1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الحج
کتاب: حج کے مسائل
382. باب جواز التحلل بالإحصار وجواز القران
382. باب: حاجی بوقت احصار احرام کھول سکتا ہے
حدیث نمبر: 771
771 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: حِينَ خَرَجَ إِلَى مَكةَ مُعْتَمِرًا فِي الْفِتْنَةِ: إِنْ صُدِدْتُ عَنِ الْبَيْتِ صَنَعْنَا كَمَا صَنَعْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَهَلَّ بِعُمْرَةٍ مِنْ أَجْلِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ ثُمَّ إِنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ نَظَرَ فِي أَمْرِهِ فَقَالَ: مَا أَمْرُهُمَا إِلاَّ وَاحِدٌ فَالْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: مَا أَمْرُهُمَا إِلاَّ وَاحِدٌ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ الْحَجَّ مَعَ الْعُمْرَةِ ثُمَّ طَافَ لَهُمَا طَوَافًا وَاحِدًا، وَرَأَى أَنَّ ذلِكَ مُجْزِيًا عَنْهُ وَأَهْدَى
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مکہ کے ارادے سے چلے تو فرمایا کہ اگر مجھے بیت اللہ تک پہنچنے سے روک دیا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو (حدیبیہ کے سال) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا آپ نے عمرہ کا احرام باندھا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حدیبیہ کے سال عمرہ ہی کا احرام باندھا تھا پھر آپ نے کچھ غور کر کے فرمایا کہ عمرہ اور حج تو ایک ہی ہے اس کے بعد اپنے ساتھیوں سے بھی یہی فرمایا کہ یہ دونوں تو ایک ہی ہیں میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ عمرہ کے ساتھ اب حج بھی اپنے لئے میں نے واجب قرار دے لیا ہے پھر (مکہ پہنچ کر) آپ نے دونوں کے لئے ایک ہی طواف کیا آپ کا خیال تھا کہ یہ کافی ہے اور آپ قربانی کا جانور بھی ساتھ لے گئے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 771]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 27 كتاب المحصر: 4 باب من قال ليس على المحصر بدل»

حدیث نمبر: 772
772 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ أَرَادَ الْحَجَّ عَامَ نَزَلَ الْحَجَّاجُ بِابْنِ الزُّبَيْرِ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ النَّاسَ كَائِنٌ بَيْنَهُمْ قِتَالٌ وَإِنَّا نَخَافُ أَنْ يَصُدُّوكَ، فَقَالَ: (لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ) إِذًا أَصْنَعُ كَمَا صَنَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنِّي أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ عُمْرَةً ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِظَاهِرِ الْبَيْدَاءِ، قَالَ: مَا شَأْنُ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ إِلاَّ وَاحِدٌ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ حَجًّا مَعَ عُمْرَتِي وَأَهْدَى هَدْيًا اشْتَرَاهُ بِقُدَيْدٍ، وَلَمْ يَزِدْ عَلَى ذلِكِ، فَلَمْ يَنْحَرْ وَلَمْ يَحِلَّ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ، وَلَمْ يَحْلِقْ وَلَمْ يُقَصِّرْ حَتَّى كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ فَنَحَرَ وَحَلَقَ، وَرَأَى أَنْ قَدْ قَضى طَوافَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ بِطَوَافِهِ الأَوَّلِ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: كَذلِكَ فَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے جب اس سال حج کا ارادہ کیا جس سال عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں لڑنے آیا تھا تو آپ سے کہا گیا کہ مسلمانوں میں باہم جنگ ہونے والی ہے اور یہ بھی خطرہ ہے کہ آپ کو حج سے روک دیا جائے آپ نے فرمایا تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے (احزاب۲۱) ایسے وقت میں بھی وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ واجب کر لیا ہے پھر آپ چلے اور جب بیداء کے میدان میں پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ حج اور عمرہ تو ایک ہی طرح کے ہیں میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج بھی واجب کر لیا ہے آپ نے ایک قربانی بھی ساتھ لے لی جو مقام قدید سے خریدی تھی اس کے سوا اور کچھ نہیں کیا دسویں تاریخ سے پہلے نہ آپ نے قربانی کی نہ کسی ایسی چیز کو اپنے لئے جائز کیا جس سے (احرام کی وجہ سے) آپ رک گئے تھے نہ سر منڈوایا نہ بال ترشوائے دسویں تاریخ میں آپ نے قربانی کی اور بال منڈوائے آپ کا یہی خیال تھا کہ آپ نے ایک طواف سے حج اور عمرہ دونوں کا طواف ادا کر لیا ہے ابن عمر نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 772]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 25 كتاب الحج: 77 باب طواف القارن»

