1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الجهاد
کتاب: جہاد کے مسائل
604. باب رد المهاجرين إِلى الأنصار منائحهم من الشجر والثمر حين استغنوا عنها بالفتوح
604. باب: انصار نے مہاجرین کو جو عطیات درخت اور پھل دیے تھے جب اللہ تعالیٰ نے مہاجرین کو فتوحات کے سبب غنی کر دیا تو انہوں نے واپس لوٹا دیے
حدیث نمبر: 1159
1159 صحيح حديث أنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ الْمَدِينَةَ مِنْ مَكَّةَ، وَلَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ، يَعْني شَيْئًا؛ وَكَانَتِ الأَنْصَارُ أَهْلَ الأَرْضِ وَالْعَقَارِ فَقَاسَمَهُمُ الأَنْصَارُ عَلَى أَنْ يُعْطُوهُمْ ثِمَارَ أَمْوَالِهِمْ كُلَّ عَامٍ، وَيَكْفُوهُمُ الْعَمَلَ وَالْمَئُونَةَ؛ وَكَانَتْ أُمُّهُ، أُمُّ أَنَسٍ، أُمُّ سُلَيْمٍ، كَانَتْ أُمَّ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، فَكَانَتْ أَعْطَتْ أُمُّ أَنَسٍ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِذَاقًا، فَأَعْطَاهُنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّ أَيْمَنَ مَوْلاَتَهُ، أُمَّ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا فَرَغَ مِنْ قَتْلِ أَهْلِ خَيْبَرَ، فَانْصَرَفَ إِلَى الْمَدِينَةِ، رَدَّ الْمُهَاجِرُونَ إِلَى الأَنْصَارِ مَنَائِحَهُمُ الَّتِي كَانُوا مَنَحُوهُمْ مِنْ ثِمَارِهِمْ، فَرَدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أُمِّهِ عِذَاقَهَا، وَأَعْطَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّ أَيْمَنَ مَكَانَهُنَّ مِنْ حَائِطِهِ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب مہاجرین مکے سے مدینہ آئے تو ان کے ساتھ کوئی بھی سامان نہ تھا۔ انصار زمین اور جائیداد والے تھے۔ انصار نے مہاجرین سے یہ معاملہ کرلیا کہ وہ اپنے باغات میں سے انھیں ہر سال پھل دیا کریں گے اور اس کے بدلے مہاجرین ان کے باغات میں کام کیا کریں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ام سلیم جو عبداللہ بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ کی بھی والدہ تھیں۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھجور کا ایک باغ ہدیہ دے دیا تھا، لیکن آپ نے وہ باغ اپنی لونڈی ام ایمن رضی اللہ عنہ جو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں کو عنایت فرما دیا۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خیبر کے یہودیوں کی جنگ سے فارغ ہوئے اور مدینہ تشریف لائے تو مہاجرین نے انصار کو ان کے تحائف واپس کر دیے جو انہوں نے پھلوں کی صورت میں دے رکھے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کی والدہ کا باغ بھی واپس کر دیا اور ام ایمن رضی اللہ عنہ کو اس کے بجائے اپنے باغ میں سے کچھ درخت عنایت فرما دیے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1159]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 51 كتاب الهبة: 35 باب فضل المنيحة»

حدیث نمبر: 1160
1160 صحيح حديث أَنَسٍ رضي الله عنه، قَالَ: كَانَ الرَجُلُ يَجْعَلُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّخَلاَتِ، حَتَّى افْتَتَحَ قُرَيْظَةَ وَالنَّضِيرَ وَإِنَّ أَهْلِي أَمَرُونِي أَنْ آتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْأَلَهُ الَّذِينَ كَانُوا أَعْطَوْهُ أَوْ بَعْضَهُ؛ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْطَاهُ أُمَّ أَيْمَنَ؛ فَجَاءَتْ أُمُّ أَيْمَنَ فَجَعَلتِ الثَّوْبَ فِي عُنُقِي، تَقُولُ: كَلاَّ وَالَّذِي لا إِلهَ إِلاَّ هُوَ لاَ يُعْطِيكَهُمْ وَقَدْ أَعْطَانِيَها أَوْ كَمَا قَالَتْ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَكِ كَذَا وَتَقُولُ: كَلاَّ وَاللهِ حَتَّى أَعْطَاهَا عَشَرَةَ أَمْثَالِهِ، أَوْ كَمَا قَالَ
