250/327(صحيح الإسناد) عن عليّ قال:"لا تكونوا عجلاً مذاييع(1) بُذراً(2)؛ فإن من ورائكم بلاءً مبرحاً(3) مملحاً(4)، وأموراً متماحلة(5) ردحاً(6)".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ تم جلد بازی کرنے والے، بےحیائی کی باتیں نشر کرنے والے، رازوں کو افشا کرنے والے نہ بن جاؤ۔ تمہارے پیچھے بہت سخت، چہروں کو بگاڑنے والی مصیبتیں آنے والی ہیں اور بہت طویل و عریض فتنے پیدا ہونے والے ہیں جو بہت بھاری ہوں گے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 250]
حدیث نمبر: 251
251/330 (صحيح) عن أبي جبيرة بن الضحاك قال: فينا نزلت- في بني سلمة-? ولا تنابزوا بالألقاب? [الحجرات: 11] قال: قَدِمَ علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وليس منا رجل إلا له اسمان، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يقول:"يا فلان!" فيقولون: يارسول الله! إنه يغضب منه(7).
ابوجبیر ہ بن ضحاک سے مروی ہے انہوں نے کہا: ہمارے بنو سلمہ کے بارے میں یہ آیات اتری ہے: «ولا تنابزوا بالألقاب»[الحجرات: ۱۱]”اور آپس میں ایک دوسرے کو برے القاب نہ دیا کرو۔“ انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم میں کوئی ایسا شخص نہ تھا جس کے دو نام نہ ہوں (ایک اصلی اور ایک بگڑا ہوا)۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانا شروع ہوئے: ”اے فلاں!“ تو لوگ کہتے: یا رسول اللہ! یہ اس سے ناراض ہوتا ہے۔ (کیونکہ یہ اس کا بگڑا ہوا نام ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی نام معلوم ہوتا)[صحيح الادب المفرد/حدیث: 251]
حدیث نمبر: 252
252/331(حسن الإسناد) عن عكرمة قال: لا أدري أيهما جعل لصاحبه طعاماً، ابن عباس أو ابن عمه؛ فبينا الجارية تعمل بين أيديهم، إذ قال أحدهم لها: يا زانية! فقال: مه! إن لم تحدّك في الدنيا تحدّك في الآخرة. قال: أفرأيت إن كان كذاك؟ قال:" إن الله لا يحب الفاحش المتفحش"(8). ابن عباس الذي قال: إن الله لا يحب الفاحش المتفحش.
عکرمہ کہتے ہیں: میں نہیں جانتا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یا ان کے چچا کے بیٹے ان دونوں میں سے کس نے اپنے ساتھی کا کھانا تیار کیا؟ صورتحال یہ تھی کہ لونڈی ان کے سامنے کام کر رہی تھی جبکہ ان میں سے ایک نے لونڈی سے کہا: اے بدکار! تو دوسرے نے کہا: رک جا۔ اگر یہ لونڈی تمہیں دنیا میں حد نہ لگا سکے گی تو آخرت میں حد لگائے گی۔ دوسرے نے کہا: آپ ذرا یہ بتائیں اگر حقیقت میں ایسا ہو تو۔ انہوں نے کہا: اللہ بیہودہ بات کرنے والے اور تکلف سے بات کرنے والے سے محبت نہیں کرتا۔ یہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تھے جنہوں نے یہ جملہ بولا: «إن الله لا يحب الفاحش المتفحش» ۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 252]
138. باب ما جاء فى التمادح
حدیث نمبر: 253
253/333 (صحيح) عن أبي بكرة ؛ أن رجلاً ذُكر عند النبي صلى الله عليه وسلم فأثنى عليه رجلٌ خيراً. فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ويحك قطعت عنق صاحبك، (يقوله مراراً)، إن كان أحدكم مادحاً لا محالة، فليقل: أحسِبَ كذا وكذا- إن كان يرى أنه كذلك – وحسيبه الله، ولا يزكي على الله أحداً".
