الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
4. بَابُ صِفَةِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ:
4. باب: (سورۃ الرحمن کی اس آیت کی تفسیر کہ) سورج اور چاند دونوں حساب سے چلتے ہیں۔
حدیث نمبر: Q3199-2
وَقَالَ قَتَادَةُ وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ سورة الملك آية 5 خَلَقَ هَذِهِ النُّجُومَ لِثَلَاثٍ جَعَلَهَا زِينَةً لِلسَّمَاءِ، وَرُجُومًا لِلشَّيَاطِينِ، وَعَلَامَاتٍ يُهْتَدَى بِهَا، فَمَنْ تَأَوَّلَ فِيهَا بِغَيْرِ ذَلِكَ أَخْطَأَ وَأَضَاعَ نَصِيبَهُ وَتَكَلَّفَ مَا لَا عِلْمَ لَهُ بِهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ هَشِيمًا سورة الكهف آية 45 مُتَغَيِّرًا، وَالْأَبُّ: مَا يَأْكُلُ الْأَنْعَامُ، وَالْأَنَامُ: الْخَلْقُ، بَرْزَخٌ سورة المؤمنون آية 100 حَاجِبٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ أَلْفَافًا سورة النبأ آية 16 مُلْتَفَّةً، وَالْغُلْبُ: الْمُلْتَفَّةُ، فِرَاشًا سورة البقرة آية 22مِهَادًا، كَقَوْلِهِ وَلَكُمْ فِي الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ سورة البقرة آية 36 نَكِدًا سورة الأعراف آية 58 قَلِيلًا.
‏‏‏‏ قتادہ نے (قرآن مجید کی اس آیت کے بارے میں) «ولقد زينا السماء الدنيا بمصابيح‏» کہ ہم نے زینت دی آسمان دنیا کو (تاروں کے) چراغوں سے۔ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کو تین فائدوں کے لیے پیدا کیا ہے۔ انہیں آسمان کی زینت بنایا، شیاطین پر مارنے کے لیے بنایا۔ اور (رات کی اندھیریوں میں) انہیں صحیح راستہ پر چلتے رہنے کے لیے نشانات قرار دیا۔ پس جس شخص نے ان کے سوا دوسری باتیں کہیں، اس نے غلطی کی، اپنا حصہ تباہ کیا (اپنا وقت ضائع کیا یا اپنا ایمان کھو دیا) اور جو بات غیب کی معلوم نہیں ہو سکتی اس کو اس نے معلوم کرنا چاہا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سورۃ الکہف میں لفظ «هشيما‏» ہے اس کا معنی بدلا ہوا۔ «الأب» کے معنی مویشیوں کا چارہ۔ یہ لفظ سورۃ عبس میں ہے اور سورۃ الرحمن میں لفظ «الأنام» بمعنی مخلوق ہے اور لفظ «برزخ‏» بمعنی پردہ ہے۔ اور مجاہد تابعی نے کہا کہ لفظ «ألفافا‏» بمعنی «ملتفة» ہے۔ اس کے معنی گہرے لپٹے ہوئے۔ «الغلب» بھی بمعنی «الملتفة» اور لفظ «فراشا‏» بمعنی «مهاد» ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں فرمایا «ولكم في الأرض مستقر‏» ( «مستقر‏» بھی بمعنی «مهاد» ہے) اور سورۃ الاعراف میں جو لفظ «نكدا‏» ہے اس کا معنی تھوڑا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: Q3199-2]
حدیث نمبر: Q3199
قَالَ مُجَاهِدٌ: كَحُسْبَانِ الرَّحَى، وَقَالَ غَيْرُهُ: بِحِسَابٍ وَمَنَازِلَ لَا يَعْدُوَانِهَا حُسْبَانٌ جَمَاعَةُ حِسَابٍ مِثْلُ شِهَابٍ وَشُهْبَانٍ ضُحَاهَا سورة النازعات آية 29: ضَوْءُهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ سورة يس آية 40: لَا يَسْتُرُ ضَوْءُ أَحَدِهِمَا ضَوْءَ الْآخَرِ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُمَا ذَلِكَ سَابِقُ النَّهَارِ سورة يس آية 40: يَتَطَالَبَانِ حَثِيثَيْنِ نَسْلَخُ نُخْرِجُ أَحَدَهُمَا مِنَ الْآخَرِ وَنُجْرِي كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا وَاهِيَةٌ وَهْيُهَا تَشَقُّقُهَا أَرْجَائِهَا مَا لَمْ يَنْشَقَّ مِنْهَا فَهُمْ عَلَى