الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب النكاح
نکاح کے مسائل کا بیان
6. باب القسم
6. بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان
حدیث نمبر: 912
وعنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا أراد سفرا أقرع بين نسائه،‏‏‏‏ فأيتهن خرج سهمها،‏‏‏‏ خرج بها معه. متفق عليه.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر پر روانہ ہونے کا ارادہ فرماتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے۔ پس جس بیوی کے نام کا قرعہ نکلتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم سفر ہوتی۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب النكاح/حدیث: 912]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الهبة، باب هبة المرأة لغير زوجها.....، حديث:2593، ومسلم، التوبة، باب في حديث الإفك.....، حديث:2770.»

   صحيح البخاريقال لها أهل الإفك ما قالوا فبرأها الله مما قالوا ك
   صحيح البخاريإن كنت بريئة فسيبرئك الله وإن كنت ألممت بذنب فاستغفري الله وتوبي إليه
   صحيح البخاريإذا أراد سفرا أقرع بين أزواجه فأيهن خرج سهمها خرج بها رسول الله معه قالت عائشة فأقرع بيننا في غزوة غزاها فخرج فيها سهمي فخرجت مع رسول الله بعد ما أنزل الحجاب فكنت أحمل في هودجي
   صحيح البخاريمن يعذرني من رجل بلغني أذاه في أهلي والله ما علمت على أهلي إلا خيرا فذكر براءة عائشة
   صحيح البخاريإذا أراد أن يخرج أقرع بين نسائه فأيتهن يخرج سهمها خرج بها النبي فأقرع بيننا في غزوة غزاها فخرج فيها سهمي فخرجت مع النبي بعد ما أنزل الحجاب
   صحيح البخاريما تشيرون علي في قوم يسبون أهلي ما علمت عليهم من سوء قط وعن عروة قال لما أخبرت عائشة بالأمر قالت يا رسول الله أتأذن لي أن أنطلق إلى أهلي فأذن لها وأرسل معها الغلام وقال رجل من الأنصار سبحانك ما يكون لنا أن نتكلم بهذا سبحانك هذا بهتان عظيم
   صحيح البخاريإذا أراد سفرا أقرع بين نسائه فأيتهن خرج سهمها خرج بها معه يقسم لكل امرأة منهن يومها وليلتها غير أن سودة بنت زمعة وهبت يومها وليلتها لعائشة زوج النبي تبتغي بذلك رضا رسول الله
   صحيح البخاريمن يعذرنا في رجل بلغني أذاه في أهل بيتي فوالله ما علمت من أهلي إلا خيرا ولقد ذكروا رجلا ما علمت عليه إلا خيرا
   صحيح البخاريإذا أراد سفرا أقرع بين نسائه فأيتهن خرج سهمها خرج بها معه يقسم لكل امرأة منهن يومها وليلتها غير أن سودة بنت زمعة وهبت يومها وليلتها لعائشة زوج النبي تبتغي بذلك رضا رسول الله
   صحيح البخاريأقرع بين نسائه فطارت القرعة لعائشة و حفصة إذا كان بالليل سار مع عائشة يتحدث فقالت حفصة ألا تركبين الليلة بعيري وأركب بعيرك تنظرين وأنظر فقالت بلى فركبت فجاء النبي إلى جمل عائشة وعليه حفصة فسلم عليها ثم سار
   صحيح البخاريأراد أن يخرج أقرع بين أزواجه فأيتهن خرج سهمها خرج بها رسول الله معه قالت عائشة فأقرع بيننا في غزوة غزاها فخرج سهمي فخرجت مع رسول الله بعدما نزل الحجاب فأنا أحمل في هودجي
   صحيح البخاريقال لها أهل الإفك ما قالوا فبرأها الله
   صحيح البخاريما كنت أظن أن الله ينزل في براءتي وحيا يتلى ولشأني في نفسي كان أحقر من أن يتكلم الله في بأمر يتلى ولكني كنت أرجو أن يرى رسول الله في النوم رؤيا يبرئني الله بها فأنزل الله إن الذين جاءوا بالإفك
   صحيح البخاريأقبلت أنا وأم مسطح فعثرت أم مسطح في مرطها فقالت تعس مسطح فقلت بئس ما قلت تسبين رجلا شهد بدرا فذكر حديث الإفك
   صحيح مسلمإذا أراد أن يخرج سفرا أقرع بين نسائه فأيتهن خرج سهمها خرج بها رسول الله معه قالت عائشة فأقرع بيننا في غزوة غزاها فخرج فيها سهمي فخرجت مع رسول الله وذلك بعد ما أنزل الحجاب فأنا أحمل في هودجي
   صحيح مسلمأقرع بين نسائه فطارت القرعة على عائشة وحفصة فخرجتا معه جميعا إذا كان بالليل سار مع عائشة يتحدث معها فقالت حفصة لعائشة ألا تركبين الليلة بعيري وأركب بعيرك فتنظرين وأنظر قالت بلى فركبت عائشة على بعير حفصة وركبت حفصة على بعي
   جامع الترمذيأشيروا علي في أناس أبنوا أهلي والله ما علمت على أهلي من سوء قط وأبنوا بمن والله ما علمت عليه من سوء قط ولا دخل بيتي قط إلا وأنا حاضر ولا غبت في سفر إلا غاب معي فقام سعد بن معاذ فقال ائذن لي يا رسول الله أن أضرب أعناقهم وقام رجل من بني الخزرج
   جامع الترمذيلما نزل عذري قام رسول الله على المنبر فذكر ذلك وتلا القرآن فلما نزل أمر برجلين وامرأة فضربوا حدهم
   سنن أبي داودأقرع بين نسائه فأيتهن خرج سهمها خرج بها معه يقسم لكل امرأة منهن يومها وليلتها غير أن سودة بنت زمعة وهبت يومها لعائشة
   سنن أبي داودلما نزل عذري قام النبي على المنبر فذكر ذاك وتلا تعني القرآن فلما نزل من المنبر أمر بالرجلين والمرأة فضربوا حدهم
   سنن أبي داودأبشري يا عائشة فإن الله قد أنزل عذرك وقرأ عليها القرآن
   سنن أبي داودأعوذ بالسميع العليم من الشيطان الرجيم إن الذين جاءوا بالإفك عصبة منكم
   سنن ابن ماجهإذا سافر أقرع بين نسائه
   سنن ابن ماجهأقرع بين نسائه
   سنن ابن ماجهلما نزل عذري قام رسول الله على المنبر فذكر ذلك وتلا القرآن فلما نزل أمر برجلين وامرأة فضربوا حدهم
   بلوغ المرامإذا اراد سفرا اقرع بين نسائه،‏‏‏‏ فايتهن خرج سهمها
   بلوغ المرامعلى المنبر فذكر ذلك وتلا القرآن فلما نزل امر برجلين وامراة فضربوا الحد
   مسندالحميدييا عائشة إن كنت ألممت بذنب فاستغفري الله، فإن العبد إذا ألم بذنب ثم تاب، واستغفر الله عز وجل غفر الله له

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 912 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 912  
تخریج:
«أخرجه البخاري، الهبة، باب هبة المرأة لغير زوجها.....، حديث:2593، ومسلم، التوبة، باب في حديث الإفك.....، حديث:2770.»
تشریح:
اس حدیث سے کسی مبہم معاملے کے تصفیے کے لیے قرعہ اندازی کا ثبوت ملتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 912   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 785  
´ «بسم الله الرحمن الرحيم» زور سے نہ پڑھنے کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
عروہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہوئے واقعہ افک کا ذکر کیا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اور آپ نے اپنا چہرہ کھولا اور فرمایا: «أعوذ بالسميع العليم من الشيطان الرجيم * إن الذين جاءوا بالإفك عصبة منكم‏» ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے، اسے ایک جماعت نے زہری سے روایت کیا ہے مگر ان لوگوں نے یہ بات اس انداز سے ذکر نہیں کی اور مجھے اندیشہ ہے کہ استعاذہ کا معاملہ خود حمید کا کلام ہو۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 785]
785۔ اردو حاشیہ:
امام صاحب کا اس حدیث کو منکر بتا کر یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے تعوذ کا طریقہ یہ ثابت ہے کہ اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا نام بھی آئے، کیونکہ قرآن میں ہے: «فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ» [النحل۔ 98/16]
اللہ کے ذریعے سے شیطان مردود سے پناہ مانگو۔ اور احادیث میں بھی «اعوذ بالله من الشيطان الرجيم» اور «اعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم» کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ «اعوذ بالسمع العليم» نہیں ہے، یہ الفاظ صرف حمید راوی بیان کرتا ہے، دوسرے راویوں نے اس طرح بیان نہیں کیا ہے۔ اس لئے یہ حدیث امام ابوداؤد رحمہ اللہ کے نزدیک منکر ہے۔ لیکن صاحب عون المعبود فرماتے ہیں کہ اس لہاظ سے یہ روایت منکر نہیں شاذ ہو گی۔ اور شاذ روایت وہ ہوتی ہے، جس میں مقبول راوی اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے مخالف بیان کرے۔ (اور اس میں ایسا ہی ہے۔) اور منکر روایت میں ضعیف راوی ثقہ راوی کی مخالفت کرتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 785   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4474  
´زنا کی تہمت کی حد کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب میری برات کی آیتیں نازل ہوئیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے، آپ نے اس کا ذکر کیا، اور قرآن کی ان آیتوں کی تلاوت کی، پھر جب منبر پر سے اترے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مردوں اور ایک عورت کے سلسلے میں حکم دیا تو ان پر حد جاری کیا گیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4474]
فوائد ومسائل:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی براءت کا بیان سورہ نور کی ابتدا میں آیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4474   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5219  
´آدمی اپنے بچے کا بوسہ لے اس کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! خوش ہو جاؤ اللہ نے کلام پاک میں تیرے عذر سے متعلق آیت نازل فرما دی ہے اور پھر آپ نے قرآن پاک کی وہ آیتیں انہیں پڑھ کر سنائیں، تو اس وقت میرے والدین نے کہا: اٹھو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کو چوم لو، میں نے کہا: میں تو اللہ عزوجل کا شکر ادا کرتی ہوں (کہ اس نے میری پاکدامنی کے متعلق آیتیں اتاریں) نہ کہ آپ دونوں کا (کیونکہ آپ دونوں کو بھی تو مجھ پر شبہ ہونے لگا تھا)۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5219]
فوائد ومسائل:
بچوں کو بوسہ دینا اور میاں، بیوی کا ایک دوسرے کو بوسہ دینا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5219   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1970  
´عورتوں کے درمیان باری مقرر کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1970]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بیویوں سےمعاملات میں زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک مساوات کاسلوک کرنا اور انصاف قائم رکھنا چاہیے۔

(2)
جب ایک چیز کےمستحق ایک سے زیادہ افراد ہوں اور وہ چیز قابل تقسیم نہ ہو تو قرعہ اندازی سےفیصلہ کیا جاتا سکتا ہے۔
قرعہ اندازی شرعاً جائز ہے بشرطیکہ معاملہ قمار (جوئے)
سے تعلق نہ رکھتا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1970   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2347  
´قرعہ اندازی کے ذریعہ فیصلہ کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر جاتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2347]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو خصوصی اجازت عطا فرمائی تھی جس کی بنا پر نبی ﷺ کے لیے یہ فرض نہیں تھا کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کے درمیان باری کی پابندی فرمائیں دیکھیے: (سورة احزاب، آیت: 51)
اس کے باوجود بنی ﷺ پورا انصاف فرماتے تھے۔
اس میں امت کے لیے سبق ہے کہ بیویوں اور اولاد میں انصاف کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھیں۔

(2)
اگر کوئی چیز برابر حق رکھنے والوں میں کسی ایک ہی کو دی جا سکتی ہو تو اس کا فیصلہ قرعہ اندازی سے کرنا چاہیے تاکہ کسی کو شکایت نہ ہو۔

(3)
عورت کسی ضرورت کی بنا پر گھر سے باہر جا سکتی ہےا ور سفر بھی کر سکتی ہے بشرطیکہ اس کےساتھ خاوند یا کوئی محرم رشتے دار موجود ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2347   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2567  
´حد قذف کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب میری براءت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور اس کا تذکرہ کر کے قرآنی آیات کی تلاوت کی، اور جب منبر سے اتر آئے، تو دو مردوں اور ایک عورت کے بارے میں حکم دیا چنانچہ ان کو حد لگائی گئی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2567]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ پر منافقین کی افتراپردازی کا واقعہ غزوہ بنومصطلق سے واپسی پر پیش آیا۔
اسے غزوہ مریسیع کہتے ہیں۔
مولانا صفی الرحمان مبارک پوری رحمہ اللہ  کی تحقیق کےمطابق یہ واقعہ شعبان 5ھجری کو پیش آیا۔ (الرحیق المختوم: 527 حاشہ)