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کا ذکر کیا گیا تو ایک آدمی نے اس کی اچھی تعریف کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”افسوس تم نے تو اپنے ساتھی کی گردن ہی کاٹ دی۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بار بار کہتے تھے۔ ”اگر تم میں سے کسی نے ضرور ہی تعریف کرنی ہو تو اسے کہنا چاہیے: میرا گمان ہے کہ فلاں بندہ ایسا ہے، اگر اس کے خیال میں وہ ویسا ہی ہو اور اس کا حساب کرنے والا اللہ ہے اور اللہ کی بارگاہ میں کسی کی صفائی پیش نہ کرے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 253]
حدیث نمبر: 254
254/334 (صحيح) عن أبي موسى قال: سمع النبي صلى الله عليه وسلم رجلاً يثني على رجل ويطريه. فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" أهْلَكْتُم- أو قطعتم ظهرَ – الرجل".
سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو سنا وہ ایک آدمی کی تعریف کرتا تھا اور اس کی تعریف میں مبالغہ کرتا تھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے ہلاک کر دیا۔“ یا فرمایا: ”تم نے اپنے بھائی کی کمر توڑ دی۔“(یعنی تعریف کرنے سے انسان میں عملی سستی آ جاتی ہے اور بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔)[صحيح الادب المفرد/حدیث: 254]
حدیث نمبر: 255
255/335(صحيح الإسناد) عن إبراهيم التيمي، عن أبيه قال: كنا جلوساً عند عُمر، فأثنى رجلٌ على رجلٍ في وجهه. فقال:" عقرت الرجل، عقرك الله".
ابراہیم تیمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کی اس کے منہ پر تعریف کر دی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو نے اس آدمی کو قتل کر دیا، اللہ تجھ کو قتل کرے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 255]
حدیث نمبر: 256
265/336(صحيح الإسناد) عن عمر قال:" المدح ذبح". قال محمد: يعني إذا قبلها.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تعریف کرنا (گویا) ذبح کرنا ہے۔ محمّد کہتے ہیں: یعنی جب وہ اسے قبول کر لے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 256]
139. باب من أثنى على صاحبه إن كان آمنا به
حدیث نمبر: 257
275/337 (صحيح) عن أبي هريرة؛ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" نعم الرجل أبو بكر، نعم الرجل عمر، نعم الرجل أبو عبيدة، نعم الرجل أسيد بن حُضير، نعم الرجل ثابت بن قيس بن شماس، نعم الرجل معاذ بن عمرو بن الجموح، نعم الرجل معاذ بن جبل". قال:" وبئس الرجل فلان، وبئس الرجل فلان" حتى عد سبعة.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر بہت اچھا آدمی ہے، عمر بہت اچھا ہے، ابوعبیدہ بہت اچھا آدمی ہے، اسید بن حضر بہت اچھا ہے، اسی طرح ثابت بن قیس بن شماس بہت اچھا آدمی ہے، معاذ بن عمرو بن جموح بہت اچھا آدمی ہے، معاذ بن جبل بہت اچھا آدمی ہے۔“ فرمایا: ”اور فلاں آدمی برا ہے، اور فلاں آدمی برا ہے یہاں تک کہ آپ نے سات آدمی شمار کیے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 257]
140. باب يحثى فى وجوه المداحين
حدیث نمبر: 258
258/339 (صحيح) عن أبي معمر قال: قام رجل يثني على أمير من الأمراء، فجعل المقداد يحثى في وجهه التراب وقال:" أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نحثي في وجوه المداحين التراب".
ابومعمر سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک شخص کھڑا ہوا وہ حکمرانوں میں سے ایک حکمران کی تعریف کرنے لگا تو سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ اس کے منہ پر مٹی پھینکنے لگے اور فرمایا: ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ ہم تعریف کرنے والوں کے منہ پر مٹی پھینکیں۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 258]
حدیث نمبر: 259
259/340 (صحيح) عن عطاء بن أبي رباح؛ أن رجلاً كان يمدح رجلاً عند ابن عمر، فجعل ابن عمر يحثُ التراب نحو فيه، وقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا رأيتم المداحين، فاحثوا في وجوههم التراب".
عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے دوسرے آدمی کی تعریف کر رہا تھا تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مٹی لے کر اس کے منہ کی طرف پھینکنے لگے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم تعریف کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے منہ پر خاک ڈال دو۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 259]