حَافَتَيْهَا كَقَوْلِكَ عَلَى أَرْجَاءِ الْبِئْرِ وَأَغْطَشَ سورة النازعات آية 29 وَ جَنَّ سورة الأنعام آية 76 أَظْلَمَ، وَقَالَ الْحَسَنُ كُوِّرَتْ سورة التكوير آية 1: تُكَوَّرُ حَتَّى يَذْهَبَ ضَوْءُهَا وَاللَّيْلِ وَمَا وَسَقَ سورة الانشقاق آية 17: جَمَعَ مِنْ دَابَّةٍ اتَّسَقَ سورة الانشقاق آية 18: اسْتَوَى بُرُوجًا سورة الحجر آية 16: مَنَازِلَ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ الْحَرُورُ بِالنَّهَارِ مَعَ الشَّمْسِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَرُؤْبَةُ الْحَرُورُ بِاللَّيْلِ وَالسَّمُومُ بِالنَّهَارِ يُقَالُ يُولِجُ يُكَوِّرُ وَلِيجَةً سورة التوبة آية 16 كُلُّ شَيْءٍ أَدْخَلْتَهُ فِي شَيْءٍ.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا یعنی چکی کی طرح گھومتے ہیں اور دوسرے لوگوں نے یوں کہا یعنی حساب سے مقررہ منزلوں میں پھرتے ہیں، زیادہ نہیں بڑھ سکتے۔ لفظ «حسبان» «حساب» کی جمع ہے۔ جیسے لفظ «شهاب» کی جمع «شهبان‏.‏» ہے اور سورۃ والشمس میں جو لفظ «ضحاها‏» آیا ہے۔ «ضحى» روشنی کو کہتے ہیں اور سورۃ یٰسٓ میں جو آیا ہے کہ سورج چاند کو نہیں پا سکا، یعنی ایک کی روشنی دوسرے کو ماند نہیں کر سکتی نہ ان کو یہ بات سزاوار ہے اور اسی سورۃ میں جو الفاظ «ولا الليل سابق النهار‏» ہیں ان کا مطلب یہ کہ دن اور رات ہر ایک دوسرے کے طالب ہو کر لپکے جا رہے ہیں اور اسی سورۃ میں لفظ «انسلخ» کا معنی یہ ہے کہ دن کو رات سے اور رات کو دن سے ہم نکال لیتے ہیں اور سورۃ الحاقہ میں جو «واهية» کا لفظ ہے۔ «وهي» کے منی پھٹ جانا اور اسی سورۃ میں جو یہ ہے «أرجائها» یعنی فرشتے آسمانوں کے کناروں پر ہوں گے جب تک وہ پھٹے گا نہیں۔ جیسے کہتے ہیں وہ کنویں کے کنارے پر اور سورۃ والنازعات میں جو لفظ «أغطش‏» اور سورۃ الانعام میں لفظ «جن‏» ہے ان کے معنی اندھیری کے ہیں۔ یعنی اندھیاری کی اندھیاری ہوئی اور امام حسن بصریٰ نے کہا کہ سورۃ اذالشمس میں «كورت‏» کا جو لفظ ہے اس کا معنی یہ ہے جب لپیٹ کر تاریک کر دیا جائے گا اور سورۃ انشقت میں جو «وما وسق‏» کا لفظ ہے اس کے معنی جو اکٹھا کرے۔ اسی سورۃ میں «اتسق‏» کا معنی سیدھا ہوا، اور سورۃ الفرقان میں «بروجا‏» کا لفظ «بروج‏» سورج اور چاند کی منزلوں کو کہتے ہیں اور سورۃ فاطر میں جو «حرور» کا لفظ ہے اس کے معنی دھوپ کی گرمی کے ہیں۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، «حرور» رات کی گرمی اور «سموم» دن کی گرمی۔ اور سورۃ فاطر میں جو «يولج» کا لفظ ہے اس کے معنی لپیٹتا ہے اندر داخل کرتا ہے اور سورۃ التوبہ میں جو «وليجة‏» کا لفظ ہے اس کے معنی اندر گھسا ہوا یعنی راز دار دوست۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: Q3199]
حدیث نمبر: 3199
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي ذَرٍّ حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ تَدْرِي:" أَيْنَ تَذْهَبُ، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتَّى تَسْجُدَ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَتَسْتَأْذِنَ فَيُؤْذَنُ لَهَا وَيُوشِكُ أَنْ تَسْجُدَ فَلَا يُقْبَلَ مِنْهَا وَتَسْتَأْذِنَ فَلَا يُؤْذَنَ لَهَا، يُقَالُ لَهَا: ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِهَا فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ سورة يس آية 38.
