الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب التَّوْبَةِ
توبہ کا بیان
9. باب حَدِيثِ تَوْبَةِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَصَاحِبَيْهِ:
9. باب: سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے دونوں ساتھیوں کی توبہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 7019
وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ ، حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ وَهُوَ ابْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ عَمِّهِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ ، وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ حِينَ أُصِيبَ بَصَرُهُ، وَكَانَ أَعْلَمَ قَوْمِهِ وَأَوْعَاهُمْ لِأَحَادِيثِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ وَهُوَ أَحَدُ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ يُحَدِّثُ أَنَّهُ لَمْ يَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا قَطُّ، غَيْرَ غَزْوَتَيْنِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ فِيهِ: وَغَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَاسٍ كَثِيرٍ يَزِيدُونَ عَلَى عَشْرَةِ آلَافٍ وَلَا يَجْمَعُهُمْ دِيوَانُ حَافِظٍ.
معقل بن عبیداللہ نے زہری سے روایت کی، انہوں نے کہا: مجھے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے اپنے چچا عبیداللہ بن کعب سے روایت کی اور جب حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی آنکھیں جاتی رہیں تو وہی ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کی رہنما کرتے تھے۔ وہ اپنی قوم میں سب سے بڑے عالم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی احادیث کے سب سے بڑے حافظ تھے، انہوں نے کہا: میں نے اپنے والد حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ ان تین لوگوں میں سے ایک تھے جن کی توبہ قبول کی گئی، وہ حدیث بیان کرتے تھے کہ وہ دو غزووں کو چھوڑ کر کبھی کسی غزوے میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑا، آپ سے پیچھے نہیں رہے۔ انہوں نے (سابقہ حدیث کی طرح) حدیث بیان کی اور اس میں کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی بہت بڑی تعداد کے ساتھ، جو دس ہزار سے زیادہ تھے اور کسی محفوظ رکھنے والے کے دیوان (رجسٹر) میں ان سب کے نام درج نہ تھے، اس جنگ کے لیے نکلے۔
عبید اللہ بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نابینا ہوجانے کے بعد ان کے رہبر تھے اور اپنی قوم میں سے سب سے بڑے عالم تھے اور اپنی قوم میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی احادیث کو یاد رکھتے تھے، وہ بیان کرتے ہیں، میں نے اپنے باپ کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مالک سے جو ان تین میں ایک ہیں جن کی توبہ قبول کی گئی، بیان کرتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کسی غزوہ سے جو آپ نے کیا کبھی پیچھے نہیں رہے۔سوائے دو غزؤں (بدر، تبوک) کے اور آگے مذکورہ بالا حدیث بیان کی، اس میں یہ بھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے لوگوں کی معیت میں جو اس دس ہزار سے زائد تھے،جہاد کیا اور کسی محفوظ رکھنے والے دفتر یا رجسٹرمیں ان کا نام درج نہ تھا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2769
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 7019 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7019  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
۔
۔
(1)
دشمن کی سازشوں اور جنگی تیاریوں کو ناکام کرنے کے لیے،
دشمن کے قافلہ پر حملہ کرنا اور مال غنیمت بنانا جائزہے،
اس بنا پر غزوۂ بدر کے موقعہ پر حملہ قافلہ پر کرنا مقصود تھا۔
(2)
اہل عقبہ کی فضیلت،
حضرت کعب رضی اللہ عنہ ؛؛ نے جنگ بدر میں حاضری کو اس سے بہتر خیال نہیں کیا۔
(3)
امیر لشکر کو چاہیے،
اگر دور دراز کا سفر درپیش نہ ہو تو وہ کسی مہم پر رونگی کے لیے توریہ و تعریض سے کام لے،
