حدیث حاشیہ: 1۔
ایک روایت میں ہے۔
”سورج جاتا ہے اور عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے پھر اجازت طلب کرتا ہے تو اسے طلوع ہونے کی اجازت دی جاتی ہے قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے لیکن اس کا سجدہ قبول نہ کیا جائے اور وہ طلوع کی اجازت مانگے تو اسے اجازت نہ دی جائے اور اسے کہا جائے جہاں سے آئے ہو وہاں واپس چلے جاؤ۔
اس وقت وہ مغرب کی طرف سے طلوع ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
(وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ) (یٰس: 36۔
38) ”اور سورج اپنی مقررہ گزر گاہ پر چل رہا ہے یہی زبردست علیم ہستی کا مقرر کردہ اندازہ ہے۔
“ 2۔
ایک روایت میں ہے۔
"سورج کی گزر گاہ عرش کے نیچے ہے۔
3۔
اس حدیث سے دو باتوں کا پتا چلتا ہے۔
سائنس دانوں کا نظریہ ہے کہ سورج اور دوسرے سیاروں کی گردش کشش ثقل
(Gravitation) وہ قوت ہے جس سے زمین تمام اجسام کو اپنی طرف کھنچتی ہے)
اور مرکز گریز قوت
(Centrifugal Force) ایسی قوت ہے جو گردش سے پیدا ہوتی ہے اور ہر گھومتے ہوئے جسم کو محسوس ہوتی ہے اور یہ گردش کے مرکز کی مخالف سمت میں ہوتی ہے)
کا نتیجہ ہے جبکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاروں کی گردش میں تصادم کا نہ ہونا اس بنا پرہے کہ اس نظام پر اللہ حکیم و خبیر کا کنٹرول ہے۔
یہ سب اجرام فلکی اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت گردش کر رہے ہیں اور ان کی مقررہ گردش میں کمی بیشی نہیں ہوتی۔
قیامت سے پہلے ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب ان سیاروں کی گردش کا نظام تہ و بالا ہو جائے گا اور سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔
اس کے بعد کائنات کا نظام ایک دھماکے سے دوچار ہو جائے گا۔
اور زمین و آسمان ٹکرا کر تباہ ہو جائیں گے۔
اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کے عرش کی عظمت و رفعت اور وسعت کا پتا چلتا ہے کہ ایک سورج کی کیا بات ہے بلکہ کائنات کی ایک ایک چیز اس کے عرش تلے ہے اور اس کے نیچے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہے نیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے سپرد کردہ خدمت سر انجام دینے پر لگی ہوئی ہے۔
صحیح مسلم میں حدیث صحیح بخاری ذرا تفصیل سے آئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم جانتے ہو یہ سورج کہاں جاتا ہے؟
“ صحابہ نے کہا:
اللہ اور اس کے رسول ہی خوب جانتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”یہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ اپنے ٹھہرنے کی جگہ پر عرش کے نیچے آتا ہے وہاں سجدے میں گر پڑتا ہے۔
“ پھر اسی حال میں رہتا ہے حتی کہ اسے اٹھنے کا حکم ہوتا ہےاور کہا جاتا ہے کہ جہاں سے آیا وہیں لوٹ جا۔
وہ لوٹ جاتا ہے اور اپنے نکلنے کی جگہ سے طلوع ہوتا ہے پھر چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ اپنے ٹھہرنے کی جگہ پر عرش کے نیچے آتا ہے اور سجدہ کرتا ہے پھر اسی حالت میں رہتا ہے یہاں تک کہ اس سے کہا جاتا ہے کہ اُٹھ جا اور جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا۔
وہ حسب معمول مشرق سے طلوع ہوتا ہے۔
لوگ اس کی چال میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے یہاں تک ایک ایسا دن آئے گا۔
کہ وہ عرش کے نیچے اپنے ٹھہرنے کی جگہ پر آئے گا تو اس سے کہا جائے گا۔
کہ اُٹھ جا اور مغرب کی طرف سے طلوع ہو پھر وہ مغرب کی طرف سے ہوگا۔
“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم جانتے ہو ایسا کب ہو گا؟ یہ اس وقت ہو گا جب کسی کو جو پہلے ایمان نہ لایا ہو گا اس کا ایمان لانا فائدہ نہ دے گا اور جس نے اپنے ایمان کے زمانے میں اس سے پہلے نیک عمل نہ کیے ہوں گے تو اس وقت نیک عمل کرنا بھی فائدہ مند نہ ہو گا۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 399۔
(159)
قرآن کریم میں سورج کے علاوہ وہ چاند تاروں، پہاڑوں اور دوسری چیزوں کے سجدہ کرنے کا بھی ذکر ہے۔
اس سجدے کی کیفیت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ہمیں اس پر صرف ایمان لانا چاہیے۔
واللہ اعلم۔