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے باپ یزید بن شریک نے اور ان سے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سورج غروب ہوا تو ان سے پوچھا کہ تم کو معلوم ہے یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو علم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جاتا ہے اور عرش کے نیچے پہنچ کر پہلے سجدہ کرتا ہے۔ پھر (دوبارہ آنے) کی اجازت چاہتا ہے اور اسے اجازت دی جاتی ہے اور وہ دن بھی قریب ہے، جب یہ سجدہ کرے گا تو اس کا سجدہ قبول نہ ہو گا اور اجازت چاہے گا لیکن اجازت نہ ملے گی۔ بلکہ اس سے کہا جائے گا کہ جہاں سے آیا تھا وہیں واپس چلا جا۔ چنانچہ اس دن وہ مغربی ہی سے نکلے گا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان «والشمس تجري لمستقر لها ذلك تقدير العزيز العليم» (یٰسٓ: 38) میں اسی طرف اشارہ ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3199]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريهل تدري أين تذهب هذه قال قلت الله ورسوله أعلم قال فإنها تذهب تستأذن في السجود فيؤذن لها وكأنها قد قيل لها ارجعي من حيث جئت فتطلع من مغربها ثم قرأ ذلك مستقر لها
   صحيح البخاريتذهب حتى تسجد تحت العرش فتستأذن فيؤذن لها ويوشك أن تسجد فلا يقبل منها وتستأذن فلا يؤذن لها يقال لها ارجعي من حيث جئت فتطلع من مغربها فذلك قوله والشمس تجري لمستقر لها ذلك تقدير العزيز العليم
   صحيح البخاريأتدري أين تغرب الشمس قلت الله ورسوله أعلم قال فإنها تذهب حتى تسجد تحت العرش فذلك قوله والشمس تجري لمستقر لها ذلك تقدير العزيز العليم
   صحيح مسلمتذهب فتستأذن في السجود فيؤذن لها وكأنها قد قيل لها ارجعي من حيث جئت فتطلع من مغربها قال ثم قرأ في قراءة عبد الله وذلك مستقر لها
   صحيح مسلمأتدرون أين تذهب هذه الشمس قالوا الله ورسوله أعلم قال إن هذه تجري حتى تنتهي إلى مستقرها تحت العرش فتخر ساجدة فلا تزال كذلك حتى يقال لها ارتفعي ارجعي من حيث جئت
   جامع الترمذيأتدري أين تذهب هذه قال قلت الله ورسوله أعلم قال فإنها تذهب تستأذن في السجود فيؤذن لها وكأنها قد قيل لها اطلعي من حيث جئت فتطلع من مغربها قال ثم قرأ وذلك مستقر لها
   جامع الترمذيتذهب فتستأذن في السجود فيؤذن لها وكأنها قد قيل لها اطلعي من حيث جئت فتطلع من مغربها قال ثم قرأ وذلك مستقر لها
   سنن أبي داودهل تدري أين تغرب هذه قلت الله ورسوله أعلم قال فإنها تغرب في عين حامية

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3199 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3199  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں منکرین حدیث نے کئی اشکال پیدا کئے ہیں، ایک یہ کہ سورج زمین کے نیچے جاتا ہے نہ عرش کے نیچے۔
اور دوسری روایت میں یہ مضمون موجود ہے تغربُ فِي عَین حَمئة دوسرے یہ کہ زمین اور آسمان گول کڑے ہیں تو سورج ہر وقت عرش کے نیچے ہے۔
پھر خاص غروب کے وقت جانے کے کیا معنی؟ تیسرے سورج ایک بے روح اور بے عقل جسم ہے اس کا سجدہ کرنا اور اس کو اجازت ہونے کے کیا معنی؟ چوتھے اکثر حکیموں نے مشاہدہ سے معلوم کیا ہے کہ زمین متحرک اور سورج ساکن ہے تو سورج کے چلنے کے کیا معنے؟ پہلے اشکال کا جواب یہ ہے کہ جب زمین کروی ہوئی تو ہر طرح سے عرش کے نیچے ہوئی اس لیے غروب کے وقت یہ کہہ سکتے ہیں کہ سورج زمین کے نيچے گیا اور عرش کے نیچے گیا۔
دوسرے اشکال کا جواب یہ ہے کہ بے شک ہر نقطے اور ہر مقام پر سورج عرش کے نیچے ہے اور وہ ہر وقت اپنے مالک کے لیے سجدہ کررہا ہے اور اس کے آگے بڑھنے کی اجازت مانگ رہا ہے لیکن چونکہ ہر ملک والوں کا مغرب اور مشرق مختلف ہے اس لیے طلوع اور غروب کے وقت کو خاص کیا۔
تیسرے اشکال کا جواب یہ هے کہ کہاں سے معلوم ہوا کہ سورج بے جان اور بے عقل ہے۔
بہت سی آیات و احادیث سے سورج اور چاند اور زمین اور آسمان سب کا اپنے اپنے درجہ میں صاحب روح ہونا ثابت ہے۔
چوتھے اشکال کا جواب یہ ہے کہ بہت سے حکیم اس امر کے بھی قائل ہیں کہ زمین ساکن ہے اورسورج اس کے گرد گھومتا ہے اور اس بارے میں طرفین کے دلائل متعارض ہیں۔
اور ظاہر قرآن و حدیث سے تو سورج اور چاند اور تاروں ہی کی حرکت نکلتی ہے۔
(مختصر از وحیدی)
آیت شریفہ ﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا﴾ (یٰس: 38)