(2)
اس الزام تراشی کا واقعہ اس طرح ہے کہ غزہ مریسیع سے واپسی کے سفر میں مسلمانوں نے ایک جگہ قیام فرمایا۔
صبح کوحضرت عائشہ کا خالی ہودج اہل قافلہ نے یہ سمجھ کر اونٹ پر رکھ دیا کہ حضرت عائشہ اس کے اندر موجود ہیں حالانکہ وہ اپنے ہار کی تلاش میں باہر گئیں ہوئی تھیں۔
وپس آئیں تو قافلہ روانہ ہوچکا تھا۔
آپ وہیں لیٹ گئیں سوچا کہ جب انہیں میری غیرموجودگی کا علم ہوگا تو خود ہی واپس آئیں گے۔
حضرت صفوان بن معطل سلمی کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ قافلے کے پیچھے رہیں تاکہ قافلے والوں کی گری پڑی چیزیں سنبھال لیں۔
انھوں نے پردہ ما حکم نازل ہونے سے پہلے حضرت عائشہ ؓ کو دیکھا ہوا تھا جب انہیں تنہا سوئے دیکھا تو اناللہ--- پڑھا اور سمجھ گئے کہ قافلہ لاعلمی میں ام المومنین کو چوڑ کر آگے چلا گیا ہے۔
ام المومنین کی آنکھ کھلی تو فوراً پردہ کر لیا۔
حضرت صفوان نے اونٹ بٹھایا۔
ام المومنین سوار ہوگئیں۔
صفوان نے نکیل پکڑی اورپیدل چلتےہوئے وہاں پہنچ گئےجہاں قافلے والے دوپہر کو آرام کےلیے ٹھرے ہوئے تھے۔
منافقین نےحضرت عائشہ کو حضرت صفوان کے اونٹ پرسوار دیکھا تو نازیبا باتیں شروع کردیں منافقین کے اس بے بنیاد پروپیگنڈے سے متأثر ہو کر بعض مخلص مسلمانوں کی زبان سے وہ بات نکل گئی پھر اللہ تعالیٰ نےسورۃ نور کے دوسرے رکوع میں حضرت عائشہ ؓ کی براءت نازل فرمائی۔
تب ان مخلص مسلمانو ں پر حد جاری کی گئی اس طرح ان کا گناہ معاف ہوگیا۔
اور منافق کو بعض مصلحتوں کی بنا پرسزا نہیں دی گئی لہٰذا ان کی آخرت کی سزا قائم رہی۔

(3)
دو مرد ایک عورت جن پر حد جاری کی گئی وہ (1)
حضرت حسان بن ثابت ؓ حضرت مسطح بن اثاثہ ؓ اور حمنہ بنت جحش ؓ ہیں۔

(4)
کسی بے گناہ پر بدکاری کا الزام لگانا بہت بڑا جرم ہے۔
اس کی سزا اسی کوڑے ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَالَّذِينَ يَرْ‌مُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُو ا بِأَرْ‌بَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾   ترجمہ:
جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواه نہ پیش کرسکیں تو انہیں اسی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔
یہ فاسق لوگ ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2567   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3180  
´سورۃ النور سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب میرے بارے میں افواہیں پھیلائی جانے لگیں جو پھیلائی گئیں، میں ان سے بےخبر تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور میرے تعلق سے ایک خطبہ دیا، آپ نے شہادتین پڑھیں، اللہ کے شایان شان تعریف و ثنا کی، اور حمد و صلاۃ کے بعد فرمایا: لوگو! ہمیں ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری گھر والی پر تہمت لگائی ہے، قسم اللہ کی! میں نے اپنی بیوی میں کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی، انہوں نے میری بیوی کو اس شخص کے ساتھ متہم کیا ہے جس کے بارے میں اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی برائی نہیں جانی، وہ میرے گھر ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3180]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
میں نے کبھی کسی عورت کا آنچل تک نہیں سرکایا ہے چہ جائے گی میں ایسی گستاخی اورجسارت کروں۔

2؎:
صبر ہی بہتر ہے اور جو تم کہتے،
بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی معاون ومددگار ہے۔

3؎:
اصحاب فضل اور فراخی والے قسم نہ کھائیں (النور: 22)

4؎:
رشتہ والوں،
مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دیں گے۔
(النور: 22)

