1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الجهاد
کتاب: جہاد کے مسائل
حدیث نمبر: 1149
1149 صحيح حديث عَائِشَةَ، أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهِا السَّلاَمُ، بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيَراثَهَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِمَّا أَفَاءَ اللهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكٍ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هذَا الْمَالَ وَإِنِّي، وَاللهِ لاَ أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَان عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَبى أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ مِنْهَا شَيْئًا فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ، فَهَجَرَتْهُ، فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلاً، وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ، وَصَلَّى عَلَيْهَا وَكَانَ لِعَلِيٍّ مِنَ النَّاسِ وَجْهٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ فَلَمَّا تُوُفِّيَتِ اسْتَنْكَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ النَّاسِ، فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُبَايَعَتَهُ، وَلَمْ يَكُنْ يُبَايِعُ تِلْكَ الأَشْهُرَ فَأَرْسَلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ: أَنِ ائْتِنَا، وَلاَ يَأْتِنَا أَحَدٌ مَعَكَ (كَرَاهِيَةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ) فَقَالَ عُمَرُ: لاَ، وَاللهِ لاَ تَدْخُلُ عَلَيْهِمْ وَحْدَكَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَمَا عَسِيْتَهُمْ أَنْ يَفْعَلُوا بِي وَاللهِ لآتِيَنَّهُمْ فَدَخَلَ عَلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ، فَتَشَهَّدَ عَلِيٌّ، فَقَالَ: إِنَّا قَدْ عَرَفْنَا فَضْلَكَ وَمَا أَعْطَاكَ اللهُ، وَلَمْ نَنْفَسْ عَلَيْكَ خَيْرًا سَاقَهُ اللهُ إِلَيْكَ، وَلكِنَّكَ اسْتَبْدَدْتَ عَلَيْنَا بِالأَمْرِ، وَكُنَّا نَرَى، لِقَرَابَتِنَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَصِيبًا حَتَّى فَاضَتْ عَيْنَا أَبِي بَكْرٍ فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي، وَأَمَّا الَّذِي شَجَرَ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ مِنْ هذِهِ الأَمْوَالِ فَلَمْ آلُ فِيهَا عَنِ الْخَيْرِ، وَلَمْ أَتْرُكْ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ فِيهَا إِلاَّ صَنَعْتُهُ فَقَالَ عَلِيٌّ لأَبِي بَكْرٍ: مَوْعِدُكَ الْعَشِيَّةَ لِلْبَيْعَةِ فَلَمَّا صَلَّى أَبُو بَكْرٍ الظُّهْرَ، رَقِيَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَتَشَهَّدَ، وَذَكَرَ شَأْنَ عَلِيٍّ وَتَخَلُّفَهُ عَنِ الْبَيْعَةِ، وَعَذَ ْرهُ بِالَّذِي اعْتَذَرَ إِلَيْهِ ثُمَّ اسْتَغْفَرَ، وَتَشَهَّدَ عَلِيٌّ، فَعَظَّمَ حَقَّ أَبِي بَكْرٍ، وَحَدَّثَ أَنَّهُ لَمْ يَحْمِلْهُ عَلَى الَّذِي صَنَعَ، نَفَاسَةً عَلَى أَبِي بَكْرٍ، وَلاَ إِنْكَارًا لِلَّذِي فَضَّلَهُ اللهُ بِهِ، وَلكِنَّا نَرَى لَنَا فِي هذَا الأَمْرِ نَصِيبًا، فَاسْتَبَدَّ عَلَيْنَا، فَوَجَدْنَا فِي أَنْفُسِنَا فَسُرَّ بِذَلِكَ الْمُسْلِمُونَ، وَقَالُوا: أَصَبْتَ وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ إِلَى عَلِيٍّ قَرِيبًا، حِينَ رَاجَعَ الأَمْرَ الْمَعْرُوفَ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیجا اور اپنی میراث کا مطالبہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مال سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ اور فدک میں عنایت فرمایا تھا اور خیبر کا جو پانچواں حصہ رہ گیا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا‘ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے‘ البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی مال سے کھاتی رہے گی اور میں خدا کی قسم جو صدقہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ گئے ہیں اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا جس حال میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں (اس کی تقسیم وغیرہ میں۔