میں مستقر سے مراد بقائے عالم کا انقطاع ہے یعني إلی انقطلاع بقاء مدة العالم أما قوله مستقرلها تحت العرش فلا ینکران یکون لها استقراء تحت العرش من حیث لاندرکه ولا نشاهدہ و إنما أخبر عن غیب فلا نکذبه ولا نکیفه لأن علمنا لا یحیط به۔
انتهیٰ کلام الطیبي۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3199   

  الشيخ اسحاق سلفی حفظہ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحیح بخاری3199  
چوتھی صدی کے نامور محدث اورامام الخطابیؒ
ابو سليمان حمد بن محمد بن إبراهيم بن الخطاب البستي المعروف بالخطابي
(319 - 388 ھ = 931 - 998 م)
«لا ينكر أن يكون لها استقرار تحت العرش، من حيث لا ندركه ولا نشاهده، وإنما هو خبر عن غيب، فلا نكذب به، ولا نكيفه ؛ لأن علمنا لا يحيط به " انتهى من» [أعلام الحديث شرح صحيح البخاري " ص/1893]
ترجمہ:
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سورج کا مستقر عرش کے نیچے ہے، کچھ اس طرح کہ اس استقرار کی حقیقت نہ ہم نے دیکھی، نہ ہم سمجھتے ہیں، یہ غیب کی ایسی خبر ہے (جو ہم تک پیغمبر کے پہنچی) جس کو ہم جھٹلا نہیں سکتے، نہ اس کی کیفیت بیان کرتے ہیں، کیونکہ اس کیفیت کا ہمیں علم ہی نہیں، [اعلام الحديث شرح صحيح بخاري]
   محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 38092   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3199  
فہم الحدیث:
سورج کا مغرب سے طلوع ہونا قیامت کی دس بڑی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ وہ دس نشانیاں یہ ہیں: خروج دجال، ظہور مہدی، نزول عیسیٰ علیہ السلام، یاجوج ماجوج کا خروج، دھویں کا ظہور، دابة الارض کا خروج، مغرب سے طلوع شمس، تین خسف، آگ کا ظہور اور صرف بدترین لوگوں کا باقی رہ جانا۔ ایک روایت میں مغرب سے طلوع آفتاب کے ساتھ ساتھ دو اور نشانیوں کا بھی ذکر ہے کہ جب ان کا ظہور ہو گا تو کسی کو اس کا ایمان لانا فائدہ نہیں دے گا اور وہ دو نشانیاں دھوئیں کا ظور اور دابة الارض کا خروج ہے۔ [مسلم: كتاب الايمان: باب بيان الزمن الذى لا يقبل فيه الايمان: 396]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 98   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3199  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
(ا)
سورج اور اسی طرح دوسرے سیاروں کی گردش محض کشش ثقل کا نتیجہ نہیں بلکہ اجرام فلکی اور ان کے نظام پر اللہ کا حکیم وخیبر کا زبردست کنٹرول ہے کہ ان میں نہ تو تصادم ہوتا ہے اور نہ ان کی مقررہ گردش ہی میں کمی بیشی ہوتی ہے اور یہ سب اجرام حکم الٰہی کے تحت گردش کر رہے ہیں۔
(ب)
قیامت سے پہلے ایسا وقت آنے والا ہے جب سورج مغرب سے طلوع ہو گا اور اس کے بعد نظام کائنات بگڑ جائے گا۔
مغربی اقوام آج مرکز ثقل اور گردشی محور کی تلاش میں ہیں۔
ممکن ہے کہ انھیں اس کا کوئی سراغ مل جائے اور وہ اس پر کنٹرول کر کے زمین کی گردش کچھ وقت کے لیے روک دیں اور جب کنٹرول کرنے کے بعد اسے چھوڑیں گے تو زمین آہستہ آہستہ اپنی اصل گردش پر رواں ہوگی۔
ایسے حالات میں ایک دن ایک سال کے برابر ہو سکتا ہے اور ایسا دجال کی آمد کے وقت ہو گا۔

آج مغرب زدلوگ سورج کے طلوع وغروب ہونے اور عرش کے نیچے سجدہ کرنے کے بعد دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت مانگنے پر اعتراض کرتے ہیں کہ سورج تو اپنی جگہ پر قائم ہے اور ہمیں جو طلوع و غروب نظر آتا ہے یہ تو محض زمین کی محوری گردش کی وجہ سے ہے؟ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سورج تو اپنی جگہ پر قائم ہے اور ہمیں جو طلوع و غروب نظر آتا ہے یہ تو محض زمین کی محوری گردش کی وجہ سے ہے؟ یہ اعتراض بہت ہی سطحی قسم کا ہے کیونکہ اللہ کا عرش اتنا وسیع ہے کہ ایک سورج کی کیا بات ہے کائنات کی ایک ایک چیز اس کے عرش کے نیچے ہے اور اس کے حضور سجدہ ریز ہے بہر حال ہر مقام پر سورج عرش کے نیچے ہے اور وہ ہر وقت اپنے مالک کے لیے سجدہ کررہا ہے اور اس سے آگے بڑھنے کی اجازت مانگ رہا ہے۔
چونکہ ہر ملک کا مغرب و مشرق مختلف ہے اس لیے طلوع و غروب کے وقت کو خاص کیا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3199   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4002  
