1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الجهاد
کتاب: جہاد کے مسائل
598. باب حكم الفيء
598. باب: جو مال کافروں کا بغیر لڑائی کے ہاتھ آئے اس کا حکم
حدیث نمبر: 1147
1147 صحيح حديث عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي الله عنه، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيِّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه، دَعَاهُ، إِذْ جَاءَهُ حَاجِبُهُ يَرْفَا، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ وَعَبْدِ الرَّحْمنِ وَالزُّبَيْرِ وَسَعْدٍ يَسْتَأذِنُونَ فَقَالَ: نَعَمْ، فَأَدْخِلْهُمْ فَلَبِثَ قَلِيلاً، ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَبَّاسٍ وَعَلِيٍّ يَسْتَأذِنَانِ قَالَ: نَعَمْ فَلَمَّا دَخَلاَ قَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هذَا، وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ فِي الَّذِي أَفَاءَ الله عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَنِي النَّضِيرِ؛ فَاسْتَبَّ عَلِيٌّ وَالْعَبَّاسُ فَقَالَ الرَّهْطُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنَ الآخَرِ فَقَالَ عُمَرُ: اتَّئِدُوا، أَنْشُدُكُمْ بِاللهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ يُرِيدُ بِذلِكَ نَفْسَهُ قَالُوا: قَدْ قَالَ ذلِكَ فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَبَّاسٍ وَعَلِيٍّ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللهِ هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ ذَلِكَ قَالاَ: نَعَمْ قَالَ: فَإِنِّي أُحَدِّثكُمْ عَنْ هذَا الأَمْرِ، إِنَّ اللهَ سُبْحَانَهُ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هذَا الْفَيْءِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ، فَقَالَ جَلَّ ذِكْرُهُ وَمَا أَفَاءَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلاَ رِكَابٍ إِلَى قَوْلِهِ قَدِيرٌ فَكَانَتْ هذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ، وَاللهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ، وَلاَ اسْتَأْثَرَهَا عَلَيْكُمْ، لَقَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَقَسَمَهَا فِيكُمْ حَتَّى بَقِيَ هذَا الْمَالُ مِنْهَا، فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هذَا الْمَالِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللهِ فَعَمِل ذَلِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيَاتَهُ ثُمَّ تُوفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَضَهُ أَبُو بَكْرٍ، فَعَمِلَ فِيهِ بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم، وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ فَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ، وَقَالَ: تَذْكُرَانِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ فِيهِ كَمَا تَقُولاَنِ، وَاللهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ فِيهِ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ تَوَفَّى اللهُ أَبَا بَكْرٍ، فَقُلْتُ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، فَقَبَضْتُهُ سَنَتَيْنِ مِنْ إِمَارَتِي أَعْمَل فِيهِ بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَاللهُ يَعْلَمُ أَنِّي فِيهِ صَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ للْحَقِّ ثُمَّ جِئْتُمَانِي كِلاَكُمَا وَكَلِمَتُكُمَا وَاحِدَةٌ، وَأَمْرُكُمَا جَمِيعٌ، فَجِئْتَنِي (يَعْنِي عَبَّاسًا) فَقُلْتُ لَكُمَا: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ فَلَمَّا بَدَا لِي أَنْ أَدْفَعَهُ إِلَيْكُمَا، قُلْتُ: إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهُ إِلَيْكُمَا، عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللهِ وَمِيثَاقَهُ، لَتَعْمَلاَنِ فِيهِ بِمَا عَمِلَ فِيهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَمَا عَمِلْتُ فِيهِ مُذْ وَلِيتُ، وَإِلاَّ فَلاَ تُكَلِّمَانِي فَقُلْتمَا: ادْفَعْهُ إِلَيْنَا بِذلِكَ، فَدَفَعْتُهُ إِلَيْكُمَا أَفَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَاءَ غَيْرِ ذَلِكَ فَوَاللهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ لاَ أَقْضِي فِيهِ بِقَضَاءٍ غَيْرِ ذَلِكَ حَتَّى تقُومَ السَّاعَةُ، فَإِنْ عَجَزتُمَا عَنْهُ فَادْفَعَا إِلَيَّ، فَأَنَا أَكْفِيكمَاهُ
