حدیث حاشیہ: 1۔
غزوہ بنو مصطلق کی مہم میں رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی ملعون کی سرکردگی میں منافقین کی ایک بھاری جمعیت کو لشکر اسلام کے ساتھ جانے کا موقع مل گیا۔
یہ لوگ رذیلانہ حملوں اور داخلی فتنہ انگیزیوں کے ذریعے سے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے، چنانچہ مریسیع کے مقام پر مسلمانوں کے معمولی سے جھگڑے کو بنیاد بنا کر مہاجرین اور سالار مہاجرین ﷺ کے متعلق انتہائی گھٹیا اور توہین آمیز الفاظ استعمال کر کے اپنے خبث باطن کا اظہارکیا۔
سورہ منافقون میں بھی ان کی دسیسہ کاریوں کا تفصیلی تذکرہ ہے۔
یہ شوشہ ابھی تازہ ہی تھا کہ اس مہم سے واپسی کے وقت انھوں نے نے ایک اور طوفان بدتمیزی اٹھایا اور یہ صد یقہ کائنات حضرت عائشہ ؓ پر تہمت کا فتنہ تھا جو واقعہ افک کے نام سے مشہور ہے اور مذکورہ حدیث میں اس کا تفصیلی تذکرہ ہے سورہ نورکا ابتدائی حصہ اسی خطرناک حادثے کے پس منظر میں نازل ہوا۔
منافقین الٹےخود ہی رسوا ہو کر رہ گئے۔
2۔
واقعہ یہ تھا کہ لشکر سے پیچھے رہ جانے والی کوئی عام عورت نہ تھی بلکہ تمام مسلمانوں کی ماں ہے اور پیچھے سے آنے والا بھی پکا مسلمان ہے جو انھیں فی الواقع اپنی ماں ہی سمجھتا ہے۔
ماں اس سے پردہ بھی کر لیتی ہے اور وہ آپس میں اس وقت بلکہ پورے سفر کے دوران میں ہم کلام نہیں ہوتے اور یہ سفر بھی صبح سے لے کر دوپہر تک دن دیہاڑے ہو رہا ہے۔
عورت اونٹ پر سوار ہے اور مرد خاموشی کے ساتھ آگے آگے چل رہا ہے اور سفر بھی مدینے کے آس پاس قریبی علاقے میں ہےحتی کہ مسلمانوں کے لشکر سے جا ملتا ہے ایسے حالات میں بد گمانی کی محرک صرف دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ بد گمانی کرنے والا خود بد باطن اور خبیث انسان ہو جو ایسے حالات میں خود یہی کچھ سوچتا ہو یا یہی کچھ کرتا اور دوسرے لوگوں کو بھی اپنی ہی طرح سمجھتا ہو اور دوسری یہ کہ وہ ایسے موقع کو غنیمت جان کر ازراہ دشمنی ایسی بکواس کرنے لگے اور منافقین میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی تھیں۔
ایسے حالات میں اللہ کا فضل یہ ہوا کہ اس نے مسلمانوں کو بالعموم اور اپنے پیغمبر ﷺ کو بالخصوص صبرو استقامت کی توفیق بخشی ورنہ منافقین نے جس طرح مسلمانوں پر کاری وار کیا تھا، اگر مسلمان بھی جوابی کاروائی پر اٹھ کھڑے ہوتے تو حالات کوئی سنگین صورت اختیار کر سکتے تھے۔
بہر حال عام مسلمانوں کی اخلاقی اور ایمانی حالت اتنی مضبوط تھی کہ منافقین کے زبردست پروپیگنڈےکے باوجود تین افراد کے سوا کوئی ان سے متاثر نہ ہوا۔
ان میں سے بھی حمنہ بنت حجش اپنی بہن حضرت زینب حجش ؓ کی خاطر اور حضرت عائشہ ؓ کو نیچا دیکھانے کے لیے اس بہتان میں شامل ہو گئی تھیں۔
3۔
اس واقعے سے مسلمانوں کے ایمان کا امتحان بھی ہوگیا اور منافقین کا نفاق بھی کھل کر سامنے آگیا۔
منافقین یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر انھیں کمزور کردیا جائے لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا اور مسلمان کا اخلاقی پہلو پہلے سے بھی زیادہ نمایاں ہوگیا مسلمانوں کو اس دوران میں ایسے احکام دیے گئے جن پر عمل پیرا ہونے سے وہ ایسے فتنہ خیز اور فتنہ پرورطوفان کا بخیر و خوبی مقابلہ کر سکیں۔
اس جانکاہ حادثے سے جو افراد جس قدر متاثر تھے اسی قدر وحی الٰہی ان کی خوشی کا باعث ثابت ہوئی۔
خود رسول اللہ ﷺ وحی کے اختتام پر مسکرارہے تھے۔
حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت ام رومان ؓ کی خوشی کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو رسول اللہ ﷺ کا شکریہ ادا کرنے کا کہا۔