´باب:۔۔۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور غروب شمس کا وقت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کہاں ڈوبتا ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فإنها تغرب في عين حامية‏"‏» یہ ایک گرم چشمہ میں ڈوبتا ہے (سورۃ الکہف: ۸۶) ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الحروف والقراءات /حدیث: 4002]
فوائد ومسائل:
یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور سورہ کہف آیات: 82 میں مذکورہ (عَیِنُ میرے سے اگلا لفظ لکھا نہیں جارہا) کی دوسری قراءت (عَیِنُ میرے سے اگلا لفظلکھا نہیں جارہا) ہے۔
(دیکھیے گزشتہ روایت:3986)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4002   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3227  
´سورۃ یس سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں سورج ڈوبنے کے وقت داخل ہوا، آپ وہاں تشریف فرما تھے۔ آپ نے فرمایا: ابوذر! کیا تم جانتے ہو یہ (سورج) کہاں جاتا ہے؟، ابوذر کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی کو معلوم، آپ نے فرمایا: وہ جا کر سجدہ کی اجازت مانگتا ہے تو اسے اجازت دے دی جاتی ہے تو ان اس سے کہا جاتا ہے وہیں سے نکلو جہاں سے آئے ہو۔ پھر وہ (قیامت کے قریب) اپنے ڈوبنے کی جگہ سے نکلے گا۔‏‏‏‏ ابوذر کہتے ہیں: پھر آپ نے «وذلك مستقر لها» یہی اس کے ٹھہرنے کی جگہ ہے پڑھا۔ راوی کہتے ہیں: یہی عبداللہ بن مسعود کی قرأت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3227]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مشہور قراء ت ہے ﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ﴾  (يــس: 38)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3227   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 399  
حضرت ابو ذرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن پوچھا: جانتے ہو! یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ صحابہؓ نے جواب دیا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی خوب جانتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: یہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ عرش کے نیچے اپنے مستقر پر پہنچ کر سجدہ کرتا ہے، تو وہ اس حالت میں رہتا ہے حتیٰ کہ اس کوکہا جاتا ہے: اٹھو! اور جہاں سے آئے ہو ادھر لوٹ جاؤ!، تو وہ واپس لوٹتا ہے اور اگلی صبح اپنے مطلع سے طلوع ہوتا ہے۔ پھر اگلے دن چلتا ہے یہاں تک کہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:399]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس کائنات کا ذرہ ذرہ اور ہرچیز اللہ کے حضور سجدہ کناں ہے،
سورۃ حج میں فرمایا:
﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّـهَ يَسْجُدُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ﴾ (الحج: 18)
کیا تمہیں معلوم نہیں،
اللہ کو وہ سب سجدہ کرتے ہیں جو آسمان میں ہیں اورجو زمین میں ہیں،
سورج اور چاند بھی،
ستارے اور پہاڑ بھی اور درخت و چوپائے بھی۔
ہر چیز کا سجدہ اس کی حیثیت اور مقام کے اعتبار سے ہے،
اس طرح اس کی زبان اور تسبیح اس کے مقام کے مطابق ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر چیز کی زبان کو سمجھتا ہے اور ہر چیز اس کے حکم کو سمجھتی ہے۔
عرش پوری کائنات کے اوپر ہے،
ہر چیز کہیں بھی ہو وہ عرش کے نیچے ہے۔
اور کوئی چیز اس کی اجازت کے بغیر حرکت نہیں کرسکتی،
سورج کا طلوع وغروب بھی اس کی اجازت کے مرہون منت ہے اور اس کا غروب،
آنکھوں سے اوجھل ہونا اور طلوع،
آنکھوں کے سامنے آنا ہے۔
جب تک اللہ کو اس دنیا کو قائم رکھنا مطلوب ہے،
یہ سلسلہ جاری رہے گا،
اور جب اس دنیا کا نظآم درہم برہم کرنا مطلوب ہوگا،
تو سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوگا،
جو اس دنیا کے خاتمہ کی علامت ہوگا اور قیامت قائم ہوجائے گی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 399   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7424  
