حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن احدكم إذا مات عرض عليه مقعده بالغداة والعشي إن كان من اهل الجنة، فمن اهل الجنة، وإن كان من اهل النار، فمن اهل النار، يقال: هذا مقعدك حتى يبعثك الله إليه يوم القيامة ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ، يُقَالُ: هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى يَبْعَثَكَ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی مر جاتا ہے تو صبح اور شام اپنے ٹھکانے کے سامنے لایا جاتا ہے۔ اگر جنت والوں میں سے ہے تو جنت والوں میں سے اور جو دوزخ والوں میں سے ہے تو دوزخ والوں میں سے، پھر کہا جاتا ہے: یہ تیرا ٹھکانہ ہے یہاں تک کہ بھیجے گا تجھ کو اللہ تعالیٰ اس کی طرف قیامت کے دن۔“
حدثنا عبد بن حميد ، اخبرنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابن عمر ، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " إذا مات الرجل عرض عليه مقعده بالغداة والعشي، إن كان من اهل الجنة فالجنة، وإن كان من اهل النار فالنار، قال: ثم يقال: هذا مقعدك الذي تبعث إليه يوم القيامة ".حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا مَاتَ الرَّجُلُ عُرِضَ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ، إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَالْجَنَّةُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَالنَّارُ، قَالَ: ثُمَّ يُقَالُ: هَذَا مَقْعَدُكَ الَّذِي تُبْعَثُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کا ٹھکانہ صبح اور شام سامنے کیا جاتا ہے۔ اگر وہ بہشتی ہے تو بہشت دکھلائی جاتی ہے اور اگر دوزخی ہے تو دوزخ دکھائی جاتی ہے۔ پھر کہا جاتا ہے: یہ تیرا ٹھکانہ ہے جہاں تو قیامت کے دن بھیجا جائے گا۔“
حدثنا يحيى بن ايوب ، وابو بكر بن ابي شيبة ، جميعا عن ابن علية ، قال ابن ايوب: حدثنا ابن علية، قال: واخبرنا سعيد الجريري ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد الخدري ، عن زيد بن ثابت ، قال ابو سعيد ولم اشهده من النبي صلى الله عليه وسلم ولكن حدثنيه زيد بن ثابت، قال: بينما النبي صلى الله عليه وسلم في حائط لبني النجار على بغلة له، ونحن معه إذ حادت به، فكادت تلقيه وإذا اقبر ستة او خمسة او اربعة، قال: كذا كان، يقول: الجريري، فقال: " من يعرف اصحاب هذه الاقبر؟ "، فقال رجل: انا قال: فمتى مات هؤلاء؟، قال: ماتوا في الإشراك؟، فقال: " إن هذه الامة تبتلى في قبورها، فلولا ان لا تدافنوا لدعوت الله ان يسمعكم من عذاب القبر الذي اسمع منه، ثم اقبل علينا بوجهه، فقال: " تعوذوا بالله من عذاب النار "، قالوا: نعوذ بالله من عذاب النار، فقال: " تعوذوا بالله من عذاب القبر "، قالوا: نعوذ بالله من عذاب القبر، قال: " تعوذوا بالله من الفتن ما ظهر منها وما بطن "، قالوا: نعوذ بالله من الفتن ما ظهر منها وما بطن، قال: " تعوذوا بالله من فتنة الدجال "، قالوا: نعوذ بالله من فتنة الدجال ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، جَمِيعًا عَنْ ابْنِ عُلَيَّةَ ، قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: وَأَخْبَرَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ وَلَمْ أَشْهَدْهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنْ حَدَّثَنِيهِ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، قَالَ: بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ لِبَنِي النَّجَّارِ عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ، وَنَحْنُ مَعَهُ إِذْ حَادَتْ بِهِ، فَكَادَتْ تُلْقِيهِ وَإِذَا أَقْبُرٌ سِتَّةٌ أَوْ خَمْسَةٌ أَوْ أَرْبَعَةٌ، قَالَ: كَذَا كَانَ، يَقُولُ: الْجُرَيْرِيُّ، فَقَالَ: " مَنْ يَعْرِفُ أَصْحَابَ هَذِهِ الْأَقْبُرِ؟ "، فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا قَالَ: فَمَتَى مَاتَ هَؤُلَاءِ؟، قَالَ: مَاتُوا فِي الْإِشْرَاكِ؟، فَقَالَ: " إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتَلَى فِي قُبُورِهَا، فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: " تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ "، قَالُوا: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، فَقَالَ: " تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ "، قَالُوا: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، قَالَ: " تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ "، قَالُوا: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، قَالَ: " تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ "، قَالُوا: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں بلکہ زید بن ثابت سے سنی، وہ کہتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی نجار کے باغ میں ایک خچر پر جا رہے تھے، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اتنے میں وہ خچر بھڑکا اور قریب ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرا دے۔ وہاں پر چھ یا پانچ یا چار قبریں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی جانتا ہے یہ قبریں کن کن کی ہیں؟“ ایک شخص بولا: میں جانتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کب مرے؟“ وہ بولا: شرک کے زمانہ میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس امت کا امتحان ہو گا قبروں میں، پھر اگر تم دفن کرنا نہ چھوڑ دو تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا تم کو قبر کا عذاب سنا دیتا جو میں سن رہا ہوں۔