میں بھی وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی زندگی میں تھا غرض ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہ کو کچھ بھی دینا منظور نہ کیا۔اس پر فاطمہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے خفا ہوگئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ سیّدنا فاطمہ رضی اللہ عنہ نحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی رضی اللہ عنہ نے انہیں رات میں دفن کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ جب تک زندہ رہیں علی رضی اللہ عنہ پر لوگ بہت توجہ رکھتے رہے لیکن ان کی وفات کے بعد انہوں نے دیکھا کہ اب لوگوں کے منہ ان کی طرف سے پھرے ہوئے ہیں اس وقت انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا چاہا۔ اس سے پہلے چھ ماہ تک انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت نہیں کی تھی، پھر انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا اور کہلا بھیجا کہ آپ صرف تنہا آئیں اور کسی کو اپنے ساتھ نہ لائیں ان کو یہ منظور نہ تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ آئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! آپ تنہا ان کے پاس نہ جائیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کیوں وہ میرے ساتھ کیا کریں گے۔ میں تو خدا کی قسم ضرور ان کے پاس جاؤں گا۔ آخر آپ علی رضی اللہ عنہ کے یہاں گئے۔ علی رضی اللہ عنہ نے خدا کو گواہ کیا‘ اس کے بعد فرمایا،آپ کے فضل و کمال اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بخشا ہے‘ سب کا ہمیں اقرار ہے جو خیر و امتیاز آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا تھا ہم نے اس میں کوئی ریس بھی نہیں کی لیکن آپ نے ہمارے ساتھ زیادتی کی (کہ خلافت کے معاملہ میں ہم سے کوئی مشورہ نہیں لیا) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی قرابت کی وجہ سے اپنا حق سمجھتے تھے (کہ آپ ہم سے مشورہ کرتے) ابوبکر رضی اللہ عنہ پر ان باتوں سے گریہ طاری ہوگیا اور جب بات کرنے کے قابل ہوئے تو فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کے ساتھ صلہ رحمی مجھے اپنی قرابت سے زیادہ عزیز ہے لیکن میرے اور آپ لوگوں کے درمیان ان اموال کے سلسلے میں جو اختلاف ہوا ہے تو میں اس میں حق اور خیر سے نہیں ہٹا ہوں اور اس سلسلہ میں جو راستہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیکھا خود میں نے بھی اسی کو اختیار کیا۔علی رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ دوپہر کے بعد میں آپ سے بیعت کروں گا۔ چنانچہ ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر ابوبکر رضی اللہ عنہ منبر پر آئے اور خطبہ کے بعد علی رضی اللہ عنہ کے معاملے کا اور ان کے اب تک بیعت نہ کرنے کا ذکر کیا اور وہ عذر بھی بیان کیا جو علی رضی اللہ عنہ نے پیش کیا تھا، پھر علی رضی اللہ عنہ نے استغفار اور شہادت کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حق اور ان کی بزرگی بیان کی اور فرمایا کہ جو کچھ میں نے کیا ہے اس کا باعث ابوبکر رضی اللہ عنہ سے حسد نہیں تھا اور نہ ان کے اس فضل و کمال کا انکار مقصود تھا جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عنایت فرمایا یہ بات ضرور تھی کہ ہم اس معاملہ خلافت میں اپنا حق سمجھتے تھے (کہ ہم سے مشورہ لیا جاتا) ہمارے ساتھ یہی زیادتی ہوئی تھی جس سے ہمیں رنج پہنچا مسلمان اس واقعہ پر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ آپ نے درست فرمایا۔ جب علی رضی اللہ عنہ نے اس معاملہ میں یہ مناسب راستہ اختیار کر لیا تو مسلمان ان سے خوش ہوگئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اور زیادہ محبت کرنے لگے جب دیکھا کہ انہوں نے اچھی بات اختیار کر لی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1149]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 38 باب غزوة خيبر»

حدیث نمبر: 1150