7424. سیدنا ابو زر ؓ سے روایت ہے کہ میں (ایک مرتبہ) مسجد میں داخل ہوا تو رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف فرما تھے۔ جب سورج غروب ہوا تو آپ نے فرمایا: اے ابو ذر! کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ (سورج) کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نےفرمایا: یہ جاتا ہے اور سجدے کی اجازت چاہتا ہے، پھر اسے اجازت دی جاتی ہے۔ گویا (ایک وقت آئے گا کہ) اسے کہا جائے گا: وہاں واپس جاؤ جہاں سے آئے ہو تو وہ مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: یہ اس کی گزرگاہ ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کی قراءت اسی طرح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7424]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث اوپرگزر چکی ہے۔
اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ سورج حرکت کرتا ہے اورزمین ساکن ہے جیسے اگلے فلاسفہ کا قول تھا اور ممکن ہے کہ حرکت سے یہ مراد ہے کہ ظاہر میں جو سورج حرکت کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے مگر اس صورت میں لوٹ جانے کا لفظ ذرہ غیر چسپاں ہوگا۔
دوسرا شبہ اس حدیث میں یہ ہےکہ طلوع اورغروب سورج کا باعتبار اختلاف اقالیم اور بلدان تو ہر آن میں ہو رہا ہے پھر لازم ہے کہ سورج ہرآن میں سجدہ کررہا ہو اوراجازت طلب کررہا ہو۔
اس کا جواب یہ ہےکہ بیشک ہر آن میں وہ ایک ملک میں طلوع دوسرے میں غروب ہو رہا ہے اور ہرآن میں اللہ تعالی کا سجدہ گزار اورطالب حکم ہے۔
اس میں کوئی استبعاد نہیں۔
سجدے سے سجدہ تھوڑے مراد ہے جیسے آدمی سجدہ کرتا ہے بلکہ سجدہ قہری اورحالی یعنی اطاعت اوامر خداوندی۔
دوسری روایت میں ہےکہ وہ عرش کےتلے سجدہ کرتا ہے۔
یہ بھی بالکل صحیح ہے۔
معلوم ہوا پروردگار کاعرش بھی کروی ہے اورسورج ہرطرف سےاسکے تلے واقع ہے کیونکہ عرش تمام عالم کے وسط اورتمام عالم کومحیط ہے۔
اب یہ اشکال رہےگا۔
فإنھا تعلب لي تسجد تحت العرش میں حتی کے کیا معنی رہیں گے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حتی یہاں تعلیل کے لیے ہے یعنی وہ اس لیے چل رہا ہےکہ وہ ہمیشہ عرش کےتلے سربسجود اورمطیع اوامر خداوندی رہے۔
نوٹ:
سائنسدانوں اور جغرافیہ دانوں کے مفروضے آئے روز بدلتے رہتے ہیں ہمیں اسی چیز پرایمان رکھنا جاہیے کہ سورج حرکت کرتا ہے اورسجدہ بھی، کیفیت اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
(محمود الحسن اسد)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7424   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7424  
7424. سیدنا ابو زر ؓ سے روایت ہے کہ میں (ایک مرتبہ) مسجد میں داخل ہوا تو رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف فرما تھے۔ جب سورج غروب ہوا تو آپ نے فرمایا: اے ابو ذر! کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ (سورج) کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نےفرمایا: یہ جاتا ہے اور سجدے کی اجازت چاہتا ہے، پھر اسے اجازت دی جاتی ہے۔ گویا (ایک وقت آئے گا کہ) اسے کہا جائے گا: وہاں واپس جاؤ جہاں سے آئے ہو تو وہ مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: یہ اس کی گزرگاہ ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کی قراءت اسی طرح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7424]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے۔
سورج جاتا ہے اور عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے پھر اجازت طلب کرتا ہے تو اسے طلوع ہونے کی اجازت دی جاتی ہے قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے لیکن اس کا سجدہ قبول نہ کیا جائے اور وہ طلوع کی اجازت مانگے تو اسے اجازت نہ دی جائے اور اسے کہا جائے جہاں سے آئے ہو وہاں واپس چلے جاؤ۔
اس وقت وہ مغرب کی طرف سے طلوع ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
(وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ) (یٰس: 36۔
38)

اور سورج اپنی مقررہ گزر گاہ پر چل رہا ہے یہی زبردست علیم ہستی کا مقرر کردہ اندازہ ہے۔

ایک روایت میں ہے۔
"سورج کی گزر گاہ عرش کے نیچے ہے۔

اس حدیث سے دو باتوں کا پتا چلتا ہے۔
سائنس دانوں کا نظریہ ہے کہ سورج اور دوسرے سیاروں کی گردش کشش ثقل (Gravitation)
وہ قوت ہے جس سے زمین تمام اجسام کو اپنی طرف کھنچتی ہے)
اور مرکز گریز قوت (Centrifugal Force)