تاکہ دشمن جاسوسی نہ کرسکے۔
(4)
انسان سے اگر کوئی خیر اور نیکی کا کام رہ جائے تو اس پر افسوس کرے اور یہ تمنا کرے،
اے کاش:
میں یہ کام کر لیتا،
حضرت کعب نے کہا تھا،
يا ليتنی فعلت (5)
اگر کوئی شخص،
مسلمان کی غیبت کرے تو اس کی تردید کرنا،
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا تھا،
بئسی ما قلت (6)
صدق و سچائی اس پر ثبات و استقامت کی فضیلت،
خواہ اس کی خاطر مشقت سے دورچارہونا پڑے،
کیونکہ اس کا انجام اور مال بہتر ہے۔
(7)
اپنے کلام میں زور اور تاکید پیدا کرنے کے لیے قسم کے مطالبہ کے بغیر قسم اٹھانا،
جیسا کے حضرت کعب نے باربار قسم اٹھائی ہے۔
(8)
سفر سے واپسی پر محلہ کی مسجد میں دورکعت نماز پڑھنا اور اگر لوگ اس سے ملاقات کے خواہش مند ہوں تو ان کے لیے مسجد میں کچھ دیر بیٹھے رہنا۔
(9)
اگر کسی فساد کا اندیشہ نہ ہوتو لوگوں کے ظاہری احوال پر حکم لگانا اور ان کے باطن کو اللہ کے سپرد کردینا،
آپ نے منافقوں کے عذروں کو قبول فرمالیا تھا اور ان کے حق میں دعائے مغفرت بھی فرمادی تھی،
جس سے معلوم ہوتا ہے،
آپ لوگوں کے باطن سے آگاہ نہ تھے۔
(10)
گناہ گار اور معصیت کار لوگوں سے معاشرتی بائیکاٹ کرنا اور زجروتوبیخ کی خاطر اس سے سلام وکلام بند کرنا۔
(11)
جب انسان سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس پر اظہار ندامت کرنا اور رونا۔
(12)
نماز میں کسی کی طرف نظر چرا کر دیکھا اور اس کی طرف توجہ کرنا نماز کو باطل نہیں کرتا۔
(13)
کسی ضرورت اور مصلحت کے تحت جس کاغذ پر اللہ کا نام ہو،
اس کو جلانا جائز ہے،
جیسا کہ حضرت کعب نے شاہ غسان کا خط جلا دیا تھا اور اس میں اللہ کانام لکھا ہواتھا۔
(14)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نظریں بچاکر،
حضرت کعب کو دیکھنا جس سے معلوم ہوا،
آپ نے ظاہری لحاظ سے مقاطعہ کیا تھا،
دل میں ان کی محبت موجود تھی۔
(15)
سلام کہنا اور اس کا جواب دینا بھی کلام ہے،
اس لیے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے سلام کا جواب نہ دیا۔
(16)
اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی محبت پر ترجیح دینا کہ حضرتے ابو قتادہ نے ایسے ہی کیا تھا۔
(17)
جس چیز سے فتنہ وفساد میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو،
اس سے پرہیز اور اجتناب اختیار کرنا،
حضرت کعب نے اپنی بیوی سے خدمت لینے کی ا جازت طلب نہ کی اور شاہ غسان کے خط کو جلا دیا۔
(18)
کسی شخص کا اپنی بیوی کو طلاق کی نیت کے بغیر یہ کہنا،
ُ ُ اپنے میکے چلی جاؤ'' طلاق نہیں ہے۔
(19)
کسی خوش کن خبر پر،
سجدہ شکر بجا لانا،
کسی نعمت و کامیابی کے حصول پر لوگوں کا مبارک باد دینا۔
(20)
خوش خبری دینے والے کو انعام دینا،
لباس وغیرہ دینا۔
(21)
امام ورہنما کا،
اپنے ساتھیوں کی خوشی اور مسرت کے موقعہ پر مسرت و فرحت کااظہار کرنا۔
(22)
کسی کرب و تکلیف کے زائل ہونے یا نعمت کے حاصل ہونے پر صدقہ کرنا۔
(23)
سارے مال کا صدقہ کرنےوالے کو جبکہ اہل وعیال کے تنگی میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو کچھ مال اپنے پاس رکھ لینے کا مشورہ دینا اور سارے مال کے صدقہ سے روک دینا۔
(24)
جو عمل کامیابی و کامرانی کے حصول کا باعث ہو،
اس پر دوام و ہمیشگی کرنا،
جیسا کہ حضرت کعب نے سچ بولنے کا التزام کیا۔
(25)
جب جہاد فرض عین ہو،
امیر نفیر عام کا حکم دے تو اس سے پیچھے رہنا قابل گرفت ہے۔
(26)
قبولیت توبہ کا دن،
ایک مسلمان کے لیے بہترین دن ہے۔
(27)
کسی مصیبت میں گرفتار کو دوسرے مصیبت زدہ کو اپنے لیے نمونہ بنانا چاہیے۔
(28)
اپنے ساتھیوں کا معاشرتی بائیکاٹ کرنا،
اپنی زمین اور اپنے آپ سے وحشت محسوس کرنے کے باعث بننا،
اس کے اچھا اور بہتر ہونے کی دلیل ہے۔
(29)
الله ورسوله اعلم کہنا کلام نہیں ہے،
اس طرح زبان سے کچھ کہنے بغیر اشارہ سے کسی کی نشان دہی کردینا،
مقاطعہ کے منافی نہیں ہے۔
(30)
نیک اور اچھے لوگوں کا امتحان بھی کمزورایمان والوں کے مقابلہ میں سخت ہوتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7019