1150 صحيح حديث عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ، ابْنَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَأَلَتْ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ، بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَقْسِمَ لَهَا مِيرَاثَهَا مَا تَرَكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِمَّا أَفَاءَ اللهُ عَلَيْهِ فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ، فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ قَالَتْ: وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ وَفَدَكٍ، وَصَدَقَتِهِ ُ بَالْمَدِينَةِ فَأَبى أَبُو بَكْرٍ عَلَيْهَا ذَلِكَ وَقَالَ: لَسْتُ تَارِكًا شَيْئًا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْمَلُ بِهِ إِلاَّ عَمِلْتُ بِهِ، فَإِنِّي أَخْشى، إِنْ تَرَكْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ، أَنْ أَزِيغَ فَأَمَّا صَدَقَتُهُ بِالْمَدِينَةِ فَدَفَعَهَا عُمَرُ إِلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَأَمَّا خَيْبَرُ وَفَدَكٌ فَأَمْسَكَهَا عُمَرُ، وَقَالَ: هُمَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللهِ كَانتَا لِحُقُوقِهِ الَّتِي تَعْرُوهُ وَنَوَائِبِهِ، وَأَمْرُهُمَا إِلَى مَنْ وَلِيَ الأَمْرَ فَهُمَا عَلَى ذلِكَ إِلَى الْيَوْمِ
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کیا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ سے انہیں ان کی میراث کا حصہ دلایا جائے جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’فے‘ کی صورت میں دیا تھا۔ (جیسے فدک وغیرہ) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی حیات میں) فرمایا تھا کہ ہمارا (گروہ انبیاء کا) ورثہ تقسیم نہیں ہوتا، ہمارا ترکہ صدقہ ہے۔ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا یہ سن کر غصہ ہو گئیں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ترک ملاقات کی اور وفات تک ان سے نہ ملیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے زندہ رہی تھیں۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیبر، فدک اور مدینہ کے صدقے کی وراثت کا مطالبہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کیا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس سے انکار تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں کسی بھی ایسے عمل کو نہیں چھوڑ سکتا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں کرتے رہے تھے۔ میں ہر ایسے عمل کو ضرور کروں گا۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بھی عمل چھوڑا تو میں حق سے منحرف ہو جاؤں گا۔ (عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ کا جو صدقہ تھا وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہم کو (اپنے عہد خلافت میں) دے دیا۔ البتہ خیبر اور فدک کی جائیداد کو عمر رضی اللہ عنہ نے روک رکھا اور فرمایا کہ یہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ ہیں اور ان حقوق کے لئے جو وقتی طور پر پیش آتے یا وقتی حادثات کے لئے رکھی تھیں۔ یہ جائیدادیں اس شخص کے اختیار میں رہیں گی جو خلیفہ وقت ہو۔ (زہری نے کہا) چنانچہ ان دونوں جائیدادوں کا انتظام آج تک (بذریعہ حکومت) اسی طرح ہوتا چلا آتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1150]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 57 كتاب فرض الخمس: 1 باب فرض الخمس»

حدیث نمبر: 1151
1151 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لاَ يَقْتَسِمْ وَرَثَتِي دِينَارًا، مَا تَرَكْتُ، بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمَئُونَةُ عَامِلِي، فَهُوَ صَدَقَةٌ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی میرے وارث ہیں، وہ روپیہ اشرفی اگر میں چھوڑ جاؤں تو وہ تقسیم نہ کریں، وہ میری بیویوں کا خرچ اور جائیداد کا اہتمام کرنے والے کا خرچ نکالنے کے بعد صدقہ ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1151]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 55 كتاب الوصايا: 32 باب نفقة القيم للوقف»

600. باب ربط الأسير وحبسه وجواز المن عليه
600. باب: قیدی کو باندھنا، قید کرنا اور اس کو مفت چھوڑ دینا جائز ہے
حدیث نمبر: 1152