383. باب في الإفراد والقران بالحج والعمرة
383. باب: حج افراد اور قران کا بیان
حدیث نمبر: 773
773 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ عَنْ بَكْرٍ، أَنَّهُ ذَكَرَ لابْنِ عُمَرَ أَنَّ أَنَسًا حَدَّثَهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ، فَقَالَ (ابْنُ عُمَرَ): أَهَلَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ وَأَهْلَلْنَا بِهِ مَعَهُ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ، قَالَ: مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَجْعَلَهَا عُمْرَةً وَكَانَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدْيٌ، فَقَدِمَ عَلَيْنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ مِنَ الْيَمَنِ حَاجًّا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِمَ أَهْلَلْتَ فَإِنَّ مَعَنَا أَهْلَكَ قَالَ: أَهْلَلْتُ بِمَا أَهَلَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَأَمْسِكْ فَإِنَّ مَعَنَا هَدْيًا
بکر بن عبداللہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے ذکر کیا کہ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھا تھا (تو سیّدنا ابن عمر نے کہا) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا احرام باندھا اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ حج ہی کا احرام باندھا تھا پھر ہم جب مکہ آئے تو آپ نے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو وہ اپنے حج کے احرام کو عمرہ کا کر لے (اور طواف اور سعی کر کے احرام کھول دے) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کا جانور تھا پھر سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یمن سے لوٹ کر حج کا احرام باندھ کر آئے آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کس طرح احرام باندھا ہے؟ ہمارے ساتھ تمہاری زوجہ (سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا) بھی ہیں انہوں نے عرض کیا میں نے اس طرح کا احرام باندھا ہے جس طرح آپ نے باندھا ہو آپ نے فرمایا کہ پھر اپنے احرام پر قائم رہو کیونکہ ہمارے ساتھ قربانی کا جانور ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 773]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 61 باب بعث علي ابن أبي طالب عليه السلام وخالد بن الوليد رضي الله عنه إلى اليمن قبل حجة الوداع»

384. باب ما يلزم من أحرم بالحج ثم قدم مكة من الطواف والسعي
384. باب: جو حج کا احرام باندھ کر مکہ آئے اس پر کیا لازم آتا ہے؟
حدیث نمبر: 774
774 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: سَأَلْنَا ابْنَ عُمَرَ عَنْ رَجُلٍ طَافَ بِالْبَيْتِ الْعُمْرَةَ، وَلَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، أَيَأْتِي امْرَأَتَهُ فَقَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا، وَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ، وَطَافَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ (وَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ)
عمرو بن دینار رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ ہم نے سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جس نے بیت اللہ کا طواف عمرہ کے لئے کیا لیکن صفا اور مروہ کی سعی نہیں کی کیا ایسا شخص (بیت اللہ کے طواف کے بعد) اپنی بیوی سے صحبت کر سکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ نے سات مرتبہ بیت اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھی پھر صفا اور مروہ کی سعی کی اور تمہارے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 774]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 30 باب قول الله تعالى: (واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى»