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بطور ہدیہ صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے باغ میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چند کھجور کے درخت مقرر کر دیتے تھے یہاں تک کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے قبائل فتح ہوگئے (تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہدایا کو واپس کر دیا) میرے گھر والوں نے بھی مجھے اس کھجور کو‘ تمام کی تمام یا اس کا کچھ حصہ لینے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کھجور ام ایمن رضی اللہ عنہ کو دے دی تھی اتنے میں وہ بھی آ گئیں اور کپڑا میری گردن میں ڈال کر کہنے لگیں‘ قطعاً نہیں۔ اس ذات کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں یہ پھل تمہیں نہیں ملیں گے یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عنایت فرما چکے ہیں یا اسی طرح کے الفاظ انہوں نے بیان کئے اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم مجھ سے اس کے بدلے میں اتنے لے لو (اور ان کا مال انہیں واپس کر دو) لیکن وہ اب بھی یہی کہے جا رہی تھیں کہ قطعاً نہیں‘ خدا کی قسم! یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں‘ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس کا دس گنا دینے کا وعدہ فرمایا (پھر انہوں نے مجھے چھوڑا) یااسی طرح کے الفاظ سیّدناانس رضی اللہ عنہ نے بیان کئے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1160]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 30 باب مرجع النبي صلی اللہ علیہ وسلم من الأحزاب»

605. باب أخذ الطعام من أرض العدو
605. باب: دشمن کی سر زمین پر کھانا پینا
حدیث نمبر: 1161
1161 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ رضي الله عنه، قَالَ: كُنَّا مُحَاصِرِينَ قَصْرَ خَيْبَرَ، فَرَمَى إِنْسَانٌ بِجِرَابٍ فِيهِ شَحْمٌ، فَنَزَوْتُ لآخُذَهُ، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم خیبر کے محل کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔ کسی شخص نے ایک کپی پھینکی جس میں چربی بھری ہوئی تھی۔ میں اسے لینے کے لئے لپکا، لیکن مڑ کر جو دیکھا تو پاس ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے۔ میں شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1161]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 57 كتاب فرض الخمس: 20 باب ما يصيب من الطعام في أرض الحرب»

606. باب كتاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم إلى هرقل يدعوه إلى الإسلام
606. باب: ہرقل کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کا بیان جس میں اس کو دعوت اسلام دی گئی تھی
حدیث نمبر: 1162
1162 صحيح حديث أَبِي سُفْيَانَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سُفْيَانَ، مِنْ فِيهِ إِلَى فِيَّ، قَالَ: انْطَلَقْتُ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا بِالشَّامِ إِذْ جِيءَ بِكِتَابٍ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هِرَقْلَ قَالَ: وَكَانَ دِحْيَةُ الْكَلْبِيُّ جَاءَ بِهِ، فَدَفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى، فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَى إِلَى هِرَقْلَ قَالَ: فَقَالَ هِرَقْل: هَلْ ههُنَا أَحَدٌ مِنْ قَوْمِ هذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقَالُوا: نَعَمْ قَالَ: فَدُعِيتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَدَخَلْنَا عَلَى هِرَقْلَ، فَأَجْلَسَنَا بَيْنَ يَدَيْهِ؛ فَقَالَ: أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا مِنْ هذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَقُلْتُ: أَنَا فَأَجْلَسُونِي بَيْنَ يَدَيْهِ، وَأَجْلَسُوا أَصْحَابِي خَلْفِي ثُمَّ دَعَا بِتُرْجُمَانِهِ، فَقَالَ قُلْ لَهُمْ: إِنِّي سَائِلٌ هذَا عَنْ هذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، فَإِنْ كَذَبنِي فَكَذِّبُوهُ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: وَايْمُ اللهِ لَوْلاَ أَنْ يُؤْثِرُوا عَلَيَّ الْكَذِبَ لَكَذَبْتُ ثُمَّ قَالَ لِتُرْجُمَانِهِ: سَلْهُ كَيْفَ حَسَبُهُ فِيكُمْ قَالَ: قُلْتُ هُوَ فِينَا ذُو حَسَبِ قَالَ: فَهَلْ كَانَ مِنْ آبائِهِ مَلِكٌ قَالَ: قُلْتُ لا فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ قُلْتُ لاَ قَالَ: أَيَتَّبِعُهُ أَشْرَافُ النَّاسِ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ: قُلْتُ بَلْ ضعَفَاؤُهُمْ قَالَ: يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ قَالَ: قُلْتُ لاَ، بَلْ يَزِيدُونَ قَالَ: هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ قَالَ: قُلْتُ لاَ قَالَ: فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ قَالَ: قُلْتُ نَعَمْ قَالَ: فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ قَالَ: قُلْتُ تَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالاً، يُصِيبُ مِنَّا وَنصِيبُ مِنْهُ قَالَ: فَهَلْ يَغْدِرُ قَالَ: قُلْتُ لاَ، وَنَحْنُ مِنْهُ فِي هذِهِ الْمُدَّةِ لاَ نَدْرِي مَا هُوَ صَانِعٌ فِيها قَالَ: وَاللهِ مَا أَمْكَنَنِي مِنْ كَلِمَةٍ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرَ هذِهِ قَالَ: فَهَلْ قَالَ هذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قُلْتُ لا ثُمَّ قَالَ لِتُرْجُمَانِهِ: قلْ لَهُ: إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ حَسَبِهِ فِيكُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو حَسَبٍ، وَكَذلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أَحْسَابِ قَوْمِهَا وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ فِي آبائِهِ مَلِكٌ، فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ فَقُلْتُ لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ آبائِهِ وَسَأَلْتُكَ عَنْ أَتْبَاعِهِ، أَضُعَفَاؤُهُمْ أَمْ أَشْرَافُهُمْ فَقُلْتَ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ وَسَأَلْتُكَ هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الْكَذِبَ علَى النَّاسِ ثُمَّ يَذْهَبَ فَيَكْذِبَ عَلَى اللهِ وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ وَكَذلِكَ الإِيمَانُ إِذَا خَالَطَ بَشَاشَةَ الْقُلُوبِ وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَكَذلِكَ الإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ فَزَعَمْتَ أَنَّكُمْ قَاتَلْتُمُوهُ، فَتَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ سِجَالاً، يَنَالُ مِنْكُمْ وَتَنَالُونَ مِنْهُ وَكَذلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى ثُمَّ تَكُونُ لَهُمُ الْعاقِبَةُ وَسَأَلْتكَ هَلْ يَغْدِرُ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ لاَ يَغْدِرُ وَكَذلِكَ الرُّسُلُ لاَ تَغْدِرُ وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ أَحَدٌ هذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ فَقُلْتُ لَوْ كَانَ قَالَ هذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قُلْتُ رَجُلٌ ائْتَمَّ بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ قَالَ: ثُمَّ قَالَ بِمَ يَأْمُرُكُمْ قَالَ: قُلْتُ يَأْمُرُنَا بِالصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ وَالصِّلَةِ وَالْعَفَافِ قَالَ: إِنْ يَكُ مَا تَقُولُ فِيهِ حَقًّا فَإِنَّهُ نَبِيٌّ وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ وَلَمْ أَكُ أَظُنُّهُ مِنْكُمْ وَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لأَحْبَبْتُ لِقَاءَهُ وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ وَلَيَبْلُغَنَّ مُلْكُهُ مَا تَحْتَ قَدَمَيَّ قَالَ: ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهُ، فَإِذَا فِيهِ: بِسْمِ اللهِ الرَحْمنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلاَمٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ فإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الإِسْلاَمِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الأَرِيسِيِّينَ (وَيَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لاَ نَعْبُدَ إِلاَّ اللهَ) إِلَى قَوْلِهِ (اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ) فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ ارْتَفَعَتِ الأَصْوَاتُ عِنْدَهُ، وَكَثُرَ اللَّغَطُ، وَأُمِرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا قَالَ: فَقُلْتُ لأَصْحَابِي حِينَ خَرَجْنَا: لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ، إِنَّهُ لَيَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الأَصْفَر فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا بِأَمْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللهُ عَلَيَّ الإِسْلاَمَ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا، کہ مجھ سے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے براہ راست بیان کیا، انہوں نے بتلایا کہ جس مدت میں میرے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صلح (حدیبیہ) تھی، میں (سفر تجارت پر) گیا ہوا تھا اور شام میں تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ہر قل کے پاس پہنچا۔ انہوں نے بیان کیا کہ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ وہ خط لائے تھے اور عظیم بصریٰ کے حوالے کر دیا تھا اور ہرقل کے پاس اسی سے پہنچا تھا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہرقل نے پوچھا کیا ہمارے حدود سلطنت میں اس شخص کی قوم کے بھی کچھ لوگ ہیں جو نبی ہونے کا دعویدار ہے؟ درباریوں نے بتایا کہ جی ہاں موجود ہیں۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر مجھے قریش کے چند دوسرے آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا۔ ہم ہرقل کے دربار میں داخل ہوئے اور اس کے سامنے ہمیں بٹھا دیا گیا۔ اس نے پوچھا، تم لوگوں میں اس شخص سے زیادہ قریب کون ہے جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا کہ میں زیادہ قریب ہوں۔ اب درباریوں نے مجھے بادشاہ کے بالکل قریب بٹھا دیا اور میرے دوسرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا۔ اس کے بعد ترجمان کو بلایا اور اس سے ہرقل نے کہا کہ انہیں بتاؤ کہ میں اس شخص کے بارے میں تم سے کچھ سوالات کروں گا، جو نبی ہونے کا دعویدار ہے، اگر یہ (یعنی ابوسفیان رضی اللہ عنہ) جھوٹ بولے تو تم اس کے جھوٹ کو ظاہر کر دینا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا بیان تھا کہ اللہ کی قسم! اگر مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ میرے ساتھی کہیں میرے متعلق جھوٹ بولنا نقل نہ کر دیں تو میں (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں) ضرور جھوٹ بولتا۔ پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ جس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ اپنے نسب میں کیسے ہیں؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ان کا نسب ہم میں بہت ہی عزت والا ہے۔ اس نے پوچھا کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے؟ بیان کیا کہ میںنے کہا، نہیں۔ اس نے پوچھا، تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی ان پر جھوٹ کی تہمت لگائی تھی؟ میں نے کہا نہیں۔ پوچھا ان کی پیروی معزز لوگ زیادہ کرتے ہیں یا کمزور؟ میں نے کہا کہ قوم کے کمزور لوگ زیادہ ہیں۔ اس نے پوچھا، ان کے ماننے والوں میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یا کمی؟ میں نے کہا کہ نہیں بلکہ زیادتی ہوتی رہتی ہے۔ پوچھا کبھی ایسا بھی کوئی واقعہ پیش آیا ہے کہ کوئی شخص ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر ان سے پھر گیا ہو؟ میں نے کہا ایسا بھی کبھی نہیں ہوا۔ اس نے پوچھا، تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ اس نے پوچھا، تمہاری ان کے ساتھ جنگ کا کیا نتیجہ رہا؟ میں نے کہا کہ ہماری جنگ کی مثال ایک ڈول کی ہے کہ کبھی ان کے ہاتھ میں اور کبھی ہمارے ہاتھ میں۔ اس نے پوچھا، کبھی انہوں نے تمہارے ساتھ کوئی دھوکا بھی کیا؟ میں نے کہا کہ اب تک تو نہیں کیا، لیکن آج کل بھی ہمارا ان سے ایک معاہدہ چل رہا ہے، نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں ان کا طرز عمل کیا رہے گا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! اس جملہ کے سوا اور کوئی بات میں اس پوری گفتگو میں اپنی طرف سے نہیں ملا سکا، پھر اس نے پوچھا اس سے پہلے بھی یہ دعویٰ تمہارے یہاں کسی نے کیا تھا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا، اس سے کہو کہ میں نے تم سے نبی کے نسب کے بارے میں پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ تم لوگوں میں باعزت اور اونچے نسب کے سمجھے جاتے ہیں، انبیاء کا بھی یہی حال ہے۔ ان کی بعثت ہمیشہ قوم کے صاحب حسب و نسب خاندان میں ہوتی ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا کوئی ان کے باپ دادوں میں بادشاہ گزرا ہے، تو تم نے اس کا انکار کیا۔ میں اس سے اس فیصلہ پر پہنچا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ اپنی خاندانی سلطنت کو اس طرح واپس لینا چاہتے ہوں اور میں نے تم سے ان کی اتباع کرنے والوں کے متعلق پوچھا کہ آیا وہ قوم کے کمزور لوگ ہیں یا اشراف، تو تم نے بتایا کہ کمزور لوگ ان کی پیروی کرنے والوں میں (زیادہ) ہیں۔ یہی طبقہ ہمیشہ سے انبیاء کی اتباع کرتا رہا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے ان پر جھوٹ کا کبھی شبہ کیا تھا، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ میں نے اس سے یہ سمجھا کہ جس شخص نے لوگوں کے معاملہ میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، وہ اللہ کے معاملے میں کس طرح جھوٹ بول دے گا اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر کوئی شخص ان کے دین سے کبھی پھرا بھی ہے، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ ایمان کا یہی اثر ہوتا ہے جب وہ دل کی گہرائیوں میں اتر جائے۔میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یا کم ہوتی ہے، تو تم نے بتایا کہ ان میں اضافہ ہی ہوتا ہے، ایمان کا یہی معاملہ ہے، یہاں تک کہ وہ کمال کو پہنچ جائے۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے؟ تو تم نے بتایا کہ جنگ کی ہے اور تمہارے درمیان لڑائی کا نتیجہ ایسا رہا ہے کہ کبھی تمہارے حق میں اور کبھی ان کے حق میں۔ انبیاء کا بھی یہی معاملہ ہے، انہیں آزمائشوں میں ڈالا جاتا ہے اور آخر انجام انہی کے حق میں ہوتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اس نے تمہارے ساتھ کبھی خلاف عہد بھی معاملہ کیا ہے تو تم نے اس سے بھی انکار کیا۔انبیاء کبھی عہد کے خلاف نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تمہارے یہاں اس طرح کا دعویٰ پہلے بھی کسی نے کیا تاھ؟ تو تم نے کہا کہ پہلے کسی نے اس طرح کا دعویٰ نہیں کیا، میں اس سے اس فیصلے پر پہنچا کہ اگر کسی نے تمہارے یہاں اس سے پہلے اس طرح کا دعویٰ کیا ہوتا تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ یہ بھی اس کی نقل کر رہے ہیں۔ بیان کیا کہ پھر ہرقل نے پوچھا وہ تمہیں کن چیزوں کا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا نماز، زکوٰۃ، صلہ رحمی اور پاکدامنی کا۔ آخر اس نے کہا کہ جو کچھ تم نے بتایا ہے اگر وہ صحیح ہے تو یقینا وہ نبی ہیں اس کا علم تو مجھے بھی تھا کہ ان کی نبوت کا زمانہ قریب ہے لیکن یہ خیال نہ تھا کہ وہ تمہاری قوم میں ہوں گے۔ اگر مجھے ان تک پہنچ سکنے کا یقین ہوتا تو میں ضرور ان سے ملاقات کرتا اور اگر میں ان کی خدمت میں ہوتا تو ان کے قدموں کو دھوتا اور ان کی حکومت میرے ان دو قدموں تک پہنچ کر رہے گی۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اسے پڑھا، اس میں یہ لکھا ہوا تھا، اللہ، رحمن رحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف سے عظیم روم ہرقل کی طرف، سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی اتباع کرے۔ امابعد! میں تمہیں اسلام کی طرف بلاتا ہوں، اسلام لاؤ تو سلامتی پاؤ گے اور اسلام لاؤ تو اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا۔ لیکن تم نے اگر منہ موڑا تو تمہاری رعایا (کے کفر کا بار بھی سب) تم پر ہو گا اور اے کتاب والو! ایک ایسی بات کی طرف آ جاؤ جو ہم میں اور تم میں برابر ہے، وہ یہ کہ ہم سوائے اللہ کے اور کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں اور نہ اللہ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں۔ پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں۔(اٰل عمران: ۶۹) جب ہرقل خط پڑھ چکا تو دربار میں بڑا شور برپا ہو گیا اور پھر ہمیں دربار سے باہر کر دیا گیا۔ باہر آ کر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ کا معاملہ تو اب اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ملک بنی الاصفر (ہرقل) بھی ان سے ڈرنے لگا۔ اس واقعہ کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ کر رہیں گے اور آخر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی روشنی میرے دل میں بھی ڈال ہی دی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1162]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 3 سورة آل عمران: 4 باب قل يا أهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء»

607. باب في غزوة حنين
607. باب: غزوۂ حنین کا بیان
حدیث نمبر: 1163
1163 صحيح حديث الْبَرَاءِ، وَسَأَلَهُ رَجُلٌ: أَكُنْتُمْ فَرَرْتُمْ يَا أَبَا عُمَارَةَ يَوْمَ حُنَيْنٍ قَالَ: لاَ، وَاللهِ مَا وَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلكِنَّهُ خَرَجَ شُبَّانُ أَصْحَابِهِ وَأَخِفَّاؤُهُمْ حُسَّرًا لَيْسَ بِسِلاَحٍ، فَأَتَوْا قَوْمًا رُمَاةً، جَمْعَ هَوَازِنَ وَبَنِي نَصْرٍ، مَا يَكَادُ يَسْقُطُ لَهُمْ سَهْمٌ، فَرَشَقُوهُمْ رَشْقًا مَا يَكَادُونَ يُخْطِئُون فَأَقْبَلُوا هُنَالِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ عَلَى بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ وَابْنُ عَمِّهِ، أَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَقُودُ بِهِ؛ فَنَزَلَ وَاسْتَنْصَرَ؛ ثُمَّ قَالَ: أَنَا النَّبِيُّ لاَ كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ ثُمَّ صَفَّ أَصْحَابَهُ
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک صاحب نے پوچھا کہ ابوعمارہ! کیا آپ لوگوں نے حنین کی لڑائی میں فرار اختیار کیا تھا؟ حضرت براء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں خدا کی قسم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جو لشکر کے قائد تھے) پشت ہرگز نہیں پھیری تھی۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں جو نوجوان بے سروسامان تھے جن کے پاس نہ زرہ تھی، نہ خود اور کوئی ہتھیار بھی نہیں لے گئے تھے، انہوں نے ضرور میدان چھوڑ دیا تھا کیونکہ مقابلہ میں ہوازن اور بنونصر کے بہترین تیرانداز تھے کہ کم ہی ان کا کوئی تیر خطا جاتا۔ چنانچہ انہوں نے خوب تیر برسائے اور شاید ہی کوئی نشانہ ان کا خطا ہوا ہو (اس دوران میں مسلمان) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر جمع ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری سے اتر کر اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعا مانگی۔ پھر فرمایا: میں نبی ہوں اس میں غلط بیانی کا کوئی شائبہ نہیں، میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی (نئے طریقے پر) صف بندی کی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1163]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 97 باب من صف أصحابه عند الهزيمة ونزل عن دابته واستنصر»

حدیث نمبر: 1164
1164 صحيح حديث الْبَرَاءِ، وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنَ قَيْسٍ: أَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ فَقَالَ: لكِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَفِرَّ كَانَتْ هَوازِنُ رُمَاةً، وَإِنَّا لَمَّا حَمَلْنَا عَلَيْهِمْ انْكَشَفُوا فَأَكْبَبْنَا عَلَى الْغَنائِمِ، فَاسْتُقْبِلْنَا بِالسِّهَامِ وَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءَ، وَإِنَّ أَبَا سُفْيَانَ آخِذٌ بِزَمَامِهَا، وَهُوَ يَقُولُ: أَنَا النَّبِيُّ لا كَذِبْ