1152 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلاً قِبَلَ نَجْدٍ، فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ يُقَالُ لَهُ ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ، فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ فَقَالَ: عِنْدِي خَيْرٌ يَا مُحَمَّدُ إِنْ تَقْتُلْنِي تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شاكِرٍ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ مِنْهُ مَا شِئْتَ حَتَّى كَانَ الْغَدُ ثُمَّ قَالَ لَهُ: مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ قَالَ: مَا قُلْتُ لَكَ، إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ فَتَرَكَهُ حَتَّى كَانَ بَعْدَ الْغَدِ فَقَالَ: مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ فَقَالَ عِنْدِي مَا قُلْتُ لَكَ فَقَالَ: أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ فَانْطَلَقَ إِلَى نَجْلٍ قَرِيبٍ مِنَ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِله إِلاَّ اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ يَا مُحَمَّدُ وَاللهِ مَا كَانَ عَلَى الأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ، فَقَد أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ إِلَيَّ وَاللهِ مَا كَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْ دِينِكَ، فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَيَّ وَاللهِ مَا كَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِكَ، فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ أَحَبَّ الْبِلاَدِ إِلَيَّ، وَإِنَّ خَيْلَكَ أَخَذَتْنِي وَأَنَا أُرِيدُ الْعُمْرَةَ، فَمَاذَا تَرَى فَبَشَّرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَهُ أَنْ يَعْتَمِرَ فَلَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ، قَالَ قَائِلٌ: صَبَوْتَ قَالَ: لاَ، وَلكِنْ أَسْلمْتُ مَعَ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلاَ، وَاللهِ لاَ يَأْتِيكُمْ مِنَ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف کچھ سوار بھیجے۔ وہ قبیلہ بنو حنیفہ کے (سرداروں میں سے) ایک شخص، ثمامہ بن اثال کو پکڑ کر لائے او رمسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور پوچھا ثمامہ تو کیا سمجھتا ہے؟ (میں تیرے ساتھ کیا کروں گا) اس نے کہا محمد! میرے پاس خیر ہے(اس کے باوجود) اگر آپ مجھے قتل کر دیں تو آپ ایک شخص کو قتل کریں گے جو خونی ہے۔ اس نے جنگ میں مسلمانوں کو مارا ہے اور اگر آپ مجھ پر احسان کریں گے تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو (احسان کرنے والے کا) شکریہ ادا کرتا ہے لیکن اگر آپ کو مال مطلوب ہو تو جتنا چاہیں مجھ سے مال طلب کر سکتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے آئے‘ دوسرے دن آپ نے پھر پوچھا: ثمامہ اب تو کیا سمجھتاہے؟ انہوں نے کہا‘ وہی جو میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اگر آپ نے احسان کیا تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو شکر ادا کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پھر چلے گئے‘ تیسرے دن پھر آپ نے ان سے پوچھا اب تو کیا سمجھتا ہے ثمامہ؟ انہوں نے کہا کہ وہی جو میں آپ سے پہلے کہہ چکا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو(رسی کھول دی گئی) تو وہ مسجد نبوی سے قریب ایک باغ میں گئے اور غسل کرکے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اورپڑھا اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمدا رسول اللہ اور کہا اے محمد! اللہ کی قسم روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے زیادہ میرے لئے برا نہیں تھا لیکن آج آپ کے چہرہ سے زیادہ مجھے کوئی چہرہ محبوب نہیں ہے۔ اللہ کی قسم! کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ مجھے برا نہیں لگتا تھا، لیکن آج آپ کا دین مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ اور عزیز ہے۔ اللہ کی قسم! کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ مجھے برا نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا شہر میرا سب سے زیادہ محبوب شہر ہے۔ آپ کے سواروں نے مجھے پکڑا تو میں عمرہ کا ارادہ کر چکا تھا۔ اب آپ کا کیا حکم ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بشارت دی اور عمرہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ جب وہ مکہ پہنچے تو کسی نے کہا کہ وہ بے دین ہوگئے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایمان لے آیا ہوں اور خدا کی قسم! اب تمہارے یہاں یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ بھی اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجاز ت نہ دے دیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1152]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 70 باب وفد بني حنيفة وحديث ثمامة ابن أثال»