385. باب ما يلزم من طاف بالبيت وسعى من البقاء على الإحرام وترك التحلل
385. باب: حاجی کو طواف قدوم سے پہلے احرام نہیں کھولنا چاہیے
حدیث نمبر: 775
775 صحيح حديث عَائِشَةَ وَأَسْمَاءَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمنِ بْنِ نَوْفَلٍ الْقُرَشِيِّ، أَنَّهُ سَأَلَ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: قَدْ حَجَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ أَنَّهُ أَوَّلُ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ حِينَ قَدِمَ أَنَّهُ تَوَضَّأَ، ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ لَمْ تَكُنْ عُمْرَةً ثُمَّ حَجَّ أَبُو بَكْرٍ رضي الله عنه، فَكَانَ أَوَّلَ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ ثُمَّ لَمْ تَكُنْ عُمْرَةٌ ثُمَّ عُمَرُ رضي الله عنه، مِثْلُ ذلِكَ ثُمَّ حَجَّ عُثْمَانُ رضي الله عنه، فَرَأَيْتُهُ أَوَّلُ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ لَمْ تَكُنْ عُمْرَةٌ ثُمَّ مُعَاوِيَةُ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ ثُمَّ حَجَجْتُ مَعَ أَبِي، الزبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، فَكَانَ أَوَّلَ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ ثُمَّ لَمْ تَكُنْ عُمْرَةٌ ثُمَّ رَأَيْتُ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارَ يَفْعَلُونَ ذلِكَ، ثُمَّ لَمْ تَكُنْ عُمْرَةٌ ثُمَّ آخِرُ مَنْ رَأَيْتُ فَعَلَ ذلِكَ ابْنُ عُمَرَ، ثُمَّ لَمْ يَنْقُضْهَا عُمْرَةً وَهذَا ابْنُ عُمَرَ عِنْدَهُمْ فَلاَ يَسْأَلُونَهُ وَلاَ أَحَدٌ مِمَّنْ مَضى مَا كَانُوا يَبْدَءُونَ بِشَيْءٍ حَتَّى يَضَعُوا أَقْدَامَهُمْ مِنَ الطَّوَافِ بِالْبَيْتِ ثُمَّ لاَ يَحِلُّونَ وَقَدْ رَأَيْتُ أُمِّي وَخَالَتِي حِينَ تَقْدَمَانِ لاَ تَبْتَدِئَانِ بِشَيْءٍ أَوَّلَ مِنَ الْبَيْتِ تَطُوفَانِ بِهِ ثُمَّ لاَ تَحِلاَّنِ وَقَدْ أَخْبَرَتْنِي أُمِّي أَنَّهَا أَهَلَّتْ هِيَ وَأُخْتُهَا وَالزُّبَيْرُ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ بِعُمْرَةٍ فَلَمَّا مَسَحُوا الرُّكْنَ حَلُّوا
محمد بن عبدالرحمن بن نوفل قرشی رحمہ اللہ نے سیّدنا عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا تھا اور مجھے سیدہ عائشہ نے اس کے متعلق خبر دی کہ جب آپ مکہ مکرمہ آئے تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ آپ نے وضو کیا پھر کعبہ کا طواف کیا یہ آپ کا عمرہ نہیں تھا اس کے بعد سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حج کیا اور آپ نے بھی سب سے پہلے کعبہ کا طواف کیا جب کہ یہ آپ کا بھی عمرہ نہیں تھا سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح کیا پھر سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے حج کیا میں نے دیکھا کہ سب سے پہلے آپ نے بھی کعبہ کا طواف کیا آپ کا بھی یہ عمرہ نہیں تھا پھر سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ور سیّدنا عبداللہ بن عمر کا زمانہ آیا (اور انہوں نے بھی ایسا ہی کیا) پھر میں نے اپنے والد زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی حج کیا انہوں نے بھی پہلے جو کام کیا وہ یہی بیت اللہ کا طواف تھا جب کہ یہ عمرہ نہیں ہوتا تھا اس کے بعد مہاجرین و انصار کو بھی میں نے دیکھا کہ وہ بھی اسی طرح کرتے رہے اور ان کا بھی یہ عمرہ نہیں ہوتا تھا آخری ذات جسے میں نے اس طرح کرتے دیکھا وہ سیّدنا عبداللہ بن عمر کی تھی انہوں نے بھی عمرہ نہیں کیا تھا ابن عمر ابھی موجود ہیں لیکن ان سے لوگ اس کے متعلق پوچھتے نہیں اسی طرح جو حضرات گذر گئے ان کا بھی مکہ میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلا قدم طواف کے لئے اٹھتا تھا پھر یہ بھی احرام نہیں کھولتے تھے میں نے اپنی والدہ (اسماء بنت ابی بکررضی اللہ عنہا) اور خالہ (عائشہ) کو بھی دیکھا کہ جب وہ آتیں تو سب سے پہلے طواف کرتیں اور یہ اس کے بعد احرام نہیں کھولتی تھیں اور مجھے میری والدہ نے خبر دی کہ انہوں نے اپنی بہن (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) اور زبیر اور فلاں فلاں کے ساتھ عمرہ کیا ہے یہ سب لوگ حجر اسود کا بوسہ لیتے تو عمرہ کا احرام کھول دیتے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 775]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 25 كتاب الحج: 78 باب الطواف على وضوء»

