حبان بن موسیٰ نے ہمیں حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہمیں یونس بن یزید ایلی نے خبر دی، نیز ہمیں اسحٰق بن ابراہیم، محمد بن رافع اور عبد بن حمید نے بھی (یہی) حدیث بیان کی۔۔ ابن رافع نے کہا: ہمیں عبدالرزاق نے حدیث بیان کی اور دیگر نے کہا: ہمیں خبر دی۔۔ انہوں نے کہا: ہمیں معمر نے خبر دی، اور (حدیث کا) پچھلا حصہ معمر کی حدیث کا ہے جو عبد (بن حمید) اور (محمد) ابن رافع سے روایت کی گئی ہے، یونس اور معمر دونوں نے زہری سے روایت کرتے ہوئے کہا: مجھے سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے بارے میں خبر دی جب بہتان تراشنے والوں نے اس حوالے سے جو کچھ کہا، وہ کہا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سے کی گئی باتوں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براءت فرما دی۔ ان سب نے مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا کچھ حصہ بیان کیا، ان میں سے بعض کو دوسرے بعض لوگوں کی نسبت ان (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) کی حدیث زیادہ یاد تھی۔ میں نے ان میں سے ہر ایک سے اس کی بیان کی ہوئی حدیث اچھی طرح حفظ کر لی۔ ان کی حدیث کے اجزاء ایک دوسرے کی تائید اور تصدیق کرتے ہیں۔ ان سب نے یہ بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر کے لیے نکلنے کا ارادہ فرماتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے، ان میں سے جس کا قرعہ نکلتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے ساتھ لے کر (سفر پر) نکلتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگ میں جو آپ نے لڑی، (غزوہ بنی مصطلق مراد ہے جس کا دوسرا نام غزوہ مُریسیع ہے۔ یہ 5ھ میں لڑی گئی) قرعہ ڈالا تو میرا نام نکلا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئی۔ یہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد کا واقعہ ہے۔ پورے سفر میں مجھے ہودج (کجاوے) میں ہی اٹھایا (اور اونٹ کی پیٹھ پر بٹھایا) جاتا تھا اور ہودج ہی میں (نیچے) اتارا جاتا تھا یہاں تک کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے غزوے سے فارغ ہو گئے اور واپس روانہ ہوئے اور ہم مدینہ سے قریب پہنچ گئے تو آپ نے (رات کا کچھ حصہ آرام کرنے کے بعد) رات ہی کو سفر کا اعلان فرما دیا۔ جب ان سب لوگوں نے سفر کا اعلان کر دیا تو میں اٹھی، (پہلے) چل کر لشکر سے باہر نکلی اور جب ضرورت سے فارغ ہو گئی تو کجاوے کی طرف آئی۔ اس وقت میں نے اپنی گردن کے نیچے ہاتھ لگایا تو (یمن کے شہر) ظفار کے (سفید و سیاہ) پتھروں کا میرا ہار ٹوٹ (کر گر) چکا تھا۔ میں واپس ہوئی اور اپنا ہار ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ اس کی تلاش نے مجھے (کافی دیر کے لئے وہیں) روکے رکھا۔ (اتنے میں) وہ لوگ، جو اونٹ کی پشت پر میرا کجاوا باندھا کرتے تھے، آئے، کجاوا اٹھایا اور میرے اس اونٹ پر باندھ دیا جس پر میں سفر کیا کرتی تھی۔ وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ میں اس (کجاوے) کے اندر موجود ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اس زمانے میں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں، موٹی نہیں ہوتی تھیں، نہ ان پر گوشت چڑھا ہوتا تھا، وہ سانس کی ڈوری بندھی رہنے کے بقدر کھانا کھاتی تھیں۔ ان لوگوں نے جب میرے کجاوے کو اٹھایا اور اونچا کیا تو اس کے وزن میں کوئی تبدیلی محسوس نہ کی۔ میں (اس وقت) کم عمر لڑکی ہی تھی۔ انہوں نے اونٹ کو کھڑا کیا اور چل پڑے۔ مجھے اپنا ہار لشکر روانہ ہونے کے بعد ہی ملا تھا۔ میں ان کی رات گزارنے کی جگہوں پر آئی تو وہاں نہ کوئی کسی کو بلانے والا تھا، نہ جواب دینے والا، میں نے اسی جگہ کا رخ کیا جہاں (رات کو اپنے خیمے میں) ٹھہری تھی۔ مجھے یقین تھا کہ جب وہ لوگ مجھے (کجاوے میں) نہ پائیں گے تو میری طرف واپس آئیں گے، میں اپنی اسی منزل پر بیٹھی ہوئی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی۔ بنوسلیم کے بطن بنو ذکوان سے تعلق رکھنے والے صفوان بن معطل نے رات کے وقت لشکر کے پیچھے قیام کیا تھا۔ وہ رات کے آخری حصے میں روانہ ہوئے اور صبح کے وقت میری منزل کے پاس آئے تو انہیں کسی سوئے ہوئے انسان کا سایہ سا نظر آیا، وہ میرے قریب آئے تو مجھے دیکھ کر پہچان لیا۔ انہوں نے مجھ پر حجاب فرض ہونے سے پہلے مجھے دیکھا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے پہچاننے کے بعد انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا تو میں جاگ گئی۔ میں نے اپنی پردے کی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانک لیا، اللہ کی قسم! وہ مجھ سے ایک کلمہ تک نہیں کہہ رہے تھے اور نہ ہی انا للہ کے علاوہ میں نے ان کے منہ سے کوئی بات سنی یہاں تک کہ انہوں نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا۔ وہ اونٹنی کے اگلے پاؤں پر چڑھ کر کھڑے ہو گئے (تاکہ وہ ہل نہ سکے) تو میں اس اونٹنی پر سوار ہو گئی اور وہ مجھے اونٹنی پر بٹھا کر اس کی نکیل کی رسی پکڑ کر چل پڑے، یہاں تک کہ جب لوگ دوپہر کی شدید گرمی کے سامنے بے حال ہو کر اتر گئے تو اس کے بعد ہم لشکر میں پہنچے۔ تو میری حالت کے بارے میں جس نے ہلاکت میں پڑنا تھا، وہ ہلاکت میں پڑا اور جو شخص اس بہتان تراشی کے سب سے بڑے حصے کا ذمہ دار تھا وہ (رئیس المنافقین) عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔ ہم مدینہ آ گئے۔ مدینہ آتے ہی میں ایک مہینہ بیمار رہی۔ لوگ بہتان باندھنے والوں کی باتوں میں باتیں ملاتے رہے جبکہ مجھے اپنی بیماری کی وجہ سے ان میں سے کسی بات کا شعور تک نہ تھا۔ میری بیماری کے دوران میں جو بات مجھے کھٹکتی تھی وہ یہ تھی کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وہ لطف و کرم میسر نہ تھا جو میں اپنی بیماری کے دوران میں ہمیشہ دیکھا کرتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر آتے، سلام کہتے اور کہتے: "آپ لوگ کیسی ہو؟" بس یہی بات مجھے کھٹکتی تھی لیکن اصل (شے) کا مجھے پتہ نہ چلتا تھا۔ یہاں تک کہ میں بہت نقاہت کے بعد باہر نکلی، میں مسطح کی ماں کے ہمراہ (مدینہ سے باہر) مناصع کی طرف نکلی، وہیں ہمارا ضرورت کے لیے باہر جانے کا علاقہ تھا اور ہم ایک رات کے بعد دوسری رات ہی تو باہر نکلتے تھے۔ یہ اس سے پہلے کی بات ہے جب ہم نے اپنے گھروں کے قریب (حوائج ضروریہ کے لیے) پردہ دار جگہیں بنا لی تھیں اور ضرورت سے فراغت کے معاملے میں ہمارا طریقہ ابتدائی عربوں کا سا تھا، ہمیں پردہ دار جگہیں اپنے گھروں (رہائشی حجروں) کے پاس بنانے سے اذیت ہوتی تھی۔ میں اور مسطح کی ماں چل پڑیں۔ وہ ابو رہم بن مطلب بن عبد مناف کی بیٹی تھیں۔ ان کی والدہ صخر بن عامر کی بیٹی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خالی تھیں۔ اور ان کا بیٹا مسطح بن اثاثہ بن عباد بن مطلب کا بیٹا تھا۔ میں اور ابورہم کی بیٹی (مسطح کی والدہ) اپنی ضرورت سے فارغ ہو کر میرے گھر کی طرف آئیں تو ام مسطح رضی اللہ عنہ اپنی موٹی اونی چادر میں ا (لجھیں اور) پھسل کر گر پڑیں۔ اور کہنے لگیں: (اللہ کرے) مسطح منہ کے بل گر کر ہلاک ہو! میں نے ان سے کہا: آپ نے بہت بری بات کہی ہے۔ آپ ایسے شخص کو بددعا دے رہی ہیں جو بدر میں شامل تھا۔ وہ کہنے لگیں: اے بھولی عورت! تم نے نہیں سنا، اس نے کیا کہا ہے؟ میں نے کہا: اس نے کیا کہا ہے؟ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تو انہوں نے مجھے بہتان تراشوں کی بات بتائی اور میری (پہلی) بیماری میں (دوسری سخت ترین) بیماری کا اضافہ ہو گیا۔ میں جب واپس اپنے گھر آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر داخل ہوئے، سلام کہا، پھر پوچھا: "تم لوگ کیسی ہو؟" (تو) میں نے کہا: کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اپنے والدین کے ہاں چلی جاؤں؟ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: میں اس وقت یہ چاہتی تھی کہ ان دونوں (والدین) کی طرف سے خبر کے بارے میں تیقن حاصل کر لوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی، میں اپنے والدین کے ہاں آ گئی اور اپنی والدہ سے کہا: امی! لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: بیٹی اس معاملے کو اپنے لیے مزید تکلیف کا ذریعہ نہ بناؤ۔۔ اللہ کی قسم! ایسا نہ ہونے کے برابر ہے کہ کسی مرد کے ہاں کوئی خوبصورت بیوی ہو، وہ اس سے محبت کرتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں تو عورتیں اس پر بڑھا کر باتیں نہ کریں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: میں نے کہا: سبحان اللہ! تو کیا لوگ اس طرح کی باتیں (بھی) کر رہے ہیں؟ اس رات صبح ہونے تک میں مسلسل روتی رہی، نہ آنسو رکتے تھے، نہ آنکھوں میں سرمے جتنی (قلیل ترین مقدار میں) نیند محسوس کرتی تھی، پھر میں نے روتے ہوئے صبح کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب وحی کی آمد میں تاخیر محسوس کی تو علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنی بیوی سے جدائی کے بارے میں مشورے کے لیے بلایا۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے تو اسی طرف اشارہ کیا جو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ کی براءت اور ان کی (آپس کی) محبت کے بارے میں جانتے تھے۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! وہ آپ کی گھر والی ہیں اور ہم اچھائی کے سوا اور کوئی بات جانتے تک نہیں۔ رہے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تو انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو کسی تنگی میں نہیں رکھا ہوا، ان کے علاوہ بھی عورتیں بہت ہیں۔ اگر آپ خادمہ سے پوچھیں تو آپ کو وہ سچ بتائے گی۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی آزاد کردہ کنیز) کو بلایا اور فرمایا: "بریرہ! تم نے (کبھی) کوئی ایسی چیز دیکھی جس سے تمہیں عائشہ کے بارے میں شک ہوا ہو؟" بریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! ان کے خلاف میں نے اس سے زیادہ کبھی کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جس کا میں ان پر عیب لگاؤں کہ وہ ایک نو عمر لڑکی ہے، اپنے گھر والوں کا آٹا گندھا چھوڑ کر سو جاتی ہے اور بکری آ کر اسے کھا لیتی ہے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور عبداللہ بن ابی بن سلول کے (خلاف کاروائی کے) بارے میں معذرت طلب فرمائی۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا: "اے مسلمانوں کی جماعت! (تم میں سے کون) کون شخص مجھے اس آدمی کے خلاف (کاروائی کے) حوالے سے معذور سمجھتا ہے جس کی اذیت رسانی کا سلسلہ میرے گھر والوں تک پہنچ گیا ہے۔ اللہ کی قسم! میں اپنے گھر والوں کے بارے میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتا اور جس آدمی کا انہوں نے ذکر کیا ہے اس کے بارے میں بھی میں خیر اور بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں جانتا۔ وہ جب بھی میرے گھر آیا ہے ہمیشہ میرے ہی ساتھ آیا ہے۔" تو سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اللہ کے رسول! میں اس کے بارے میں آپ کا عذر مانتا ہوں۔ اگر وہ اوس میں سے ہوتا تو ہم اس کی گردن مار دیتے اور اگر وہ ہمارے برادر قبیلے خزرج میں سے ہے تو آپ ہمیں حکم دیں گے اور ہم آپ کے حکم پر عمل کریں گے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے، وہ خزرج کے سردار تھے اور نیک انسان تھے، لیکن انہیں (قبائلی) حمیت نے جاہلیت کے دور میں گھسیٹ لیا۔ انہوں نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا: بقائے الہیٰ کی قسم! تم نے جھوٹ کہا۔ نہ تم اسے قتل کرو گے، نہ ہی تم میں اس کے قتل کی ہمت ہے۔ اس پر اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے۔ وہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے چچا زاد تھے۔ انہوں نے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے کہا: تم نے جھوٹ کہا ہے، بقائے الہیٰ کی قسم! ہم اسے ضرور بالضرور قتل کریں گے۔ تم منافق ہو اور منافقوں کی طرف سے جھگڑا کرتے ہو۔ اوس اور خزرج کے دونوں قبیلے جوش میں آ گئے، یہاں تک کہ آپس میں لڑنے پر آمادہ ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر ہی پر کھڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل انہیں دھیما کرتے رہے یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش ہو گئے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: میں وہ سارا دن روتی رہی، نہ آنسو تھمتے تھے، نہ آنکھوں میں نیند کا سرمہ ہی لگا سکتی تھی۔ پھر اگلی رات بھی میں روتی رہی، نہ آنسو تھمتے تھے، نہ میں آنکھوں میں نیند کا سرمہ ہی لگا سکتی تھی (سرمے کے برابر نیند محسوس کر سکتی تھی۔) میرے ماں باپ یہ سمجھتے تھے کہ یہ رونا میرا جگر پھاڑ دے گا۔ وہ دونوں میرے پاس بیٹھے تھے اور میں روئے جا رہی تھی کہ انصار کی ایک عورت نے میرے پاس آنے کی اجازت مانگی، میں نے اسے اجازت دی تو وہ بھی بیٹھ کر رونے لگی۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لے آئے، سلام کہا، پھر بیٹھ گئے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: جب سے میرے بارے جو کہا گیا تھا، اس کے بعد آپ میرے پاس (آکر بھی) نہیں بیٹھے تھے۔ اور آپ ایک مہینہ (انتظار میں رہے)، آپ کی طرف میرے بارے میں کوئی وحی بھی نہیں آئی تھی، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے تو آپ نے شہادتین پڑھیں، پھر فرمایا: "اس کے بعد، عائشہ! مجھے تمہارے حوالے سے یہ یہ بات پہنچی ہے۔ اگر تم بَری ہو تو عنقریب اللہ تعالیٰ خود تمہاری براءت فرما دے گا اور اگر تم سی گناہ کے قریب (بھی) ہوئی ہو تو اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اس کی طرف توبہ کرو، کیونکہ بندہ جب گناہ کا اعتراف کر لیتا ہے، پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔" (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات ختم کی تو میرے آنسو رک گئے، یہاں تک کہ مجھے اپنی آنکھ میں ایک قطرہ بھی محسوس نہ ہو رہا تھا۔ میں نے اپنے والد سے کہا: آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا جواب دیں جو انہوں نے کہی ہے، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے معلوم نہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہوں، پھر میں نے اپنی ماں سے کہا: آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیں۔ انہوں نے (بھی وہی) کہا: واللہ! میں نہیں جانتی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہوں۔ تو میں نے، جبکہ اس وقت میں ایک کم عمر لڑکی تھی، زیادہ قرآن مجید یاد نہیں تھا (خود جواب دیتے ہوئے) کہا: اللہ کی قسم! میں نے یہ بات جان لی ہے کہ آپ لوگوں نے اس بات کو (بار بار) سنا ہے اور یہ آپ کے دلوں میں بیٹھ گئے ہے اور آپ اس کو سچ سمجھنے لگے ہیں۔ اگر میں آپ لوگوں سے کہوں کہ میں (گناہ سے بالکل) بَری ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں بَری ہوں تو آپ لوگ اس بات میں مجھے سچا نہیں مانو گے اور اگر میں آپ لوگوں کے سامنے اس معاملے کا اعتراف کر لوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں بَری ہوں، تو آپ لوگ میری تصدیق کرو گے۔ مجھے اپنے اور آپ لوگوں کے لیے حضرت یوسف علیہ السلام کے والد (یعقوب علیہ السلام) کے قول کے علاوہ اور کوئی مثال نہیں ملتی" صبر جمیل (سے کام لینا ہے) اور جو کچھ آپ لوگ کہتے ہیں، اس پر اللہ ہے جس سے مدد مانگنی ہے۔" (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر میں اپنا رخ پھیر کر اپنے بستر پر لیٹ گئی، انہوں نے کہا: اور میں اللہ کی قسم! اس وقت جانتی تھی کہ میں بَری ہوں اور (یہ بھی جانتی تھی کہ) اللہ بَری ہونے کی وجہ سے (خود) مجھے بَری فرمائے گا لیکن اللہ گواہ ہے، مجھے یہ گمان نہ تھا کہ وہ میرے بارے میں وحی نازل فرمائے گا جس کی تلاوت ہوا کرے گی میری نظر میں میرا مقام اس سے بہت حقیر تھا کہ اللہ عزوجل میرے بارے میں خود کلام فرمائے گا جس کی تلاوت ہو گئی لیکن میں یہ امید ضرور رکھتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے ہوئے کوئی خواب دیکھیں گے جس کے ذریعے سے اللہ مجھے بَری فرما دے گا۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے نہیں اٹھے تھے، نہ ابھی گھر والوں میں سے کوئی باہر نکلا تھا کہ اللہ عزوجل نے نے اپنے نبی پر وحی نازل فرما دی۔ وحی کے وقت آپ جس طرح پسینے سے شرابور ہو جاتے تھے آپ پر وہی کیفیت طاری ہو گئی، یہاں تک کہ سرد دن میں بھی نازل کی جانے والی وحی کے بوجھ سے پسینہ موتیوں کی طرح آپ کے جسم سے گرا کرتا تھا۔ انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کیفیت زائل ہوئی تو آپ ہنس رہے تھے اور پہلا جملہ جو آپ نے کہا، یہ تھا: "عائشہ! خوش ہو جاؤ، اللہ نے تمہیں بَری فرم دیا ہے۔" میری ماں نے مجھ سے کہا: کھڑی ہو کر ان کے پاس جاؤ۔ تو میں نے کہا: نہ میں کھڑی ہو کر آپ کی طرف جاؤں گی، نہ اللہ کے سوا کسی کا شکر ادا کروں گی، وہی ہے جس نے میری براءت نازل فرمائی۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا کہ اللہ عزوجل نے دس آیات نازل فرمائیں: "جو لوگ بہتان لے کر آئے وہ تمہی میں سے ایک گروہ ہے، تم اسے اپنے لیے برا مت سمجھو، بلکہ یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے۔" اللہ عزوجل نے یہ (دس) آیات میری براءت میں نازل فرمائیں۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اور وہ مسطح پر اپنے ساتھ اس کی قرابت اور اس کے فقر کی بنا پر خرچ کیا کرتے تھے، اللہ کی قسم! اس نے عائشہ کے بارے میں جو کہا ہے، اس کے بعد میں اس پر کچھ خرچ نہیں کروں گا۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت اتاری: "تم میں سے فضیلت اور استطاعت رکھنے والے یہ قسم نہ کھائیں کہ وہ قرابت داروں کو (خرچ) نہ دیا کریں گے" اپنے فرمان: "کیا تم لوگ یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے؟" تک۔ حبان بن موسیٰ نے کہا: عبداللہ بن مبارک کا قول ہے: یہ اللہ کی کتاب کی سب سے زیادہ امیدا افزا آیت ہے۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں یقینا یہ بات پسند کرتا ہوں کہ اللہ مجھے بخش دے، چنانچہ وہ مسطح رضی اللہ عنہ کو جو خرچ دیا کرتے تھے، دوبارہ دینے لگے اور کہا: میں یہ (خرچ) اس سے کبھی نہیں چھینوں گا (ہمیشہ دیتا رہوں گا۔) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا سے بھی میرے معاملے کے بارے میں دریافت کیا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھی: "تم کیا جانتی ہو یا (فرمایا:) تم نے کیا دیکھا؟" انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں کی حفاظت کرتی ہوں (کہ میں اپنے کانوں کی طرف جھوٹی بات سننے کو اور اپنی آنکھوں کی طرف جھوٹ دیکھنے کو منسوب کروں) اللہ کی قسم! میں (ان کے کردار میں) بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں جانتی۔ حضرت عائشہ نے کہا: اور یہی تھیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے (مرتبے اور قرب کے معاملے میں) میرے مدمقابل آتی تھیں، لیکن خدا خوفی کی بنا پر اللہ نے ان کو (غلط بات کہنے سے) محفوظ رکھا، جبکہ ان کی بہن حمنہ بنت حجش رضی اللہ عنہا نے ان کے لیے لڑائی شروع کر دی اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوئیں۔ (قذف و بہتان کے گناہ کا ارتکاب کر بیٹھیں۔) زہری نے کہا: یہ (واقعہ) ہے جو ان سب (بیان کرنے والوں) کی طرف سے ہم تک پہنچا۔ یونس کی حدیث میں (حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے) ہے: ان (سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ) کو (قبائلی) حمیت نے اکسا دیا۔
امام زہری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ مجھ سے سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ کی یہ حدیث روایت کی، جب ان پر تہمت لگانے والوں نے تہمت لگائی اور کہا جو کہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی تہمت سے پاک کیا۔ زہری نے کہا کہ ان سب لوگوں نے مجھ سے اس حدیث کا ایک ایک ٹکڑا روایت کیا اور ان میں سے بعض دوسروں سے اس حدیث کو زیادہ یاد رکھنے والے تھے اور زیادہ حافظ اور عمدہ بیان کرنے والے تھے اور میں نے ہر ایک سے جو اس نے روایت کی یاد رکھا اور بعض کی حدیث بعض کی تصدیق کرتی ہے۔ ان لوگوں نے بیان کیا کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالتے اور جس عورت کے نام پر قرعہ نکلتا اس کو سفر میں ساتھ لے جاتے تھے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے ایک سفر میں قرعہ ڈالا تو اس میں میرا نام نکلا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئی اور یہ اس وقت کا ذکر ہے جب پردہ کا حکم اتر چکا تھا۔ میں اپنے ہودج میں سوار ہوتی اور راہ میں جب پڑاؤ ہوتا تو میرا ہودج اتار لیا جاتا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد سے فارغ ہو کر لوٹے اور مدینہ سے قریب ہو گئے تو ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو کوچ کا حکم دیا؟ جب لوگوں نے کوچ کی خبر کر دی تو میں کھڑی ہوئی اور چلی یہاں تک کہ لشکر سے ایک طرف چلی گئی۔ جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوئی تو اپنے ہودج کی طرف آئی اور سینہ کو چھوا تو معلوم ہوا کہ میرا ظفار کے نگینوں کا ہار گم ہو گیا ہے (ظفار یمن میں ایک گاؤں کا نام ہے) میں لوٹی اور اس ہار کو ڈھونڈھنے لگی، اس کے ڈھونڈنے میں مجھے دیر لگی اور وہ لوگ آ پہنچے جو میرا ہودہ اٹھاتے تھے، انہوں نے ہودہ اٹھایا اور اس اونٹ پر رکھ دیا جس پر میں سوار ہوتی تھی اور وہ یہ سمجھے کہ میں اسی ہودے میں ہوں۔ اس وقت عورتیں ہلکی (دبلی) ہوتی تھیں کیونکہ تھوڑا کھانا کھاتی تھیں۔ اس لئے جب انہوں نے ہودج اٹھا کر اونٹ پر رکھا تو انہیں اس کا وزن ہلکا محسوس نہ ہوا میں ویسے بھی ایک کم سن لڑکی تھی۔ آخر لوگوں نے اونٹ کو اٹھایا اور چل دئیے۔ میں نے اپنا ہار اس وقت پایا جب سارا لشکر چل دیا تھا اور میں جو ان کے ٹھکانے پر آئی تو وہاں نہ کسی کی آواز تھی اور نہ کوئی آواز سننے والا تھا۔ میں نے یہ ارادہ کیا کہ جہاں بیٹھی تھی وہیں بیٹھ جاؤں اور میں سمجھی کہ لوگ جب مجھے نہ پائیں گے تو یہیں لوٹ کر آئیں گے۔ تو میں اسی ٹھکانے پر بیٹھی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں سو رہی۔ اور صفوان بن معطل سلمی ذکوانی ؓ ایک آدمی جو کہ آرام کے لئے آخر رات میں لشکر کے پیچھے ٹھہرے تھے جب وہ روانہ ہوئے تو صبح کو میرے ٹھکانے پر پہنچے۔ ان کو ایک آدمی کا جسم معلوم ہوا جو سو رہا ہو، وہ میرے پاس آیا اور مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ پردہ کا حکم اترنے سے پہلے اس نے مجھے دیکھا تھا۔ میں ان کی آواز سن کر جاگ اٹھی جب اس نے مجھے پہچان کر ((اناللہ وانا الیہ راجعون)) پڑھا پس میں نے اپنی اوڑھنی سے اپنا منہ ڈھانپ لیا۔ اللہ کی قسم! اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی اور نہ میں نے اس کی کوئی بات سوائے ”اناللہ وانا الیہ راجعون“ کہنے کے سنی۔ پھر اس نے اپنا اونٹ بٹھایا اور اونٹ کے گھٹنے پر اپنا پاؤں میرے سوار ہونے کے لئے رکھا۔ میں اونٹ پر سوار ہو گئی اور وہ اونٹ کو کھینچتا ہوا پیدل چلا، یہاں تک کہ ہم لشکر میں پہنچے اور لشکر کے لوگ دوپہر کی سخت گرمی میں اتر چکے تھے۔ سو میرے اس معاملہ میں بدگمانی کی وجہ سے ہلاک ہوئے جو ہوئے، اور قرآن میں جس کے متعلق ”تولّٰی کبرہ“ آیا ہے، یعنی اس تہمت کا بانی مبانی، وہ عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافقوں کا سردار) تھا۔ آخر ہم مدینہ میں آئے اور جب میں مدینہ میں پہنچی تو بیمار ہو گئی۔ ایک مہینہ تک بیمار رہی اور لوگوں کا یہ حال تھا کہ بہتان لگانے والوں کی باتوں میں غور کرتے تھے اور مجھے ان کی کسی بات کی کوئی خبر نہ تھی۔ صرف مجھے اس بات سے شک ہوا کہ میں نے اپنی بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ شفقت نہ دیکھی جو پہلے میری بیماری کی حالت میں ہوتی تھی۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اندر آتے، سلام کرتے اور پھر فرماتے کہ تمہارا کیا حال ہے؟ پس اس بات سے مجھے شک ہوتا لیکن مجھے اس خرابی کی خبر نہ تھی، یہاں تک کہ جب میں بیماری کے جانے کے بعد دبلی ہو گئی تو میں مناصع کی طرف نکلی اور میرے ساتھ ام مسطح بھی نکلی (مناصع مدینہ کے باہر جگہ تھی) لوگوں کے (پائخانے بننے سے پہلے) پائخانے تھے۔ پھر دوسری رات کو جاتے تھے۔ یہ ذکر اس وقت کا ہے جب ہمارے گھروں میں پائخانے نہیں بنے تھے اور ہم لوگ اگلے عربوں کی طرح (پائخانے کے لئے) جنگل میں جایا کرتے تھے اور گھر کے پاس پائخانے بنانے سے نفرت رکھتے تھے۔ تو میں چلی اور ام مسطح بھی میرے ساتھ تھی اور وہ ابی رہم بن مطلب بن عبدمناف کی بیٹی تھی اور اس کی ماں صخر بن عامر کی بیٹی تھی جو سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی خالہ تھی (اس کا نام سلمیٰ تھا)۔ اس کے بیٹے کا نام مسطح بن اثاثہ بن عباد بن مطلب تھا۔ غرض میں اور ام مسطح دونوں جب قضائے حاجت سے فارغ ہو چکیں تو واپسی پر اپنے گھر کی طرف آ رہی تھیں کہ ام مسطح کا پاؤں اپنی چادر میں الجھا تو وہ بولی کہ مسطح ہلاک ہو۔ میں نے کہا کہ تو نے بری بات کہی۔ تو اس شخص کو برا کہتی ہے جو بدر کی لڑائی میں شریک تھا؟ وہ بولی کہ اے نادان! تو نے کچھ نہیں سنا کہ مسطح نے کیا کہا؟ میں نے کہا کہ اس نے کیا کہا؟ اس نے مجھ سے بیان کیا جو بہتان والوں نے کہا تھا۔ یہ سن کر میری بیماری زیادہ ہو گئی۔ میں جب اپنے گھر پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے اور سلام کیا اور فرمایا کہ تمہارا کیا حال ہے؟ میں نے کہا کہ آپ مجھے اپنے ماں باپ کے پاس جانے کی اجازت دیتے ہیں؟ اور میرا اس وقت یہ ارادہ تھا کہ میں اپنے ماں باپ کے پاس جا کر اس خبر کی تصدیق کروں گی۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دی اور میں اپنے ماں باپ کے پاس آئی۔ میں نے اپنی ماں سے کہا کہ امی جان! یہ لوگ کیا بک رہے ہیں؟ وہ بولی کہ بیٹا تو اس کا خیال نہ کر اور اس کو بڑی بات مت سمجھ، اللہ کی قسم! ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی مرد کے پاس ایک خوبصورت عورت ہو جو اس کو چاہتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور سوکنیں اس کے عیب نہ نکالیں۔ میں نے کہا کہ سبحان اللہ! لوگوں نے تو یہ کہنا شروع کر دیا۔ میں ساری رات روتی رہی، صبح تک میرے آنسو نہ ٹھہرے اور نہ نیند آئی، صبح کو بھی میں رو رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید کو بلایا کیونکہ وحی نہیں اتری تھی اور ان دونوں سے مجھے جدا کرنے (یعنی طلاق دینے) کا مشورہ لیا اور اسامہ بن زید ؓ نے تو وہی رائے دی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی کے حال کو جانتے تھے اور اس کی عصمت کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کے ساتھ محبت کو انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! عائشہ (ؓ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں اور ہم تو ان کی سوائے بہتری کے اور کوئی بات نہیں جانتے۔ علی ؓ بن ابی طالب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تنگی نہیں کی اور عائشہ ؓ کے سوا عورتیں بہت ہیں اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لونڈی سے پوچھیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ کہہ دے گی (لونڈی سے مراد بریرہ ؓ ہے جو عائشہ ؓ کے پاس رہتی تھی) ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو بلایا اور فرمایا کہ اے بریرہ! تو نے کبھی عائشہ سے ایسی بات دیکھی ہے جس سے تجھے اس کی پاکدامنی پر شک پڑے؟ بریرہ نے کہا کہ قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے، اگر میں ان کا کوئی کام دیکھتی تو میں عیب بیان کرتی، اس سے زیادہ کوئی عیب نہیں ہے کہ عائشہ کم عمر لڑکی ہے، گھر کا آٹا چھوڑ کر سو جاتی ہے، پھر بکری آتی ہے اور اس کو کھا لیتی ہے (مطلب یہ ہے کہ ان میں کوئی عیب نہیں جس کو تم پوچھتے ہو نہ اس کے سوا کوئی عیب ہے، جو عیب ہے وہ یہی ہے کہ بھولی بھالی لڑکی ہے اور کم عمری کی وجہ سے گھر کا بندوبست نہیں کر سکتی)۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور عبداللہ بن ابی ابن سلول سے جواب طلب کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر فرمایا کہ اے مسلمان لوگو! اس شخص سے مجھے کون انصاف دلائے گا جس کی ایذا دینے والی سخت بات میرے گھر والوں کی نسبت مجھ تک پہنچی، اللہ کی قسم! میں تو اپنی گھر والی (یعنی عائشہ صدیقہ ؓ) کو نیک سمجھتا ہوں اور جس شخص پر یہ تہمت لگاتے ہیں (یعنی صفوان بن معطل) اس کو بھی میں نیک سمجھتا ہوں اور وہ کبھی میرے گھر نہیں گیا مگر میرے ساتھ۔ یہ سن کر سیدنا سعد بن معاذ انصاری ؓ (جو قبیلہ اوس کے سردار تھے) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بدلہ لیتا ہوں اگر تہمت کرنے والا ہماری قوم اوس میں سے ہو تو ہم اس کی گردن مارتے ہیں اور جو ہمارے خزرج بھائیوں میں سے ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم کیجئے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کریں گے (یعنی اس کی گردن ماریں گے)۔ یہ سن کر سیدنا سعد بن عبادہ ؓ کھڑے ہوئے اور وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے اور نیک آدمی تھے۔ لیکن اس وقت ان کو اپنی قوم کی غیرت آ گئی اور کہنے لگے کہ اے سعد بن معاذ! اللہ کے بقا کی قسم! تو نے جھوٹ بولا ہے، تو ہماری قوم کے شخص کو قتل نہ کر سکے گا (یہ سن کر) سیدنا اسید بن حضیر جو سیدنا سعد بن معاذ ؓ کے چچازاد بھائی تھے، کھڑے ہوئے اور سیدنا سعد بن عبادہ ؓ سے کہنے لگے کہ تو نے غلط کہا، اللہ کے بقا کی قسم! ہم اس کو قتل کریں گے اور تو منافق ہے جبھی تو منافقوں کی طرف سے لڑتا ہے۔ غرض کہ دونوں قبیلے اوس اور خزج کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور قریب تھا کہ خونریزی شروع ہو جاتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ان کو سمجھا رہے تھے اور ان کا غصہ ٹھنڈا کر رہے تھے، یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش ہو رہے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ میں اس دن بھی سارا دن روتی رہی، میرے آنسو نہیں تھمتے تھے اور نہ نیند آتی تھی اور میرے باپ نے یہ گمان کیا کہ روتے روتے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ میرے ماں باپ میرے پاس بیٹھے تھے اور میں رو رہی تھی۔ اتنے میں انصار کی ایک عورت نے اجازت مانگی۔ میں نے اس کو اجازت دی وہ بھی آ کر رونے لگی۔ پھر ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سلام کر کے بیٹھ گئے اور جس روز سے مجھ پر تہمت ہوئی تھی، اس روز سے آج تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس نہیں بیٹھے تھے اور ایک مہینہ یونہی گزر چکا تھا کہ میرے مقدمہ میں کوئی وحی نہیں اتری تھی۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھتے ہی تشہد پڑھا اور فرمایا کہ امابعد! اے عائشہ مجھے تمہاری طرف سے ایسی ایسی خبر پہنچی ہے، پھر اگر تم پاکدامن ہو تو عنقریب اللہ تعالیٰ تمہاری پاکدامنی بیان کر دے گا اور اگر تو نے گناہ کیا ہے تو توبہ کر اور اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگ، اس واسطے کہ بندہ جب گناہ کا اقرار کرتا ہے اور توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بات مکمل کر چکے تو میرے آنسو بالکل بند ہو گئے، یہاں تک کہ ایک قطرہ بھی نہ رہا۔ میں نے اپنے والد سے کہا کہ آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیں۔ وہ بولے کہ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دوں (سبحان اللہ ان کے والد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب تھے گو ان کی بیٹی کا مقدمہ تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دم نہ مارا۔ باوجودت زمن آواز نیامد کہ منم) میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ تم میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دو تو وہ بولی کہ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دوں۔ آخر میں نے خود ہی کہا اور میں کمسن لڑکی تھی، میں قرآن زیادہ نہیں پڑھی تھی، اللہ کی قسم! مجھے یہ معلوم ہے کہ تم لوگوں نے اس بات کو یہاں تک سنا ہے کہ تمہارے دل میں جم گئی ہے اور تم نے اس کو سچ سمجھ لیا ہے (اور یہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے غصہ سے فرمایا ورنہ سچ کسی نے نہیں سمجھا تھا سوائے تہمت کرنے والوں کے)، پھر اگر تم سے کہوں کہ میں بےگناہ ہوں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں بےگناہ ہوں، تو بھی تم مجھے سچا نہیں سمجھو گے اور اگر میں اس گناہ کا اعتراف کر لوں حالانکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں، تو تم مجھے سچا سمجھو گے اور میں اپنی اور تمہاری مثال سوا اس کے اور کوئی نہیں پاتی جو یوسف ؑ کے والد (یعقوب ؑ) کی تھی (عائشہ صدیقہ ؓ کو رنج میں ان کا نام یاد نہ آیا تو یوسف ؑ کے والد کہا) جب انہوں نے کہا کہ ”اب صبر ہی بہتر ہے اور تمہاری اس گفتگو پر اللہ ہی کی مدد کی ضرورت ہے“ (سورۃ یوسف) پھر میں نے کروٹ موڑ لی اور میں اپنے بچھونے پر لیٹ رہی۔ اور اللہ کی قسم! میں اس وقت جانتی تھی کہ میں پاک ہوں اللہ تعالیٰ ضرور میری برات ظاہر کرے گا لیکن اللہ کی قسم! مجھے یہ گمان نہ تھا کہ میری شان میں قرآن اترے گا جو (قیامت تک) پڑھا جائے گا، کیونکہ میری شان خود میرے گمان میں اس لائق نہ تھی کہ اللہ جل جلالہ عزت اور بزرگی والا میرے مقدمہ میں کلام کرے گا اور کلام بھی ایسا کہ جو پڑھا جائے، البتہ مجھے یہ امید تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں کوئی ایسا مضمون دیکھیں گے جس سے اللہ تعالیٰ میری پاکیزگی ظاہر کر دے گا۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے نہیں اٹھے تھے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی باہر گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی بھیجی اور قرآن اتارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی سختی معلوم ہونے لگی، یہاں تک کہ سردی کے دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر سے اس کلام کی سختی کی وجہ سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا، موتی کی طرح پسینے کے قطرے ٹپکنے لگے (اس لئے کہ بڑے شہنشاہ کا کلام تھا)۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت جاتی رہی (یعنی وحی ختم ہو چکی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسنے لگے اور اول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ سے یہ کلمہ نکالا اور فرمایا کہ اے عائشہ! خوش ہو جا، اللہ تعالیٰ نے تجھے بےگناہ اور پاک فرمایا ہے۔ میری والدہ نے کہا کہ اٹھ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کر (اور شکر کر)۔ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ اٹھوں گی اور نہ کسی کی تعریف کروں گی سوا اللہ تعالیٰ کے کہ اسی نے میری پاکدامنی اتاری۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اتارا کہ ”بیشک جو لوگ بہتان گھڑ لائے ہیں، وہ تم ہی میں سے ایک گروہ ہیں، اس (واقعے) کو اپنے لئے شر (برا) نہ سمجھو بلکہ تمہارے لئے خیر (اچھا) ہی ہے“ آخر تک دس آیتوں کو اللہ تعالیٰ نے میری پاکدامنی کے لئے اتارا۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے جو مسطح کی قریبی رشتہ داری، غربت کی وجہ سے اس پر خرچ کیا کرتے تھے، کہا کہ اللہ کی قسم! جب اس نے عائشہ (ؓ) کی نسبت ایسا کہا تو اب میں اس کو کچھ نہ دوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”تم میں سے جو لوگ فضل اور مقدرت والے ہیں، وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ وہ کچھ (نہ) دیں گے، اپنے رشتہ داروں اور مساکین اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے“۔ حبان بن موسیٰ نے کہا کہ عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ یہ آیت اللہ کی کتاب میں بڑی امید کی ہے (کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے میں بخشش کا وعدہ کیا ہے) سیدنا ابوبکر ؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ مجھے بخشے۔ پھر مسطح کو جو کچھ دیا کرتے تھے وہ جاری کر دیا اور کہا کہ میں کبھی بند نہ کروں گا۔ ام المؤمنین جحش ؓ سے بھی میرے بارے میں پوچھا کہ وہ کیا جانتی ہیں؟ یا انہوں نے کیا دیکھا ہے؟ تو انہوں نے کہا (حالانکہ وہ سوکن تھیں) کہ یا رسول اللہ! میں اپنے کان اور آنکھ کی احتیاط رکھتی ہوں (یعنی بن سنے کوئی بات نہیں کہتی اور نہ بن دیکھے کو دیکھی ہوئی کہتی ہوں)، میں تو عائشہ کو نیک ہی سمجھتی ہوں۔ عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ زینب ؓ ہی ایک بیوی تھیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے میرے مقابل کی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے اس تہمت سے بچایا اور ان کی بہن حمنہ بنت جحش نے بہن کے لئے تعصب کیا اور ان کے لئے لڑیں تو جو لوگ تباہ ہوئے ان میں وہ بھی تھیں (یعنی تہمت میں شریک تھیں)۔ زہری کہتے ہیں،یہ وہ حدیث ہے،جو اس گروہ کے لوگوں کے بارے میں ہم تک پہنچی ہے اور یونس کی حدیث میں ہے،حمنہ کو تعصب وحمیت نے تہمت لگانے پر ابھارا تھا۔