ایسی قوت ہے جو گردش سے پیدا ہوتی ہے اور ہر گھومتے ہوئے جسم کو محسوس ہوتی ہے اور یہ گردش کے مرکز کی مخالف سمت میں ہوتی ہے)
کا نتیجہ ہے جبکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاروں کی گردش میں تصادم کا نہ ہونا اس بنا پرہے کہ اس نظام پر اللہ حکیم و خبیر کا کنٹرول ہے۔
یہ سب اجرام فلکی اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت گردش کر رہے ہیں اور ان کی مقررہ گردش میں کمی بیشی نہیں ہوتی۔
قیامت سے پہلے ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب ان سیاروں کی گردش کا نظام تہ و بالا ہو جائے گا اور سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔
اس کے بعد کائنات کا نظام ایک دھماکے سے دوچار ہو جائے گا۔
اور زمین و آسمان ٹکرا کر تباہ ہو جائیں گے۔
اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کے عرش کی عظمت و رفعت اور وسعت کا پتا چلتا ہے کہ ایک سورج کی کیا بات ہے بلکہ کائنات کی ایک ایک چیز اس کے عرش تلے ہے اور اس کے نیچے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہے نیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے سپرد کردہ خدمت سر انجام دینے پر لگی ہوئی ہے۔
صحیح مسلم میں حدیث صحیح بخاری ذرا تفصیل سے آئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم جانتے ہو یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ صحابہ نے کہا:
اللہ اور اس کے رسول ہی خوب جانتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ اپنے ٹھہرنے کی جگہ پر عرش کے نیچے آتا ہے وہاں سجدے میں گر پڑتا ہے۔
پھر اسی حال میں رہتا ہے حتی کہ اسے اٹھنے کا حکم ہوتا ہےاور کہا جاتا ہے کہ جہاں سے آیا وہیں لوٹ جا۔
وہ لوٹ جاتا ہے اور اپنے نکلنے کی جگہ سے طلوع ہوتا ہے پھر چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ اپنے ٹھہرنے کی جگہ پر عرش کے نیچے آتا ہے اور سجدہ کرتا ہے پھر اسی حالت میں رہتا ہے یہاں تک کہ اس سے کہا جاتا ہے کہ اُٹھ جا اور جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا۔
وہ حسب معمول مشرق سے طلوع ہوتا ہے۔
لوگ اس کی چال میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے یہاں تک ایک ایسا دن آئے گا۔
کہ وہ عرش کے نیچے اپنے ٹھہرنے کی جگہ پر آئے گا تو اس سے کہا جائے گا۔
کہ اُٹھ جا اور مغرب کی طرف سے طلوع ہو پھر وہ مغرب کی طرف سے ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم جانتے ہو ایسا کب ہو گا؟ یہ اس وقت ہو گا جب کسی کو جو پہلے ایمان نہ لایا ہو گا اس کا ایمان لانا فائدہ نہ دے گا اور جس نے اپنے ایمان کے زمانے میں اس سے پہلے نیک عمل نہ کیے ہوں گے تو اس وقت نیک عمل کرنا بھی فائدہ مند نہ ہو گا۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 399۔
(159)
قرآن کریم میں سورج کے علاوہ وہ چاند تاروں، پہاڑوں اور دوسری چیزوں کے سجدہ کرنے کا بھی ذکر ہے۔
اس سجدے کی کیفیت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ہمیں اس پر صرف ایمان لانا چاہیے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7424   

  الشيخ اسحاق سلفی حفظہ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ابوداود 4002  
...آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کہاں ڈوبتا ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فإنها تغرب في عين حامية‏"‏» یہ ایک گرم چشمہ میں ڈوبتا ہے۔ [ابوداود 4002]
«قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد​»
شیخ ناصرالدین البانیؒ نے اسے صحیح کہا ہے،

سعودی عرب کے مشہور مستند عالم اور مدینہ یونیورسٹی کے استاذ الشيخ عبدالمحسن بن حمد العباد۔۔ سنن ابی داود کی شرح میں فرماتے ہیں:
«قال: (تغرب فى عين حامية) وهذه قراءة أيضاً متواترة، وفي القراءة التى سبق أن مرت: (عين حمئة)، وهى التى فى المصحف الذى بين أيدينا، والمقصود من ذلك أنها فى نهايتها، فعندما يكون الإنسان فى نهاية الأرض فإنه يراها ر أى العين كأنها تسقط فى البحر، ومعلوم أنها تدور فى فلكها، وهى تغيب عن أناس وتظهر على أناس، لا أنها تغادر وتبقى الدنيا كلها فى ظلام دامس لا وجود لها، بل إنها تكون موجودة، ولكنها تغيب عن أناس وتظهر على أناس، كما هو الواقع المشاهد وكما هو معلوم من قبل .....»