حدیث نمبر: 776
776 صحيح حديث أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ عَبْدِ اللهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّهُ كَانَ يَسْمَعُ أَسْمَاءَ تَقُولُ، كُلَّمَا مَرَّتْ بِالْحَجُونِ: صَلَّى الله عَلَى مُحَمَّدٍ، لَقَدْ نَزَلْنَا مَعَهُ ههُنَا وَنَحْنُ يَوْمَئِذٍ خِفَافٌ، قَلِيلٌ ظَهْرُنَا، قَلِيلَةٌ أَزْوَادُنَا، فَاعْتَمَرْتُ أَنَا وَأُخْتِي عَائِشَةُ وَالزُّبَيْرُ وَفَلاَنٌ وَفُلاَنٌ، فَلَمَّا مَسَسْنَا الْبَيْتَ أَحْلَلْنَا ثُمَّ أَهْلَلْنَا مِنَ الْعَشِيِّ بِالْحَجِّ
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کے غلام عبداللہ نے بیان کیا کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا جب بھی حجون پہاڑ سے ہو کر گذرتیں تو یہ کہتیں رحمتیں نازل ہوں اللہ کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہم نے آپ کے ساتھ یہیں قیام کیا تھا ان دنوں ہمارے پاس (سامان) بہت ہلکے پھلے تھے سواریاں بھی کم تھیں اور زاد راہ کی بھی کمی تھی میں نے میری بہن عائشہ نے زبیر اور فلاں فلاں (رضی اللہ عنہم) نے عمرہ کیا اور جب بیت اللہ کا طواف کر چکے تو (صفا اور مروہ کی سعی کے بعد) ہم حلال ہو گئے حج کا احرام ہم نے شام کو باندھا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 776]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 26 كتاب العمرة: 11 باب متى يحل المعتمر»

386. باب جواز العمرة في أشهر الحج
386. باب: حج کے مہینوں میں عمرہ کے جائز ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 777
777 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَصْحَابُهُ لِصُبْحِ رَابِعَةٍ يُلَبُّونَ بِالْحَجِّ، فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً، إِلاَّ مَنْ مَعَهُ الْهَدْيُ
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو ساتھ لے کر تلبیہ کہتے ہوئے ذی الحجہ کی چوتھی تاریخ کو (مکہ میں) تشریف لائے پھر آپ نے فرمایا کہ جن کے پاس ہدی نہیں ہے وہ بجائے حج کے عمرہ کی نیت کر لیں (اور عمرہ سے فارغ ہو کر حلال ہو جائیں پھر حج کا احرام باندھیں)۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 777]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 18 كتاب تقصير الصلاة: 3 باب كم أقام النبي صلی اللہ علیہ وسلم في حجته»

