1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الجهاد
کتاب: جہاد کے مسائل
603. باب من لزمه أمر فدخل عليه أمر آخر
603. باب: جب دو ضروری کام آ جائیں تو کس کو پہلے کرنا چاہیے
حدیث نمبر: 1158
1158 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَنَا، لَمَّا رَجَعَ مِنَ الأَحْزَابِ: لاَ يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلاَّ فِي بَنِي قُرَيْظَةَ فَأَدْرَكَ بَعْضُهُمُ الْعَصْرَ فِي الطَّرِيقِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لاَ نُصَلِّي حَتَّى نَأْتِيَهَا وقَالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ نُصَلِّي، لَمْ يُرَدْ مِنَّا ذلِكَ فَذُكِرَ لِلنَبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ خندق سے فارغ ہوئے تو ہم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص بنوقریظہ کے محلے میں پہنچنے سے پہلے نماز عصر نہ پڑھے، لیکن جب عصر کا وقت آیا تو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے راستے ہی میں نماز پڑھ لی اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ ہم بنوقریظہ کے محلے میں پہنچنے پر نماز عصر پڑھیں گے اور کچھ حضرات کا خیال یہ ہوا کہ ہمیں نماز پڑھ لینی چاہیے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ نہیں تھا کہ نماز قضا کرلیں۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کاذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر بھی ملامت نہیں فرمائی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1158]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 12 كتاب صلاة الخوف: 5 باب صلاة الطالب والمطلوب راكبًا وإيماء»