5؎:
کیا تمہیں پسند نہیں ہے کہ اللہ تمہیں بخش دے،
اللہ بخشنے والا مہربان ہے (النور: 22)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3180   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:286  
فائدہ:
اس حدیث میں بیان ہے کہ جب ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اوپر بہتان لگا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ اے عائشہ! اگر تجھ سے گناہ ہوا ہے تو توبہ کر لے اور اپنے گناہ کی معافی مانگ لے۔ مفصل حدیث (صحيح البخاری: 475) میں موجود ہے۔ واقعہ افک کو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لیے «خيــر ا لـكـم» قرار دیا ہے۔ یہ واقعہ حقیقت میں کئی لحاظ سے بہتر ثابت ہوا ہے، اس کی تفصیل حافظ عبد السلام بن محمد رحمہ اللہ کے قلم سے لکھی جاتی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ:
① اس واقعہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے والدین اور صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کو جو رنج و غم پہنچا اور مسلسل ایک ماہ تک وہ شدید کرب میں مبتلا رہے، اس کرب پر صبر اور بہتان لگانے والوں سے درگزر کا یقیناً اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت اجر ملا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: «إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ» (صرف صبر کرنے والوں کو ہی ان کا اجر بغیر کسی شمار کے دیا جائے گا)، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اشارے سے تمام بہتان لگانے والوں کی گردنیں تن سے جدا ہو سکتی تھیں، اس اجر کے علاوہ برٱت کی آیات نازل ہونے پر ان تمام حضرات کو اتنی ہی خوشی ہوئی جتنا صدمہ پہنچا تھا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آیات اتر نے پر ہنس رہے تھے، اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے والدین، صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ اور تمام مسلمانوں کو حد درجہ خوشی ہوئی تھی۔
② ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس واقعے سے جو عزت ملی، امت مسلمہ میں سے کسی کو حاصل نہ ہوئی، کہ ان کی بریت کے لیے قرآن مجید اترا، تو قیامت تک تمام دنیا میں پڑھا جاتا رہے گا، اور قرآن نے ان کی جو بریت بیان فرمائی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور آپ کی وفات کے بعدام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاکیزہ زندگی اس کی سچی دلیل ہے، کہ وہ ہر بہتان سے پاک ہیں، اس سے قرآن کا اعجاز بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس کی کوئی پیش گوئی غلط ثابت نہیں ہوئی ہے، اور نہ ہو گی۔ اس واقعہ میں یہ بھی خیر ہے کہ بہتان لگانے والے مخلص مسلمانوں پر حد لگنے سے وہ گناہ سے پاک ہو گئے، اور منافقین کا نفاق واضح ہو گیا، جس سے آئندہ ان کے نقصانات سے بچنا آسان ہو گیا۔ اس واقعہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نیک نفسی اور پاک طبیعتی بھی ثابت ہوتی ہے کہ مسلسل ایک ماہ کے پروپیگنڈے کے باوجود مخلص مسلمانوں میں سے صرف تین آدمی، حسان بن ثابت، سطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہم، اس پروپیگنڈے کا شکار ہوئے۔ باقی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس بدگمانی سے پوری طرح محفوظ رہے، ازواج مطہرات میں سے کسی نے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بدنامی میں حصہ نہیں لیا حتی کہ زینب بنت جحش نے جو کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوکن تھیں، سوکن ہونے کے باوجود قسم کھا کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاک ہونے کی شہادت دی۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا بہتان لگانے کے باوجود مسطح سے حسن سلوک ان کی خشیت الٰہی اور صبر کا بہترین نمونہ ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بہتان لگانے کے باوجود حسن سلوک اور ان کی عزت افزائی کرنا ان کے عالی نفس ہونے کی دلیل ہے۔
اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں تھے، ورنہ آپ ایک ماہ تک مسلسل کرب میں مبتلا نہ رہتے، اس سے غلو کی جڑ کٹ گئی ہے، جس میں اس سے پہلے یہود ونصاریٰ مبتلا ہوئے اور جس میں بعض نادان مسلمان بھی مبتلا ہیں۔ اس واقعہ کے نتیجے میں زنا اور قذف کی حد بھی نازل ہوئی، اور قیامت تک کے لیے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کی عصمت وآبرو وعفت بہتان طرازوں سے محفوظ کر دی گئی، اور مسلم معاشرے میں بے حیائی کی اشاعت کا سد باب کر دیا گیا۔ (تفسیر القرآن الکریم از حافظ عبدالسلام بن محمد: 87/3، 88)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 286   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6298  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفرپر نکلتے تو اپنی ازواج کے درمیان قرعہ اندازی کرتے،ایک مرتبہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کےنام قرعہ نکلا،وہ دونوں آپ کے ساتھ سفر پر نکلیں،جب را ت کا وقت ہو تا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ سفر کرتے اور ان کے ساتھ باتیں کرتے تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا: آج رات تم میرے اونٹ پر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6298]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
تنظرين و انظر:
ہم نئی نئی چیز کا مشاہدہ کر لیں،
کیونکہ ان کے اونٹ مختلف جہات و اطراف میں تھے،
یا ایک دوسرے کے اونٹ کے طور و اطوار دیکھ لیں،
یا میں آپ کے ساتھ رہنے کا نظارہ کر لوں اور آپ الگ سفر کا مشاہدہ کر لیں اور جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو احساس ہوا تو پھر اذخر میں پاؤں رکھ کر یہ دعا کرنے لگیں کہ کوئی زہریلی چیز انہیں ڈس لے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر ان کے پاس آ جائیں اور ان سے بات چیت کریں،
جس سے وہ خود ہی محروم ہو گئی تھیں۔
فوائد ومسائل:
سفر میں اگرچہ خاوند پر باری کا لحاظ رکھنا ضروری نہیں ہے،
وہ جسے چاہے ساتھ لے جا سکتا ہے،
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیویوں کی تسکین اور تالیف قلبی کے لیے قرعہ اندازی کرتے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6298   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7020  
امام زہری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ مجھ سے سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ کی یہ حدیث روایت کی، جب ان پر تہمت لگانے والوں نے تہمت لگائی اور کہا جو کہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی تہمت سے پاک کیا۔ زہری نے کہا کہ ان سب لوگوں نے مجھ سے اس حدیث کا ایک ایک ٹکڑا روایت کیا اور ان میں سے بعض دوسروں سے اس حدیث کو زیادہ یاد رکھنے والے تھے اور زیادہ حافظ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7020]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
بعد ماانزل الحجاب:
جب پردے کا حکم نازل ہوچکا،
اس لیے میں ہودج میں باپردہ بیٹھی تھی اور ہودج اٹھانے والے مجھے دیکھ نہیں سکے،
پردے کا حکم،
حضرت زینب رضی اللہ عنہما کی شادی کے موقعہ پر نازل ہوا،
جو5ھ میں ہوئی۔
اور بقول بعض چار ہجری یا پانچ کے آغاز میں ہوئی۔
(2)
اذن بالرحيل،
باب فعل یا تفعیل سے ہے،
اطلاع دی،
روانگی اور کوچ کا اعلان کیا۔
(3)
عقد من جزع ظفار:
عقد،
قلادہ،
ہار،
جزع:
خر مہرے،
سفیدی مائل سیاہ یمنی منکے۔
(4) (5)
ظفار:
یمن کی ایک بستی کانام ہے۔
(5)
لم يهبلن،
باب تفعیل،
افعال اور نصر ينصر سے آتا ہے،
وہ گوشت اور چربی سے بھاری نہیں ہوئی تھی،
یعنی گوشت اور چربی زیادہ نہیں ہوئے تھے۔
(6)
العلقة من الطعام:
کم مقدار اور تھوڑا سا کھانا،
چونکہ عورتیں کم خور تھیں،
اس لیے ان کا وزن کم ہوتا تھا،
بھاری بھرکم ہونے کی وجہ سے وزن زیادہ نہ تھا،
اس لیے ہودج اٹھانے والوں کو پتہ نہ چل سکا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما ہودج میں موجود نہیں ہے،
انہوں نے معمول کے مطابق کجاوااٹھاکر اونٹ پر کس دیا۔
(7)
كنت جارية حديثة السن:
میں نوعمر لڑکی تھی،
اس لیے وزن بھی کم تھا،
زیورات سے محبت تھی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے کسی کو اطلاع دیے بغیرضائے حاجت کے لیے چلی گئی اور ہار کی گمشدگی کی کسی کو اطلاع کیے بغیر،
اس کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔
(8)
يتممت منزل الذي كنت فيه،
جس جگہ رات گزاری تھی،
اس جگہ کا قصد کیا،
اپنے ہوش وحواس کو قائم رکھا،
بدحواس ہوکر ادھر ادھر نہیں دوڑی،
تاکہ جب ان کی گمشدگی کا علم ہوتو انہیں ان کی جگہ سےآسانی کے ساتھ تلاش کیا جاسکے۔
(9)
غلبتني عيني فنمت:
آنکھوں پر نیند کا غلبہ ہواتومیں سوگئی،
یعنی اطمینان وتسکین کو برقرار رکھا،
جس سے نیند آگئی،
وگرنہ پریشانی اور اضطراب کی حالت میں نیند نہ آتی اور جنگل میں اکیلی ہونے کی وجہ سے خوف زدہ ہوجاتیں،
یااللہ کا ان پر کرم وفضل تھا،
ان کو سلادیا،
تاکہ وہ جنگل کی وحشت وخوف سے محفوظ رہیں،
قد عرس من وراء الجيش:
انہوں نے رات کا آخری حصہ لشکر کے پیچھے گزارا تاکہ صبح اٹھ کر گری پڑی چیز اٹھا کر لشکروالوں کو پہنچا دیں،
اس لیے وہ صبح کے قریب اٹھ کر چل پڑے،
کیونکہ رات جلد وہ اٹھ نہیں سکتے تھے۔
(10)
السواد:
شخصیت،
شکل وصورت۔
(11)
فاستيقظت باسترجاعه:
میں ان کےانالله وانااليه راجعون،
پڑھنے سے بیدار ہوگئی،
کیونکہ حضرت صفوان رضی اللہ عنہ،
پردہ کے نزول سے پہلے،
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کو دیکھ چکے،
پردہ بقول بعض تین یا چار ہجری کو اترچکاتھا،
لیکن اکثریت کے نزدیک حضرت زینب کی شادی5ھ میں ہوئی ہے اور پردہ اس موقعہ پر نازل ہواتھا،
وہ حضرت عائشہ کے پیچھے رہ جانے پر حیران ہوگئے اور پریشانی کے ازالہ کے لیے یہ کلمات کہے،
فخمرت وجهي:
میں نے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا،
اگر ازواج مطہرات کو چہرہ ڈھانپنے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی،
جو مومنوں کی مائیں ہیں تو پھر کسی اور عورت کو چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت کیسے مل سکتی ہے۔
(12)
موغرين في نحر الظهيرة:
نحرگرمی کی شدت کو کہتے ہیں،
نحر الظهير:
بالکل دوپہر کے وقت نحر ہر چیز کے آغاز کو کہتے ہیں،
مقصد یہ ہے،
ہم اس وقت پہنچے،
جب سورج انتہائی بلندی پر پہنچ چکا تھا۔
(13)
تولي كبره:
بڑے حصہ کا ذمہ دار،
عبداللہ بن ابی تھا۔
(14)
افاض في القول کا معنی ہے،
اس نے بڑھ چڑھ کر بات کی۔
(15)
يريبني:
رابه وارابه کا معنی ہے،
اس کو وہم اور شک میں مبتلا کردیا،
قلق واضطراب میں ڈال دیا۔
(16)
نقاهت،
بیماری کی کمزوری اور ناقه اس بیماری کوکہتے ہیں،
جو ابھی ابھی بیماری سے صحت یاب ہواہو اورتندرستی پوری طرح بحال نہ ہوئی ہو۔
(17)
مناصع:
منصع کی جمع ہے،
مدینہ کے باہر ایک کھلا میدان اور فتبرز یعنی قضائے حاجت کی جگہ تھا،
كنف،
كنيف کی جمع ہے،
پردہ والی جگہ،
مراد لیٹرین ہے۔
(18)
في التنزه:
عرب لوگ گھروں میں بیت الخلاء بنانے سے اجتناب کرتے تھے،
یا بچتے تھے۔
(19)
مرط:
اون کی چادر (20)
عثرت ام مسطح:
ام مسطح کا پاؤں چادر میں اٹک کر پھسل گیا،
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ام مسطح کا پاؤں واپسی پر پھسلا تھا،
لیکن بخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے،
یہ واقعہ جاتے ہوئے پیش آیا،
اس لیے دونوں روایات میں تعارض ہے،
اس لیے ایک روایت میں وہم ہے،
محض فرغنا من شاننا کی تاویل سے تطبیق کی کوشش کرنا،
ایک تکلف ہے،
تعس،
عین پر فتحہ اور کسرہ دونوں پڑھے جاسکتے ہیں،
ٹھوکر کھائی،
ہلاک ہوگیا،
اس کو شرنے لازم پکڑا،
منہ کے بل گرا۔
(21)
اي هنتا:
اے یہ عورت،
اے دیوانی،
چونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کو لوگوں کی شرارتوں اور مکاریوں کا علم نہ تھا،
اس لیے انہیں ان الفاظ سے یاد کیا کہ تم بہت غفلت سے کام لیتی ہو۔
(22)
هوني عليك:
اس کو اہمیت نہ دے،
اپنے لیے آسانی پیداکر۔
(23)
وضيية:
خوبصورت اور حسین عورت۔
(24)
یہ مضاءت بمعنی حسن وجمال سے ماخوذ ہے۔
(25)
الاكثرن عليها:
اس پر بہت عیوب لگاتی ہیں،
حضرت عائشہ کی والدہ نے انتہائی ذہانت وفطانت سے کام لیتے ہوئے،
حضرت عائشہ کے غم وحزن کو ہلکا کرنے کی کوشش کی کہ تم انتہائی حسین وجمیل ہو،
اپنے خاوند کی محبوبہ ہو،
ایسی عورتوں کے بارے میں لوگ باتیں بناتے ہی رہتے ہیں،
تمہارے ساتھ کوئی ان ہوناواقعہ پیش نہیں آیا،
یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے،
اس لیے اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے،
اگرچہ ان کی سوکنوں کی طرف سے ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی تھی،
لیکن حضرت زینب رضی اللہ عنہما کی ہمشیرہ حضرت حمنہ اس میں حصہ لے رہی تھیں اور والدین نے جاننے کے باوجود اسی لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کو آگاہ نہیں کیا تھا کہ وہ بیمار اور نوعمر ہونے کی وجہ سے بہت پریشان ہوں گی اور بیماری میں اضافہ ہوجائے گا،
لیکن ام مسطح رضی اللہ عنہما کی طرف سے جب انہیں پتہ چل گیا تو والدہ نے انتہائی مجمل انداز میں بات کو ہلکا کرتے ہوئے انہیں تسلی دی،
لیکن اتنے میں ایک انصاری عورت نے آکر والدہ کی موجودگی میں واقعہ کی پوری داستان سنادی،
اس لیے انہیں واقعہ کا یقین ہوگیا تو انہوں نے پوچھا،
کیا والد صاحب کوپتہ ہے،
میرے خاوند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ ہے،
جب والدہ نے بتایا،
دونوں کو پتہ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کی پریشانی میں انتہائی اضافہ ہوگیا اور وہ غش کھا کر گرگئیں۔
(26)
لايرقالي دمع:
میرے آنسو بند نہیں ہوتے تھے،
لااكتحكل بنوم:
مجھے نیند نہیں آتی تھی۔
،
حضرت اسامہ نے کہا:
هم اهلك ولانعلم الاخيرا:
وہ آپ کی بیوی ہیں اور ہم ان کی نیکی وصلاح کے سوا کچھ نہیں جانتے۔
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عائشہ اور اس کے باپ سے بڑی محبت ہے اور عائشہ رضی اللہ عنہما کی عفت وعصمت اور حصانت ودیانت اس سے بہت بلند وبالا ہے کہ اس خباثت کا غبار بھی ان کو چھوسکے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ومرتبہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس قدر رفیع اور عظیم ہے کہ یہ بات وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتی کہ وہ آپ کی محبوبہ،
آپ کے جگری دوست،
یارغار،
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ،
کی نیک وپارسا،
دختر کو اس رذالت،
ذلت سے دوچار کرے گا،
جس کے ساتھ تہمت بازوں نے ان کو ملوث کیا ہے،
کیونکہ ایک ناپاک عورت اپنے جیسے ناپاک مردہی کے لیے زیب ہے،
جیسا کہ ارشاد باری ہے،
خبیث عورتیں،
خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد،
خبیث عورتوں کے لائق ہیں اور پاک عورتیں،
پاک مردوں کے مناسب ہیں اور پاک مرد،
پاک عورتوں کے لائق ہیں۔
نورآیت نمبر26۔
(27)
لم يضيق الله عليك:
اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے کوئی تنگی نہیں رکھی،
اس کے سوا بھی بہت سی عورتیں ہیں،
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کو طلاق دینے کا مشورہ دیا،
کیونکہ وہ اپنی فہم وفراست کے مطابق،
آپ جس غم واندوہ میں مبتلا تھے،
اس سے نجات کی یہی صورت سمجھتے تھے اور وہ آپ کے حق میں اس میں خیرخواہی اور مصلحت سمجھتے تھے،
تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پریشانی اور قلق واضطراب سے نکل کر سکون قلب حاصل کرسکیں گے،
پھر اس کے بعد واقعہ کی تحقیق وتفتیش سے اصل صورت حال واقع ہوجائے گی۔
حالانکہ اس سے اور مسائل،
پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی تھی،
آپ کی بیوی کے اس کردار کی وجہ سے آپ پر مزید کیچڑ اچھالاجاتا،
ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی نشانہ بنایا جاتا اور دوسری ازواج مطہرات کے بارے میں بھی شکوک وشبہات پیدا ہوتے۔
(28)
سل الجارية تصدقك:
لونڈی سے پوچھ لیں،
وہ آپ کو سچ مچ بتادے گی،
چونکہ لونڈی عموماً گھر میں ہی رہتی ہے،
اس لیے اس پر گھر والوں کے تمام حالات روشن ہوتے ہیں،
کوئی چیز مخفی نہیں رہ سکتی اور جب آپ نے حضرت بریرہ سے پوچھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بڑے سخت انداز میں تلخ کلامی کرتے ہوئے پوچھا تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے،
پوری چھان بین سے کام نہیں لیا گیا تو لونڈی نے کہا،
میں نے اس میں کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی۔
(29)
اغمصه عليها:
جس کے سبب میں اس پر عیب لگاسکوں،
بعض روایتوں میں ہے،
میں تو ان کے عیب وہنر کو اس طرح جانتی ہوں جس طرح سنار کھوٹے کھرے کو جانتا ہے،
واللہ!عائشہ سونے سے زیادہ کھری ہیں اور جو کچھ لوگ کہتے ہیں،
اگر انہوں نے وہ فعل کیا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی خبر دےدےگا،
اس طرح حضرت بریرہ رضی اللہ عنہما نے انتہائی سوجھ بوجھ اور عقلمندی کا ثبوت دیا،
اگر لونڈی بے عقلی کا ثبوت دیتی سختی اور مار پیٹ سے ڈر کر غلط بات کہہ دیتی تو شاید،
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کا یہ فرمانا کہ جب مجھے اس تہمت کا علم ہواتو میں نے ارادہ کیا کہ کسی کنویں میں چھلانگ لگا کرزندگی کا خاتمہ کرلوں،
حقیقت کا روپ دھار لیتا اور ابوبکر کو اتنا صدمہ اور غم ہوتا،
جس کا تصور ممکن نہیں ہے اور یہ جھوٹی تہمت بھی ایک حقیقت بن جاتی اور فتنہ کا دروازہ کھل جاتا،
جس کو بند کرنا بہت مشکل ہوتا،
اس واقعہ کی پوری تفصیلات کے لیے دیکھئے(30)
مختصر سيرة الاصول تنام عن عجين اهلها:
آٹا گوندھ کر رکھ دیتی ہے،
خود سوجاتی ہے اور آکر گھریلو بکری کھاجاتی ہے،
اس قدر غفلت شعار اور سادہ لوح لڑکی سے اس حرکت کا ارتکاب کیسے ممکن ہے۔
(31)
فاستعذر من عبدالله بن ابي،
عبداللہ بن ابی کے بارے میں عذر خواہی کی،
ایسے آدمی کو طلب کیا،
جو آپ کو انصاف دلائے،
اگر میں اس کو اس کے فعل پر سزادوں تو مجھے کوئی معذور سمجھے گا۔
(32)
من يعذرني:
میری مدد کون کرے گا اور مدد کرنے والے کو عذیر کہتے ہیں۔
(33)
فقام سعد بن معاذ:
حضرت سعد بن معاذ،
غزوہ خندق سے متصل غزوہ قریظہ میں فوت ہوگئے ہیں اور غزوہ احزاب 4ھ یا پانچ5ھ شوال میں پیش آیا اور غزوہ مریسیع جس میں واقعہ افک پیش آیا ہے،
یہ بقول اہل سیرت 5ھ یا6ھ شعبان میں پیش آیا،
اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ یہاں سعد بن معاذ کا ذکر کسی راوی کا وہم ہے،
جیسا کہ ابن حزم،
ابن عبدالبر،
ابن العربی،
قرطبی اور قاضی عیاض رحمہ اللہ کا موقف ہے،
(عمدۃ القاری ج6ص366)
اور حافظ ابن حجر کا یہ موقف درست نہیں ہے،
جس کو صاحب الرحیق المختوم نے ترجیح دی ہے کہ غزوہ مریسیع یا غزوہ بنی المصطلق شعبان5ھ میں پیش آیا،
کیونکہ واقعہ افک کی تشہیر کے بعد قلق واضطراب اور غم واندوہ کی فضا میں غزوہ خندق کی تیاری کے لیے اس قدر طویل وعریض اور گہری خندق کھودنا ممکن نہیں ہے،
حدیث میں سید الاوس،
اوس کا سردار تھا اور مشہور سردار حضرت سعد بن معاذ ہی تھے،
اس لیے راوی نے ان کا نام ذکر کردیا،
اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ غزوہ احزاب 5ھ شوال میں پیش آیا اور غزوہ بنوصطلق 5ھ شعبان میں پیش آیا تو پھر غزوہ بنو مصطلق پہلے پیش آیا اور دوماہ بعد غزوہ احزاب پیش آیا تو پھر حضرت سعد بن معاذ کا ذکر کرنے میں کوئی اشکال نہیں رہتا لیکن یہ اشکال بہرحال رہے گا جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ ایسی فضا میں طویل وعریض خندق کھودنا مشکل ہے نیز بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے اور قرآن کا انداز اور سلوب بھی یہ بیان کرتا ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہما کی آپ سے شادی غزوہ احزاب کے بعد ہوئی ہے اور پردے کا حکم ان کی شادی کے موقع پر ہوا ہے الایہ کہ یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ان کی شادی تین چار ہجری میں غزوہ احزاب سے پہلے ہوئی ہے۔
حالانکہ وہ اسید بن حضیر تھے،
جو حضرت سعد کے چچا زاد تھے،
انہوں نے کہا،
انا اعزرك:
میں آپ کی مدد کروں گا،
اگر اس کا تعلق،
ہمارے قبیلہ اوس سے ہوتا تو میں ابھی اس کی گردن اڑادیتا،
جبکہ وہ ہمارے برادر قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا ہے تو آپ ہمیں جو حکم دیں،
ہم وہ کرنے کے لیے تیار ہیں،
نفسیاتی اور قبائلی روایات کے مطابق یہ بات صحیح نہ تھی،
اگر وہ یہ کہتے ہیں،
چونکہ وہ ہمارے برادر قبیلہ خزرج سے ہے،
اس لیے آپ ان کے سردار کو حکم دیں،
آپ جو بھی حکم دیں گے،
وہ فوراً اس کی تعمیل کریں گے تو حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ حمیت وغیرت کا جذبہ نہ بھڑکتا اور جو صورت حال پیدا ہوگئی،
وہ پیدا نہ ہوتی اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ یہ نہ کہتے،
واللہ!تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت وحمایت مقصود نہیں ہے،
تم تو محض جاہلیت کے دور کے حسد وکینہ کی بنا پر موقعہ کے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو،
اگر یہ تمہارے قبیلہ کا فرد ہوتا تو تم کبھی اس کا قتل ہونا پسند نہ کرتے اور باقی بحث ومباحثہ اس تلخی کی فضا کا نتیجہ ہے،
وگرنہ حضرت سعد بن عبادہ نہ منافق تھے اور نہ ہی عبداللہ بن ابی منافق کے طرف دار اور حمایتی،
اس صورت حال کے بعد طبعی طور پر حضرت عائشہ کے غم وحزن میں اضافہ ہوگیا،
کیونکہ اپنے والدین کے گھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آچکی تھیں،
وہیں ان کے والدین ان کے پاس آئے اور انصاری عورت آئی اور عصر کی نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آکر اس واقعہ کے بعد پہلی دفعہ بیٹھے اور ان سے پوچھا کہ اگر تم نے گناہ کا ارتکاب کرلیا ہے تو اس کا اقرارواعتراف کرکے توبہ واستغفار کرلو،
چونکہ اس معاملہ کی تشہیر ہوچکی تھی،
اس لیے اس پرپردہ ڈالنے کی کوشش ممکن نہ تھی،
اگر صرف انہیں کو پتہ ہوتا تو پھر پردہ ڈالنا بہتر ہوتا،
حضرت عائشہ کا غم وحزن انتہا کو پہنچ چکاتھا،
اس لیے ان کے آنسو تھم گئے،
یا آپ کے اس فرمان سے تسلی ہوگئی کہ اگر تم اس الزام سے بری ہوتو جلد ہی اللہ تمہاری برأت ظاہر فرمادے گا،
والدین نے برأت کا اظہار اس لیے نہ کیا کہ ان کی برأت کرنے پر تہمت تراشی کرنے والے یہ کہہ دیتے کہ والدین تو اپنی اولاد کی برأت کرتے ہی ہیں،
مگر اس لیے حضرت عائشہ کو جواب خود ہی دینا پڑا اور انہوں نے انتہائی متانت وسنجیدگی سے،
انتہائی وثوق واعتماد کے ساتھ جواب دیا اور پھر جب آپ پر وحی کا نازل شروع ہواتو وہ پوری طرح مطمئن تھیں اور والدین انتہائی پریشان اور خوف زدہ تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے ان کی برأت کا اظہار فرمادیا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور ایک محبوبہ بیوی کی حیثیت سے نازوتدمل کااظہار کرتے ہوئے،
آپ کا شکریہ ادا نہ کیا اور کہنے لگیں،
تم میں سے کسی نے میری برأت نہیں کی۔
(34)
البرحا:
سختی وشدت،
سخت بخار،
شدیدحدت وگرمی۔
(35)
ليتحدر:
گرنے لگے،
اترنے لگے،
جمان:
موتی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کی برأت میں دس آیات کا نزول ہوا،
پھر جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حقیقت واقعہ کھل جانے کے بعد حضرت مسطح کو خرچ نہ دینے کی قسم اٹھائی،
تودو اور آیات کا نزول ہوا اور ان کے ساتھ اصولی ہدایت کے طور پر،
بعد والی تین آیات بھی اتریں،
اس طرح اس واقعہ کے متعلق سولہ آیات اتریں۔
(36)
تساميني:
اور رفعت میں میری برابری چاہتی تھیں،
یا اپنے حسن وجمال اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اپنے مقام ومرتبہ کی وجہ سے مجھ سے فخر اور مقابلہ کرتی تھیں۔
فوائد ومسائل:
واقعہ افک،
واقعہ صلح حدیبیہ اور قصہ کعب بن مالک،
یہ تینوں واقعات مختلف انسانوں کی نفسیات اور اس کی خوبیوں اور خامیوں کو سمجھنے کے لیے،
انتہائی اہمیت کے حامل ہیں،
جن میں ہمارے لیے بہت سے اسباق ااور عبرتیں ہیں،
ہم انتہائی اختصار کے ساتھ بعض باتوں کی طرف لغوی معنی کی تشریح میں اشارہ کرتے ہیں اور پھر کچھ ضروری فوائد،
اس باب کے آخر میں بیان کریں گے،
تفصیل کے طالب فتح الباری اور نوی کی طرف رجوع کریں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7020   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2879  