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے قبیلہ قیس کے ایک آدمی نے پوچھا کہ کیا تم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوۂ حنین میں چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے؟ حضرت براء نے کہا لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے نہیں ہٹے تھے قبیلہ ہوازن کے لوگ تیر انداز تھے‘ جب ان پر ہم نے حملہ کیا تو وہ پسپا ہو گئے، پھر ہم لوگ مال غنیمت میں لگ گئے آخر ہمیں ان کے تیروں کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے خود دیکھا تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ اس کی لگام تھامے ہوئے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: میں نبی ہوں، اس میں جھوٹ نہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1164]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 54 باب قول الله تعالى (ويوم حنين إذ أعجبتكم كثرتكم»

608. باب غزوة الطائف
608. باب: غزوۂ طائف کا بیان
حدیث نمبر: 1165
1165 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمْرِو، قَالَ: لَمَّا حَاصَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّائِفَ فَلَمْ يَنَلْ مِنْهُمْ شَيْئًا، قَالَ: إِنَّا قَافِلُونَ إِنْ شَاءَ اللهُ فَثَقُلَ عَلَيْهِمْ، وَقَالُوا: نَذْهَبُ وَلاَ نَفْتَحُهُ وَقَالَ مَرَّةً، نَقْفُلُ فَقَالَ: اغْدُوا عَلَى الْقِتَالِ فَغَدَوْا، فَأَصَابَهُمْ جِرَاحٌ فَقَالَ: إِنَّا قَافِلُونَ غَدًا إِنْ شَاءَ اللهُ فَأَعْجَبَهُمْ فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے‘ بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ کیا تو دشمن کا کچھ بھی نقصان نہیں کیا۔آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب ان شااللہ ہم واپس ہو جائیں گے۔ مسلمانوں کے لئے ناکام لوٹنا بڑا شاق گزرا۔ انہوں نے کہا کہ واہ بغیر فتح کے ہم واپس چلے جائیں (راوی نے ایک مرتبہ نذھب کے بجائے‘ نقفل کا لفظ استعمال کیا یعنی ہم لوٹ جائیں اور طائف کو فتح نہ کریں، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر صبح سویرے میدان میں جنگ کے لئے آجاؤ۔ صحابہ صبح سویرے ہی آگئے، لیکن ان کی بڑی تعداد زخمی ہوگئی اب پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان شااللہ ہم کل واپس چلیں گے صحابہ نے اسے بہت پسند کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ہنس پڑے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1165]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 56 باب غزوة الطائف»

609. باب إزالة الأصنام من حول الكعبة
609. باب: کعبہ سے بتوں کو ہٹانے کا بیان
حدیث نمبر: 1166
1166 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضي الله عنه، قَالَ: دَخَلَ النَبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ، وَحَوْلَ الْكَعْبَةِ ثَلاَثُمِائَةٍ وَسِتُّونَ نُصُبًا، فَجَعَلَ يَطْعَنُهَا بِعُودٍ فِي يَدِهِ، وَجَعَلَ يَقُولُ: (جَاء الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ) الآيَةَ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (فتح مکہ کے دن جب) مکے میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے چاروں طرف تین سو ساٹھ بت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس کو آپ ان بتوں پر مارنے لگے اور فرمانے لگے کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1166]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 46 كتاب المظالم: 32 باب هل تكسر الدنان التي فيها الخمر»

610. باب صلح الحديبية في الحديبية
610. باب: صلح حدیبیہ کا بیان
حدیث نمبر: 1167
1167 صحيح حديث الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: لَمَّا صَالَحَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَ الْحُدَيْبِيَةِ، كَتَبَ عَلِيٌّ بَيْنَهُمْ كِتَابًا، فَكَتَبَ: مُحَمَّدٌّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: لاَ تَكْتُبْ مُحَمَّدٌ رَسُول اللهِ، لَوْ كُنْتَ رَسُولاً لَمْ نُقَاتِلْكَ، فَقَالَ لِعَلِيٍّ: امْحُهُ فَقَالَ عَلِيٌّ: مَا أَنَا بِالَّذِي أَمْحَاهُ فَمَحَاهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، وَصَالَحَهُمْ عَلَى أَنْ يَدْخُلَ هُوَ وَأَصْحَابُهُ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ، وَلاَ يَدْخُلُوهَا إِلاَّ بِجُلُبَّانِ السِّلاَحِ فَسَأَلُوهُ: مَا جُلُبَّانُ السِّلاَحِ فَقَالَ: الْقِرَابُ بِمَا فِيهِ
