1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الجهاد
کتاب: جہاد کے مسائل
600. باب ربط الأسير وحبسه وجواز المن عليه
600. باب: قیدی کو باندھنا، قید کرنا اور اس کو مفت چھوڑ دینا جائز ہے
حدیث نمبر: 1152
1152 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلاً قِبَلَ نَجْدٍ، فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ يُقَالُ لَهُ ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ، فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ فَقَالَ: عِنْدِي خَيْرٌ يَا مُحَمَّدُ إِنْ تَقْتُلْنِي تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شاكِرٍ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ مِنْهُ مَا شِئْتَ حَتَّى كَانَ الْغَدُ ثُمَّ قَالَ لَهُ: مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ قَالَ: مَا قُلْتُ لَكَ، إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ فَتَرَكَهُ حَتَّى كَانَ بَعْدَ الْغَدِ فَقَالَ: مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ فَقَالَ عِنْدِي مَا قُلْتُ لَكَ فَقَالَ: أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ فَانْطَلَقَ إِلَى نَجْلٍ قَرِيبٍ مِنَ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِله إِلاَّ اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ يَا مُحَمَّدُ وَاللهِ مَا كَانَ عَلَى الأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ، فَقَد أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ إِلَيَّ وَاللهِ مَا كَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْ دِينِكَ، فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَيَّ وَاللهِ مَا كَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِكَ، فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ أَحَبَّ الْبِلاَدِ إِلَيَّ، وَإِنَّ خَيْلَكَ أَخَذَتْنِي وَأَنَا أُرِيدُ الْعُمْرَةَ، فَمَاذَا تَرَى فَبَشَّرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَهُ أَنْ يَعْتَمِرَ فَلَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ، قَالَ قَائِلٌ: صَبَوْتَ قَالَ: لاَ، وَلكِنْ أَسْلمْتُ مَعَ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلاَ، وَاللهِ لاَ يَأْتِيكُمْ مِنَ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف کچھ سوار بھیجے۔ وہ قبیلہ بنو حنیفہ کے (سرداروں میں سے) ایک شخص، ثمامہ بن اثال کو پکڑ کر لائے او رمسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور پوچھا ثمامہ تو کیا سمجھتا ہے؟ (میں تیرے ساتھ کیا کروں گا) اس نے کہا محمد! میرے پاس خیر ہے(اس کے باوجود) اگر آپ مجھے قتل کر دیں تو آپ ایک شخص کو قتل کریں گے جو خونی ہے۔ اس نے جنگ میں مسلمانوں کو مارا ہے اور اگر آپ مجھ پر احسان کریں گے تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو (احسان کرنے والے کا) شکریہ ادا کرتا ہے لیکن اگر آپ کو مال مطلوب ہو تو جتنا چاہیں مجھ سے مال طلب کر سکتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے آئے‘ دوسرے دن آپ نے پھر پوچھا: ثمامہ اب تو کیا سمجھتاہے؟ انہوں نے کہا‘ وہی جو میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اگر آپ نے احسان کیا تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو شکر ادا کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پھر چلے گئے‘ تیسرے دن پھر آپ نے ان سے پوچھا اب تو کیا سمجھتا ہے ثمامہ؟ انہوں نے کہا کہ وہی جو میں آپ سے پہلے کہہ چکا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو(رسی کھول دی گئی) تو وہ مسجد نبوی سے قریب ایک باغ میں گئے اور غسل کرکے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اورپڑھا اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمدا رسول اللہ اور کہا اے محمد! اللہ کی قسم روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے زیادہ میرے لئے برا نہیں تھا لیکن آج آپ کے چہرہ سے زیادہ مجھے کوئی چہرہ محبوب نہیں ہے۔ اللہ کی قسم! کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ مجھے برا نہیں لگتا تھا، لیکن آج آپ کا دین مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ اور عزیز ہے۔ اللہ کی قسم! کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ مجھے برا نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا شہر میرا سب سے زیادہ محبوب شہر ہے۔ آپ کے سواروں نے مجھے پکڑا تو میں عمرہ کا ارادہ کر چکا تھا۔ اب آپ کا کیا حکم ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بشارت دی اور عمرہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ جب وہ مکہ پہنچے تو کسی نے کہا کہ وہ بے دین ہوگئے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایمان لے آیا ہوں اور خدا کی قسم! اب تمہارے یہاں یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ بھی اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجاز ت نہ دے دیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1152]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 70 باب وفد بني حنيفة وحديث ثمامة ابن أثال»