سیدہ عائشہ ؓ کی خوشی کی تو کچھ انتہا ہی نہ تھی جن کی براءت میں دس آیات نازل ہوئیں جو قیامت تک پڑھی جاتی رہیں گی۔
4۔
اس تفصیلی واقعے کے تناظر میں مسلمانوں کی مضبوط اخلاقی حالت کو درج ذیل امور سے پتہ چلتا ہے۔
(ا) خود رسول اللہ ﷺ اس واقعے کو بہتان ہی سمجھتے تھے وہ صرف اپنی زوجہ محترمہ ہی کو نہیں بلکہ حضرت صفوان بن معطل ؓ کو بھی ایک پاکباز انسان خیال کرتے تھے۔
(ب) اس واقعے کا براہ راست صدمہ رسول اللہ ﷺ کو پہنچا تھا۔
آپ کے ادنی سے اشارے سے بہتان تراشوں کاصفایا کیا جا سکتا تھا مگر جب قومی اور قبائلی عصبیت کی بنا پر جھگڑا شروع ہوا تو آپ نے یہ صدمہ اپنی جان پر برداشت کر لیا مگر مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ نہ ہونے دیا۔
(ج) رسول اللہ ﷺ اس سلسلے میں پورا ایک ماہ انتہائی تکلیف اور بے چینی میں مبتلا رہے کیونکہ یقینی علم یا علم غیب آپ کو حاصل نہ تھا بصورت دیگر دوسروں سے اس سلسلے میں پوچھنے کی ضرورت ہی نہ تھی اور شاید اس تاخیر میں یہ مصلحت بھی پوشیدہ ہو کہ بعد میں آنے والے آپ کو عالم غیب سمجھنے یا ثابت کرنے نہ لگیں۔
(د) یقین کامل کے باوجود آپ نے اس واقعے کی حتمی تردید اس لیے نہ فرمائی کہ ایک شوہر کی اپنی بیوی کے لیے تردید کی مخالفین کی نظروں میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔
(و) سیدہ عائشہ ؓ کے والدین بھی ذاتی طور پر انھیں پاکباز سمجھتے تھے تاہم وہ بھی حتمی طور پر تردید اس لیے نہ کر سکتے تھے کہ والدین کا اپنی بیٹی کے حق میں پاکیزگی کا بیان مخالفین کا منہ بند نہیں کر سکتا تھا۔
5۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اپنی مایہ ناز کتاب:
الفوز الکبیرمیں لکھتے ہیں مفسر کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان واقعات کو اختصار کے ساتھ بیان کردے جن کی طرف آیات میں کوئی اشارہ کیا گیا ہے جیسا کہ سورہ نور میں واقعہ افک ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات پر سر سری نظر ڈال لی جائے جو حارثہ افک کے پس منظر میں نازل ہوئی ہیں۔
اور جن میں واقعہ افک کی طرف کھلے اشارات ہیں۔
”جن لوگوں نے تہمت کی باتیں کیں وہ تم میں سے ایک گروہ ہیں۔
“(النور: 11/24) حضرت عائشہ ؓ فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے جب میری براءت اتاری تو رسول اللہ ﷺ نے منبر پر اس کا تذکرہ کیا اور ان آیات کی تلاوت کی، پھر نیچے اتر کردو آدمیوں
(حضرت حسان اور حضرت مسطح ؓ) اور ایک عورت
(حضرت حمنہ ؓ) کو حد قذف لگانے کا حکم دیا۔
(جامع الترمذی، التفسیر، حدیث: 3181۔
)
”ان میں سے جو شخص اس تہمت کے بڑے حصے کا ذمہ دار بنا اس کے لیے عذاب عظیم ہے۔
“ (النور24۔
11) ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ عروہ بن زبیر ہشام بن عروہ ابن زید ؓ اور امام مجاہد کے نزدیک اس سے مراد صدیقہ کائنات پربہتان لگانے والوں میں سرگرم رکن رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی ہے۔
(تفسیر الطبیري: 89/8) سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس سے مراد عبد اللہ بن ابی منافق ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4749) اسے حد قذف نہیں لگائی گئی تاکہ قیامت تک اس پر لعنتیں برستی رہیں اور یہ حد اس کے لیے کفارہ نہ بن سکے۔
واللہ اعلم۔
”جب تم نے یہ سنا تھا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے دل میں اچھی بات کیوں نہ سوچی اور یوں کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو صریح بہتان ہے۔
