(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان , ويحيى بن موسى , قالا: حدثنا الوليد بن مسلم , حدثنا الاوزاعي، حدثني يحيى بن ابي كثير , حدثني ابو سلمة، حدثني ابو هريرة، قال: لما فتح الله على رسوله مكة قام في الناس , فحمد الله , واثنى عليه , ثم قال: " ومن قتل له قتيل فهو بخير النظرين إما ان يعفو , وإما ان يقتل ". قال: وفي الباب , عن وائل بن حجر , وانس , وابي شريح خويلد بن عمرو.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , وَيَحْيَى بْنُ مُوسَى , قَالَا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ , حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ , حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مَكَّةَ قَامَ فِي النَّاسِ , فَحَمِدَ اللَّهَ , وَأَثْنَى عَلَيْهِ , ثُمَّ قَالَ: " وَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ إِمَّا أَنْ يَعْفُوَ , وَإِمَّا أَنْ يَقْتُلَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ , وَأَنَسٍ , وَأَبِي شُرَيْحٍ خُوَيْلِدِ بْنِ عَمْرٍو.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب اللہ نے اپنے رسول کے لیے مکہ کو فتح کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں کھڑے ہو کر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ”جس کا کوئی شخص مارا گیا ہو اسے دو باتوں میں سے کسی ایک کا اختیار ہے: یا تو معاف کر دے یا (قصاص میں) اسے قتل کرے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے (کماسیأتی)، ۲- اس باب میں وائل بن حجر، انس، ابوشریح اور خویلد بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 39 (112)، واللقطة 7 (2434)، والدیات 8 (6880)، صحیح مسلم/الحج 82 (1355)، سنن ابی داود/ الدیات 4 (4505)، سنن النسائی/القسامة 30 (4789)، سنن ابن ماجہ/الدیات 3 (2624)، ویأتي في العلم برقم 2667، (تحفة الأشراف: 15383)، و مسند احمد (2/238) (صحیح)»
(موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن بشار , حدثنا يحيى بن سعيد , حدثنا ابن ابي ذئب , حدثني سعيد بن ابي سعيد المقبري , عن ابي شريح الكعبي , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الله حرم مكة ولم يحرمها الناس , من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يسفكن فيها دما , ولا يعضدن فيها شجرا , فإن ترخص مترخص " , فقال: " احلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم فإن الله احلها لي , ولم يحلها للناس , وإنما احلت لي ساعة من نهار , ثم هي حرام إلى يوم القيامة , ثم إنكم معشر خزاعة قتلتم هذا الرجل من هذيل , وإني عاقله , فمن قتل له قتيل بعد اليوم فاهله بين خيرتين: إما ان يقتلوا , او ياخذوا العقل ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح. وحديث ابي هريرة حديث حسن صحيح , ورواه شيبان ايضا , عن يحيى بن ابي كثير مثل هذا , وروي عن ابي شريح الخزاعي , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من قتل له قتيل , فله ان يقتل , او يعفو , او ياخذ الدية ". وذهب إلى هذا بعض اهل العلم , وهو قول: احمد , وإسحاق.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ , حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ , عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْكَعْبِيِّ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ مَكَّةَ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ , مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَسْفِكَنَّ فِيهَا دَمًا , وَلَا يَعْضِدَنَّ فِيهَا شَجَرًا , فَإِنْ تَرَخَّصَ مُتَرَخِّصٌ " , فَقَالَ: " أُحِلَّتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ اللَّهَ أَحَلَّهَا لِي , وَلَمْ يُحِلَّهَا لِلنَّاسِ , وَإِنَّمَا أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ , ثُمَّ هِيَ حَرَامٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ , ثُمَّ إِنَّكُمْ مَعْشَرَ خُزَاعَةَ قَتَلْتُمْ هَذَا الرَّجُلَ مِنْ هُذَيْلٍ , وَإِنِّي عَاقِلُهُ , فَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَأَهْلُهُ بَيْنَ خِيرَتَيْنِ: إِمَّا أَنْ يَقْتُلُوا , أَوْ يَأْخُذُوا الْعَقْلَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَرَوَاهُ شَيْبَانُ أَيْضًا , عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ مِثْلَ هَذَا , وَرُوِي عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ , فَلَهُ أَنْ يَقْتُلَ , أَوْ يَعْفُوَ , أَوْ يَأْخُذَ الدِّيَةَ ". وَذَهَبَ إِلَى هَذَا بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ , وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق.
