751 صحيح حديث ابْنِ بُحَيْنَةَ رضي الله عنه، قَالَ: احْتَجَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ مُحْرِمٌ، بِلَحْيِ جَمَلٍ، فِي وَسَطِ رَأْسِهِ
سیّدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام لحی جمل میں جب کہ آپ محرم تھے اپنے سر کے بیچ میں پچھنا لگوایا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 751]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 28 كتاب جزاء الصيد: 11 باب الحجامة للمحرم»
عبداللہ بن حنین بیان کرتے ہیں کہ سیّدنا عبداللہ بن عباس اور سیّدنا مسور بن مخرمہ کا مقام ابواء میں (ایک مسئلہ پر) اختلاف ہوا عبداللہ بن عباس تو یہ کہتے تھے کہ محرم اپنا سر دھو سکتا ہے لیکن مسور کا کہنا تھا کہ محرم سر نہ دھوئے پھر عبداللہ بن عباس نے مجھے سیّدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے یہاں (مسئلہ پوچھنے کے لئے) بھیجا میں جب ان کی خدمت میں پہنچا تو وہ کنوئیں کی دو لکڑیوں کے بیچ میں غسل کر رہے تھے ایک کپڑے سے انہوں نے پردہ کر رکھا تھا میں نے پہنچ کر سلام کیا تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ کون ہو؟ میں نے عرض کی کہ میں عبداللہ بن ہوں آپ کی خدمت میں مجھے عبداللہ بن عباس نے بھیجا ہے دریافت کرنے کے لئے کہ احرام کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر مبارک کس طرح دھوتے تھے؟ یہ سن کر انہوں نے کپڑے پر (جس سے پردہ تھا) ہاتھ رکھ کر اسے نیچے کیا اب آپ کا سر دکھائی دے رہا تھا جو شخص ان کے بدن پر پانی ڈال رہا تھا اس سے انہوں نے پانی ڈالنے کے لئے کہا اس نے ان کے سر پر پانی ڈالا پھر انہوں نے اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے ہلایا اور دونوں ہاتھ آگے لے گئے اور پھر پیچھے لائے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (احرام کی حالت) میں اسی طرح کرتے دیکھا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 752]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 28 كتاب جزاء الصيد: 14 باب الاغتسال للمحرم»
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ ایک شخص میدان عرفہ میں (احرام باندھے ہوئے) کھڑا ہوا تھا کہ اپنی سواری سے گر پڑا اور سواری نے انہیں کچل دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے فرمایا کہ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دو کپڑوں میں انہیں کفن دو اور یہ بھی ہدایت فرمائی کہ انہیں خوشبو نہ لگاؤ اور نہ ان کا سر چھپاؤ کیونکہ یہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 753]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 20 باب الكفن في ثوبين»
375. باب جواز اشتراط المحرم التحلل بعذر المرض ونحوه
375. باب: محرم کی شروط (محرم مرض یا کسی اور عذر کی وجہ سے احرام کھولنے کی شرط لگا سکتا ہے)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضباعہ بنت زبیر کے پاس گئے (یہ زبیر عبدالمطلب کے بیٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے) اور ان سے فرمایا شاید تمہارا ارادہ حج کا ہے؟ انہوں نے عرض کیا اللہ کی قسم میں تو اپنے آپ کو بیمار پاتی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ پھر بھی حج کا احرام باندھ لے البتہ شرط لگا لینا اور یہ کہہ لینا کہ اے اللہ میں اس وقت حلال ہو جاؤں گی جب تو مجھے (مرض کی وجہ سے) روک لے گا اور (ضباعہ) مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 754]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 15 باب الأكفاء في الدين»
376. باب بيان وجوه الإحرام وأنه يجوز إِفراد الحج والتمتع والقران وجواز إِدخال الحج على العمرة، ومتى يحل القارن من نسكه