601. باب إِجلاء اليهود من الحجاز
601. باب: یہودیوں کو حجاز سے نکال دینے کا بیان
حدیث نمبر: 1153
1153 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ، إِذْ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: انْطَلِقُوا إِلَى يَهُودَ فَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى جِئْنَا بَيْتَ الْمِدْرَاسِ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَادَاهُمْ: يَا مَعْشَرَ يَهُودَ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا فَقَالُوا: قَدْ بَلَّغْتَ، يَا أَبَا الْقَاسِمِ فَقَالَ: ذلِكَ أُرِيدُ ثُمَّ قَالَهَا الثَّانِيَةَ فَقَالُوا: قَدْ بَلَّغْتَ، يَا أَبَا الْقَاسِمِ ثُمَّ قَالَ الثَّالِثَةَ؛ فَقَالَ: اعْلَمُوا أَنَّ الأَرْضَ للهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُجْلِيَكُمْ، فَمَنْ وَجَدَ مِنْكُمْ بِمَالِهِ شَيْئًا فَلْيَبِعْهُ، وَإِلاَّ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا الأَرْضُ للهِ وَرَسُولِهِ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم مسجد میں تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ یہودیوں کے پاس چلو۔ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے اور جب ہم بیت المدراس کے پاس پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی، اے قوم یہود!اسلام لاؤ تم محفوظ ہو جاؤ گے۔ یہودیوں نے کہا ابو القاسم!آپ نے پہنچا دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا بھی یہی مقصد ہے، پھر آپ نے دوبارہ یہی فرمایا اور یہودیوں نے کہا کہ ابو القاسم آپ نے پہنچا دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ یہی فرمایا۔ اور پھر فرمایا تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے اور میں تمہیں جلاوطن کرتا ہوں۔ پس تم میں سے جس کے پاس مال ہو اسے چاہئے کہ جلاوطن ہونے سے پہلے اسے بیچ دے ورنہ جان لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1153]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 89 كتاب الإكراه: 2 باب في بيع المكره ونحوه في الحق وغيره»

حدیث نمبر: 1154
1154 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: حَارَبَتِ النَّضِيرُ وَقُرَيْظَةُ، فَأَجْلَى بَنِي النَّضِيرِ وَأَقَرَّ قُرَيْظَةَ وَمَنَّ عَلَيْهِمْ، حَتَّى حَارَبَتْ قُرَيْظَةُ فَقَتَلَ رِجَالَهُمْ، وَقَسَمَ نِسَاءَهُمْ وَأَوْلاَدَهُمْ وَأَمْوالَهُمْ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ، إِلاَّ بَعْضَهُمْ، لَحِقُوا بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَآمَنَهُمْ وَأَسْلَمُوا وَأَجْلَى يَهُودَ الْمَدِينَةِ كُلَّهُمْ، بَنِي قَيْنُقَاعَ، وَهُمْ رَهْطُ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَلاَمٍ، وَيَهُودَ بَنِي حَارِثَةَ، وَكُلَّ يَهُودِ الْمَدِينَةِ
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ بنو نضیر اور بنو قریظہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (معاہدہ توڑ کر) لڑائی مول لی۔ اس لیے آپ نے قبیلہ بنو نضیر کو جلا وطن کر دیا لیکن قبیلہ بنو قریظہ کوجلا وطن نہیں کیااور اس طرح ان پر احسان فرمایا، پھربنو قریظہ نے بھی جنگ مول لی، اس لیے آپ نے ان کے مردوں کو قتل کروا دیا اور ان کی عورتوں، بچوں اور مال کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا۔ صرف بعض بنی قریظہ اس سے الگ قرار دئیے گئے تھے کیونکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ میں آگئے تھے اس لیے آپ نے انہیں پناہ دی اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے تمام یہودیوں کو جلا وطن کر دیا تھا۔ بنو قینقاع کو بھی جو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کا قبیلہ تھا، یہود بنی حارثہ کو اور مدینہ کے تمام یہودیوں کو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1154]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 14 باب حديث بني النضير»