2879. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ جب کہیں سفر کے لیے روانہ ہوتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے۔ جس بیوی کے نام قرعہ نکل آتا اسے نبی کریم ﷺ ہمراہ لے جاتے، چنانچہ آپ نے ایک غزوے میں جانے کے لیے ہم اس قرعہ اندازی کی تو اس میں میرے نام قرعہ نکل آیا۔ میں اس غزوے میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ گئی جبکہ حجاب کاحکم نازل ہوچکا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2879]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ پردے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورت گھر کے باہر نہ نکلے جیسے بعض جاہلوں نے سمجھ رکھا ہے بلکہ شرعی پردے کے ساتھ عورت ضروریات کے لئے گھر سے باہر بھی نکل سکتی ہے‘ خاص طور پر جہادوں میں شرکت کرسکتی ہے جیسا کہ متعدد روایات میں اس کا ذکر موجود ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2879   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4025  
4025. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں اور ام مسطح ؓ جا رہی تھیں کہ اچانک ام مسطح اپنی چادر میں پھسل پڑیں۔ ان کی زبان سے نکلا: مسطح کا برا ہو۔ میں نے کہا: تو نے اچھی بات نہیں کہی۔ ایک ایسے شخص کو برا کہتی ہو جو بدر کی جنگ میں شریک ہو چکا ہے؟ پھر انہوں نے تہمت کا واقعہ بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4025]
حدیث حاشیہ:
مسطح ؓ جنگ بدر میں شریک تھے اس سے ترجمہ باب نکلا حضرت عائشہ ؓ پر منافقین نے جو تہمت لگائی تھی اس کی طرف اشارہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4025   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4750  
4750. حضرت ابن شہاب سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھ سے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ‬ ؓ ک‬ا واقعہ بیان کیا جبکہ تہمت لگانے والوں نے ان کے متعلق افواہ اڑائی تھی اور اللہ تعالٰی نے آپ کو اس تہمت سے پاک قرار دیا تھا۔ ان تمام حضرات نے حدیث کا ایک ایک ٹکڑا مجھ سے بیان کیا اور ان حضرات میں سے ایک کا بیان دوسرے کے بیان کی تصدیق کرتا ہے۔ اگرچہ ان میں سے کچھ حضرات کو دوسروں کے مقابلے میں حدیث زیادہ بہتر طریقےسے یاد تھی۔ حضرت عروہ بن زبیر نے مجھے حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ے حوالے سے اس طرح بیان کیا کہ نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ کسی سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے قرعہ اندازی کرتے۔ جس کا نام نکل آتا رسول اللہ ﷺ اسے اپنے ساتھ لے جاتے، چنانچہ آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4750]
حدیث حاشیہ:
یہ طویل حدیث ہی واقعہ افک سے متعلق ہے۔
منافقین کے بہکانے میں آنے پر حضرت حسان بھی شروع میں الزام بازوں میں شریک ہوگئے تھے۔
بعد میں انہوں نے توبہ کی اور حضرت عائشہ کی پاکیزگی کی شہادت دی جیسا کہ شعر مذکور حصان رزان میں مذکور ہے۔
ان کی والدہ فریعہ بنت خالد بن خنیس بن لوذان بن عبدود بن ثعلبہ بن خزرج تھیں۔
ام رومان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ہیں انہوں نے جب یہ واقعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبان سے سنا تو ان کو اتنا رنج نہیں ہوا جتنا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہو رہا تھا اس لئے وہ سنجیدہ خاتون ایسی ہفوات سے متاثر ہونے والی نہیں تھی۔
ہاں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ضرور اپنی پیاری بیٹی کا یہ دکھ سن کر رونے لگ گئے، ان کو فخر خاندان بیٹی کا رنج دیکھ کر صبر نہ ہوسکا۔
آیات براءت نازل ہونے پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ پاک کا شکریہ ادا کیا اور جوش ایمانی سے وہ باتیں کہہ ڈالیں جو روایت کے آخر میں مذکور ہیں کہ میں خالص اللہ ہی کا شکر ادا کروں گی جس نے مجھ کو منہ دکھانے کے قابل بنا دیا ورنہ لوگ تو عام و خاص سب میری طرف سے اس خبر میں گرفتار ہو چکے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کمال توحید اور صدق و اخلاص اور توکل کا کیا کہنا، سچ ہے ﴿وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ﴾ (النور: 26)
قیامت تک کے لئے ان کی پاک دامنی ہر مومن کی زبان اور دل اور صفحات کتاب اللہ پر نقش ہوگئی۔
وذلك فضل اللہ یؤتیه من یشاء۔
رضي اللہ عنھم أجمعین وخذل اللہ الکافرین والمنافقین إلی یوم الدین آمین۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کا واقعہ عبد اللہ بن ابی جیسے منا فق کا گھڑا ہوا تھا جو ہر وقت اسلام کی بیخ کنی کے لئے دل میں ناپاک باتیں سوچتا رہتا تھا۔
اس منافق کی اس بکواس کا کچھ اور لوگوں نے بھی اثر لے لیا مگر بعد میں وہ تائب ہوئے جیسے حضرت حسان اور مسطح وغیرہ، اللہ پاک نے اس بارے میں سورۃ نور میں مسلسل دس آیات کو نازل فرمایا اور قیامت تک کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاک دامنی کی آیات کو قرآن مجید میں تلاوت کیا جاتا رہے گا۔
اسی سے حضرت صدیقہ کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہوئی۔
اس واقعہ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غیب داں نہیں تھے ورنہ اتنے دنوں تک آپ کیوں فکر اور تردد میں رہتے جو لوگ آپ کے لئے غیب دانی کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ بڑی غلطی پر ہیں۔
فقہائے احناف نے صاف کہہ دیا ہے کہ انبیاءاولیاء کے لئے غیب جاننے کا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔
رہا یہ معاملہ کہ ان کو بہت سے غائب امور معلوم ہو جاتے ہیں، سو یہ اللہ پاک کی وحی والہام پر موقوف ہے۔
اللہ پاک اپنے نیک بندوں کو بطور معجزہ یا کرامت جب چاہتا ہے کچھ امور معلوم کرا دیتا ہے اس کو غیب نہیں کہا جا سکتا۔
یہ اللہ کا عطیہ ہے۔
غیب دانی یہ ہے کہ بغیر کسی کے معلوم کرائے کسی کو کچھ خود بخود معلوم ہو جائے ایسا غیب بندوں میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے۔
قرآن مجید میں زبان رسالت سے صاف اعلان کرا دیا گیا ﴿وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ﴾ (الاعراف: 188)
اگر میں غیب داں ہوتا تو میں بھی بہت سی بھلائیاں جمع کرلیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی۔
ان تفصیلات کے باوجود جو مولوی ملا عام مسلمانوں کو ایسے مباحث میں الجھا کرفتنہ فساد برپا کراتے ہیں وہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے اپنے مریدوں کو الو بناتے ہیں۔
یہی وہ علماء سوء ہیں جن کی وجہ سے اسلام کو بیشتر زمانوں میں بڑے بڑے نقصانات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔
ایسے علماء کا بائیکاٹ کرنا ان کی زبانوں کا لگام لگانا وقت کا بہت بڑا جہاد ہے جو آج کے تعلیم یافتہ روشن خیال صاحبان فہم و فراست نوجوانوں کو انجام دینا ہے۔
اللہ پاک امت مرحومہ پر رحم کرے کہ وہ اسلام کے نام نہاد نام لیواؤں کو پہچان کر ان کے فتنوں سے نجات پا سکے۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4750   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5211  
5211. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب سفر میں جانے کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں میں قرعہ اندازی کرتے چنانچہ ایک دفعہ ام المومنین سیدہ عائشہ اور ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا قرعہ نکلا۔ نبی ﷺ رات کو دوران سفر میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو فرمایا کرتے تھے ایک مرتبہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آج تم میرے اونٹ پر سوار ہو جاؤ اور میں آپ کے اونٹ پر سواری کرتی ہوں میں بھی نئے مناظر کا مشاہدہ کروں؟ انہوں نے یہ تجویز قبول کرلی اور وہ اونٹ پر سوار ہو گئیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کے پاس تشریف لائے اور اس پر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سوار تھیں۔ آپ ﷺ نے انہیں سلام کیا پھر (وہاں سے) روانہ ہوئے حتیٰ کہ جب ایک مقام پر پڑاؤ کیا تو ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے پاؤں اذخر گھاس میں ڈال لیے اور کہنے لگیں: اے اللہ!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5211]
حدیث حاشیہ:
یہ اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو تشریف لائے مگر حضرت عائشہ اپنے قصور سے خود محروم رہ گئیں۔
نہ دوسرے کے اونٹ پر سوار ہوتیں نہ آپ کی شرف ہم کلامی سے محروم رہتیں۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا بھی اس میں کچھ قصور نہ تھا۔
اسی رنج کے مارے اپنے کو کوسنے لگیں۔
اور اپنے پاؤں گھاس میں ڈال لئے جس میں زہریلے کیڑے بکثرت رہتے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5211   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6679  
6679. امام زہری سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبید اللہ بن عتبہ سے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے متعلق ایک حدیث سنی جب ان پر بہتان تراشوں نے طوفان باندھا اور اللہ تعالٰی نے انہیں اس بہتان سے پاک قرار دیا اور ان کی باتوں سے بری کیا۔ ان میں سے ہر ایک نے مجھے حدیث کا کچھ حصہ بتایا کہ سیدہ عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں کہ اللہ تعالٰی نے ﴿إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ﴾ سے دس آیات حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں مسطح پر خرچ نہیں کروں گا جبکہ وہ مسطح پر قرابت داری کی وجہ سے خرچ کیا کرتے تھے۔ یہ اس لیے کیا کہ انہوں نے سیدہ عائشہ‬ ؓ پ‬ر بہتان لگانے میں حصہ لیا تھا۔ اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: تم میں سے اہل فضل ووسعت قسمیں نہ کھائیں کہ وہ اپنے اقارب پر خرچ نہیں کریں گے۔ نزول آیات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: اللہ کی قسم!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6679]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوبکر نے اپنی قسم کو کفارہ ادا کر کے توڑ دیا باب سے یہی مطابقت ہے۔
حضرت مسطح بن اثاثہ قریشی مطلبی ہیں۔
34ھ میں بعمر 56سال وفات پائی۔
سبحان اللہ ایمانداری اور خدا ترسی حضرت ابوبکر صدیق پر ختم تھی باوجودیکہ مسطح نےایسا بڑا قصور کیا تھا کہ ان کی پیاری بیٹی پر جو خود مسطح کی بھی بھتیجی ہوتی تھیں اس قسم کا طوفان جوڑا اور قطع نظر اس سلو ک کے جو حضرت ابوبکر صدیق ان سے کیا کرتے تھے اور قطع نظر احسان فراموشی کے انہوں نے قرابت کا بھی کچھ لحاظ نہ کیا۔
حضرت عائشہ ؓ کی بدنامی خود مسطح کی بھی ذلت اورخواری تھی مگر وہ شیطان کے چکمہ میں آگئے۔
شیطان اسی طرح آدمی کو ذلیل کرتا ہے، اس کی عقل اور فہم بھی سلب ہو جاتی ہے۔
اگر کوئی دوسرا آدمی ہوتا تو مسطح نے یہ حرکت ایسی کی تھی کہ ساری عمر سلوک کرنا تو کجا ان کی صورت بھی دیکھنا گوارہ نہ کرتا مگر آخر میں حضرت ابوبکر کی خداترسی اور مہربانی اور شفقت پر قربان کہ انہوں نے مسطح کا معمول بدستور جاری کر دیا اور ان کےقصور سےچشم پوشی کی۔
ترجمہ باب یہیں سےنکلتا ہے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق نےایک نیکی کی بات یعنی عزیزوں سے سلوک ترک کرنے پر قسم کھائی تھی تو اس قسم کو توڑ ڈالنے کا حکم ہوا پھر کوئی گناہ کرنے پر قسم کھائے اس کو تو بطریق اولیٰ یہ قسم توڑ ڈالنا ضرور ی ہوگا۔
یہ غصہ میں قسم کھانے کی بھی مثال ہو سکتی ہے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق نے پہلے غصہ ہی میں قسم کھالی تھی کہ میں مسطح سے سلوک نہ کروں گا۔
(تقریرمولانا وحیدالزمان مرحوم)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6679   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2593  
2593. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی سفر کا ا رادہ فرماتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے، جس بیوی کانام نکل آتا، اسے سفر میں اپنے ہمراہ لے جاتے۔ آپ ﷺ نے سیدہ سودہ بن زمعہ ؓ کے علاوہ باقی ہر بیوی کے ہاں فروکش ہونے (ٹھہرنے)کے لیے دن رات کی باری مقرر کر رکھی تھی۔ سیدہ سودہ ؓ نے اپنے دن رات کی باری رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ کو ہبہ کردی تھی جس سے ان کامقصد رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2593]
حدیث حاشیہ:
حضرت سودہ ؓ کی عمر بھی کافی تھی، اور ان کو رسول کریم ﷺ کی خوشنودی بھی مقصود تھی، اس لیے انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ ؓ کو دے دی، مقصد باب یہ کہ اس قسم کا ہبہ جو باہمی رضامندی سے ہو جائز و درست ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2593   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2637  
2637. حضرت ابن شہاب زہری سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے عروہ بن زبیر ؒ، سعید بن مسیب ؒ، علقمہ بن وقاص اور عبید اللہ بن عبد اللہ ؒ نے حضرت عائشہ ؓ کے واقعے کے متعلق بتایا۔ ان کی کچھ باتیں دوسری بیان کردہ باتوں کی تصدیق کرتی ہیں واقعہ یہ ہے کہ جب بہتان طرازوں نے حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگائی تو رسول اللہ ﷺ پر وحی آنے میں کچھ دیر ہو گئی۔ چنانچہ آپ نے حضرت علی ؓ اور حضرت اسامہ ؓ کو اپنی اہلیہ (حضرت عائشہ ؓ) کو چھوڑنے کے متعلق مشورے کے لیے بلایا تو حضرت اسامہ ؓ نے کہا: ہم تو ان کے متعلق خیرو بھلائی کے علاوہ کچھ نہیں جانتے، بہر حال وہ آپ کی بیوی ہیں حضرت بریرہ ؓ نے کہا: میں نے تو ان میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جو ان کی شان کے خلاف ہو، (زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ) وہ ایک نوخیز (اور بھولی بھالی) لڑکی ہیں، اہل خانہ کا آٹا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2637]
حدیث حاشیہ:
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ پر تہمت کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک مشہور ترین حادثہ ہے۔
جس میں آنحضرتﷺ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور بہت سے اکابر صحابہ کو بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔
آخر اس بارے مبں سورۃ نور نازل ہوئی اور اللہ پاک نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی پاک دامنی ظاہر کرنے کے سلسلے میں کئی شاندار بیانات دئیے۔
امام بخاری ؒ نے مطلب باب اس سے نکالا کہ حضرت اسامہ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی تعدیل ان لفظوں میں بیان کی جو مقصد باب ہیں۔
اس الزام کا بانی عبد اللہ بن ابی منافق مردود تھا جو اسلام سے دل میں سخت کینہ رکھتا تھا۔
الزام ایک نہابت ہی پاک دامن صحابی صفوان بن معطل ؓکے ساتھ لگایا تھا جو نہایت نیک صالح اور مرد عفیف تھا۔
یہ اللہ کی راہ میں شہید ہوا۔
حدیث افک کی اور تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2637   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4690  
4690. حضرت زہری سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ سے نبی ﷺ کی زوجہ محترم ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ی حدیث کے متعلق سنا، جبکہ ان کے بارے میں بہتان لگانے والوں نے جو کہنا تھا کہا اور اللہ تعالٰی نے صدیقہ کائنات کو مبرا اور پاک صاف قرار دیا، ہر ایک نے مجھ سے حدیث کا کچھ حصہ بیان کیا۔ (حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے) نبی ﷺ نے فرمایا: (اے عائشہ!) اگر تم بہتان سے مبرا اور پاک صاف ہو تو عنقریب اللہ تعالٰی تمہیں مبرا اور پاک صاف قرار دے گا اور اگر تم نے گناہ کیا ہے تو اللہ تعالٰی سے مغفرت طلب کرو اور اس کے حضور اپنی توبہ کا نذرانہ پیش کرو۔ (حضرت عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں کہ) میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو ابو یوسف (حضرت یعقوب ؑ) کے علاہ اور کوئی مثال نہیں پاتی۔ اب صبر ہی بہتر ہے اور جو کچھ تم بیان کرتے ہو، اس کے متعلق اللہ تعالٰی سے مدد چاہتی ہوں۔ پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4690]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کو حضرت امام بخاری اس باب میں اس لئے لائے کہ اس میں حضرت یوسف ؑ کے والد کا قصہ مذکور ہے۔
حضرت عائشہ ؓ کو رنج اور صدمے میں حضرت یعقوب ؑ کا نام یاد نہ رہا توانہوں نے یوں کہہ دیا کہ حضرت یوسف ؑ کے والد۔
حدیث اور باب میں یہی مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4690   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7370  
7370. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا اور اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: تم مجھے ان لوگوں کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہو جو میرے اہل خانہ کو بدنام کرتے ہیں۔ حالانکہ مجھے ان کے متعلق کبھی کوئی بری بات معلوم نہیں ہوئی۔ سیدنا عروہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬و اس واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اپنے میکے چلی جاؤں؟ تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور انکے ہمراہ ایک غلام بھیجا۔ انصار میں سے ایک صاحب نے کہا: اے اللہ تیری ذات پاک ہے ہمارے لیے زیبا نہیں کہ ہم ایسی باتیں زبان پر لائیں۔ تیری ذات پاک ہے یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7370]
حدیث حاشیہ:
یہ واقعہ پچھلے تفصیل سے بیان ہو چکا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7370   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7500  
7500. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ عائشہ سے روایت ہے، انہوں نے منافقین کی طرف سے لگائے گئے بہتان کے متعلق فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے یہ گمان نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے حق میں وحی نازل فرمائے گا جس کی قیامت تک تلاوت کی جائے گی۔ میرے نزدیک میرا درجہ اس سے بہت کم تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے متعلق کوئی ایسا کلام کرے جس کی تلاوت کی جائے البتہ مجھے یہ امید ضرور تھی کہ رسول اللہﷺ بحالت نیند کوئی خواب دیکھ لیں گے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ میری براءت کردے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل دس آیات نازل فرمائیں: بے شک جن لوگوں نے بہتان گھڑا۔۔۔۔۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7500]
حدیث حاشیہ:
دس آیتیں جوسورۂ نور میں ہیں۔
مقصد اللہ کاکلام ثابت کرنا ہے جو بخوبی ظاہر ہے۔
آیات مذکورہ حضرت عائشہ ؓ کی برأت سے متعلق نازل ہوئیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ حضرت ابوبکر کی صاحبزادی اور رسول کریم ﷺ کی بہت ہی محبوبہ بیوی ہیں جن کےمناقب بہت ہیں۔
سنہ 85ھ بماہ رمضان 18 کی شب میں وفات ہوئی۔
رات میں دفن کیا گیا۔
ان دنوں حضرت ابوہریرہ عامل مدینہ تھے۔
انہوں نے نماز جنازہ پڑھائی۔
رضي اللہ عنا و أرضاھا
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7500   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2593  
2593. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی سفر کا ا رادہ فرماتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے، جس بیوی کانام نکل آتا، اسے سفر میں اپنے ہمراہ لے جاتے۔ آپ ﷺ نے سیدہ سودہ بن زمعہ ؓ کے علاوہ باقی ہر بیوی کے ہاں فروکش ہونے (ٹھہرنے)کے لیے دن رات کی باری مقرر کر رکھی تھی۔ سیدہ سودہ ؓ نے اپنے دن رات کی باری رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ کو ہبہ کردی تھی جس سے ان کامقصد رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2593]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت سودہ ؓ کافی عمر رسیدہ تھیں۔
انہیں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت اور خوشنودی مقصود تھی۔
اس بنا پر انہوں نے اپنی باری ہبہ کر دی۔
اس قسم کا ہبہ جو آپس کی رضا مندی سے ہو جائز اور درست ہے۔
(2)
اس میں اختلاف ہے کہ انہوں نے اپنا ہبہ رسول اللہ ﷺ کو دیا تھا یا کسی ضرورت کی بنا پر تھا۔
استدلال اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب انہوں نے باری کا ہبہ حضرت عائشہ ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی کے پیش نظر کیا ہو۔
حدیث سے یہی بات ثابت ہوتی ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2593   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2637  
2637. حضرت ابن شہاب زہری سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے عروہ بن زبیر ؒ، سعید بن مسیب ؒ، علقمہ بن وقاص اور عبید اللہ بن عبد اللہ ؒ نے حضرت عائشہ ؓ کے واقعے کے متعلق بتایا۔ ان کی کچھ باتیں دوسری بیان کردہ باتوں کی تصدیق کرتی ہیں واقعہ یہ ہے کہ جب بہتان طرازوں نے حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگائی تو رسول اللہ ﷺ پر وحی آنے میں کچھ دیر ہو گئی۔ چنانچہ آپ نے حضرت علی ؓ اور حضرت اسامہ ؓ کو اپنی اہلیہ (حضرت عائشہ ؓ) کو چھوڑنے کے متعلق مشورے کے لیے بلایا تو حضرت اسامہ ؓ نے کہا: ہم تو ان کے متعلق خیرو بھلائی کے علاوہ کچھ نہیں جانتے، بہر حال وہ آپ کی بیوی ہیں حضرت بریرہ ؓ نے کہا: میں نے تو ان میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جو ان کی شان کے خلاف ہو، (زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ) وہ ایک نوخیز (اور بھولی بھالی) لڑکی ہیں، اہل خانہ کا آٹا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2637]
حدیث حاشیہ:
(1)
تعديل کے معنی ہیں کہ کسی شخص کے متعلق صفائی دی جائے، یعنی وہ عادل ہے اور گواہی دینے کے قابل ہے۔
یہ شخص کسی معاملے میں مہتم نہیں اور نہ پہلے کسی جرم میں پکڑا گیا ہے۔
اس کی صفائی دینے کے متعلق اختلاف ہے کہ کس قسم کے الفاظ ادا کیے جائیں، کیا اتنا ہی کافی ہے کہ اسے ہم بھلا آدمی خیال کرتے ہیں؟ امام بخاری ؒ کا رجحان ہے کہ نیک چلن بیان کرنے کے لیے اتنے الفاظ ہی کافی ہیں جبکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ تعدیل بیان کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی جائے کہ یہ عادل شخص ہے اور اس کی گواہی قبول ہے۔
اسلام نے مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت گواہوں کے عادل اور نیک چلن ہونے پر بہت زور دیا ہے کیونکہ فیصلے کی بنیاد گواہ ہوتے ہیں۔
ان کی صفائی کا یہی طریقہ ہے کہ عدالت میں کوئی قابل اعتماد آدمی ان گواہوں کی نیک سیرتی بیان کر دے۔
دوسرا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت خود گواہ کے متعلق اپنے ذرائع استعمال کرے کہ وہ کیسا آدمی ہے، پھر عدالت کو اس کے متعلق مطلع کیا جائے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کو نیک چلن بتانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ عمومی طور پر اس کی نیک سیرتی سے مطلع کر دیا جائے جیسا کہ حضرت اسامہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ کے متعلق بیان کیا تھا ویسے بھی انسان کسی کے متعلق اپنے علم کے مطابق ہی خبر دے سکتا ہے۔
حقیقت حال سے کسی کو کون مطلع کر سکتا ہے کیونکہ باطنی امور کا علم تو اللہ کے پاس ہے، اس کے سوا اور کوئی نہیں جان سکتا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2637   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2688  
2688. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے، جس کے نام قرعہ نکلتا اسے اپنے ساتھ سفر میں لے جاتے۔ آپ ﷺ نے اپنی ہر بیوی کے لیے ایک دن اور ایک رات کی باری مقرر کررکھی تھی لیکن حضرت سودہ بنت زمعہ ؓ نے اپنی باری ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کو ہبہ کردی تھی، اس سے وہ رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2688]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بھی قرعہ اندازی کا ثبوت ملتا ہے کہ جب حقوق میں سب برابر ہوں اور فیصلہ نہ ہو سکتا ہو تو حقوق کو متعین کرنے کے لیے قرعہ اندازی کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔
کچھ حضرات اس کے شرعی طور پر جائز ہونے کا بلا وجہ انکار کرتے ہیں۔
انہیں اپنے موقف پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2688   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2879  
2879. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ جب کہیں سفر کے لیے روانہ ہوتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے۔ جس بیوی کے نام قرعہ نکل آتا اسے نبی کریم ﷺ ہمراہ لے جاتے، چنانچہ آپ نے ایک غزوے میں جانے کے لیے ہم اس قرعہ اندازی کی تو اس میں میرے نام قرعہ نکل آیا۔ میں اس غزوے میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ گئی جبکہ حجاب کاحکم نازل ہوچکا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2879]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیویو ں میں سے کسی ایک بیوی کا انتخاب بذریعہ قرعہ اندازی کرتے تاکہ جہادی سفر میں اسے اپنے ہمراہ لے جائیں۔