“ بعد اس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”پناہ مانگو اللہ تعالیٰ کی جہنم کے عذاب سے۔“ لوگوں نے کہا: پناہ مانگتے ہیں ہم اللہ کی جہنم کے عذاب سے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پناہ مانگو اللہ تعالیٰ کی قبر کے عذاب سے۔“ لوگوں نے کہا: پناہ مانگتے ہیں ہم اللہ کی قبر کے عذاب سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”: پناہ مانگو اللہ کی چھپے اور کھلے فتنوں سے۔“ لوگوں نے کہا: پناہ مانگتے ہیں ہم اللہ تعالیٰ کی چھپے اور کھلے فتنوں سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پناہ مانگو اللہ تعالیٰ کی دجال کے فتنہ سے۔“ لوگوں نے کہا: پناہ مانگتے ہیں ہم اللہ کی دجال کے فتنہ سے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم دفن کرنا نہ چھوڑ دو (قبر کے عذاب کے ڈر سے) البتہ میں دعا کروں کہ اللہ تعالیٰ تم کو قبر کا عذاب سنا دے۔“
سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے آفتاب ڈوبنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آواز سنی تو فرمایا: ”یہودیوں کو عذاب ہوتا ہے ان کی قبروں میں۔“
حدثنا عبد بن حميد ، حدثنا يونس بن محمد ، حدثنا شيبان بن عبد الرحمن ، عن قتادة ، حدثنا انس بن مالك ، قال: قال نبي الله صلى الله عليه وسلم " إن العبد إذا وضع في قبره وتولى عنه اصحابه، إنه ليسمع قرع نعالهم، قال: ياتيه ملكان فيقعدانه، فيقولان له: ما كنت تقول في هذا الرجل؟، قال: فاما المؤمن، فيقول: اشهد انه عبد الله ورسوله، قال: فيقال له: انظر إلى مقعدك من النار، قد ابدلك الله به مقعدا من الجنة، قال: نبي الله صلى الله عليه وسلم فيراهما جميعا "، قال قتادة: وذكر لنا انه يفسح له في قبره سبعون ذراعا، ويملا عليه خضرا إلى يوم يبعثون.حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ قَتَادَةَ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ، إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ، قَالَ: يَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟، قَالَ: فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ، فَيَقُولُ: أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، قَالَ: فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ، قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّةِ، قَالَ: نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا "، قَالَ قَتَادَةُ: وَذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا، وَيُمْلَأُ عَلَيْهِ خَضِرًا إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی پیٹھ موڑ کر لوٹتے ہیں تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے۔ پھر دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اس کو بٹھاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں: تو اس شخص کے باب میں کیا کہتا تھا؟ (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے باب میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تعظیم سے نہیں لیتے تا کہ وہ سمجھ نہ جائے) مؤمن کہتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور اس کے رسول ہیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت بھیجے ان پر اور سلام۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے: تو اپنا ٹھکانہ دیکھ جہنم میں اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے تجھے جنت میں ٹھکانا دیا۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اپنے دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے۔“ قتادہ نے کہا: سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے ہم سے ذکر کیا کہ اس کی قبر ستر ہاتھ چوڑی ہو جاتی ہے اور سبزی سے بھر جاتی ہے (یعنی باغیچہ بن جاتا ہے) قیامت تک۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مردہ جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو وہ اپنے لوگوں کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے جب وہ واپس جاتے ہیں۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میت کو جب اس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اس مردے کو دفنانے والے لوگ جب واپس جاتے ہیں تو یہ مردہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔“
حدثنا محمد بن بشار بن عثمان العبدي ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن علقمة بن مرثد ، عن سعد بن عبيدة ، عن البراء بن عازب ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت سورة إبراهيم آية 27، قال: نزلت في عذاب القبر، فيقال له: من ربك، فيقول: ربي الله ونبيي محمد صلى الله عليه وسلم، فذلك قوله عز وجل يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة سورة إبراهيم آية 27 ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارِ بْنِ عُثْمَانَ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ سورة إبراهيم آية 27، قَالَ: نَزَلَتْ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ، فَيُقَالُ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ، فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللَّهُ وَنَبِيِّي مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ سورة إبراهيم آية 27 ".
