(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا معن بن عيسى، انبانا مالك بن انس، عن عبد الله بن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن حميد بن نافع، عن زينب بنت ابي سلمة، انها اخبرته بهذه الاحاديث الثلاثة، قالت زينب: دخلت على ام حبيبة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، حين توفي ابوها ابو سفيان بن حرب، فدعت بطيب فيه صفرة خلوق، او غيره، فدهنت به جارية، ثم مست بعارضيها، ثم قالت: والله ما لي بالطيب من حاجة، غير اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " لا يحل لامراة تؤمن بالله واليوم الآخر، ان تحد على ميت فوق ثلاثة ايام إلا على زوج اربعة اشهر وعشرا ".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى، أَنْبَأَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ الثَّلَاثَةِ، قَالَتْ زَيْنَبُ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ تُوُفِّيَ أَبُوهَا أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ، فَدَعَتْ بِطِيبٍ فِيهِ صُفْرَةٌ خَلُوقٌ، أَوْ غَيْرُهُ، فَدَهَنَتْ بِهِ جَارِيَةً، ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا، ثُمَّ قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ، غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ".
حمید بن نافع سے روایت ہے کہ زینب بنت ابی سلمہ نے انہیں یہ تینوں حدیثیں بتائیں (ان میں سے ایک یہ ہے) زینب کہتی ہیں: میں ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کے پاس آئی جس وقت ان کے والد ابوسفیان صخر بن حرب کا انتقال ہوا، تو انہوں نے خوشبو منگائی جس میں خلوق یا کسی دوسری چیز کی زردی تھی، پھر انہوں نے اسے ایک لڑکی کو لگایا پھر اپنے دونوں رخساروں پر لگایا، پھر کہا: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں تھی، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے شوہر کے اس پر وہ چار ماہ دس دن تک سوگ کرے گی۔
(موقوف) قالت قالت زينب: فدخلت على زينب بنت جحش، حين توفي اخوها، فدعت بطيب فمست منه، ثم قالت: والله ما لي في الطيب من حاجة غير اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا يحل لامراة تؤمن بالله واليوم الآخر، ان تحد على ميت فوق ثلاث ليال إلا على زوج اربعة اشهر وعشرا ".(موقوف) قَالَتْ قَالَتْ زَيْنَبُ: فَدَخَلْتُ عَلَى زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، حِينَ تُوُفِّيَ أَخُوهَا، فَدَعَتْ بِطِيبٍ فَمَسَّتْ مِنْهُ، ثُمّ قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا لِي فِي الطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ".
(دوسری حدیث یہ ہے) زینب کہتی ہیں: پھر میں زینب بنت جحش رضی الله عنہا کے پاس آئی جس وقت ان کے بھائی کا انتقال ہوا تو انہوں نے خوشبو منگائی اور اس میں سے لگایا پھر کہا: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں تھی، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی میت پر تین رات سے زیادہ سوگ کرے سوائے اپنے شوہر کے، وہ اس پر چار ماہ دس دن سوگ کرے گی“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 15879) (صحیح)»
(موقوف) قالت قالت زينب، وسمعت امي ام سلمة، تقول: جاءت امراة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله، إن ابنتي توفي عنها زوجها، وقد اشتكت عينيها افنكحلها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا " مرتين، او ثلاث مرات، كل ذلك يقول: " لا ". ثم قال: " إنما هي اربعة اشهر وعشرا، وقد كانت إحداكن في الجاهلية ترمي بالبعرة على راس الحول ". قال: وفي الباب، عن فريعة بنت مالك اخت ابي سعيد الخدري، وحفصة بنت عمر. قال ابو عيسى: حديث زينب، حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، ان المتوفى عنها زوجها، تتقي في عدتها الطيب، والزينة، وهو قول: سفيان الثوري، ومالك بن انس، والشافعي، واحمد، وإسحاق.(موقوف) قَالَتْ قَالَتْ زَيْنَبُ، وَسَمِعْتُ أُمِّي أُمَّ سَلَمَةَ، تَقُولُ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، وَقَدِ اشْتَكَتْ عَيْنَيْهَا أَفَنَكْحَلُهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا " مَرَّتَيْنِ، أَوْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ: " لَا ". ثُمَّ قَالَ: " إِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، وَقَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ فُرَيْعَةَ بِنْتِ مَالِكٍ أُخْتِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَحَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْنَبَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، تَتَّقِي فِي عِدَّتِهَا الطِّيبَ، وَالزِّينَةَ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
(تیسری حدیث یہ ہے) زینب کہتی ہیں: میں نے اپنی ماں ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت نے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بیٹی کا شوہر مر گیا ہے، اور اس کی آنکھیں دکھ رہی ہیں، کیا ہم اس کو سرمہ لگا دیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“۔ دو یا تین مرتبہ اس عورت نے آپ سے پوچھا اور آپ نے ہر بار فرمایا: ”نہیں“، پھر آپ نے فرمایا: ”(اب تو اسلام میں) عدت چار ماہ دس دن ہے، حالانکہ جاہلیت میں تم میں سے (فوت شدہ شوہر والی بیوہ) عورت سال بھر کے بعد اونٹ کی مینگنی پھینکتی تھی“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زینب کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابو سعید خدری کی بہن فریعہ بنت مالک، اور حفصہ بنت عمر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم کا اسی پر عمل ہے کہ جس عورت کا شوہر مر گیا ہو وہ اپنی عدت کے دوران خوشبو اور زینت سے پرہیز کرے گی۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 18259) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سال بھرکے بعد اونٹ کی مینگنی پھینکنے کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عورت کا شوہر جب انتقال کر جاتا تو وہ ایک معمولی جھونپڑی میں جا رہتی اور خراب سے خراب کپڑا پہن لیتی تھی اور سال پورا ہونے تک نہ خوشبو استعمال کرتی اور نہ ہی کسی اور چیز کو ہاتھ لگاتی پھر کوئی جانور، گدھا، بکری، یا پرندہ اس کے پاس لایا جاتا اور وہ اس سے اپنے جسم اور اپنی شرمگاہ کو رگڑتی اور جس جانور سے وہ رگڑتی عام طور سے وہ مر ہی جاتا، پھر وہ اس تنگ و تاریک جگہ سے باہر آتی پھر اسے اونٹ کی مینگنی دی جاتی اور وہ اسے پھینک دیتی اس طرح گویا وہ اپنی نحوست دور کرتی اس کے بعد ہی اسے خوشبو وغیرہ استعمال کرنے اجازت ملتی۔