602. باب جواز قتال من نقض العهد، وجواز إِنزال أهل الحصن على حكم حاكم عدل أهل للحكم
602. باب: جو عہد توڑ ڈالے اس سے لڑائی درست ہے اور محصورین قلعہ کو کسی عادل شخص کی ثالثی پر قلعہ سے باہر نکالنا جائز ہے
حدیث نمبر: 1155
1155 صحيح حديث أَبِي سَعِيدٍ الْخدْرِيِّ رضي الله عنه، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ بَنُو قُرَيْظَةَ عَلَى حُكْمِ سَعْدٍ، هُوَ ابْنُ مُعَاذٍ، بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ قَرِيبًا مِنْهُ، فَجَاءَ عَلَى حِمَارٍ، فَلَمَّا دَنَا قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ فَجَاءَ فَجَلَسَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: إِنَّ هؤُلاَءِ نَزَلُوا عَلَى حُكْمِكَ قَالَ: فَإِنِّي أَحْكُمُ أَنْ تُقْتَلَ الْمُقَاتِلَةُ، وَأَنْ تُسْبَى الذُّرِّيَّةُ قَالَ: لَقَدْ حَكَمْتَ فِيهِمْ بِحُكْمِ الْمَلِكِ
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا جب بنوقریظہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی ثالثی کی شرط پر ہتھیار ڈال کر قلعہ سے اتر آئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (سعد رضی اللہ عنہ کو) بلایا۔ اور وہ قریب ہی ایک جگہ ٹھہرے ہوئے تھے(کیونکہ زخمی تھے) حضرت سعد رضی اللہ عنہ گدھے پر سوار ہو کر آئے، جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے سردار کے لیے کھڑے ہو جاؤ (اور ان کو سواری سے اتارو) آخر آپ اتر کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ کر بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان لوگوں (بنوقریظہ) نے آپ کی ثالثی کی شرط پر ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ (اس لئے آپ ان کا فیصلہ کر دیں) انہوں نے کہا کہ پھر میرا فیصلہ یہ ہے کہ ان میں جتنے آدمی لڑنے والے ہیں، انہیں قتل کر دیا جائے، اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1155]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 168 باب إذا نزل العدو على حكم رجل»

حدیث نمبر: 1156
1156 صحيح حديث عَائِشَةَ، قَالَتْ: أُصِيبَ سَعْدٌ يَوْمَ الْخَنْدَقِ، رَمَاهُ رَجُلٌ مِنْ قَرَيْشٍ يُقَالُ لَهُ حِبَّانُ بْنُ الْعَرِقَةِ، رَمَاهُ فِي الأَكْحَلِ، فَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْمَةً فِي الْمَسْجِدِ لِيَعُودَهُ مِنْ قَرِيبٍ، فَلمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْخَنْدَقِ وَضَعَ السِّلاَحَ واغْتَسَلَ، فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ وَهُوَ يَنْفُضُ رَأْسَهُ مِنَ الْغُبَارِ، فَقَالَ: قَدْ وَضَعْتَ السِّلاَحَ وَاللهِ مَا وَضَعْتُهُ، اخْرُجْ إِلَيْهِمْ قَالَ النَبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَأَيْنَ فَأَشَارَ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ، فَأَتَاهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلُوا عَلَى حُكْمِهِ، فَرَدَّ الْحُكْمَ إِلَى سَعْدٍ قَالَ: فَإِنِّي أَحْكُمُ فِيهِمْ أَنْ تُقْتلَ الْمُقَاتِلَةُ، وَأَنْ تُسْبَى النِّسَاءُ وَالذُّرِّيَّةُ، وَأَنْ تُقْسَمَ أَمْوَالُهُمْ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ غزوۂ خندق کے موقع پر حضرت سعد رضی اللہ عنہ زخمی ہوگئے تھے۔ قریش کے ایک کافر شخص‘ حبان بن عرقہ نامی نے ان پر تیر چلایا تھا اور وہ ان کے بازو کی رگ میں آکے لگاتھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے مسجد میں ایک ڈیرہ لگا دیا تھا تاکہ قریب سے ان کی عیادت کرتے رہیں۔ پھر جب آپ غزوۂ خندق سے واپس ہوئے اور ہتھیار رکھ کر غسل کیا تو جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے وہ اپنے سر سے غبار جھاڑ رہے تھے انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ نے ہتھیار رکھ دیئے خدا کی قسم! ابھی میں نے ہتھیار نہیں اتارے ہیں۔ آپ کو ان پر فوج کشی کرنی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کن پر؟ تو انہوں نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ تک پہنچے(اور یہودیوں نے اسلامی لشکر کے پندرہ دن کے سخت محاصرہ کے بعد) سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو ثالث مان کر ہتھیار ڈال دیئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ کو فیصلہ کا اختیار دیا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ان کے بارے میں فیصلہ کرتا ہوں کہ جتنے لوگ ان کے جنگ کرنے کے قابل ہیں وہ قتل کر دیئے جائیں‘ اوران کی عورتیں اور بچے قید کر لئے جائیں اور ان کا مال تقسیم کر لیا جائے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1156]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 30 باب مرجع النبي صلی اللہ علیہ وسلم من الأحزاب»

