1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الجهاد
کتاب: جہاد کے مسائل
593. باب جواز قتل النساء والصبيان في البيات من غير تعمد
593. باب: رات کے حملہ میں بغیر ارادے کے عورتوں اور بچوں کا قتل درست ہے
حدیث نمبر: 1139
1139 صحيح حديث الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ، قَالَ: مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالأَبْوَاءِ أَوْ بِوَدَّانَ، وَسُئِلَ عَنْ أَهْلِ الدَّارِ يُبَيَّتُونَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فيُصَابُ مِنْ نِسَائِهِمْ وَذَرَارِيِّهِمْ قَالَ: هُمْ مِنْهُمْ
حضرت صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابواء یا ودان میں میرے پاس سے گزرے تو آپ سے پوچھا گیا کہ مشرکین کے جس قبیلے پر شب خون مارا جائے گا کیا ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کرنا درست ہو گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ بھی انہی میں سے ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1139]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 146 باب أهل الدار يبيتون فيصاب الولدان والذراري»

594. باب جواز قطع أشجار الكفار وتحريقها
594. باب: کافروں کے درخت کاٹنا اور جلانا جائز ہے
حدیث نمبر: 1140
1140 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: حَرَّقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ وَقَطَعَ، وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ، فَنَزَلَتْ (مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبإِذْنِ اللهِ)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کی کھجوروں کے باغات جلوا دئیے تھے اور ان کے درختوں کو کٹوا دیا تھا یہ باغات مقام بویرہ میں تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی جو درخت تم نے کاٹ دئیے ہیں یا جنہیں تم نے چھوڑ دیا ہے کہ وہ اپنی جڑوںپر کھڑے رہیں تو یہ اللہ کے حکم سے ہوا ہے۔ (الحشر: ۵) [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1140]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 14 باب حديث بني النضير»

595. باب تحليل الغنائم لهذه الأمة خاصة
595. باب: امت محمدیہ کے لیے لوٹ کا مال بطور خاص حلال ہے
حدیث نمبر: 1141
1141 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: غَزَا نَبِيٌّ مِنَ الأَنْبِيَاءِ، فَقَالَ لِقَوْمِهِ: لاَ يَتْبَعْنِي رَجُلٌ مَلَكَ بُضْعَ امْرَأَةٍ، وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَبْنِي بِهَا وَلَمَّا يَبْنِ بِهَا، وَلاَ أَحَدٌ بَنَى بُيُوتًا وَلَمْ يَرْفَعْ سُقُوفَهَا، وَلاَ أَحَدٌ اشْتَرَى غَنَمًا أَوْ خَلِفَاتٍ وَهُوَ يَنْتَظِرُ وِلاَدَهَا فَغَزَا، فَدَنَا مِنَ الْقَرْيَةِ صَلاَةَ الْعَصْرِ، أَوْ قَرِيبًا مِنْ ذلِكَ فَقَالَ لِلشَّمْسِ: إِنَّكِ مَأْمُورَةٌ وَأَنَا مَأْمُورٌ، اللهُمَّ احْبِسْهَا عَلَيْنَا فَحُبِسَتْ حَتَّى فَتَحَ اللهُ عَلَيْهِ؛ فَجَمَعَ الْغَنَائِمَ، فَجَاءَتْ (يَعْنِي النَّارَ) لِتَأْكُلَهَا فَلَمْ تَطْعَمْهَا؛ فَقَالَ: إِنَّ فِيكُمْ غُلُولاً، فَلْيُبَايِعْنِي مِنْ كُلِّ قبيلة رَجُلٌ، فَلَزِقَتْ يَدُ رَجُلٍ بِيدِهِ فَقَالَ: فِيكُمُ الْغُلُولُ فَلْيُبَايِعْنِى قَبِيلَتُكَ فَلَزِقَتْ يَدُ رَجُلَيْنِ أَوْ ثَلاَثَةٍ بِيَدِهِ فَقَالَ: فِيكُمُ الْغُلُولُ فَجَاءُوأ بِرَأْسٍ مِثْلِ رَأْس بَقَرَةٍ مِنَ الذَّهَبِ فَوَضَعُوهَا، فَجَاءَتِ النَّارُ فَأَكَلَتْهَا ثُمَّ أَحَلَّ اللهُ لَنَا الْغَنَائِمَ، رَأَى ضَعْفَنَا وَعَجْزَنَا فَأَحَلَّهَا لَنَا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں سے ایک نبی (یوشع علیہ السلام) نے غزوہ کرنے کا ارادہ کیا تو اپنی قوم (بنی اسرائیل)سے کہا کہ میرے ساتھ کوئی ایسا شخص جس نے ابھی نئی شادی کی ہو اور بیوی کے ساتھ کوئی رات بھی نہ گزاری ہو اور وہ رات گزارنا چاہتا ہو اور وہ شخص جس نے گھر بنایا ہو اور ابھی اس کی چھت نہ پاٹ سکا ہو اور وہ شخص جس نے (حاملہ) بکری یا حاملہ اونٹنیاں خریدی ہوں اور اسے ان کے بچے جننے کا انتظار ہو تو (ایسے لوگوں میں سے کوئی بھی) ہمارے ساتھ جہاد میں نہ چلے۔ پھر انہوں نے جہاد کیا، اور جب اس آبادی (اریحا) سے قریب ہوئے تو عصر کا وقت ہو گیا یا اس کے قریب وقت ہوا۔ انہوں نے سورج سے فرمایا کہ تو بھی خدا کا تابع فرمان ہے اور میں بھی اس کا تابع فرمان ہوں۔ اے اللہ! ہمارے لئے اسے اپنی جگہ پر روک دے۔ چنانچہ سورج رک گیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح عنایت فرمائی۔ پھر انہوں نے اموال غنیمت کو جمع کیا اور آگ اسے جلانے کے لئے آئی لیکن جلا نہ سکی، اس پرنبی نے فرمایا کہ تم میں سے کسی نے مال غنیمت میں چوری کی ہے۔ اس لئے ہر قبیلہ کا ایک آدمی آ کر میرے ہاتھ پر بیعت کرے (جب بیعت کرنے لگے تو) ایک قبیلہ کے شخص کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے ساتھ چمٹ گیا۔ انہوں نے فرمایا، کہ چوری تمہارے ہی قبیلے والوں نے کی ہے۔ اب تمہارے قبیلے کے سب لوگ آئیں اور بیعت کریں۔ چنانچہ اس قبیلے کے دو یا تین آدمیوں کا ہاتھ اس طرح ان کے ہاتھ سے چمٹ گیا، تو آپ نے فرمایا کہ چوری تمہی لوگوں نے ہی کی ہے۔ (آخر چوری مان لی گئی) اور وہ لوگ گائے کے سر کی طرح سونے کا ایک سر لائے (جو غنیمت میں سے چرا لیا گیا تھا) اور اسے مال غنیمت میں رکھ دیا، تب آگ آئی اور اسے جلا گئی، پھر غنیمت اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے جائز قرار دے دی، ہماری کمزوری اور عاجزی کو دیکھا، اس لئے ہمارے واسطے حلال قرار دے دی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1141]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 57 كتاب فرض الخمس: 8 باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم أحلت لكم الغنائم»

596. باب الأنفال
596. باب: لوٹ کا بیان
حدیث نمبر: 1142
1142 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَرِيَّةً، فِيهَا عَبْدُ اللهِ، قِبَلَ نَجْدٍ، فَغَنِمُوا إِبِلاً كَثِيرًا، فَكَانَتْ سِهَامُهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ بَعِيرًا أَوْ أَحَدَ عَشَرَ بَعِيرًا؛ وَنُفِّلُوا بَعِيرًا بَعِيرًا
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہماکی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف ایک لشکر روانہ کیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمابھی لشکر کے ساتھ تھے۔ غنیمت کے طور پر اونٹوں کی ایک بڑی تعداد اس لشکر کو ملی۔ اس لئے اس کے ہر سپاہی کو حصے میں بارہ بارہ یاگیارہ گیارہ اونٹ ملے تھے اور ایک ایک اونٹ مزید انعام میں ملا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1142]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 57 كتاب فرض الخمس: 15 باب ومن الدليل على أن الخمس لنوائب [ص:205] المسلمين»

حدیث نمبر: 1143
1143 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُنَفِّلُ بَعْضَ مَنْ يَبْعَثُ مِنَ السَّرَايَا لأَنْفُسِهِمْ خَاصَّةً، سِوَى قِسْمِ عَامَّةِ الْجَيْشِ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض مہموں کے موقع پر اس میں شریک ہونے والوں کو غنیمت کے عام حصوں کے علاوہ (خمس وغیرہ میں سے) اپنے طور پر بھی دیا کرتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1143]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 57 كتاب فرض الخمس: 15 باب ومن الدليل على أن الخمس لنوائب المسلمين»

597. باب استحقاق القاتل سلب القتيل
597. باب: مقتول کے مال و متاع کا حق دار اسے قتل کرنے والا ہے
حدیث نمبر: 1144
1144 صحيح حديث أَبِي قَتَادَةَ رضي الله عنه، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حُنَيْنٍ فَلَمَّا الْتَقَيْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ، فَرَأَيْتُ رَجُلاً مِنَ الْمُشْرِكِينَ عَلاَ رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَاسْتَدَرْتُ حَتَّى أَتَيْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ حَتَّى ضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ، فَأَقْبَلَ عَلَيَّ فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ ثُمَّ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ فَأَرْسَلَنِي فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقُلْتُ: مَا بَالُ النَّاسِ قَالَ: أَمْرُ الله ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَجَعُوا، وَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنْ قَتَلَ قَتِيلاً لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ، فَلَهُ سَلَبُهُ فَقُمْتُ فَقُلْتُ: مَنْ يَشْهَدُ لِي ثُمَّ جَلَسْتُ ثُمَّ قَالَ: مَنْ قَتَلَ قَتِيلاً لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ، فَلَهُ سَلَبُهُ فَقُمْتُ فَقُلْتُ: مَنْ يَشْهَدُ لِي ثُمَّ جَلَسْتُ ثُمَّ قَالَ الثَالِثَةَ مِثْلَهُ فَقَالَ رَجُلٌ: صَدَقَ يَا رَسُولَ اللهِ وَسَلَبُهُ عِنْدِي، فَأَرْضِهِ عَنِّي فَقَالَ أَبُو بَكْر الصِّدِّيق رضي الله عنه: لاَهَا اللهِ، إِذَا يَعْمِدُ إِلَى أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللهِ، يُقَاتِلُ عَنِ اللهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُعْطِيكَ سَلَبَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ فَأَعْطَاهُ، فَبِعْتُ الدِّرْعَ فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرِفًا فِي بَنِي سَلِمَةَ، فَإِنَّهُ لأَوَّلُ مَالٍ تَأْثَّلْتهُ فِي الإِسْلاَمِ
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ غزوۂ حنین کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے۔ پھر جب ہمارا دشمن سے سامنا ہوا تو (ابتدا میں) اسلامی لشکر ہارنے لگا۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ مشرکین کے لشکر کا ایک شخص ایک مسلمان کے اوپر چڑھا ہوا ہے، اس لئے میں فوراً ہی گھوم پڑا اور اس کے پیچھے سے آ کر تلوار اس کی گردن پر ماری۔ اب وہ شخص مجھ پر ٹوٹ پڑا، اور مجھے اتنی زور سے اس نے بھینچا کہ میری روح جیسے قبض ہونے کو تھی۔ آخر جب اس کو موت نے آ دبوچا، تب کہیں جا کر اس نے مجھے چھوڑا۔ اس کے بعد مجھے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ملے، تو میں نے ان سے پوچھا کہ مسلمان اب کس حالت میں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جو اللہ کا حکم تھا وہی ہوا لیکن مسلمان ہارنے کے بعد پھر مقابلہ پر سنبھل گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور فرمایا کہ جس نے بھی کسی کافر کو قتل کیا ہو اور اس پر وہ گواہ بھی پیش کر دے تو مقتول کا سارا ساز و سامان اسے ہی ملے گا۔ (ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا) میں بھی کھڑا ہوا۔ اور میں نے کہا کہ میری طرف سے کون گواہی دے گا؟ کہ میں نے اس شخص کو قتل کیا تھا، لیکن (جب میری طرف سے کوئی نہ اٹھا تو) میں بیٹھ گیا۔ پھر دوبارہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (آج) جس نے کسی کافر کو قتل کیا اور اس پر اس کی طرف سے کوئی گواہ بھی ہو تو مقتول کا سارا سامان اسے ملے گا۔ اس مرتبہ پھر میں نے کھڑے ہو کر کہا کہ میری طرف سے کون گواہی دے گا؟ اور پھر مجھے بیٹھنا پڑا۔ تیسری مرتبہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی ارشاد دہرایا اور اس مرتبہ جب میں کھڑا ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی دریافت فرمایا: کس چیز کے متعلق کہہ رہے ہو ابوقتادہ! میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سارا واقعہ بیان کر دیا، تو ایک صاحب (اسود بن خزاعی اسلمی) نے بتایا کہ ابوقتادہ سچ کہتے ہیں، یا رسول اللہ! اور اس مقتول کا سامان میرے پاس محفوظ ہے۔ اور میرے حق میں انہیں راضی کر دیجئے (کہ وہ مقتول کا سامان مجھ سے نہ لیں) لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں، اللہ کی قسم! اللہ کے ایک شیر کے ساتھ، جو اللہ اور اس کے رسول کے لئے لڑے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں کریں گے کہ ان کا سامان تمہیں دے دیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر نے سچ کہا ہے۔ پھر آپ نے سامان حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا۔ ابوقتادہ نے کہا کہ پھر اس کی زرہ بیچ کر میں نے بنی سلمہ میں ایک باغ خرید لیا۔ اور یہ پہلا مال تھا جو اسلام لانے کے بعد میں نے حاصل کیا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1144]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 7 كتاب فرض الخمس: 18 باب من لم يخمس الأسلاب، ومن قتل قتيلاً فله سلبه»