حدیث نمبر: 778
778 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ نَصْرِ بْنِ عِمْرَانَ الضُّبَعِيِّ، قَالَ: تَمَتَّعْتُ فَنَهَانِي نَاسٌ، فَسَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَأَمَرَنِي، فَرَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ رَجُلاً يَقُولُ لِي: حَجٌّ مَبْرُورٌ، وَعُمْرَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ، فَأَخْبَرْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: سُنَّةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: أَقِمْ عِنْدِي فَأَجْعَلَ لَكَ سَهْمًا مِنْ مَالِي قَالَ شُعْبَةُ (الرَّاوِي عَنْهُ)، فَقُلْتُ: لِمَ فَقَالَ: لِلرُّؤْيَا الَّتِي رَأَيْتُ
ابو جمرہ نصر بن عمران ضبعی رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ میں نے حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھا تو کچھ لوگوں نے مجھے منع کیا اس لئے میں نے سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماسے اس کے متعلق دریافت کیا آپ نے تمتع کرنے کے لئے کہا پھر میں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا کہ مجھ سے کہہ رہا ہے حج بھی مبرور ہوا اور عمرہ بھی مقبول ہوا میں نے یہ خواب سیّدنا ابن عباس کو سنایا تو آپ نے فرمایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے پھر فرمایا کہ میرے یہاں قیام کر میں اپنے پاس سے تمہارے لئے کچھ مقرر کر کے دیا کروں گا شعبہ (راوی) نے بیان کیا کیا کہ میں نے (ابو جمرہ سے) پوچھا کہ ابن عباس نے یہ کیوں کیا تھا؟ (یعنی مال کس بات پر دینے کے لئے کہا) انہوں نے بیان کیا کہ اسی خواب کی وجہ سے جو میں نے دیکھا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 778]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 25 كتاب الحج: 34 باب التمتع والإقران والإفراد بالحج»

387. باب تقليد الهَدْي وإِشعاره عند الإحرام
387. باب: قربانی کے جانور کی کوہان چیرنے اور اس کے گلے میں ہار ڈالنے کا بیان
حدیث نمبر: 779
779 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: إِذَا طَافَ بِالْبَيْتِ فَقَدْ حَلَّ، فَقُلْتُ: مِنْ أَيْنَ قَالَ هذَا ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ: مِنْ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى (ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ)، وَمِنْ أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ أَنْ يَحِلُّوا فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ قُلْتُ: إِنَّمَا كَانَ ذلِكَ بَعْدَ الْمُعَرَّفِ قَالَ: كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَرَاهُ قَبْلُ وَبَعْدُ
ابن جریج بیان کرتے ہیں کہ مجھے عطاء رحمہ اللہ نے سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماکے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے کہا عمرہ کرنے والا صرف بیت اللہ کے طواف سے حلال ہو سکتا ہے (ابن جریج کہتے ہیں کہ) میں نے عطاء سے پوچھا کہ ابن عباس نے یہ مسئلہ کہاں سے نکالا؟ انہوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد محلہا الی البیت العتیق (الحج۳۳) سے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی وجہ سے جو آپ نے اپنے اصحاب کو حجتہ الوداع میں احرام کھول دینے کے لئے دیا تھا میں نے کہا کہ یہ حکم تو عرفات میں ٹھہرنے کے بعد کے لئے ہے حضرت عطاء نے کہا لیکن ابن عباس کا یہ مذہب تھا کہ عرفات میں ٹھہرنے سے پہلے اور بعد ہر حال میں جب طواف کرے تو احرام کھول ڈالنا درست ہے (الحج۳۳)(پھر ان کا حلال ہونا پرانے گھر یعنی خانہ کعبہ کے پاس ہے) [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 779]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازى: 77 باب حجة الوداع»

388. باب التقصير في العمرة
388. باب: عمرہ کرنے والے کے لیے بال کتروانے کا بیان
حدیث نمبر: 780
780 صحيح حديث مُعَاوِيَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَصَّرْتُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِشْقَصٍ
سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال قینچی سے کترے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 780]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 25 كتاب الحج: 127 باب الحلق والتقصير عند الإحلال»


Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next