13. باب مَا جَاءَ فِي حُكْمِ وَلِيِّ الْقَتِيلِ فِي الْقِصَاصِ وَالْعَفْوِ
13. باب: قصاص اور عفو کے سلسلے میں مقتول کے ولی (وارث) کے فیصلے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Guardian Of One Who Was Killed Deciding Between Qisas or Pardon
ابوشریح کعبی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مکہ کو اللہ نے حرمت والا
(محترم) بنایا ہے، لوگوں نے اسے نہیں بنایا، پس جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اس میں خونریزی نہ کرے، نہ اس کا درخت کاٹے،
(اب) اگر کوئی
(خونریزی کے لیے) اس دلیل سے رخصت نکالے کہ مکہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال کیا گیا تھا
(تو اس کا یہ استدلال باطل ہے) اس لیے کہ اللہ نے اسے میرے لیے حلال کیا تھا لوگوں کے لیے نہیں، اور میرے لیے بھی دن کے ایک خاص وقت میں حلال کیا گیا تھا، پھر وہ تاقیامت حرام ہے؟ اے خزاعہ والو! تم نے ہذیل کے اس آدمی کو قتل کیا ہے، میں اس کی دیت ادا کرنے والا ہوں،
(سن لو) آج کے بعد جس کا بھی کوئی آدمی مارا جائے گا تو مقتول کے ورثاء کو دو چیزوں میں سے کسی ایک کا اختیار ہو گا: یا تو وہ
(اس کے بدلے) اسے قتل کر دیں، یا اس سے دیت لے لیں
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث بھی حسن صحیح ہے،
۲- اسے شیبان نے بھی یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی کے مثل روایت کیا ہے،
۳- اور یہ
(حدیث بنام ابوشریح کعبی کی جگہ بنام) ابوشریح خزاعی بھی روایت کی گئی ہے۔
(اور یہ دونوں ایک ہی ہیں) اور انہوں نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا:
”جس کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے اختیار ہے یا تو وہ اس کے بدلے اسے قتل کر دے، یا معاف کر دے، یا دیت وصول کرے
“،
۴- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