فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1309
´ایک اور طرح کے تعوذ کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبر کے عذاب کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”ہاں، قبر کا عذاب برحق ہے“، اس کے بعد میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا جس میں آپ نے قبر کے عذاب سے پناہ نہ مانگی ہو۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1309]
1309۔ اردو حاشیہ:
➊ عذاب قبر سے مراد قبر کا جہنم سے کچھ حد تک متعلق ہو جانا ہے جس کی بنا پر قبر کی زندگی اجیرن ہو جائے گی، نیز جوابات نہ آنے پر فرشتوں کی طرف سے سزا اور بعض اعمال کی جزوی سزا، مثلاً: پیشاب کے چھینٹوں سے پرہیز نہ کرنا اور چغلیاں کرنا قبر میں بھی سزا کا مستوجب بناتا ہے۔ اس قسم کا عذاب سب کو نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اس سے محفوظ رہیں گے۔ بلکہ اس کے مقابل انہیں ثواب قبر ہو گا۔ واللہ أعلم۔
➋ نماز میں عذاب قبر سے پناہ مانگنا مشروع ہے۔
➌ اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ عذاب قبر برحق ہے۔
➍ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اگلی پچھلی ساری لغزشیں معاف کر دیں تھیں: «قدْ غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وما تأَخَّرَ» اس کے باوجود آپ کس قدر اللہ کے عذاب سے ڈرتے تھے اور استغفار کرتے رہتے تھے جبکہ ہم گناہوں کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، ہمیں تو بالاولیٰ کثرت سے استغفار اور توبہ کرتے رہنا چاہیے اور اللہ کی پکڑ سے پناہ مانگنی چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1309
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1476
´ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی سورج گرہن کی نماز کی ایک اور قسم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی، اور کہنے لگی: اللہ تعالیٰ تمہیں قبر کے عذاب سے بچائے، یہ سنا تو عائشہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! لوگوں کو قبر میں بھی عذاب دیا جائے گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی پناہ۔“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں جانے کے لیے نکلے اتنے میں سورج گرہن لگ گیا، تو ہم حجرہ میں چلے گئے، یہ دیکھ کر دوسری عورتیں بھی ہمارے پاس جمع ہو گئیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور یہ چاشت کا وقت تھا، آپ نماز کے لیے کھڑے ہوئے، آپ نے نماز میں لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا، تو قیام کیا پہلے قیام سے کم، پھر آپ نے رکوع کیا، اپنے پہلے رکوع سے کم، پھر سجدہ کیا، پھر آپ دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے، تو اسی طرح کیا مگر دوسری رکعت میں آپ کا رکوع اور قیام پہلی رکعت سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، اور سورج صاف ہو گیا، تو جب آپ فارغ ہوئے، تو منبر پر بیٹھے، اور جو باتیں کہنی تھیں کہیں، اس میں ایک بات یہ بھی تھی: ”کہ لوگ اپنی قبروں میں آزمائے جائیں گے، جیسے دجال کے فتنے میں آزمائے جائیں گے“، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اس کے بعد سے برابر ہم آپ کو قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے ہوئے سنتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1476]
1476۔ اردو حاشیہ: عذاب قبر کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوال کا جواب مبہم ہے۔ ممکن ہے اس وقت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عذاب قبر کی تفصیل نہ بتلائی گئی ہو اور نمازکسوف کے دوران میں دوسرے انکشافات کی طرح عذاب قبر کا بھی انکشاف کیا گیا ہو۔ فتنۂ دجال چونکہ بہت بڑی آزمائش ہے، اس لیے عذاب قبر، یعنی قبر کے سوا ل و جواب کو اس سے تشبیہ دی گئی۔ واللہ اعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1476
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1500