“ (النور: 24۔
12) اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کی اخلاقی تربیت کی گئی ہے کہ جس طرح پر مسلمان خود کو پاک دامن خیال کرتا ہے اسے دوسرے بھائیوں کے متعلق بھی ایسا ہی گمان رکھنا چاہیے اور اگر کوئی بدطینت منافق ان میں سے کسی پر کوئی تہمت لگاتا ہے تو اس کی تصدیق نہیں کرنی چاہیے اور اسی وقت کہہ دینا چاہیے کہ یہ بہتان تراشی ہے۔
خاص طور پر جوتہمت رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ کے متعلق ہو اس مسلمانوں کے دل ودماغ میں کوئی جگہ ہی نہیں ہونی چاہیے
”پھر تہمت لگانے والے اس پر چار گواہ کیوں نہ لا سکے؟ پھر جب یہ گواہ نہیں لا سکے تو اللہ کے ہاں یہی جھوٹے ہیں۔
“ واقعہ افک کا قانونی پہلو یہ ہے کہ ایسی جو بدکاری پر دلالت کرتی ہوں وہ کبھی میسرآبھی نہ سکتیں تھیں کیونکہ قرائن سب اس کے خلاف تھے۔
یہ سفر جو حضرت صفوان بن معطل ؓ کی معیت میں ہوا صبح سے لے کر دوپہر تک دن دہاڑے ہوا اور مدینے کے قریب آبادی میں ہوا۔
منافقین کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی تھا کہ وہ اس پر چار گواہ پیش نہ کر سکے۔
”جب تم اپنی زبانوں سے اس کا ایک دوسرے سے ذکر کرتے تھے اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہہ رہے تھے جس کے متعلق تمھیں کچھ علم نہیں تھا اور تم اسے معمولی بات سمجھ رہے تھے حالانکہ وہ اللہ کے ہاں بہت بڑی تھی۔
“(النور: 12/24) انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہےکہ وہ سنی سنائی بات آگے دھکیل دے۔
کسی تحقیق کے بغیر اس طرح کی بات کو آگے بیان کرنا کبیرہ گناہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی بات کو آگے منتقل کردے۔
“ (النور: 15۔
2624۔
)
”جب تم نے یہ سنا تھا تو یوں کیوں نہ کہہ دیا ہمیں یہ مناسب نہیں کہ ایسی بات کریں سبحان اللہ! یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔
“ (صحیح مسلم، مقدمة الإمام مسلم: 7/ (5)
یہ ایک اخلاقی ضابطہ ہے کہ ہر شخص کو دوسرے کے متعلق حسن ظن ہی رکھنا چاہیے حتی کہ اس کے خلاف بدظنی کی کوئی یقینی وجہ اس کے علم میں نہ آئے۔
یہ اصول قطعاً غلط ہے کہ ہر ایک کو شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا جائے۔
یہاں تو معاملہ اور بھی زیادہ سخت تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ پر محض بدظنی کی وجہ سے بہتان لگایا جائے چنانچہ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ زید بن حارثہ ؓ، سعد بن معاذ ؓ، قتادہ بن نعمان ؓ، ابی بن کعب ؓ، اور حضرت اسامہ ؓ نے یہ ماجرا سنتے ہیں:
﴿سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ ﴾ کہہ دیا تھا(النور: 16۔
24)
”اللہ تمھیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم مامون ہو تو آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا۔
“ (فتح الباری: 420/13)
یعنی آئندہ تمھیں منافقین کی ایسی مخالفانہ چالوں سے ہوشیار اور چوکس رہنا چاہیے نیز رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اہل خانہ کی عظمت شان کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔
”جو لوگ اس طرح مسلم معاشرے میں بے حیائی کی اشاعت چاہتے ہیں ان کے لیے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔
اس کے نتائج کو اللہ ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے ہو۔
“ (النور:
۔
19۔
24)
فاحشہ سے مراد ہر وہ کام جو انسان کی شہوانی خواہش میں تحریک پیدا کرنے کا سبب ہو۔
اشاعت فحاشی کی بہت سی صورتیں ہمارے معاشرے میں رائج ہیں مثلاً:
تھیڑ، سینما، تصویریں، ناچ گانے کی محفلیں، انٹر نیٹ اور سی ڈیز وغیرہ الغرض فحاشی کی اشاعت کا دائرہ آج بہت وسیع ہو چکا ہے ان سب باتوں کے لیےوہی وعید ہے جس کا ذکر آیت کریمہ میں ہوا ہے۔
”جو لوگ پاکدامن اور بھولی بھالی ایمان دار عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا میں بھی لعنت ہے اور آخرت میں بھی اور انھیں بہت بڑا عذاب ہوگا۔
“ (النور: 23/24)
وہ سیدھی سادی اور بھولی بھالی عورت جسے بد چلن عورتوں کی باتوں سے واقفیت نہ ہو، اس پر تہمت نہ ہو، اس پر تہمت لگانا کبیرہ گناہ ہے۔
ایک روایت میں ایسی عورتوں پر تہمت لگانا ان سات تباہ کن گناہوں میں سے ہے جو سابقہ نیکیوں کو برباد کر دیتے ہیں۔
(صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6857)
لیکن یہاں معاملہ تو اور بھی سنگین تھا کہ جس پر بہتان باندھا گیا وہ عام عورت نہ تھی بلکہ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ اور عام اہل ایمان کی ماں تھیں ان پر تہمت لگانے والے تو کسی صورت میں اللہ کی لعنت اور اس کی سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔
”ان کا دامن ان باتوں سے پاک ہے جو وہ تہمت لگانے والے بکتے ہیں۔
ان کے لیے بخشش بھی ہے اور عزت کی روزی بھی۔
“ (النور: 24۔
26)
امام رازی لکھتے ہیں۔
مسلمانوں کا اس امر پر اجماع ہے کہ آیت کریمہ میں"افك" سے مراد وہ بہتان ہے جو صدیقہ کائنات حضرت عائشہ ؓ پر لگایا گیا تھا۔
(تفسیر کبیر: 32/172)
یہ وہ آیات ہیں جو سورۃ نور کے نازل ہونے کا سبب بنیں ابتدا میں تہمت قذف زنا کے احکام اور اس کی سزا بتانے کے بعد اس واقعے کا آغاز اور اس پر تبصرہ ہےاس کا آغاز ہی اس طرح کیا گیا کہ جو کچھ افواہیں پھيلیں اور قصے گھڑے گئے سر اسر جھوٹ، بہتان اور بدنیتی پر مبنی تھے۔
جن میں حقیقت کا شائبہ تک نہیں۔
تمام مفسرین نے ان آیات کا پس منظر یہی واقعہ افک بیان کیا ہے لیکن دور حاضر کے منکرین حدیث کہتے ہیں کہ یہ واقعہ خود ساختہ اور بناوٹی ہے ضد اور ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں۔
6۔
امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں تقریباً ستائیس مقامات پر اس روایت کو بیان کیا ہے۔
ان میں چار جگہ پر یہ حدیث تفصیل سے بیان کی ہے اور باقی مقامات میں ضرورت کے مطابق اس روایت کا کچھ حصہ لائے ہیں اسی طرح سات مقامات پر واقعہ افک کا ذکر ضمنی طور پر ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔
ان تمام روایات سے زیادہ مشہور حضرت عائشہ ؓ سے مروی وہ روایات ہے جو بطریق امام زہری ؒ مختلف کتب حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
امام زہری نے اپنے چار اساتذہ علقمہ بن وقاص ؓ سعید بن مسیب ؓ عروہ بن زبیر ؓ اور عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ ؓ سے واقعہ افک کے چیدہ چیدہ اجزا سنے پھر واقعے کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے ان بکھرے ہوئے اجزا کو یکجا کر کے مرتب صورت میں اپنے تلامذہ سے بیان کیا اگرچہ بعض آئمہ حدیث نے امام زہری ؒ کے اس انداز کو پسند نہیں کیا، تاہم ایسا کرنا روایت بالمعنی ہی کا ایک طریقہ ہے جسے اکثر محدثین نے پسند فرمایا اور اس روایت کو اپنی تالیفات میں بیان کرنے کا اہتمام کیا، چنانچہ سرخیل محدثین امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں تقریباً سترہ مقامات پر اس کی روایت کو متعدد طرق سے بیان کیا ہے۔