مذکورہ حدیث "حدیث افک" کے نام سے مشہور ہے اس میں حضرت عائشہ ؓ پر تہمت کا واقعہ بیان ہوا ہے جس کی تفصیل آئندہ آئے گی۔
بہر حال پردے کا مطلب یہ نہیں کہ عورت اپنی کسی ضرورت کے لیے بھی باہر نہ نکلے بلکہ شرعی پردے میں رہتے ہوئے عورت اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے گھر سے باہر نکل سکتی ہے۔
چنانچہ عہد نبوی میں متعدد خواتین اسلام نے جہادی سفر کیے۔
خود رسول اللہ ﷺ اپنی ازواج کو اس مقدس مشن کی تکمیل کے لیے گھر سے باہر لے جاتے۔
خواتین اسلام زخمی مجاہدین کی مرہم پٹی کرتیں اور ان کے لیے پانی کا اہتمام کرتیں۔
اس کی تفصیل بھی آئندہ احادیث میں آئے گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2879   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4025  
4025. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں اور ام مسطح ؓ جا رہی تھیں کہ اچانک ام مسطح اپنی چادر میں پھسل پڑیں۔ ان کی زبان سے نکلا: مسطح کا برا ہو۔ میں نے کہا: تو نے اچھی بات نہیں کہی۔ ایک ایسے شخص کو برا کہتی ہو جو بدر کی جنگ میں شریک ہو چکا ہے؟ پھر انہوں نے تہمت کا واقعہ بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4025]
حدیث حاشیہ:

یہ حدث افک کا ایک حصہ ہے جس کی وضاحت سورہ نور کی تفسیر میں بیان ہو گی۔

حضرت ام مسطح ؓ حضرت ابو بکر ؓ کی ہمشیر اور سیدہ عائشہ ؓ کی پھوپھی تھیں، بیمار ہوگئیں تو کمزوری کی وجہ سے چلتے ہوئے اپنی چادر میں پھسل پڑیں۔

اس حدیث سے مقصود حضرت مسطح ؓ کے متعلق بیان کرنا ہے کہ وہ بدر میں شریک ہوئے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان پر حد قذف لگائی کیونکہ وہ عائشہ ؓ پر تہمت لگانے والوں میں شامل تھے حضرت مسطح کے والد کا نام اثاثہ اور ان کی والدہ کا نام سلمیٰ ہے۔
(عمدة القاري: 63/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4025   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4141  
4141. حضرت ابن شہاب سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود ؓ نے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے بیان کیا کہ جب تہمت لگنے والوں نے ان کے متعلق وہ سب کچھ کہا جو انہیں کہنا تھا، ان تمام حضرات نے مجھ سے حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ی حدیث کا ایک ایک حصہ بیان کیا۔ ان میں سے بعض کو یہ قصہ زیادہ بہتر طریقے سے یاد تھا اور وہ اچھے اسلوب میں اسے بیان کرتا تھا۔ میں نے ان میں سے ہر ایک کی روایت یاد رکھی جو اس نے حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے لی تھی اگرچہ کچھ لوگوں کو دوسروں کے مقابلے میں یہ روایت زیادہ بہتر طریقے سے یاد تھی، تاہم ان میں سے ایک کی روایت دوسرے کی بیان کردہ روایت کی تصدیق کرتی تھی۔ ان لوگوں نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آپ سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج مطہرات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4141]
حدیث حاشیہ:

غزوہ بنو مصطلق کی مہم میں رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی ملعون کی سرکردگی میں منافقین کی ایک بھاری جمعیت کو لشکر اسلام کے ساتھ جانے کا موقع مل گیا۔
یہ لوگ رذیلانہ حملوں اور داخلی فتنہ انگیزیوں کے ذریعے سے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے، چنانچہ مریسیع کے مقام پر مسلمانوں کے معمولی سے جھگڑے کو بنیاد بنا کر مہاجرین اور سالار مہاجرین ﷺ کے متعلق انتہائی گھٹیا اور توہین آمیز الفاظ استعمال کر کے اپنے خبث باطن کا اظہارکیا۔
سورہ منافقون میں بھی ان کی دسیسہ کاریوں کا تفصیلی تذکرہ ہے۔
یہ شوشہ ابھی تازہ ہی تھا کہ اس مہم سے واپسی کے وقت انھوں نے نے ایک اور طوفان بدتمیزی اٹھایا اور یہ صد یقہ کائنات حضرت عائشہ ؓ پر تہمت کا فتنہ تھا جو واقعہ افک کے نام سے مشہور ہے اور مذکورہ حدیث میں اس کا تفصیلی تذکرہ ہے سورہ نورکا ابتدائی حصہ اسی خطرناک حادثے کے پس منظر میں نازل ہوا۔
منافقین الٹےخود ہی رسوا ہو کر رہ گئے۔

واقعہ یہ تھا کہ لشکر سے پیچھے رہ جانے والی کوئی عام عورت نہ تھی بلکہ تمام مسلمانوں کی ماں ہے اور پیچھے سے آنے والا بھی پکا مسلمان ہے جو انھیں فی الواقع اپنی ماں ہی سمجھتا ہے۔
ماں اس سے پردہ بھی کر لیتی ہے اور وہ آپس میں اس وقت بلکہ پورے سفر کے دوران میں ہم کلام نہیں ہوتے اور یہ سفر بھی صبح سے لے کر دوپہر تک دن دیہاڑے ہو رہا ہے۔
عورت اونٹ پر سوار ہے اور مرد خاموشی کے ساتھ آگے آگے چل رہا ہے اور سفر بھی مدینے کے آس پاس قریبی علاقے میں ہےحتی کہ مسلمانوں کے لشکر سے جا ملتا ہے ایسے حالات میں بد گمانی کی محرک صرف دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ بد گمانی کرنے والا خود بد باطن اور خبیث انسان ہو جو ایسے حالات میں خود یہی کچھ سوچتا ہو یا یہی کچھ کرتا اور دوسرے لوگوں کو بھی اپنی ہی طرح سمجھتا ہو اور دوسری یہ کہ وہ ایسے موقع کو غنیمت جان کر ازراہ دشمنی ایسی بکواس کرنے لگے اور منافقین میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی تھیں۔
ایسے حالات میں اللہ کا فضل یہ ہوا کہ اس نے مسلمانوں کو بالعموم اور اپنے پیغمبر ﷺ کو بالخصوص صبرو استقامت کی توفیق بخشی ورنہ منافقین نے جس طرح مسلمانوں پر کاری وار کیا تھا، اگر مسلمان بھی جوابی کاروائی پر اٹھ کھڑے ہوتے تو حالات کوئی سنگین صورت اختیار کر سکتے تھے۔
بہر حال عام مسلمانوں کی اخلاقی اور ایمانی حالت اتنی مضبوط تھی کہ منافقین کے زبردست پروپیگنڈےکے باوجود تین افراد کے سوا کوئی ان سے متاثر نہ ہوا۔
ان میں سے بھی حمنہ بنت حجش اپنی بہن حضرت زینب حجش ؓ کی خاطر اور حضرت عائشہ ؓ کو نیچا دیکھانے کے لیے اس بہتان میں شامل ہو گئی تھیں۔

اس واقعے سے مسلمانوں کے ایمان کا امتحان بھی ہوگیا اور منافقین کا نفاق بھی کھل کر سامنے آگیا۔
منافقین یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر انھیں کمزور کردیا جائے لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا اور مسلمان کا اخلاقی پہلو پہلے سے بھی زیادہ نمایاں ہوگیا مسلمانوں کو اس دوران میں ایسے احکام دیے گئے جن پر عمل پیرا ہونے سے وہ ایسے فتنہ خیز اور فتنہ پرورطوفان کا بخیر و خوبی مقابلہ کر سکیں۔
اس جانکاہ حادثے سے جو افراد جس قدر متاثر تھے اسی قدر وحی الٰہی ان کی خوشی کا باعث ثابت ہوئی۔
خود رسول اللہ ﷺ وحی کے اختتام پر مسکرارہے تھے۔
حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت ام رومان ؓ کی خوشی کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو رسول اللہ ﷺ کا شکریہ ادا کرنے کا کہا۔
سیدہ عائشہ ؓ کی خوشی کی تو کچھ انتہا ہی نہ تھی جن کی براءت میں دس آیات نازل ہوئیں جو قیامت تک پڑھی جاتی رہیں گی۔

اس تفصیلی واقعے کے تناظر میں مسلمانوں کی مضبوط اخلاقی حالت کو درج ذیل امور سے پتہ چلتا ہے۔
(ا)
خود رسول اللہ ﷺ اس واقعے کو بہتان ہی سمجھتے تھے وہ صرف اپنی زوجہ محترمہ ہی کو نہیں بلکہ حضرت صفوان بن معطل ؓ کو بھی ایک پاکباز انسان خیال کرتے تھے۔
(ب)
اس واقعے کا براہ راست صدمہ رسول اللہ ﷺ کو پہنچا تھا۔
آپ کے ادنی سے اشارے سے بہتان تراشوں کاصفایا کیا جا سکتا تھا مگر جب قومی اور قبائلی عصبیت کی بنا پر جھگڑا شروع ہوا تو آپ نے یہ صدمہ اپنی جان پر برداشت کر لیا مگر مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ نہ ہونے دیا۔
(ج)
رسول اللہ ﷺ اس سلسلے میں پورا ایک ماہ انتہائی تکلیف اور بے چینی میں مبتلا رہے کیونکہ یقینی علم یا علم غیب آپ کو حاصل نہ تھا بصورت دیگر دوسروں سے اس سلسلے میں پوچھنے کی ضرورت ہی نہ تھی اور شاید اس تاخیر میں یہ مصلحت بھی پوشیدہ ہو کہ بعد میں آنے والے آپ کو عالم غیب سمجھنے یا ثابت کرنے نہ لگیں۔
(د)
یقین کامل کے باوجود آپ نے اس واقعے کی حتمی تردید اس لیے نہ فرمائی کہ ایک شوہر کی اپنی بیوی کے لیے تردید کی مخالفین کی نظروں میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔
(و)
سیدہ عائشہ ؓ کے والدین بھی ذاتی طور پر انھیں پاکباز سمجھتے تھے تاہم وہ بھی حتمی طور پر تردید اس لیے نہ کر سکتے تھے کہ والدین کا اپنی بیٹی کے حق میں پاکیزگی کا بیان مخالفین کا منہ بند نہیں کر سکتا تھا۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اپنی مایہ ناز کتاب:
الفوز الکبیرمیں لکھتے ہیں مفسر کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان واقعات کو اختصار کے ساتھ بیان کردے جن کی طرف آیات میں کوئی اشارہ کیا گیا ہے جیسا کہ سورہ نور میں واقعہ افک ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات پر سر سری نظر ڈال لی جائے جو حارثہ افک کے پس منظر میں نازل ہوئی ہیں۔
اور جن میں واقعہ افک کی طرف کھلے اشارات ہیں۔
جن لوگوں نے تہمت کی باتیں کیں وہ تم میں سے ایک گروہ ہیں۔
(النور: 11/24)
حضرت عائشہ ؓ فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے جب میری براءت اتاری تو رسول اللہ ﷺ نے منبر پر اس کا تذکرہ کیا اور ان آیات کی تلاوت کی، پھر نیچے اتر کردو آدمیوں (حضرت حسان اور حضرت مسطح ؓ)
اور ایک عورت (حضرت حمنہ ؓ)
کو حد قذف لگانے کا حکم دیا۔
(جامع الترمذی، التفسیر، حدیث: 3181۔
)

