1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الجهاد
کتاب: جہاد کے مسائل
606. باب كتاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم إلى هرقل يدعوه إلى الإسلام
606. باب: ہرقل کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کا بیان جس میں اس کو دعوت اسلام دی گئی تھی
حدیث نمبر: 1162
1162 صحيح حديث أَبِي سُفْيَانَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سُفْيَانَ، مِنْ فِيهِ إِلَى فِيَّ، قَالَ: انْطَلَقْتُ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا بِالشَّامِ إِذْ جِيءَ بِكِتَابٍ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هِرَقْلَ قَالَ: وَكَانَ دِحْيَةُ الْكَلْبِيُّ جَاءَ بِهِ، فَدَفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى، فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَى إِلَى هِرَقْلَ قَالَ: فَقَالَ هِرَقْل: هَلْ ههُنَا أَحَدٌ مِنْ قَوْمِ هذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقَالُوا: نَعَمْ قَالَ: فَدُعِيتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَدَخَلْنَا عَلَى هِرَقْلَ، فَأَجْلَسَنَا بَيْنَ يَدَيْهِ؛ فَقَالَ: أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا مِنْ هذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَقُلْتُ: أَنَا فَأَجْلَسُونِي بَيْنَ يَدَيْهِ، وَأَجْلَسُوا أَصْحَابِي خَلْفِي ثُمَّ دَعَا بِتُرْجُمَانِهِ، فَقَالَ قُلْ لَهُمْ: إِنِّي سَائِلٌ هذَا عَنْ هذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، فَإِنْ كَذَبنِي فَكَذِّبُوهُ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: وَايْمُ اللهِ لَوْلاَ أَنْ يُؤْثِرُوا عَلَيَّ الْكَذِبَ لَكَذَبْتُ ثُمَّ قَالَ لِتُرْجُمَانِهِ: سَلْهُ كَيْفَ حَسَبُهُ فِيكُمْ قَالَ: قُلْتُ هُوَ فِينَا ذُو حَسَبِ قَالَ: فَهَلْ كَانَ مِنْ آبائِهِ مَلِكٌ قَالَ: قُلْتُ لا فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ قُلْتُ لاَ قَالَ: أَيَتَّبِعُهُ أَشْرَافُ النَّاسِ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ: قُلْتُ بَلْ ضعَفَاؤُهُمْ قَالَ: يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ قَالَ: قُلْتُ لاَ، بَلْ يَزِيدُونَ قَالَ: هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ قَالَ: قُلْتُ لاَ قَالَ: فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ قَالَ: قُلْتُ نَعَمْ قَالَ: فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ قَالَ: قُلْتُ تَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالاً، يُصِيبُ مِنَّا وَنصِيبُ مِنْهُ قَالَ: فَهَلْ يَغْدِرُ قَالَ: قُلْتُ لاَ، وَنَحْنُ مِنْهُ فِي هذِهِ الْمُدَّةِ لاَ نَدْرِي مَا هُوَ صَانِعٌ فِيها قَالَ: وَاللهِ مَا أَمْكَنَنِي مِنْ كَلِمَةٍ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرَ هذِهِ قَالَ: فَهَلْ قَالَ هذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قُلْتُ لا ثُمَّ قَالَ لِتُرْجُمَانِهِ: قلْ لَهُ: إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ حَسَبِهِ فِيكُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو حَسَبٍ، وَكَذلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أَحْسَابِ قَوْمِهَا وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ فِي آبائِهِ مَلِكٌ، فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ فَقُلْتُ لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ آبائِهِ وَسَأَلْتُكَ عَنْ أَتْبَاعِهِ، أَضُعَفَاؤُهُمْ أَمْ أَشْرَافُهُمْ فَقُلْتَ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ وَسَأَلْتُكَ هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الْكَذِبَ علَى النَّاسِ ثُمَّ يَذْهَبَ فَيَكْذِبَ عَلَى اللهِ وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ وَكَذلِكَ الإِيمَانُ إِذَا خَالَطَ بَشَاشَةَ الْقُلُوبِ وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَكَذلِكَ الإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ فَزَعَمْتَ أَنَّكُمْ قَاتَلْتُمُوهُ، فَتَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ سِجَالاً، يَنَالُ مِنْكُمْ وَتَنَالُونَ مِنْهُ وَكَذلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى ثُمَّ تَكُونُ لَهُمُ الْعاقِبَةُ وَسَأَلْتكَ هَلْ يَغْدِرُ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ لاَ يَغْدِرُ وَكَذلِكَ الرُّسُلُ لاَ تَغْدِرُ وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ أَحَدٌ هذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ فَقُلْتُ لَوْ كَانَ قَالَ هذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قُلْتُ رَجُلٌ ائْتَمَّ بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ قَالَ: ثُمَّ قَالَ بِمَ يَأْمُرُكُمْ قَالَ: قُلْتُ يَأْمُرُنَا بِالصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ وَالصِّلَةِ وَالْعَفَافِ قَالَ: إِنْ يَكُ مَا تَقُولُ فِيهِ حَقًّا فَإِنَّهُ نَبِيٌّ وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ وَلَمْ أَكُ أَظُنُّهُ مِنْكُمْ وَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لأَحْبَبْتُ لِقَاءَهُ وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ وَلَيَبْلُغَنَّ مُلْكُهُ مَا تَحْتَ قَدَمَيَّ قَالَ: ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهُ، فَإِذَا فِيهِ: بِسْمِ اللهِ الرَحْمنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلاَمٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ فإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الإِسْلاَمِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الأَرِيسِيِّينَ (وَيَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لاَ نَعْبُدَ إِلاَّ اللهَ) إِلَى قَوْلِهِ (اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ) فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ ارْتَفَعَتِ الأَصْوَاتُ عِنْدَهُ، وَكَثُرَ اللَّغَطُ، وَأُمِرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا قَالَ: فَقُلْتُ لأَصْحَابِي حِينَ خَرَجْنَا: لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ، إِنَّهُ لَيَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الأَصْفَر فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا بِأَمْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللهُ عَلَيَّ الإِسْلاَمَ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا، کہ مجھ سے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے براہ راست بیان کیا، انہوں نے بتلایا کہ جس مدت میں میرے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صلح (حدیبیہ) تھی، میں (سفر تجارت پر) گیا ہوا تھا اور شام میں تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ہر قل کے پاس پہنچا۔ انہوں نے بیان کیا کہ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ وہ خط لائے تھے اور عظیم بصریٰ کے حوالے کر دیا تھا اور ہرقل کے پاس اسی سے پہنچا تھا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہرقل نے پوچھا کیا ہمارے حدود سلطنت میں اس شخص کی قوم کے بھی کچھ لوگ ہیں جو نبی ہونے کا دعویدار ہے؟ درباریوں نے بتایا کہ جی ہاں موجود ہیں۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر مجھے قریش کے چند دوسرے آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا۔ ہم ہرقل کے دربار میں داخل ہوئے اور اس کے سامنے ہمیں بٹھا دیا گیا۔ اس نے پوچھا، تم لوگوں میں اس شخص سے زیادہ قریب کون ہے جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا کہ میں زیادہ قریب ہوں۔ اب درباریوں نے مجھے بادشاہ کے بالکل قریب بٹھا دیا اور میرے دوسرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا۔ اس کے بعد ترجمان کو بلایا اور اس سے ہرقل نے کہا کہ انہیں بتاؤ کہ میں اس شخص کے بارے میں تم سے کچھ سوالات کروں گا، جو نبی ہونے کا دعویدار ہے، اگر یہ (یعنی ابوسفیان رضی اللہ عنہ) جھوٹ بولے تو تم اس کے جھوٹ کو ظاہر کر دینا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا بیان تھا کہ اللہ کی قسم! اگر مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ میرے ساتھی کہیں میرے متعلق جھوٹ بولنا نقل نہ کر دیں تو میں (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں) ضرور جھوٹ بولتا۔ پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ جس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ اپنے نسب میں کیسے ہیں؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ان کا نسب ہم میں بہت ہی عزت والا ہے۔ اس نے پوچھا کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے؟ بیان کیا کہ میںنے کہا، نہیں۔ اس نے پوچھا، تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی ان پر جھوٹ کی تہمت لگائی تھی؟ میں نے کہا نہیں۔ پوچھا ان کی پیروی معزز لوگ زیادہ کرتے ہیں یا کمزور؟ میں نے کہا کہ قوم کے کمزور لوگ زیادہ ہیں۔ اس نے پوچھا، ان کے ماننے والوں میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یا کمی؟ میں نے کہا کہ نہیں بلکہ زیادتی ہوتی رہتی ہے۔ پوچھا کبھی ایسا بھی کوئی واقعہ پیش آیا ہے کہ کوئی شخص ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر ان سے پھر گیا ہو؟ میں نے کہا ایسا بھی کبھی نہیں ہوا۔ اس نے پوچھا، تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ اس نے پوچھا، تمہاری ان کے ساتھ جنگ کا کیا نتیجہ رہا؟ میں نے کہا کہ ہماری جنگ کی مثال ایک ڈول کی ہے کہ کبھی ان کے ہاتھ میں اور کبھی ہمارے ہاتھ میں۔ اس نے پوچھا، کبھی انہوں نے تمہارے ساتھ کوئی دھوکا بھی کیا؟ میں نے کہا کہ اب تک تو نہیں کیا، لیکن آج کل بھی ہمارا ان سے ایک معاہدہ چل رہا ہے، نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں ان کا طرز عمل کیا رہے گا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! اس جملہ کے سوا اور کوئی بات میں اس پوری گفتگو میں اپنی طرف سے نہیں ملا سکا، پھر اس نے پوچھا اس سے پہلے بھی یہ دعویٰ تمہارے یہاں کسی نے کیا تھا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا، اس سے کہو کہ میں نے تم سے نبی کے نسب کے بارے میں پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ تم لوگوں میں باعزت اور اونچے نسب کے سمجھے جاتے ہیں، انبیاء کا بھی یہی حال ہے۔ ان کی بعثت ہمیشہ قوم کے صاحب حسب و نسب خاندان میں ہوتی ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا کوئی ان کے باپ دادوں میں بادشاہ گزرا ہے، تو تم نے اس کا انکار کیا۔ میں اس سے اس فیصلہ پر پہنچا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ اپنی خاندانی سلطنت کو اس طرح واپس لینا چاہتے ہوں اور میں نے تم سے ان کی اتباع کرنے والوں کے متعلق پوچھا کہ آیا وہ قوم کے کمزور لوگ ہیں یا اشراف، تو تم نے بتایا کہ کمزور لوگ ان کی پیروی کرنے والوں میں (زیادہ) ہیں۔ یہی طبقہ ہمیشہ سے انبیاء کی اتباع کرتا رہا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے ان پر جھوٹ کا کبھی شبہ کیا تھا، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ میں نے اس سے یہ سمجھا کہ جس شخص نے لوگوں کے معاملہ میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، وہ اللہ کے معاملے میں کس طرح جھوٹ بول دے گا اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر کوئی شخص ان کے دین سے کبھی پھرا بھی ہے، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ ایمان کا یہی اثر ہوتا ہے جب وہ دل کی گہرائیوں میں اتر جائے۔میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یا کم ہوتی ہے، تو تم نے بتایا کہ ان میں اضافہ ہی ہوتا ہے، ایمان کا یہی معاملہ ہے، یہاں تک کہ وہ کمال کو پہنچ جائے۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے؟ تو تم نے بتایا کہ جنگ کی ہے اور تمہارے درمیان لڑائی کا نتیجہ ایسا رہا ہے کہ کبھی تمہارے حق میں اور کبھی ان کے حق میں۔ انبیاء کا بھی یہی معاملہ ہے، انہیں آزمائشوں میں ڈالا جاتا ہے اور آخر انجام انہی کے حق میں ہوتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اس نے تمہارے ساتھ کبھی خلاف عہد بھی معاملہ کیا ہے تو تم نے اس سے بھی انکار کیا۔انبیاء کبھی عہد کے خلاف نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تمہارے یہاں اس طرح کا دعویٰ پہلے بھی کسی نے کیا تاھ؟ تو تم نے کہا کہ پہلے کسی نے اس طرح کا دعویٰ نہیں کیا، میں اس سے اس فیصلے پر پہنچا کہ اگر کسی نے تمہارے یہاں اس سے پہلے اس طرح کا دعویٰ کیا ہوتا تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ یہ بھی اس کی نقل کر رہے ہیں۔ بیان کیا کہ پھر ہرقل نے پوچھا وہ تمہیں کن چیزوں کا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا نماز، زکوٰۃ، صلہ رحمی اور پاکدامنی کا۔ آخر اس نے کہا کہ جو کچھ تم نے بتایا ہے اگر وہ صحیح ہے تو یقینا وہ نبی ہیں اس کا علم تو مجھے بھی تھا کہ ان کی نبوت کا زمانہ قریب ہے لیکن یہ خیال نہ تھا کہ وہ تمہاری قوم میں ہوں گے۔ اگر مجھے ان تک پہنچ سکنے کا یقین ہوتا تو میں ضرور ان سے ملاقات کرتا اور اگر میں ان کی خدمت میں ہوتا تو ان کے قدموں کو دھوتا اور ان کی حکومت میرے ان دو قدموں تک پہنچ کر رہے گی۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اسے پڑھا، اس میں یہ لکھا ہوا تھا، اللہ، رحمن رحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف سے عظیم روم ہرقل کی طرف، سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی اتباع کرے۔ امابعد! میں تمہیں اسلام کی طرف بلاتا ہوں، اسلام لاؤ تو سلامتی پاؤ گے اور اسلام لاؤ تو اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا۔ لیکن تم نے اگر منہ موڑا تو تمہاری رعایا (کے کفر کا بار بھی سب) تم پر ہو گا اور اے کتاب والو! ایک ایسی بات کی طرف آ جاؤ جو ہم میں اور تم میں برابر ہے، وہ یہ کہ ہم سوائے اللہ کے اور کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں اور نہ اللہ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں۔ پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں۔(اٰل عمران: ۶۹) جب ہرقل خط پڑھ چکا تو دربار میں بڑا شور برپا ہو گیا اور پھر ہمیں دربار سے باہر کر دیا گیا۔ باہر آ کر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ کا معاملہ تو اب اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ملک بنی الاصفر (ہرقل) بھی ان سے ڈرنے لگا۔ اس واقعہ کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ کر رہیں گے اور آخر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی روشنی میرے دل میں بھی ڈال ہی دی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1162]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 3 سورة آل عمران: 4 باب قل يا أهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء»

وضاحت: راوي حدیث:… حضرت ابو سفیان بن صخر بن حرب رضی اللہ عنہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد ماجد ہیں۔ واقعہ فیل سے دس سال قبل پیدا ہوئے۔ جاہلیت میں سرداران قریش میں شمار ہوتے تھے۔ فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے اور غزوہ حنین میں شریک رہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کی غنیمتوں میں سے انہیں ایک سو اونٹ اور چالیس اوقیہ چاندی عطا کی۔ غزوہ طائف میں آپ کی آنکھ پھوڑ دی گئی تھی پھر اسی طرح رہے حتیٰ کہ یرموک کے دن دوسری آنکھ کو پتھر لگا تو نابینے ہو گئے تھے۔ ۳۴ ہجری کو مدینہ منورہ میں وفات پائی۔