مالک بن اوس بن حدثان النصری بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں بلایا تھا (وہ ابھی امیر المومنین) کی خدمت میں موجود تھے کہ امیر المومنین کے چوکیدار یرفاء آئے اور عرض کیا کہ عثمان بن عفان، عبدالرحمن بن عوف‘ زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اندر آنا چاہتے ہیں کیا آپ کی طرف سے انہیں اجازت ہے؟ امیر المومنین نے فرمایا کہ ہاں‘ انہیں اندر بلا لو‘ تھوڑی دیر بعد یرفاء پھر آئے اور عرض کیا حضرت عباس اور علی رضی اللہ عنہما بھی اجازت چاہتے ہیں کیا انہیں اندر آنے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں‘ جب یہ دونوں بزرگ بھی اندر تشریف لے آئے تو عباس رضی اللہ عنہ نے کہا‘ امیر المومنین! میرا اور ان (علی رضی اللہ عنہ) کا فیصلہ کر دیجئے۔ وہ دونوں اس جائیداد کے بارے میں جھگڑ رہے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مال بنو نضیر سے فے کے طور پر دی تھی، اس موقع پر علی اور عباس رضی اللہ عنہم نے ایک دوسرے کو سخت سست کہا اور ایک دوسرے پر تنقید کی تو حاضرین بولے‘ امیر المومنین! آپ ان دونوں بزرگوں کا فیصلہ کر دیں تاکہ دونوں میں کوئی جھگڑا باقی نہ رہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا‘ جلدی نہ کیجئے میں آپ لوگوں سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں‘ کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہم انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد خود اپنی ذات سے تھی؟ حاضرین بولے کہ جی ہاں‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا پھر سیّدنا عمر، سیّدنا عباس اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا‘ میں آپ دونوں سے بھی اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو بھی معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی؟ ان دونوں بزرگوں نے جواب ہاں میں دیا اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے کہا‘ پھر میں آپ لوگوں سے اس معاملے پر گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مال فے میں سے (جو بنو نضیر سے ملا تھا) آپ کو خاص طور پر عطا فرما دیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ ان (بنو نضیر) کے مالوں سے جو اللہ نے اپنے رسول کو دیا ہے تو تم نے اس کے لئے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ (یعنی جنگ نہیں کی) بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو جس پر چاہے غالب کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ تو یہ مال خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا، لیکن اللہ کی قسم کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں نظر انداز کر کے اپنے لیے مخصوص نہیں فرمایا تھا نہ تم پر اپنی ذات کو ترجیح دی تھی۔ پہلے اس مال میں سے تمہیں دیا اور تم میں اس کی تقسیم کی اور آخر اس فے میں سے یہ جائیداد بچ گئی تھی، پس آپ اپنی ازواج مطہرات کا سالانہ خرچ بھی اسی میں سے نکالتے تھے اور جو کچھ اس میں سے باقی بچتا اسے آپ اللہ تعالیٰ کے مال کے مصارف میں خرچ کیا کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں یہ جائیداد انہی مصارف میں خرچ کی۔ پھر جب آپ کی وفات ہوگئی تو سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔ اس لیے انہوں نے اسے اپنے قبضہ میں لیا اور انہی مصارف میں خرچ کرتے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے۔ اور آپ لوگ یہیں موجود تھے۔ اس کے بعد سیّدنا عمر، سیدنا علی اور سیّدناعباس رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا‘ جیسا کہ آپ لوگوں کو بھی اس کا اقرار ہے اور اللہ کی قسم! وہ اپنے اس طرز عمل میں سچے‘ مخلص‘ صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی اٹھا لیا‘ میں نے کہا کہ چونکہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔ اس لیے میں اس جائیداد پر اپنی خلافت کے دو سالوں سے قابض ہوں اور اسے انہیں مصارف میں صرف کرتا ہوں۔ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں بھی اپنے طرز عمل میں سچا‘ مخلص‘ صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے ہیں،آپ دونوں ایک ہی ہیں اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے۔ پھر آپ میرے پاس آئے۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی مراد سیّدناعباس رضی اللہ عنہ سے تھی تو میں نے آپ دونوں کے سامنے یہ بات صاف کہہ دی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے تھے کہ ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے پھر جب وہ جائیداد بطور انتظام میں آپ دونوں کو دے دوں تو میں نے آپ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں یہ جائیداد آپ کو دے سکتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کئے ہوئے عہد کی تمام ذمہ داریوں کو آپ پورا کریں آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اور خود میں نے جب سے میں خلیفہ بنا ہوں‘ اس جائیداد کے معاملہ میں کس طرز عمل کو اختیار کیا ہوا ہے اگر یہ شرط آپ کو منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس کے بارے میں آپ لوگ بات نہ کریں آپ لوگوں نے اس پر کہا کہ ٹھیک ہے آپ اسی شرط پر وہ جائیداد ہمارے حوالے کر دیں۔ چنانچہ میں نے اسے آپ لوگوں کے حوالے کر دیا کیا آپ حضرات اس کے سوا کوئی اور فیصلہ اس سلسلے میں مجھ سے کروانا چاہتے ہیں؟ اس اللہ کی قسم! جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں‘ قیامت تک میں اس کے سوا کوئی اور فیصلہ نہیں کر سکتا اگر آپ لوگ (شرط کے مطابق اس کے انتظام سے) عاجز ہیں تو وہ جائیداد مجھے واپس کر دیں میں خود اس کا انتظام کروں گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1147]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 14 باب حديث بني النضير»