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ آیت «يُثَبِّتُ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ»(۱۴-ابراھیم: ۲۷) کہ ”اللہ تعالیٰ قائم رکھتا ہے ایمان والوں کو پکی بات پر دنیا میں اور آخرت میں“، قبر کے عذاب کے بارے میں اتری ہے۔ میت سے پوچھا جاتا ہے: تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ تعالیٰ ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یہی مراد ہے اللہ کے اس قول سے کہ قائم رکھتا ہے ایمان والوں کو پکی بات پر۔“ آخر تک۔
حدثني عبيد الله بن عمر القواريري ، حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا بديل ، عن عبد الله بن شقيق ، عن ابي هريرة ، قال: " إذا خرجت روح المؤمن تلقاها ملكان يصعدانها، قال حماد: فذكر من طيب ريحها، وذكر المسك، قال: ويقول: اهل السماء روح طيبة جاءت من قبل الارض صلى الله عليك وعلى جسد كنت تعمرينه، فينطلق به إلى ربه عز وجل، ثم يقول: انطلقوا به إلى آخر الاجل، قال: وإن الكافر إذا خرجت روحه، قال حماد، وذكر من نتنها، وذكر لعنا، ويقول اهل السماء: روح خبيثة جاءت من قبل الارض، قال: فيقال: انطلقوا به إلى آخر الاجل "، قال ابو هريرة: فرد رسول الله صلى الله عليه وسلم ريطة كانت عليه على انفه هكذا.حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَكَانِ يُصْعِدَانِهَا، قَالَ حَمَّادٌ: فَذَكَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا، وَذَكَرَ الْمِسْكَ، قَالَ: وَيَقُولُ: أَهْلُ السَّمَاءِ رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكِ وَعَلَى جَسَدٍ كُنْتِ تَعْمُرِينَهُ، فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَقُولُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ، قَالَ: وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ، قَالَ حَمَّادٌ، وَذَكَرَ مِنْ نَتْنِهَا، وَذَكَرَ لَعْنًا، وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ: رُوحٌ خَبِيثَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ، قَالَ: فَيُقَالُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ "، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً كَانَتْ عَلَيْهِ عَلَى أَنْفِهِ هَكَذَا.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: (یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے جیسے آگے معلوم ہو گا) جب ایمان دار کی روح بدن سے نکلتی ہے تو اس کے آگے دو فرشتے آتے ہیں، اس کو آسمان پر چڑھا لے جاتے ہیں۔ حماد نے کہا: (جو حدیث کا راوی ہے) کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس روح کی خوشبو کا اور مشک کا ذکر کیا اور کہا کہ آسمان والے کہتے ہیں (یعنی فرشتے) کوئی پاک روح ہے جو زمیں کی طرف سے آئی، اللہ تعالیٰ تجھ پر رحمت کرے اور تیرے بدن پر جس کو تو نے آباد رکھا۔ پھر پروردگار کے پاس اس کو لے جاتے ہیں۔ وہ فرماتا ہے: ”اس کو لے جاؤ (اپنے مقام میں یعنی علیین میں جہاں مؤمنوں کی ارواح رہتی ہیں) قیامت ہونے تک“(وہیں رکھو) اور کافر کی جب روح نکلتی ہے۔ حماد نے کہا: (جو اس حدیث کا راوی ہے) کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کی بدبو کا اور اس پر لعنت کا ذکر کیا۔ آسمان والے کہتے ہیں: کوئی ناپاک روح ہے جو ز میں کی طرف سے آئی، پھر حکم ہوتا ہے ”اس کو لے جاؤ (اپنے مقام میں یعنی سجین میں جہاں کافروں کی روحیں رہتی ہیں) قیامت ہونے تک۔“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک باریک کپڑا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوڑھتے تھے اپنی ناک پر ڈالا (جب کافر کی روح کا ذکر کیا اس کی بدبو بیان کرنے کو) اس طرح سے۔