ابوشریح کعبی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مکہ کو اللہ نے حرمت والا (محترم) بنایا ہے، لوگوں نے اسے نہیں بنایا، پس جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اس میں خونریزی نہ کرے، نہ اس کا درخت کاٹے، (اب) اگر کوئی (خونریزی کے لیے) اس دلیل سے رخصت نکالے کہ مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال کیا گیا تھا (تو اس کا یہ استدلال باطل ہے) اس لیے کہ اللہ نے اسے میرے لیے حلال کیا تھا لوگوں کے لیے نہیں، اور میرے لیے بھی دن کے ایک خاص وقت میں حلال کیا گیا تھا، پھر وہ تاقیامت حرام ہے؟ اے خزاعہ والو! تم نے ہذیل کے اس آدمی کو قتل کیا ہے، میں اس کی دیت ادا کرنے والا ہوں، (سن لو) آج کے بعد جس کا بھی کوئی آدمی مارا جائے گا تو مقتول کے ورثاء کو دو چیزوں میں سے کسی ایک کا اختیار ہو گا: یا تو وہ (اس کے بدلے) اسے قتل کر دیں، یا اس سے دیت لے لیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث بھی حسن صحیح ہے، ۲- اسے شیبان نے بھی یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی کے مثل روایت کیا ہے، ۳- اور یہ (حدیث بنام ابوشریح کعبی کی جگہ بنام) ابوشریح خزاعی بھی روایت کی گئی ہے۔ (اور یہ دونوں ایک ہی ہیں) اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا: ”جس کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے اختیار ہے یا تو وہ اس کے بدلے اسے قتل کر دے، یا معاف کر دے، یا دیت وصول کرے“، ۴- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قتل رجل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فدفع القاتل إلى وليه , فقال القاتل: يا رسول الله , والله ما اردت قتله , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اما إنه إن كان قوله صادقا فقتلته دخلت النار " , فخلى عنه الرجل , قال: وكان مكتوفا بنسعة , قال: فخرج يجر نسعته , قال: فكان يسمى: ذا النسعة. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والنسعة حبل.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قُتِلَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدُفِعَ الْقَاتِلُ إِلَى وَلِيِّهِ , فَقَالَ الْقَاتِلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ قَتْلَهُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَا إِنَّهُ إِنْ كَانَ قَوْلُهُ صَادِقًا فَقَتَلْتَهُ دَخَلْتَ النَّارَ " , فَخَلَّى عَنْهُ الرَّجُلُ , قَالَ: وَكَانَ مَكْتُوفًا بِنِسْعَةٍ , قَالَ: فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ , قَالَ: فَكَانَ يُسَمَّى: ذَا النِّسْعَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالنِّسْعَةُ حَبْلٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی قتل کر دیا گیا، تو قاتل مقتول کے ولی (وارث) کے سپرد کر دیا گیا، قاتل نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں نے اسے قصداً قتل نہیں کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خبردار! اگر وہ (قاتل) اپنے قول میں سچا ہے پھر بھی تم نے اسے قتل کر دیا تو تم جہنم میں جاؤ گے ۱؎“، چنانچہ مقتول کے ولی نے اسے چھوڑ دیا، وہ آدمی رسی سے بندھا ہوا تھا، تو وہ رسی گھسیٹتا ہوا باہر نکلا، اس لیے اس کا نام ذوالنسعہ (رسی یا تسمے والا) رکھ دیا گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور «نسعہ»: رسی کو کہتے ہیں۔
وضاحت: ۱؎: کیونکہ قاتل اپنے دعویٰ میں اگر سچا ہے تو اسے قتل کر دینے کی صورت میں ولی کے گناہ گار ہونے کا خدشہ ہے، اس لیے اس کا نہ قتل کرنا زیادہ مناسب ہے۔