ترجمہ:کہ اس حدیث میں جو الفاظ نبوی وارد ہیں کہ (سورج ایک گرم چشمہ میں غروب ہوتا ہے) تو یہ الفاظ بھی متواتر قراءت کے ہیں، جس طرح پہلے گزرا کہ سورۃ کہف کی اس آیت کے الفاظ ہمارے پاس موجودمصحف میں (عين حمئة) ہیں،
اور اِس جملہ سے مراد یہ ہے کہ اگر انسان زمین کے سرے پر ہو یعنی سامنے سمندر ہو تو غروب آفتاب کے وقت ایسا لگتا ہے گویا وہ سمندر میں ڈوب رہا ہے،
جبکہ معلوم ہی ہے کہ آفتاب اپنے فلک پر گھوم رہا ہے،اور کہیں کچھ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہورہا ہوتا ہے تو اسی وقت کہیں کچھ لوگوں کے سامنے ظاہر (طلوع) ہو رہا ہوتا ہے، یعنی وہ اس طرح غروب نہیں ہوتا کہ ایک دم ساری دنیا سے اوجھل ہوجائے، پوری دنیا اندھیرے میں ڈوب جائے اور اس دنیا میں سورج کا وجود ہی نہ رہے، الغرض وہ مسلسل موجود رہتا ہے، ہاں کچھ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے اور کچھ لوگوں کو نظر آتا ہے، جیسا کہ محسوس و مشاہد حقیقت ہے))
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہی حدیث صحیح بخاری (3199) میں ان الفاظ سے منقول ہے:
«عَنْ أَبِي ذَرٍّ هُرَيْرَةَقَالَ قَال النَّبِيُّ (صلي الله عليه وآله وسلم) لأَبِي ذَرٍّ حينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ تَدْرِي أَيْنَ تَذْهَبُ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتَّي تَسْجُدَ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَتَسْتَأْذِنَ فَيُؤْذَنَ لَهَا، وَيُوشِكُ أَنْ تَسْجُدَ فَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا، وَتَسْتَأْذِنَ فَلاَ يُؤْذَنُ لَهَا، يُقَالُ لَهَا ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِءْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالٰي (وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ)» [رواه البخاري: باب صِفَةِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ]
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہے۔ آپ نے فرمایا سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے اسے اجازت مل جاتی ہے۔ قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے گا اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو۔ وہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرے گا اور اس کو اجازت نہ ملے اسے حکم ہو جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہو جا۔ چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج کہاں غروب ہوتا ہے؟
﴿حتى اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِيْ عَيْنٍ حَمِئَةٍ﴾ [سورة الكهف 86]
ذوالقرنین نے سفر شروع کیا حتی کہ سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچ گیا اور اسے ایک دلدل کے چشمے میں غروب ہوتا ہوا پایا "

------------------
امام ابن کثیرؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں؛
«وقوله: {وجدها تغرب فى عين حمئة} أي: رأى الشمس فى منظره تغرب فى البحر المحيط، وهذا شأن كل من انتهى إلى ساحله، يراها كأنها تغرب فيه، وهى لا تفارق الفلك الرابع الذى هي مثبتة فيه لا تفارقه (7) .
والحمئة مشتقة على إحدى القراءتين (8) من "الحمأة" وهو الطين، كما قال تعالى: {إني خالق بشرا من صلصال من حمإ مسنون} [الحجر: 28] أي: طين أملس (9) . وقد تقدم بيانه.
وقال ابن جرير: حدثني يونس، أخبرنا ابن وهب (10) حدثني نافع بن أبى نعيم، سمعت عبد الرحمن الأعرج يقول: كان ابن عباس يقول (11) {في عين حمئة} ثم فسرها: ذات حمأة. قال نافع: وسئل عنها كعب الأحبار فقال: أنتم أعلم بالقرآن مني، ولكني أجدها فى الكتاب تغيب فى طينة سوداء (12) .
وكذا روى غير واحد عن ابن عباس، وبه قال مجاهد وغير واحد.:»

(ذوالقرنین سفر کرتے کرتے) جب انتہائے مغرب کی سمت پہنچ گئے تو یہ منظر دیکھا کہ گویا بحر محیط میں سورج غروب ہو رہا ہے۔ جو بھی کسی سمندر کے کنارے کھڑا ہو کر سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھے گا تو بظاہر یہی منظر اس کے سامنے ہو گا کہ گویا سورج پانی میں ڈوب رہا ہے۔ حالانکہ سورج چوتھے آسمان پر ہے اور اس سے الگ کبھی نہیں ہوتا «حَمِئَۃٍ» یا تو مشتق ہے «حماۃ» سے یعنی چکنی مٹی۔ آیت قرآنی ﴿وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَٰٓئِكَةِ إِنِّى خَٰلِقُۢ بَشَرًا مِّن صَلْصَٰلٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ﴾ [15-الحجر:28]
میں اس کا بیان گزر چکا ہے۔ یہی مطلب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، اور سیدنا حضرت کعب رحمہ اللہ فرماتے تھے تم ہم سے زیادہ قرآن کے عالم ہو لیکن میں تو کتاب میں دیکھتا ہوں کہ وہ سیاہ رنگ مٹی میں غائب ہو جاتا تھا۔
ایک قرأت میں «فِيْ عَيْنٍ حَامِيَةِ» ہے یعنی گرم چشمے میں غروب ہونا پایا۔ یہ دونوں قرأتیں مشہور ہیں اور دونوں درست ہیں خواہ کوئی سی قرأت پڑھے اور ان کے معنی میں بھی کوئی تفاوت نہیں کیونکہ سورج کی نزدیکی کی وجہ سے پانی، گرم ہوا اور وہاں کی مٹی کے سیاہ رنگ کی وجہ سے اس کا پانی کیچڑ جیسا ہی ہو۔​
   محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 38092