کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيد /حدیث: 2845]
فوائد ومسائل:
کالا کتا شکل وصورت میں بھی بہت وحشت ناک ہوتا ہے۔
اور غالبا ً طبعا ً بھی اس میں خبث زیادہ ہوتا ہے۔
اس لئے اسے قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اور گزشتہ حدیث 702 کتاب الصلوۃ میں گزرا ہے کہ کالا کتا شیطان ہوتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2845   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3205  
´کھیت یا ریوڑ کی رکھوالی کرنے والے اور شکاری کتوں کے علاوہ دوسرے کتے پالنا منع ہے۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کتے اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق نہ ہوتے، تو میں یقیناً ان کے قتل کا حکم دیتا، پھر بھی خالص کالے کتے کو قتل کر ڈالو، اور جن لوگوں نے جانوروں کی حفاظت یا شکاری یا کھیتی کے علاوہ دوسرے کتے پال رکھے ہیں، ان کے اجر سے ہر روز دو قیراط کم ہو جاتے ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3205]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
موذی جانوروں کو قتل کر دینا جائز ہے۔

(2)
آوارہ کتوں کو ختم کردینا چاہیے۔

(3)
کی مخلوق کو بالکل ختم کر دینا کہ اس کا نام و نشان مٹ جاے یہ اللہ کی حکمت کے منافی ہے لہٰذا جو موذی جانور انسانوں سے دور زندگی گزارتے ہیں انہیں ختم کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
اور جو انسانوں میں رہتے ہیں انہیں ایک مناسب حدتک ختم کیا جائے۔

(4)
بالکل سیاہ کتا جس میں کوئی دوسرا رنگ نہ ہو زیادہ برا اور فرشتوں کو زیاد ہ ناپسند ہے۔

(5)
اس حدیث میں بلاضرورت کتا پالنے والوں کے ثواب میں دوقیراط روزانہ کی کمی کا ذکر ہے جب کہ گزشتہ حدیث میں ایک قیراط مذکور ہے۔
اس کی مختلف تو جیہات کی گئی ہیں مثلاً مکہ اور مدینہ میں کتا پالنے سے دوقیراط ثواب کم ہوتا ہے۔
دوسرے شہروں میں ایک قیراط یا عام کتوں کے پالنے سے ایک قیراط اور خطرناک قسم کے کتا پالنے سے دوقیراط ثواب کم ہوتا ہے۔
ممکن ہے سیاہ کتا پالنے سے دوقیراط ثواب کم ہوتا ہو اور دوسرے رنگ کاکتا پالنے سے ایک قیراط۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3205   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1486  
´کتوں کو مارنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہیں تو میں تمام کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیتا، سو اب تم ان میں سے ہر کالے سیاہ کتے کو مار ڈالو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1486]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ابتداء میں سارے کتوں کے مارنے کا حکم ہوا پھر کالے سیاہ کتوں کو چھوڑ کر یہ حکم منسوخ ہوگیا،
بعد میں کسی بھی کتے کو جب تک وہ موذی نہ ہو مارنے سے منع کردیا گیا،
حتی کہ شکار،
زمین،
جائیداد،
مکان اور جانوروں کی حفاظت ونگہبانی کے لیے انہیں پالنے کی اجازت بھی دی گئی۔

2؎:
یہ حدیث صحیح مسلم (رقم: 1572) میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1486   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.