حدیث نمبر: 1157
1157 صحيح حديث عَائِشَةَ، أَنَّ سَعْدًا قَالَ: اللهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أُجَاهِدَهُمْ فِيكَ مِنْ قَوْمٍ كَذَّبُوا رَسُولَكَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْرَجُوهُ؛ اللهُمَّ فَإِنِّي أَظُنُّ أَنَّكَ قَدْ وَضَعْتَ الْحَرْبَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ، فَإِنْ كَانَ بَقِيَ مِنْ حَرْبِ قرَيْشٍ شَيْءٌ فَأَبْقِنِي لَهُ حَتَّى أُجَاهِدَهُمْ فِيكَ؛ وَإِنْ كُنْتَ وَضَعْتَ الْحَرْبَ فَافْجُرْهَا وَاجْعَلْ مَوْتَتِي فِيهَا فَانْفَجَرَتْ مِنْ لَبَّتِهِ فَلَمْ يَرُعْهُمْ، وَفِي الْمَسْجِدِ خَيْمَةٌ مِنْ بَنِي غِفَارٍ، إِلاَّ الدَّمُ يَسِيلُ إِلَيْهِمْ فَقَالُوا: يَا أَهْلَ الْخَيْمَةِ مَا هذَا الَّذِي يأْتِينَا مِنْ قِبَلِكُمْ فَإِذَا سَعْدٌ يَغْذُو جُرْحُهُ دَمًا، فَمَاتَ مِنْهَا رضي الله عنه
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی تھی اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ اس سے زیادہ مجھے کوئی چیز عزیز نہیں کہ میں تیرے راستے میں اس قوم سے جہاد کروں جس نے تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا اور انہیں ان کے وطن سے نکالا۔ اب ایسامعلوم ہوتاہے کہ تو نے ہماری اور ان کی لڑائی ختم کر دی ہے لیکن اگر قریش سے ہماری لڑائی کا کوئی بھی سلسلہ ابھی باقی ہو تو مجھے اس کے لئے زندہ رکھنا۔ یہاں تک کہ میں تیرے راستے میں ان سے جہاد کروں اور اگر لڑائی کے سلسلے کو تونے ختم ہی کر دیا ہے تو میرے زخموں کو پھر سے ہرا کر دے اور اسی میں میری موت واقع کر دے۔ اس دعا کے بعد سینے پر ان کا زخم پھر سے تازہ ہوگیا۔ مسجد میں قبیلہ بنو غفار کے کچھ صحابہ کا بھی ایک خیمہ تھا خون ان کی طرف بہہ کر آیا تو وہ گھبرائے اور انہوں نے کہا‘ اے خیمہ والو! تمہاری طرف سے یہ خون ہماری طرف کیوں بہہ کر آرہا ہے؟ دیکھا تو سعد رضی اللہ عنہ کے زخم سے خون بہہ رہا تھا‘ ان کی وفات اسی میں ہوئی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1157]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 30 باب مرجع النبي صلی اللہ علیہ وسلم من الأحزاب»

603. باب من لزمه أمر فدخل عليه أمر آخر
603. باب: جب دو ضروری کام آ جائیں تو کس کو پہلے کرنا چاہیے
حدیث نمبر: 1158
1158 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَنَا، لَمَّا رَجَعَ مِنَ الأَحْزَابِ: لاَ يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلاَّ فِي بَنِي قُرَيْظَةَ فَأَدْرَكَ بَعْضُهُمُ الْعَصْرَ فِي الطَّرِيقِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لاَ نُصَلِّي حَتَّى نَأْتِيَهَا وقَالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ نُصَلِّي، لَمْ يُرَدْ مِنَّا ذلِكَ فَذُكِرَ لِلنَبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ خندق سے فارغ ہوئے تو ہم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص بنوقریظہ کے محلے میں پہنچنے سے پہلے نماز عصر نہ پڑھے، لیکن جب عصر کا وقت آیا تو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے راستے ہی میں نماز پڑھ لی اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ ہم بنوقریظہ کے محلے میں پہنچنے پر نماز عصر پڑھیں گے اور کچھ حضرات کا خیال یہ ہوا کہ ہمیں نماز پڑھ لینی چاہیے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ نہیں تھا کہ نماز قضا کرلیں۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کاذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر بھی ملامت نہیں فرمائی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1158]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 12 كتاب صلاة الخوف: 5 باب صلاة الطالب والمطلوب راكبًا وإيماء»


Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next