ان میں سے جو شخص اس تہمت کے بڑے حصے کا ذمہ دار بنا اس کے لیے عذاب عظیم ہے۔
(النور24۔
11)

ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ عروہ بن زبیر ہشام بن عروہ ابن زید ؓ اور امام مجاہد کے نزدیک اس سے مراد صدیقہ کائنات پربہتان لگانے والوں میں سرگرم رکن رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی ہے۔
(تفسیر الطبیري: 89/8)
سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس سے مراد عبد اللہ بن ابی منافق ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4749)
اسے حد قذف نہیں لگائی گئی تاکہ قیامت تک اس پر لعنتیں برستی رہیں اور یہ حد اس کے لیے کفارہ نہ بن سکے۔
واللہ اعلم۔
جب تم نے یہ سنا تھا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے دل میں اچھی بات کیوں نہ سوچی اور یوں کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو صریح بہتان ہے۔
(النور: 24۔
12)

اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کی اخلاقی تربیت کی گئی ہے کہ جس طرح پر مسلمان خود کو پاک دامن خیال کرتا ہے اسے دوسرے بھائیوں کے متعلق بھی ایسا ہی گمان رکھنا چاہیے اور اگر کوئی بدطینت منافق ان میں سے کسی پر کوئی تہمت لگاتا ہے تو اس کی تصدیق نہیں کرنی چاہیے اور اسی وقت کہہ دینا چاہیے کہ یہ بہتان تراشی ہے۔
خاص طور پر جوتہمت رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ کے متعلق ہو اس مسلمانوں کے دل ودماغ میں کوئی جگہ ہی نہیں ہونی چاہیے
پھر تہمت لگانے والے اس پر چار گواہ کیوں نہ لا سکے؟ پھر جب یہ گواہ نہیں لا سکے تو اللہ کے ہاں یہی جھوٹے ہیں۔
واقعہ افک کا قانونی پہلو یہ ہے کہ ایسی جو بدکاری پر دلالت کرتی ہوں وہ کبھی میسرآبھی نہ سکتیں تھیں کیونکہ قرائن سب اس کے خلاف تھے۔
یہ سفر جو حضرت صفوان بن معطل ؓ کی معیت میں ہوا صبح سے لے کر دوپہر تک دن دہاڑے ہوا اور مدینے کے قریب آبادی میں ہوا۔
منافقین کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی تھا کہ وہ اس پر چار گواہ پیش نہ کر سکے۔
جب تم اپنی زبانوں سے اس کا ایک دوسرے سے ذکر کرتے تھے اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہہ رہے تھے جس کے متعلق تمھیں کچھ علم نہیں تھا اور تم اسے معمولی بات سمجھ رہے تھے حالانکہ وہ اللہ کے ہاں بہت بڑی تھی۔
(النور: 12/24)
انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہےکہ وہ سنی سنائی بات آگے دھکیل دے۔
کسی تحقیق کے بغیر اس طرح کی بات کو آگے بیان کرنا کبیرہ گناہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی بات کو آگے منتقل کردے۔
(النور: 15۔
2624۔
)

جب تم نے یہ سنا تھا تو یوں کیوں نہ کہہ دیا ہمیں یہ مناسب نہیں کہ ایسی بات کریں سبحان اللہ! یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔
(صحیح مسلم، مقدمة الإمام مسلم: 7/ (5)
یہ ایک اخلاقی ضابطہ ہے کہ ہر شخص کو دوسرے کے متعلق حسن ظن ہی رکھنا چاہیے حتی کہ اس کے خلاف بدظنی کی کوئی یقینی وجہ اس کے علم میں نہ آئے۔
یہ اصول قطعاً غلط ہے کہ ہر ایک کو شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا جائے۔
یہاں تو معاملہ اور بھی زیادہ سخت تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ پر محض بدظنی کی وجہ سے بہتان لگایا جائے چنانچہ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ زید بن حارثہ ؓ، سعد بن معاذ ؓ، قتادہ بن نعمان ؓ، ابی بن کعب ؓ، اور حضرت اسامہ ؓ نے یہ ماجرا سنتے ہیں:
﴿سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ ﴾ کہہ دیا تھا(النور: 16۔
24)

اللہ تمھیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم مامون ہو تو آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا۔
(فتح الباری: 420/13)
یعنی آئندہ تمھیں منافقین کی ایسی مخالفانہ چالوں سے ہوشیار اور چوکس رہنا چاہیے نیز رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اہل خانہ کی عظمت شان کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔
جو لوگ اس طرح مسلم معاشرے میں بے حیائی کی اشاعت چاہتے ہیں ان کے لیے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔
اس کے نتائج کو اللہ ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے ہو۔
(النور:
۔
19۔
24)

فاحشہ سے مراد ہر وہ کام جو انسان کی شہوانی خواہش میں تحریک پیدا کرنے کا سبب ہو۔
اشاعت فحاشی کی بہت سی صورتیں ہمارے معاشرے میں رائج ہیں مثلاً:
تھیڑ، سینما، تصویریں، ناچ گانے کی محفلیں، انٹر نیٹ اور سی ڈیز وغیرہ الغرض فحاشی کی اشاعت کا دائرہ آج بہت وسیع ہو چکا ہے ان سب باتوں کے لیےوہی وعید ہے جس کا ذکر آیت کریمہ میں ہوا ہے۔
جو لوگ پاکدامن اور بھولی بھالی ایمان دار عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا میں بھی لعنت ہے اور آخرت میں بھی اور انھیں بہت بڑا عذاب ہوگا۔
(النور: 23/24)
وہ سیدھی سادی اور بھولی بھالی عورت جسے بد چلن عورتوں کی باتوں سے واقفیت نہ ہو، اس پر تہمت نہ ہو، اس پر تہمت لگانا کبیرہ گناہ ہے۔
ایک روایت میں ایسی عورتوں پر تہمت لگانا ان سات تباہ کن گناہوں میں سے ہے جو سابقہ نیکیوں کو برباد کر دیتے ہیں۔
(صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6857)
لیکن یہاں معاملہ تو اور بھی سنگین تھا کہ جس پر بہتان باندھا گیا وہ عام عورت نہ تھی بلکہ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ اور عام اہل ایمان کی ماں تھیں ان پر تہمت لگانے والے تو کسی صورت میں اللہ کی لعنت اور اس کی سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔
ان کا دامن ان باتوں سے پاک ہے جو وہ تہمت لگانے والے بکتے ہیں۔
ان کے لیے بخشش بھی ہے اور عزت کی روزی بھی۔
(النور: 24۔
26)

امام رازی لکھتے ہیں۔
مسلمانوں کا اس امر پر اجماع ہے کہ آیت کریمہ میں"افك" سے مراد وہ بہتان ہے جو صدیقہ کائنات حضرت عائشہ ؓ پر لگایا گیا تھا۔
(تفسیر کبیر: 32/172)
یہ وہ آیات ہیں جو سورۃ نور کے نازل ہونے کا سبب بنیں ابتدا میں تہمت قذف زنا کے احکام اور اس کی سزا بتانے کے بعد اس واقعے کا آغاز اور اس پر تبصرہ ہےاس کا آغاز ہی اس طرح کیا گیا کہ جو کچھ افواہیں پھيلیں اور قصے گھڑے گئے سر اسر جھوٹ، بہتان اور بدنیتی پر مبنی تھے۔
جن میں حقیقت کا شائبہ تک نہیں۔
تمام مفسرین نے ان آیات کا پس منظر یہی واقعہ افک بیان کیا ہے لیکن دور حاضر کے منکرین حدیث کہتے ہیں کہ یہ واقعہ خود ساختہ اور بناوٹی ہے ضد اور ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں۔

امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں تقریباً ستائیس مقامات پر اس روایت کو بیان کیا ہے۔
ان میں چار جگہ پر یہ حدیث تفصیل سے بیان کی ہے اور باقی مقامات میں ضرورت کے مطابق اس روایت کا کچھ حصہ لائے ہیں اسی طرح سات مقامات پر واقعہ افک کا ذکر ضمنی طور پر ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔
ان تمام روایات سے زیادہ مشہور حضرت عائشہ ؓ سے مروی وہ روایات ہے جو بطریق امام زہری ؒ مختلف کتب حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
امام زہری نے اپنے چار اساتذہ علقمہ بن وقاص ؓ سعید بن مسیب ؓ عروہ بن زبیر ؓ اور عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ ؓ سے واقعہ افک کے چیدہ چیدہ اجزا سنے پھر واقعے کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے ان بکھرے ہوئے اجزا کو یکجا کر کے مرتب صورت میں اپنے تلامذہ سے بیان کیا اگرچہ بعض آئمہ حدیث نے امام زہری ؒ کے اس انداز کو پسند نہیں کیا، تاہم ایسا کرنا روایت بالمعنی ہی کا ایک طریقہ ہے جسے اکثر محدثین نے پسند فرمایا اور اس روایت کو اپنی تالیفات میں بیان کرنے کا اہتمام کیا، چنانچہ سرخیل محدثین امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں تقریباً سترہ مقامات پر اس کی روایت کو متعدد طرق سے بیان کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4141   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4750  
4750. حضرت ابن شہاب سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھ سے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ‬ ؓ ک‬ا واقعہ بیان کیا جبکہ تہمت لگانے والوں نے ان کے متعلق افواہ اڑائی تھی اور اللہ تعالٰی نے آپ کو اس تہمت سے پاک قرار دیا تھا۔ ان تمام حضرات نے حدیث کا ایک ایک ٹکڑا مجھ سے بیان کیا اور ان حضرات میں سے ایک کا بیان دوسرے کے بیان کی تصدیق کرتا ہے۔ اگرچہ ان میں سے کچھ حضرات کو دوسروں کے مقابلے میں حدیث زیادہ بہتر طریقےسے یاد تھی۔ حضرت عروہ بن زبیر نے مجھے حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ے حوالے سے اس طرح بیان کیا کہ نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ کسی سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے قرعہ اندازی کرتے۔ جس کا نام نکل آتا رسول اللہ ﷺ اسے اپنے ساتھ لے جاتے، چنانچہ آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4750]
حدیث حاشیہ:

اس مفصل حدیث کے مطابق مسلمانوں کی مضبوط اخلاقی حالت کا درج ذیل امور سے پتا چلتا ہے۔
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس واقعے کو ایک بہتان ہی خیال کرتے تھے وہ صرف اپنی زوجہ محترمہ ہی کو نہیں بلکہ حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی ایک پاکباز انسان سمجھتے تھے۔
۔
اپنے یقین کامل کے باوجود آپ نے اس واقعے کی حتمی تردید اس لیے نہ فرمائی کہ ایک شوہر کی اپنی بیوی کے لیے تردید مخالفین کی نظروں میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والدین بھی ذاتی طور پرانھیں پاکبازسمجھتے تھے جیسا کہ ان کی والدہ ام رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جواب سے ظاہر ہوتا ہے تاہم وہ بھی حتمی تردید اس لیے نہ کر سکتے تھے یا پاکباز کا بیان اس لیے نہ دے سکتے تھے کہ والدین کا اپنی بیٹی کے حق میں پاکبازی کا بیان مخالفین کا منہ بند نہیں کر سکتا تھا۔
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدہ زینب بن حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا۔
یہ سب آپ کے گھر کے افراد تھے۔
سب نے پر زور الفاظ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکبازی کا بیان دیا۔
سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سوکن اور ان کے مقابلے کی چوٹ تھیں انھوں نے بھی آپ کے متعلق ذکر خیر ہی کیا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر کے فرد تھے جن سے آپ پوچھا انھوں نے اس الزام کی تردید یا سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکبازی بیان کرنے کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی اور خوشنودی کا لحاظ رکھ کر جواب دیا لیکن ان کی زبان سے بھی کوئی ایسا لفظ نہیں نکلا جس سے اس الزام کی تائید ہوتی ہو یا سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ذات یا ان کی پاکبازی پر کوئی حرف آتا ہو۔

اس واقعے کا براہ راست صدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو پہنچا تھا اور آپ کے ایک ادنی اشارے سے بہتان باندھنے والوں کا صفایا ہو سکتا تھا مگر جب قومی اور قبائلی عصبیت کی بنا پر جھگڑا شروع ہوا تو آپ نے یہ انتہائی تکلیف دہ صدمہ خود اپنی ذات پر برداشت کر لیا مگر مسلمانوں میں جھگڑا نہ ہونے دیا۔

آپ اس سلسلے میں پورا مہینہ بے چین و بے تاب رہے اس لیے کہ یقینی علم یا علم غیب آپ کو حاصل نہ تھا ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق نہ پوچھتے اور شاید اس تاخیر میں یہ مصلحت تھی کہ بعد میں آنے والے لوگ آپ کو عالم الغیب نہ سمجھنے لگیں یا اسے ثابت کرنے کے لیے کوشش نہ کریں۔