حدثني إسحاق بن عمر بن سليط الهذلي ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت ، قال: قال انس : كنت مع عمر. ح وحدثنا شيبان بن فروخ واللفظ له، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت ، عن انس بن مالك ، قال: كنا مع عمر بين مكة والمدينة، فتراءينا الهلال وكنت رجلا حديد البصر، فرايته وليس احد يزعم انه رآه غيري، قال: فجعلت اقول لعمر اما تراه، فجعل لا يراه، قال: يقول عمر : ساراه وانا مستلق على فراشي، ثم انشا يحدثنا عن اهل بدر، فقال: " إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرينا مصارع اهل بدر بالامس، يقول: هذا مصرع فلان غدا إن شاء الله، قال: فقال عمر: فوالذي بعثه بالحق ما اخطئوا الحدود التي حد رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فجعلوا في بئر بعضهم على بعض، فانطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى انتهى إليهم، فقال: يا فلان بن فلان ويا فلان بن فلان، هل وجدتم ما وعدكم الله ورسوله حقا؟ فإني قد وجدت ما وعدني الله حقا، قال عمر: يا رسول الله، كيف تكلم اجسادا لا ارواح فيها؟، قال: ما انتم باسمع لما اقول منهم غير انهم لا يستطيعون ان يردوا علي شيئا ".حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ عُمَرَ بْنِ سَلِيطٍ الْهُذَلِيُّ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ : كُنْتُ مَعَ عُمَرَ. ح وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عُمَرَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، فَتَرَاءَيْنَا الْهِلَالَ وَكُنْتُ رَجُلًا حَدِيدَ الْبَصَرِ، فَرَأَيْتُهُ وَلَيْسَ أَحَدٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَآهُ غَيْرِي، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَقُولُ لِعُمَرَ أَمَا تَرَاهُ، فَجَعَلَ لَا يَرَاهُ، قَالَ: يَقُولُ عُمَرُ : سَأَرَاهُ وَأَنَا مُسْتَلْقٍ عَلَى فِرَاشِي، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا عَنْ أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: " إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُرِينَا مَصَارِعَ أَهْلِ بَدْرٍ بِالْأَمْسِ، يَقُولُ: هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: فَوَالَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ مَا أَخْطَئُوا الْحُدُودَ الَّتِي حَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَجُعِلُوا فِي بِئْرٍ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى انْتَهَى إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: يَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ وَيَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ، هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ حَقًّا؟ فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي اللَّهُ حَقًّا، قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تُكَلِّمُ أَجْسَادًا لَا أَرْوَاحَ فِيهَا؟، قَالَ: مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ غَيْرَ أَنَّهُمْ لَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَرُدُّوا عَلَيَّ شَيْئًا ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے مکہ اور مدینہ کے بیچ میں تو ہم سب لوگ چاند دیکھنے لگے۔ میری نگاہ تیز تھی میں نے چاند کو دیکھ لیا اور میرے سوا کسی نے نہ کہا کہ ہم نے چاند کو دیکھا۔ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگا: تم چاند نہیں دیکھتے، دیکھو یہ چاند ہے، ان کو دکھلائی نہ دیا، وہ کہنے لگے مجھے تھوڑی دیر میں دکھلائی دے گا (جب ذرا روشن ہو گا) اور میں اپنے بچھونے پر چت پڑا تھا، پھر انہوں نے ہم سے بدر والوں کا قصہ شروع کیا۔ وہ کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو کل کے دن (یعنی لڑائی سے پہلے ایک دن) بدر والوں کے گرنے کے مقام بتلانے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اللہ چاہے تو کل کے دن فلاں یہاں گرے گا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اس کی جس نے آپ کو سچا کلام دے کر بھیجا، جو حدیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی تھیں وہ وہاں سے نہ ہٹے (یعنی ہر ایک کافر اسی مقام میں مارا گیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کر دیا تھا)۔ پھر وہ سب ایک کنویں میں دھکیل دئیے گئے ایک دوسرے کے اوپر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور ان کے پاس تشریف لے گئے، پھر پکارا: ”اے فلاں، فلاں کے بیٹے! اے فلاں، فلاں کے بیٹے! جو اللہ اور اس کے رسول نے تم سے وعدہ کیا وہ تم نے پایا (اور اس کا عذاب دیکھا) میں نے تو پایا جو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے سچا وعدہ کیا تھا .“(کہ تمہاری فتح ہو گی اور کافر مارے جائیں گے)۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! آپ ان بدنوں سے کلام کرتے ہیں جن میں جان نہیں ہے (وہ کیا سنیں گے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جو کہہ رہا ہوں تم ان سے زیادہ اس کو نہیں سنتے البتہ اتنا فرق ہے کہ وہ کچھ جواب نہیں دے سکتے۔“
حدثنا هداب بن خالد ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت البناني ، عن انس بن مالك ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك قتلى بدر ثلاثا ثم اتاهم، فقام عليهم فناداهم، فقال: يا ابا جهل بن هشام، يا امية بن خلف، يا عتبة بن ربيعة، يا شيبة بن ربيعة اليس قد وجدتم ما وعد ربكم حقا؟ فإني قد وجدت ما وعدني ربي حقا "، فسمع عمر قول النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، كيف يسمعوا وانى يجيبوا وقد جيفوا؟، قال: " والذي نفسي بيده ما انتم باسمع لما اقول منهم، ولكنهم لا يقدرون ان يجيبوا "، ثم امر بهم فسحبوا فالقوا في قليب بدر "،حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَكَ قَتْلَى بَدْرٍ ثَلَاثًا ثُمَّ أَتَاهُمْ، فَقَامَ عَلَيْهِمْ فَنَادَاهُمْ، فَقَالَ: يَا أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ، يَا أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ، يَا عُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ، يَا شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ أَلَيْسَ قَدْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا؟ فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا "، فَسَمِعَ عُمَرُ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ يَسْمَعُوا وَأَنَّى يُجِيبُوا وَقَدْ جَيَّفُوا؟، قَالَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ، وَلَكِنَّهُمْ لَا يَقْدِرُونَ أَنْ يُجِيبُوا "، ثُمَّ أَمَرَ بِهِمْ فَسُحِبُوا فَأُلْقُوا فِي قَلِيبِ بَدْرٍ "،
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مقتولین کو تین روز تک یوں ہی پڑا رہنے دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان کو آواز دی تو فرمایا: ”اے ابوجہل بن ہشام اور اے امیہ بن خلف اور اے عتبہ بن ربیعہ اور اے شیبہ بن ربیعہ! کیا تم نے پایا جو اللہ تعالیٰ نے تم سے سچا وعدہ کیا؟ کیونکہ میں نے تو پایا جو اللہ نے مجھ سے سچا وعدہ کیا تھا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا سنا، تو عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کیا سنتے ہیں اور کب جواب دیتے ہیں؟ یہ تو مردار ہو کر سڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں جو کہہ رہا ہوں اس کو تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سنتے البتہ یہ اور بات ہے کہ وہ جواب نہیں دے سکتے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا وہ کھینچے گئے اور بدر کے کنویں میں ڈال دئیے گئے۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ جب بدر کا دن ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں پر غالب ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا بیس پر کئی آدمی قریش کے سرداروں کے لیے ان کی نعشیں ایک کنویں میں ڈالیں گئیں بدر کے کنوؤں میں سے۔