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کی صلح (قریش سے) کی تو اس کی دستاویز حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لکھی تھی۔ انھوں نے اس میں لکھا محمد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے۔ مشرکین نے اس پر اعتراض کیا کہ لفظ محمد کے ساتھ رسول اللہ نہ لکھو، اگر آپ رسول اللہ ہوتے تو ہم آپ سے لڑتے ہی کیوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ رسول اللہ کا لفظ مٹا دو، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے کہا کہ میں تو اسے نہیں مٹا سکتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے مٹا دیا اور مشرکین کے ساتھ اس شرط پر صلح کی کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ آئندہ سال تین دن کے لیے مکہ آئیں اور ہتھیار میان میں رکھ کر داخل ہوں، حضرت براء سے ان کے شاگردوں نے پوچھا کہ جلبان السلاح جس کا یہاں ذکر کیا ہے کیا چیز ہوتی ہے؟ تو انھوں نے بتایا کہ میان اور جو چیز اس کے اندر ہوتی ہے اس کا نام جلبان ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1167]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 53 كتاب الصلح: 6 باب كيف يكتب هذا ما صالح فلان بن فلان»

حدیث نمبر: 1168
1168 صحيح حديث سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: كُنَّا بِصِفِّينَ، فَقَامَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ، فَإِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الحُدَيْبِيَةِ وَلَوْ نَرَى قِتَالاً لَقَاتَلْنَا، فَجَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ فَقَالَ: بَلَى فَقَالَ: أَلَيْسَ قَتْلاَنَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلاَهُمْ فِي النَّارِ قَالَ: بَلَى قَالَ: فَعَلَى مَا نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا أَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ فَقَالَ: ابْنَ الْخطَّابِ إِنِّي رَسُولُ اللهِ وَلَنْ يُضَيِّعَنِي الله أَبَدًا فَانْطَلَقَ عُمَرُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَالَ: إِنَّهُ رَسُولُ اللهِ وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللهُ أَبَدًا فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ، فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عُمَرَ إِلَى آخِرِهَا فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللهِ أَو فَتْحٌ هُوَ قَالَ: نَعَمْ
حضرت ابو وائل نے بیان کیا کہ ہم مقام صفین میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ پھر سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو! تم خود اپنی رائے کو غلط سمجھو۔ ہم صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ٗ اگر ہمیں لڑنا ہوتا تو اس وقت ضرور لڑتے۔ عمر رضی اللہ عنہ اس موقع پر آئے (یعنی حدیبیہ میں) اور عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہیں! عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٗ کہ کیوں نہیں! پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم اپنے دین کے معاملے میں پھر کیوں دبیں؟ کیا ہم (مدینہ) واپس چلے جائیں گے اور ہمارے اور ان کے درمیان اللہ کوئی فیصلہ نہیں کرے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ مجھے کبھی برباد نہیں کرے گا۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے وہی سوالات کئے ٗ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ابھی کر چکے تھے۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور اللہ انہیں کبھی برباد نہیں ہونے دے گا۔ پھر سورۂ فتح نازل ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اسے آخر تک پڑھ کر سنایا ٗ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: کیا یہی فتح ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! بلا شک یہی فتح ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1168]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 58 كتاب الجزية: 18 باب حدثنا عبدان»


Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next