´سورج گرہن کی نماز کے بعد (خطبہ دینے کے لی) منبر پر بیٹھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں جانے کے لیے نکلے کہ سورج کو گرہن لگ گیا، تو ہم حجرے کی طرف چلے، اور کچھ اور عورتیں بھی ہمارے پاس جمع ہو گئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، اور یہ چاشت کا وقت تھا، (آپ نماز پڑھنے کے لیے) کھڑے ہوئے، تو آپ نے ایک لمبا قیام کیا، پھر ایک لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا، پھر قیام کیا پہلے قیام سے کم، پھر رکوع کیا پہلے رکوع سے کم، پھر سجدہ کیا، پھر دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے تو بھی ایسے ہی کیا، مگر آپ کا یہ قیام اور رکوع پہلی والی رکعت کے قیام اور رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، اور سورج صاف ہو گیا، جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے تو منبر پر بیٹھے، اور منبر پر جو باتیں آپ نے کہیں ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ ”لوگوں کو ان کی قبروں میں دجال کی آزمائش کی طرح آزمایا جائے گا“، یہ حدیث مختصر ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1500]
1500۔ اردو حاشیہ: قبروں میں آزمائش سے مراد فرشتوں کا سوال و جواب ہے جو ایک بہت مشکل مرحلہ ہے اور اسی پر نجات کا دارومدار ہے۔ حشر کے بعد تو اسی کی تفصیل ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کامیاب فرمائے۔ آمین۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1500
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2066
´عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، میرے پاس ایک یہودی عورت تھی، وہ کہہ رہی تھی کہ تم لوگ قبروں میں آزمائے جاؤ گے، (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا گئے، اور فرمایا: ”صرف یہودیوں ہی کی آزمائش ہو گی۔“ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: پھر ہم کئی رات ٹھہرے رہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر وحی آئی ہے کہ تمہیں (بھی) قبروں میں آزمایا [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2066]
اردو حاشہ:
(1) اس روایت میں امتحان اور عذاب قبر سے مراد ایک ہی چیز ہے، یعنی سوال و جواب۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنے کا مطلب ثابت قدمی اور صحیح جواب کی توفیق ہے۔
(2) ابتداءً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال تھا کہ قبر کا امتحان یا عذاب صرف کفار کے ساتھ خاص ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ سب کے ساتھ ہوگا إلا ماشا اللہ۔ ثابت ہوا کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب نہ تھا۔ اسی وجہ سے آپ نے انکار کر دیا تھا، بعد میں بذریعۂ وحی اللہ تعالیٰ نے خبر دی تو پتا چلا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2066
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5506
´دجال کے فتنے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے عذاب اور دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگتے اور فرماتے: ”قبروں میں تمہاری آزمائش ہو گی۔“ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5506]
اردو حاشہ:
عذاب قبراورقتنہ دجال میں مناسبت یہ ہے کہ دونوں میں ایمان کا امتحان ہے۔ منافق یہ دونوں امتحان پاس نہیں کرسکیں گے۔ مخلص لوگ ہی کامیاب ہوں گے۔ یہاں دجال کا اقتدار ہوگا‘ وہا ں فرشتوں کے سوالات۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5506
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1372
1372. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی اور اس نے عذاب قبر کا ذکر کیا تو کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے۔ ام المومنین ؓ حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عذاب قبر کےمتعلق دریافت کیا تو آپ ﷺ نےفرمایا:”ہاں عذاب قبر(برحق) ہے۔“ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ اس کے بعد میں نےرسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ غندر کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”عذاب قبر برحق ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1372]
حدیث حاشیہ:
(1)
مسند احمد میں ایک روایت تفصیل سے بیان ہوئی ہے کہ ایک یہودی عورت حضرت عائشہ ؓ کی خدمت کیا کرتی تھی۔
حضرت عائشہ ؓ جب بھی اس سے کوئی حسن سلوک کا معاملہ کرتیں تو وہ آپ کو دعا دیتی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے۔
حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہودی غلط کہتے ہیں، قیامت سے پہلے کوئی عذاب نہیں ہو گا۔
اس کے بعد آپ چند دن ٹھہرے رہے، آخر ایک دن دوپہر کے وقت آپ نے بآواز بلند فرمایا:
”لوگو! عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگا کرو کیونکہ عذاب قبر برحق ہے۔
“ (مسندأحمد: 81/6) (2)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ عمر کے آخری حصے میں رسول اللہ ﷺ کو عذاب قبر کے متعلق بذریعہ وحی مطلع کیا گیا۔
اس سے پہلے آپ عذاب قبر صرف کفار و یہود کے ساتھ خاص خیال کرتے تھے۔
اس کے بعد آپ کو مطلع کیا گیا کہ عذاب قبر اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے وہ جسے چاہے اس میں مبتلا کر دے، چنانچہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے تھے۔
(فتح الباري: 301/3)
والله أعلم۔
(3)
عذاب قبر روح کو ہو گا یا روح اور جسم دونوں کو؟ ہمارے نزدیک عذاب روح کو ہوتا ہے لیکن روح کا آلہ کار بننے والا جسم بھی اس سے متاثر ہوتا ہے۔
بعض کا خیال ہے کہ عذاب قبر مثالی جسم کو ہو گا۔
عالم مثال، عالم ارواح سے زیادہ کثیف اور عالم اجساد سے زیادہ لطیف ہے۔
ہمیں مثالی جسم کے فلسفے سے اتفاق نہیں ہے، الغرض عذاب کا کچھ حصہ قبر سے شروع ہو جاتا ہے جو جہنم میں داخل ہونے سے مکمل ہو جائے گا۔
والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1372
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6366
6366. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ یہود مدینہ کی دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئیں اور انہوں نے مجھے کہا کہ اہل قبور کو قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے۔ میں نے ان کی تکذیب کی اور ان کی تصدیق کر کے ان کا دل ٹھنڈا نہ کیا۔ چنانچہ وہ میرے پاس سے چلی گئیں تو نبی ﷺ تشریف لائے، میں نے کہا: اللہ کے رسول! دو بوڑھی عورتیں آئی تھیں اور میں نے آپ سے ان کی بات کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”انہوں نے سچ کہا ہے۔ بلاشبہ انہیں (اہل قبور کو) عذاب ہوتا ہے جو تمام جانور سنتے ہیں۔“ پھر میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ ہر نماز میں عذاب قبر سے اللہ تعالٰی کی پناہ مانگتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6366]
حدیث حاشیہ:
مدینہ طیبہ میں پہلے پہلے مسلمانوں کا یہ عقیدہ تھا کہ قیامت کے بعد عذاب کا مرحلہ شروع ہو گا، اس سے پہلے کسی کو عذاب سے دوچار نہیں کیا جائے گا، پھر مدنی زندگی کے اواخر میں بذریعۂ وحی پتا چلا کہ عذابِ آخرت سے پہلے عذاب قبر ہو گا جیسا کہ درج ذیل روایت سے پتا چلتا ہے۔
ایک یہودی عورت، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا کام کاج میں ہاتھ بٹاتی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب بھی اس کے ساتھ حسن سلوک کرتیں تو وہ ان الفاظ میں دعا دیتی:
”اللہ تجھے عذاب قبر سے بچائے۔
“ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:
اللہ کے رسول! کیا عذابِ قبر برحق ہے؟ آپ نے فرمایا:
”یہود، غلط کہتے ہیں، قیامت سے پہلے کسی قسم کا عذاب نہیں ہو گا۔
“ پھر کچھ وقت اسی طرح گزارا، آخر کار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن دوپہر کے وقت باہر تشریف لائے اور بآواز بلند اعلان فرما رہے تھے:
”اے لوگو! عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کرو کیونکہ عذاب قبر برحق ہے۔
“ (مسند أحمد: 81/6)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث سے اس امر کی مزید وضاحت ہوتی ہے، فرماتی ہیں:
”میرے پاس یہودیوں کی ایک عورت آئی، اس نے کہا:
کیا تم جانتی ہو کہ تمہیں قبروں میں امتحان سے دوچار ہونا پڑے گا؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”قبروں میں تو یہودیوں کو امتحان سے دوچار کیا جائے گا۔
“ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
پھر چند روز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم بھی قبروں میں امتحان سے دوچار ہو گے؟ مجھے اس امر کی وحی کی گئی ہے۔
“ اس کے بعد میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ اکثر عذاب قبر سے پناہ مانگتے تھے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1319 (584)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6366