اس واقعے کا قانونی پہلو یہ ہے کہ ایسی شہادتیں جو بد کاری پر دلالت کرتی ہوں وہ کبھی میسر بھی نہ آسکتی تھیں کیونکہ سب قرآئن اس کے خلاف تھے واقعہ یہ تھا کہ پیچھے رہ جانے والی کوئی عام عورت نہ تھی۔
بلکہ تمام مسلمانوں کی ماں تھی اور پیچھے سے آنے والا آدمی بھی پکا مسلمان ہی تھا جو انھیں واقعی اپنی ماں ہی سمجھتا تھا وہ دونوں اس وقت یا دوران سفر میں ہم کلام نہیں ہوئےاور یہ سفر صبح سے دوپہر تک دن دیہاڑے ہوا۔
عورت اونٹ پر سوار ہے اور مرد خاموشی سے آگے چل رہا ہے یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کے لشکر سے جا ملتا ہے۔
ایسے حالات میں بدگمانی کے محرک دوہی ہو سکتے ہیں۔
ایک یہ کہ بدگمانی کرنے والا خود بد باطن اور خبیث الفطرت انسان ہو جو ایسے حالات میں خود یہی کچھ سوچتا یا کرتا ہو اور اسی طرح دوسروں کو اپنی ہی طرح سمجھتا ہواوردوسرا یہ کہ وہ ایسے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس طرح کی بکواس کرنے لگے۔
اس وقت کے منافقین میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی تھیں۔
واللہ المستعان،
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4750   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5211  
5211. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب سفر میں جانے کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں میں قرعہ اندازی کرتے چنانچہ ایک دفعہ ام المومنین سیدہ عائشہ اور ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا قرعہ نکلا۔ نبی ﷺ رات کو دوران سفر میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو فرمایا کرتے تھے ایک مرتبہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آج تم میرے اونٹ پر سوار ہو جاؤ اور میں آپ کے اونٹ پر سواری کرتی ہوں میں بھی نئے مناظر کا مشاہدہ کروں؟ انہوں نے یہ تجویز قبول کرلی اور وہ اونٹ پر سوار ہو گئیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کے پاس تشریف لائے اور اس پر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سوار تھیں۔ آپ ﷺ نے انہیں سلام کیا پھر (وہاں سے) روانہ ہوئے حتیٰ کہ جب ایک مقام پر پڑاؤ کیا تو ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے پاؤں اذخر گھاس میں ڈال لیے اور کہنے لگیں: اے اللہ!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5211]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ بیویوں کا گھر میں موجود رہنا زیادہ بہتر ہوتا ہے اور کچھ عورتیں سفر میں معاون و مدد گار ثابت ہوتی ہیں، ایسے حالات میں قرعہ اندازی ضروری نہیں ہاں، جب تمام بیویوں کے حالات ایک جیسے ہوں تو قرعہ اندازی کے ذریعے سے فیصلہ کیا جائے تاکہ دوسری بیویوں کو شکوہ و شکایت کا موقع نہ ملے۔
اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس امر کو ثابت کیا ہے۔
(فتح الباري: 386/9) (2)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق اورآپ کی جدائی کی وجہ سے چاہتی تھیں کہ کوئی زہریلا جانور مجھےڈس لے تاکہ موت کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے دکھ اور تکلیف سے نجات مل جائے یا میری مصیبت کا سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئیں جس سے فراق اور جدائی کا غم دور ہو جائے۔
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو پہلے تشریف لائے تھے مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی کوتاہی کی وجہ سے خود محروم رہ گئیں۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا بھی اس میں کوئی قصور نہیں تھا، اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مارے رنج کے خود کو کوسنے لگیں اور اپنے پاؤں گھاس میں ڈال لیے جس میں زہریلے کیڑے بکثرت رہتے تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5211   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6662  
6662. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جب بہتان تراشوں نے ان پر طوفان باندھا پھر اللہ تعالٰی نے ان کی پاک دامنی واضح کر دی تو نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور عبداللہ بن ابی (رئیس المنافقین) سے انتقام کے متعلق فرمایا تو سیدبا اسید بن حضیر ؓ کھڑے ہوئے اور حضرت سعد بن عبادہ ؓ سے کہا: حیات الہٰی (اللہ کی بقا) کی قسم! ہم اس کو ضرور قتل کریں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6662]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات کا خیال ہے عمر الله سے مراد اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ باقی رہنا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت ہے، لہذا لعمر الله کہنے سے قسم واقع ہو جاتی ہے لیکن امام شافعی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ قسم کا واقع ہونا کہنے والے کی نیت پر موقوف ہے کیونکہ لعمر الله سے مراد علم اور حق بھی ہے، اس بنا پر ضروری نہیں کہ صرف ان الفاظ کے کہنے سے قسم واقع ہو جائے۔
(فتح الباري: 666/11) (2)
ہمارے رجحان کے مطابق امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہی درست معلوم ہوتا ہے۔
مذکورہ روایت میں حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے حیات الٰہی کی قسم اٹھائی تھی، اس لیے یہ الفاظ قسم کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
واللہ أعلم۔
حضرت لقیط بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ''لعمر الله'' کے الفاظ کئی دفعہ استعمال فرمائے ہیں۔
(مسند أحمد: 13/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6662   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6679  
6679. امام زہری سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبید اللہ بن عتبہ سے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے متعلق ایک حدیث سنی جب ان پر بہتان تراشوں نے طوفان باندھا اور اللہ تعالٰی نے انہیں اس بہتان سے پاک قرار دیا اور ان کی باتوں سے بری کیا۔ ان میں سے ہر ایک نے مجھے حدیث کا کچھ حصہ بتایا کہ سیدہ عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں کہ اللہ تعالٰی نے ﴿إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ﴾ سے دس آیات حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں مسطح پر خرچ نہیں کروں گا جبکہ وہ مسطح پر قرابت داری کی وجہ سے خرچ کیا کرتے تھے۔ یہ اس لیے کیا کہ انہوں نے سیدہ عائشہ‬ ؓ پ‬ر بہتان لگانے میں حصہ لیا تھا۔ اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: تم میں سے اہل فضل ووسعت قسمیں نہ کھائیں کہ وہ اپنے اقارب پر خرچ نہیں کریں گے۔ نزول آیات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: اللہ کی قسم!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6679]
حدیث حاشیہ:
(1)
جن لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگایا تھا ان میں حضرت مسطح بھی شامل تھے، حالانکہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کفالت میں تھے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے غصے میں آ کر قسم کھائی کہ وہ آئندہ ان پر خرچ نہیں کریں گے۔
ان کی یہ قسم ترک طاعت (نیکی نہ کرنے)
پر تھی، جس پر انہیں قائم نہیں رہنے دیا گیا۔
معصیت کی قسم پر تو بالاولیٰ قائم رہنے کی اجازت نہیں ہے۔
(2)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ قسم بحالت غصہ کھائی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی غصے کی حالت میں قسم کھائی تھی لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قسم کھائی تو آپ اس وقت کسی چیز کے مالک نہ تھے اور نہ اسے پورا ہی کر سکتے تھے جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قسم اٹھاتے وقت مال و وسعت والے تھے اور خرچ کرنے کی ہمت بھی رکھتے تھے۔
بہرحال ایسے حالات میں قسم اٹھانے سے وہ منعقد ہو جاتی ہے اور اس کے خلاف کرنے میں کفارہ بھی دینا ہو گا۔
(فتح الباري: 690/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6679   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7370  
7370. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا اور اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: تم مجھے ان لوگوں کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہو جو میرے اہل خانہ کو بدنام کرتے ہیں۔ حالانکہ مجھے ان کے متعلق کبھی کوئی بری بات معلوم نہیں ہوئی۔ سیدنا عروہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬و اس واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اپنے میکے چلی جاؤں؟ تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور انکے ہمراہ ایک غلام بھیجا۔ انصار میں سے ایک صاحب نے کہا: اے اللہ تیری ذات پاک ہے ہمارے لیے زیبا نہیں کہ ہم ایسی باتیں زبان پر لائیں۔ تیری ذات پاک ہے یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7370]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر حدیث افک کو دو طریق سے بیان کیا ہے اور صرف اتنا حصہ بیان فرمایا جس سے مشورہ کی اہمیت پرروشنی پڑتی کیونکہ یہاں واقعے کی تفصیلات بیان کرنا نہیں بلکہ صرف مشورے کی افادیت بتانا مقصود ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق حضرت اسامہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب کیا۔
ان میں ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لاڈلے محبوب اور دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر کے شوہر نامدار تھے۔
حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:
ہم تو خیر کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔
انھوں نے بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح علیحدگی کا مشورہ نہیں دیا، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی دیکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر تنگی نہیں کی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے علاوہ عورتیں بہت ہیں۔
انھوں نے مزید یہ کہا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھ لیں وہ زیادہ بہتر بتا سکیں گی۔
مقصود یہ تھا کہ علیحدگی اختیار نہ کریں، مزید تحقیق کر لیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس بات پر عمل کیا لیکن علیحدگی کے اشارے پر توجہ نہ دی کیونکہ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اشارہ بھی عدم مفارقت کی طرف تھا، البتہ حالات کی سازگاری تک کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو میکےجانے کی اجازت دے دی، پھر جب وحی کے ذریعے سے اصل راز کھلا تو اس سلسلے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ لیا کہ اب تہمت لگانے والوں کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا چاہیے؟ تو سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اشارہ دیا کہ آپ اس سلسلے میں جو مناسب سمجھیں کر گزریں، ہم آپ کے قول وفعل میں پورے پورے ہم نوا ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسطح بن اثاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور حمنہ بنت حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر حد قذف جاری فرمائی۔

بہرحال ان روایات سے مشورے کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق میمون بن مہران بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب کوئی اہم معاملہ پیش آتا تواس کا حل اللہ تعالیٰ کی کتاب میں تلاش کرتے۔
اگر اس میں کوئی آیت مل جاتی تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے بصورت دیگر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر کرتے اور اس کے مطابق فیصلہ کرتے۔
اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہ ملتی تو باہر نکل کر دوسرے مسلمانوں سے سنت کے متعلق سوال کرتے۔
اگر کہیں سے کوئی سراغ نہ ملتا تو اہل اسلام کو دعوت دیتے۔
برسرعام اہل علم سے مشورہ کرتے۔
مشورہ کے بعد کوئی فیصلہ کرتے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
ان کی مجلس مشاورت کا ذکر پہلے ہو چکا ہے، چنانچہ انھوں نے شراب کی حد کے متعلق مشورہ لیا جیسا کہ کتاب الحدود میں بیان ہوا ہے۔
عورت کا حمل ضائع ہو جائے تو اس جنین کی دیت کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے رائے لی جیسا کہ کتاب الدیات میں اس کی صراحت ہے، اسی طرح اہل فارس سے جنگ کرنے کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے ان کا مشورہ کتاب الجہاد میں بیان ہوا ہے۔
جب آپ شام کے علاقے میں گئے تو وہاں پہنچنے سے پہلے پتا چلا کہ طاعون کی وبا پھیلی ہے تو آپ نے مہاجرین وانصار اور سرکردہ قریش سے وہاں جانے کے متعلق مشورہ لیا، جس کی تفصیل کتاب الطب میں بیان ہو چکی ہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ بنے تو ان کے پاس پہلا مقدمہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیش ہوا کیونکہ انھوں نے جذبات میں آکر ہرمزان کو قتل کر دیا تھا۔
انھیں گمان تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت میں ہرمزان کا پورا پورا ہاتھ ہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے متعلق تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ لیا کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ اس کی تفصیل طبقات ابن سعد میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اسی طرح انھوں نے مصاحف لکھنے میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اعتماد میں لیا، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مصاحف لکھوانے میں ہم سے بھر پور مشاورت کی۔
(فتح الباري: 418/13)
الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد روایات سے مشورے کی افادیت اور اہمیت بیان کی ہے جو دراصل کتاب الاعتصام ہی کا ایک حصہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے۔
آمین یا رب العالمین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7370   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7500  
7500. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ عائشہ سے روایت ہے، انہوں نے منافقین کی طرف سے لگائے گئے بہتان کے متعلق فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے یہ گمان نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے حق میں وحی نازل فرمائے گا جس کی قیامت تک تلاوت کی جائے گی۔ میرے نزدیک میرا درجہ اس سے بہت کم تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے متعلق کوئی ایسا کلام کرے جس کی تلاوت کی جائے البتہ مجھے یہ امید ضرور تھی کہ رسول اللہﷺ بحالت نیند کوئی خواب دیکھ لیں گے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ میری براءت کردے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل دس آیات نازل فرمائیں: بے شک جن لوگوں نے بہتان گھڑا۔۔۔۔۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7500]
حدیث حاشیہ:
غزہ بنومصطلق سے واپسی پر منافقین نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت لگائی جس کی تفصیل کتاب التفسیر میں بیان ہوئی ہے۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نےحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس بہتان سے بری قراردیا۔
اس حدیث میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام کے ذریعے سے اپنے احکام بھیجتا ہے، لیکن اس کا کلام صرف قرآن مجید کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ وہ جب چاہتا ہے اس کلام کے ذریعے سے اپنے بندوں کی اصلاح کرتا ہے۔
اس کا کلام غیرمخلوق ہےاور اس کی نازل کی ہوئی کتابوں میں محصور نہیں ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کاکلام کرنا ثابت کیا ہے جس کا معتزلہ اور جہمیہ انکار کرتے ہیں۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7500