كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: طلاق اور لعان کے احکام و مسائل 23. باب مَا جَاءَ أَيْنَ تَعْتَدُّ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا باب: شوہر کی وفات کے بعد عورت عدت کہاں گزارے؟
زینب بنت کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ فریعہ بنت مالک بن سنان رضی الله عنہا جو ابو سعید خدری کی بہن ہیں نے انہیں خبر دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، وہ آپ سے پوچھ رہی تھیں کہ وہ اپنے گھر والوں کے پاس بنی خدرہ میں واپس چلی جائیں (ہوا یہ تھا کہ) ان کے شوہر اپنے ان غلاموں کو ڈھونڈنے کے لیے نکلے تھے جو بھاگ گئے تھے، جب وہ مقام قدوم کے کنارے پر ان سے ملے، تو ان غلاموں نے انہیں مار ڈالا۔ فریعہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤں؟ کیونکہ میرے شوہر نے میرے لیے اپنی ملکیت کا نہ تو کوئی مکان چھوڑا ہے اور نہ کچھ خرچ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، چنانچہ میں واپس جانے لگی یہاں تک کہ میں حجرہ شریفہ یا مسجد نبوی ہی میں ابھی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آواز دی۔ (یا آپ نے حکم دیا کہ مجھے آواز دی جائے) پھر آپ نے پوچھا: ”تم نے کیسے کہا؟ میں نے وہی قصہ دہرا دیا جو میں نے آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں ذکر کیا تھا، آپ نے فرمایا: ”تم اپنے گھر ہی میں رہو یہاں تک کہ تمہاری عدت ختم ہو جائے“، چنانچہ میں نے اسی گھر میں چار ماہ دس دن عدت گزاری۔ پھر جب عثمان رضی الله عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجھے بلوایا اور مجھ سے اس بارے میں پوچھا تو میں نے ان کو بتایا۔ چنانچہ انہوں نے اس کی پیروی کی اور اسی کے مطابق فیصلہ کیا۔ محمد بن بشار کی سند سے بھی اس جیسی اسی مفہوم کی حدیث آئی ہے۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، یہ لوگ عدت گزارنے والی عورت کے لیے درست نہیں سمجھتے ہیں کہ اپنے شوہر کے گھر سے منتقل ہو جب تک کہ وہ اپنی عدت نہ گزار لے۔ یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۳- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر عورت اپنے شوہر کے گھر میں عدت نہ گزارے تو اس کو اختیار ہے جہاں چاہے عدت گزارے، ۴- (امام ترمذی) کہتے ہیں: پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطلاق 44 (2300)، سنن النسائی/الطلاق 60 (3558)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 8 (2031)، موطا امام مالک/الطلاق 31 (87) (تحفة الأشراف: 18045)، مسند احمد (6/370)، سنن الدارمی/الطلاق 14 (2333) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2031)
|