حدیث نمبر: 1145
1145 صحيح حديث عَبْدِ الرَّحْمنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا وَاقِفٌ فِي الصَّفِّ يَوْمَ بَدْرٍ، فَنظَرْتُ عَنْ يَمِينِي وَشِمَالِي، فَإِذَا أَنَا بِغُلاَمَيْنِ مِنَ الأَنْصَارِ حَدِيثَةٍ أَسْنَانُهُمَا، تَمَنَّيْتُ أَنْ أَكُونَ بَيْنَ أَضْلَعَ مِنْهُمَا، فَغَمَزَنِي أَحَدُهُمَا، فَقَالَ: يَا عَمِّ هَلْ تَعْرِفُ أَبا جَهْلٍ قُلْتُ: نَعَمْ، مَا حَاجَتُكَ إِلَيْهِ يَا ابْنَ أَخِي قَالَ: أُخْبِرْتُ أَنَّهُ يَسُبُّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَئِنْ رَأَيْتُهُ لاَ يُفَارِقُ سَوَادِي سَوَادَهُ حَتَّى يَمُوتَ الأَعْجَلُ مِنَّا فَتَعَجَّبْتُ لِذلِكَ فَغَمَزَنِي الآخَرُ، فَقَالَ لِي مِثْلَهَا فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ نَظَرْتُ إِلَى أَبِي جَهْلٍ يَجُولُ فِي النَّاس، قلْتُ: أَلاَ إِنَّ هذَا صَاحِبُكُمَا الَّذِي سَأَلْتُمَانِي فَابْتَدَرَاهُ بِسَيْفِيْهِمَا، فَضَرَبَاهُ حَتَّى قَتَلاَهُ، ثُمَّ انْصَرَفَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَاهُ، فَقَالَ: أَيُّكُمَا قَتَلَهُ قَالَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: أَنَا قَتَلْتُهُ؛ فَقَالَ: هَلْ مَسَحْتُمَا سَيْفَيْكُمَا قَالاَ: لاَ فَنَظَرَ فِي السَّيْفَيْنِ، فَقَالَ: كِلاَكُمَا قَتَلَهُ، سَلَبُهُ لِمُعَاذٍ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ وَكَانَا مُعَاذَ بْنَ عَفْرَاءَ، وَمُعَاذَ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بدر کی لڑائی میں، میں صف کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ میں نے جو دائیں بائیں جانب دیکھا تو میرے دونوں طرف قبیلہ انصار کے دو نوعمر لڑکے تھے۔ میں نے آرزو کی کاش! میں ان سے زبردست زیادہ عمر والوں کے بیچ میں ہوتا۔ ایک نے میری طرف اشارہ کیا، اور پوچھا چچا! آپ ابوجہل کو بھی پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں! لیکن بیٹے تم لوگوں کو اس سے کیا کام ہے؟ لڑکے نے جواب دیا مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مجھے وہ مل گیا تو اس وقت تک میں اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک ہم میں سے کوئی جس کی قسمت میں پہلے مرنا ہو گا، مر نہ جائے، مجھے اس پر بڑی حیرت ہوئی۔ پھر دوسرے نے اشارہ کیا اور وہی باتیں اس نے بھی کہیں۔ ابھی چند لمحے ہی گزرے تھے کہ مجھے ابوجہل دکھائی دیا جو لوگوں میں (کفار کے لشکر میں) گھومتا پھر رہا تھا۔ میں نے ان لڑکوں سے کہا کہ جس کے متعلق تم لوگ مجھ سے پوچھ رہے تھے، وہ سامنے (پھرتا ہوا نظر آ رہا) ہے۔ دونوں نے اپنی تلواریں سنبھالیں اور اس پر جھپٹ پڑے اور حملہ کر کے اسے قتل کر ڈالا۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو خبر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم دونوں میں سے کس نے اسے مارا ہے؟ دونوں نوجوانوں نے کہا کہ میں نے قتل کیا ہے۔ اس لئے آپ نے ان سے پوچھا کہ کیا اپنی تلواریں تم نے صاف کر لی ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں تلواروں کو دیکھا اور فرمایا کہ تم دونوں ہی نے اسے مارا ہے۔ اور اس کا سارا سامان معاذ بن عمرو بن جموح کو ملے گا۔ وہ دونوں نوجوان معاذ بن عفراء اور معاذ بن عمرو بن جموح تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1145]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 57 كتاب فرض الخمس: 18 باب من لم يخمس الأسلاب ومن قتل قتيلاً فله سلبه»

598. باب حكم الفيء
598. باب: جو مال کافروں کا بغیر لڑائی کے ہاتھ آئے اس کا حکم
حدیث نمبر: 1146
1146 صحيح حديث عُمَرَ رضي الله عنه، قَالَ: كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا لَمْ يُوجِفِ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلاَ رِكَابٍ، فَكَانَتْ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً، وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِ، ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ فِي السِّلاَحِ وَالْكُرَاعِ، عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللهِ
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بنو نضیر کے اموال (باغات وغیرہ) ان میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر لڑے دے دیا تھا۔ مسلمانوں نے ان کو حاصل کرنے کے لئے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تو یہ اموال خاص طور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے تھے جن میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کو سالانہ نفقہ کے طور پر بھی دے دیتے تھے اور باقی ہتھیار اور گھوڑوں پر خرچ کرتے تھے تاکہ اللہ کے راستے میں (جہاد کے لئے) ہر وقت تیاری رہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1146]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 34 كتاب الجهاد والسير: 80 باب المجن من يتترس بترس صاحبه»

حدیث نمبر: 1147
1147 صحيح حديث عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي الله عنه، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيِّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه، دَعَاهُ، إِذْ جَاءَهُ حَاجِبُهُ يَرْفَا، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ وَعَبْدِ الرَّحْمنِ وَالزُّبَيْرِ وَسَعْدٍ يَسْتَأذِنُونَ فَقَالَ: نَعَمْ، فَأَدْخِلْهُمْ فَلَبِثَ قَلِيلاً، ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَبَّاسٍ وَعَلِيٍّ يَسْتَأذِنَانِ قَالَ: نَعَمْ فَلَمَّا دَخَلاَ قَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هذَا، وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ فِي الَّذِي أَفَاءَ الله عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَنِي النَّضِيرِ؛ فَاسْتَبَّ عَلِيٌّ وَالْعَبَّاسُ فَقَالَ الرَّهْطُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنَ الآخَرِ فَقَالَ عُمَرُ: اتَّئِدُوا، أَنْشُدُكُمْ بِاللهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ يُرِيدُ بِذلِكَ نَفْسَهُ قَالُوا: قَدْ قَالَ ذلِكَ فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَبَّاسٍ وَعَلِيٍّ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللهِ هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ ذَلِكَ قَالاَ: نَعَمْ قَالَ: فَإِنِّي أُحَدِّثكُمْ عَنْ هذَا الأَمْرِ، إِنَّ اللهَ سُبْحَانَهُ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هذَا الْفَيْءِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ، فَقَالَ جَلَّ ذِكْرُهُ وَمَا أَفَاءَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلاَ رِكَابٍ إِلَى قَوْلِهِ قَدِيرٌ فَكَانَتْ هذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ، وَاللهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ، وَلاَ اسْتَأْثَرَهَا عَلَيْكُمْ، لَقَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَقَسَمَهَا فِيكُمْ حَتَّى بَقِيَ هذَا الْمَالُ مِنْهَا، فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هذَا الْمَالِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللهِ فَعَمِل ذَلِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيَاتَهُ ثُمَّ تُوفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَضَهُ أَبُو بَكْرٍ، فَعَمِلَ فِيهِ بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم، وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ فَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ، وَقَالَ: تَذْكُرَانِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ فِيهِ كَمَا تَقُولاَنِ، وَاللهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ فِيهِ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ تَوَفَّى اللهُ أَبَا بَكْرٍ، فَقُلْتُ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، فَقَبَضْتُهُ سَنَتَيْنِ مِنْ إِمَارَتِي أَعْمَل فِيهِ بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَاللهُ يَعْلَمُ أَنِّي فِيهِ صَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ للْحَقِّ ثُمَّ جِئْتُمَانِي كِلاَكُمَا وَكَلِمَتُكُمَا وَاحِدَةٌ، وَأَمْرُكُمَا جَمِيعٌ، فَجِئْتَنِي (يَعْنِي عَبَّاسًا) فَقُلْتُ لَكُمَا: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ فَلَمَّا بَدَا لِي أَنْ أَدْفَعَهُ إِلَيْكُمَا، قُلْتُ: إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهُ إِلَيْكُمَا، عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللهِ وَمِيثَاقَهُ، لَتَعْمَلاَنِ فِيهِ بِمَا عَمِلَ فِيهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَمَا عَمِلْتُ فِيهِ مُذْ وَلِيتُ، وَإِلاَّ فَلاَ تُكَلِّمَانِي فَقُلْتمَا: ادْفَعْهُ إِلَيْنَا بِذلِكَ، فَدَفَعْتُهُ إِلَيْكُمَا أَفَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَاءَ غَيْرِ ذَلِكَ فَوَاللهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ لاَ أَقْضِي فِيهِ بِقَضَاءٍ غَيْرِ ذَلِكَ حَتَّى تقُومَ السَّاعَةُ، فَإِنْ عَجَزتُمَا عَنْهُ فَادْفَعَا إِلَيَّ، فَأَنَا أَكْفِيكمَاهُ
مالک بن اوس بن حدثان النصری بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں بلایا تھا (وہ ابھی امیر المومنین) کی خدمت میں موجود تھے کہ امیر المومنین کے چوکیدار یرفاء آئے اور عرض کیا کہ عثمان بن عفان، عبدالرحمن بن عوف‘ زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اندر آنا چاہتے ہیں کیا آپ کی طرف سے انہیں اجازت ہے؟ امیر المومنین نے فرمایا کہ ہاں‘ انہیں اندر بلا لو‘ تھوڑی دیر بعد یرفاء پھر آئے اور عرض کیا حضرت عباس اور علی رضی اللہ عنہما بھی اجازت چاہتے ہیں کیا انہیں اندر آنے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں‘ جب یہ دونوں بزرگ بھی اندر تشریف لے آئے تو عباس رضی اللہ عنہ نے کہا‘ امیر المومنین! میرا اور ان (علی رضی اللہ عنہ) کا فیصلہ کر دیجئے۔ وہ دونوں اس جائیداد کے بارے میں جھگڑ رہے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مال بنو نضیر سے فے کے طور پر دی تھی، اس موقع پر علی اور عباس رضی اللہ عنہم نے ایک دوسرے کو سخت سست کہا اور ایک دوسرے پر تنقید کی تو حاضرین بولے‘ امیر المومنین! آپ ان دونوں بزرگوں کا فیصلہ کر دیں تاکہ دونوں میں کوئی جھگڑا باقی نہ رہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا‘ جلدی نہ کیجئے میں آپ لوگوں سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں‘ کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہم انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد خود اپنی ذات سے تھی؟ حاضرین بولے کہ جی ہاں‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا پھر سیّدنا عمر، سیّدنا عباس اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا‘ میں آپ دونوں سے بھی اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو بھی معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی؟ ان دونوں بزرگوں نے جواب ہاں میں دیا اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے کہا‘ پھر میں آپ لوگوں سے اس معاملے پر گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مال فے میں سے (جو بنو نضیر سے ملا تھا) آپ کو خاص طور پر عطا فرما دیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ ان (بنو نضیر) کے مالوں سے جو اللہ نے اپنے رسول کو دیا ہے تو تم نے اس کے لئے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ (یعنی جنگ نہیں کی) بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو جس پر چاہے غالب کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ تو یہ مال خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا، لیکن اللہ کی قسم کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں نظر انداز کر کے اپنے لیے مخصوص نہیں فرمایا تھا نہ تم پر اپنی ذات کو ترجیح دی تھی۔ پہلے اس مال میں سے تمہیں دیا اور تم میں اس کی تقسیم کی اور آخر اس فے میں سے یہ جائیداد بچ گئی تھی، پس آپ اپنی ازواج مطہرات کا سالانہ خرچ بھی اسی میں سے نکالتے تھے اور جو کچھ اس میں سے باقی بچتا اسے آپ اللہ تعالیٰ کے مال کے مصارف میں خرچ کیا کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں یہ جائیداد انہی مصارف میں خرچ کی۔ پھر جب آپ کی وفات ہوگئی تو سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔ اس لیے انہوں نے اسے اپنے قبضہ میں لیا اور انہی مصارف میں خرچ کرتے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے۔ اور آپ لوگ یہیں موجود تھے۔ اس کے بعد سیّدنا عمر، سیدنا علی اور سیّدناعباس رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا‘ جیسا کہ آپ لوگوں کو بھی اس کا اقرار ہے اور اللہ کی قسم! وہ اپنے اس طرز عمل میں سچے‘ مخلص‘ صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی اٹھا لیا‘ میں نے کہا کہ چونکہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔ اس لیے میں اس جائیداد پر اپنی خلافت کے دو سالوں سے قابض ہوں اور اسے انہیں مصارف میں صرف کرتا ہوں۔ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں بھی اپنے طرز عمل میں سچا‘ مخلص‘ صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے ہیں،آپ دونوں ایک ہی ہیں اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے۔ پھر آپ میرے پاس آئے۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی مراد سیّدناعباس رضی اللہ عنہ سے تھی تو میں نے آپ دونوں کے سامنے یہ بات صاف کہہ دی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے تھے کہ ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے پھر جب وہ جائیداد بطور انتظام میں آپ دونوں کو دے دوں تو میں نے آپ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں یہ جائیداد آپ کو دے سکتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کئے ہوئے عہد کی تمام ذمہ داریوں کو آپ پورا کریں آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اور خود میں نے جب سے میں خلیفہ بنا ہوں‘ اس جائیداد کے معاملہ میں کس طرز عمل کو اختیار کیا ہوا ہے اگر یہ شرط آپ کو منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس کے بارے میں آپ لوگ بات نہ کریں آپ لوگوں نے اس پر کہا کہ ٹھیک ہے آپ اسی شرط پر وہ جائیداد ہمارے حوالے کر دیں۔ چنانچہ میں نے اسے آپ لوگوں کے حوالے کر دیا کیا آپ حضرات اس کے سوا کوئی اور فیصلہ اس سلسلے میں مجھ سے کروانا چاہتے ہیں؟ اس اللہ کی قسم! جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں‘ قیامت تک میں اس کے سوا کوئی اور فیصلہ نہیں کر سکتا اگر آپ لوگ (شرط کے مطابق اس کے انتظام سے) عاجز ہیں تو وہ جائیداد مجھے واپس کر دیں میں خود اس کا انتظام کروں گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1147]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 14 باب حديث بني النضير»

599. باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم لا نورث ما تركنا فهو صدقة
599. باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ ’’ہمارے ترکے کا کوئی وارث نہیں بلکہ وہ صدقہ ہے‘‘
حدیث نمبر: 1148
1148 صحيح حديث عَائِشَةَ، أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرَدْنَ أَنْ يَبْعَثْنَ عُثْمَانَ إِلَى بَكْرٍ يَسْأَلْنَهُ مِيرَاثَهُنَّ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: أَلَيْسَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ نَورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ کی بیویوں نے چاہا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی میراث طلب کرنے کے لیے بھیجیں۔پھر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے یاد دلایا، کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا کہ ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1148]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 85 كتاب الفرائض: 3 باب قول النبي صلي الله عليه وسلم: لا نورث ما تركنا صدقة»


Previous    1    2    3    4    5    6    Next