376. باب: احرام کی قسموں کا بیان حج مفرد۔ تمتع اور قران اور عمرے کے ساتھ حج کو شامل کیا جا سکتا ہے اور قارن کے حلال ہونے کا وقت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ ہم حجتہ الوداع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے پہلے ہم نے عمرہ کا احرام باندھا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی ہو تو اسے عمرہ کے ساتھ حج کا بھی احرام باندھ لینا چاہئے ایسا شخص درمیان میں حلال نہیں ہو سکتا بلکہ حج اور عمرہ دونوں سے ایک ساتھ حلال ہو گا میں بھی مکہ آئی تھی اس وقت میں حائضہ ہو گئی اس لئے نہ بیت اللہ کا طواف کر سکی اور نہ صفا اور مروہ کی سعی میں نے اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکوہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ اپنا سر کھول ڈال کنگھا کر اور عمرہ چھوڑ کر حج کا احرام باندھ لے چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا پھر جب ہم حج سے فارغ ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے میرے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر کے ساتھ تنعیم بھیجا میں نے وہاں سے عمرہ کا احرام باندھا (اور عمرہ ادا کیا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمہارے اس عمرہ کے بدلے میں ہے (جسے تم نے چھوڑ دیا تھا) سیدہ عائشہ نے بیان کیا کہ جن لوگوں نے (حجتہ الوداع میں) صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا وہ بیت اللہ کا طواف صفا اور مروہ کی سعی کر کے حلال ہو گئے پھر منی سے واپس ہونے پر دوسرا طواف (یعنی طواف الزیارۃ) کیا لیکن جن لوگوں نے حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھا تھا انہوں نے صرف ایک ہی طواف کیا یعنی طواف الزیارۃ۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 755]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 25 كتاب الحج 31 باب كيف تهل الحائض والنفساء»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجتہ الوداع کے سفر میں نکلے ہم میں سے بعض نے عمرہ کا احرام باندھا اور بعض نے حج کا پھر ہم مکہ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہو اور ہدی (قربانی کا جانور)ساتھ نہ لایا ہو تو وہ حلال ہو جائے اور جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہو اور ہدی بھی ساتھ لایا ہو تو وہ ہدی کی قربانی سے پہلے حلال نہ ہو گا اور جس نے حج کا احرام باندھا ہو تو اسے حج پورا کرنا چاہئے سیدہ عائشہ نے کہا کہ میں حائضہ ہو گئی اور عرفہ کا دن آ گیا میں نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں اپنا سر کھول لوں کنگھا کر لوں اور حج کا احرام باندھ لوں اور عمرہ چھوڑ دوں میں نے ایسا ہی کیا اور اپنا حج پورا کر لیا پھر میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن ابی بکر کو بھیجا اور مجھ سے فرمایا کہ میں اپنے چھوٹے ہوئے عمرہ کے عوض تنعیم سے دوسرا عمرہ کروں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 756]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 6 كتاب الحيض: 18 باب كيف تهل الحائض بالحج والعمرة»
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ ہم حج کے ارادہ سے نکلے۔ جب ہم مقام سرف میں پہنچے تو میں حائضہ ہوگئی اور اس رنج میں رونے لگی۔ اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ نے پوچھا، تمہیں کیا ہوا؟ کیا حائضہ ہوگئی ہو؟ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے لکھ دیا ہے۔ اس لیے تم بھی حج کے افعال پورے کر لو۔ البتہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 757]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 6 كتاب الحيض: 1 باب كيف كان بدء الحيض»
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ حج کے مہینوں اور آداب میں ہم حج کا احرام باندھ کر مدینہ سے چلے اور مقام سرف میں پڑاؤ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی نہ ہو اور وہ چاہے کہ اپنے حج کے احرام کو عمرہ سے بدل دے تو وہ ایسا کر سکتا ہے لیکن جس کے ساتھ قربانی ہے وہ ایسا نہیں کر سکتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعض مقدور (استطاعت) والوں کے ساتھ قربانی تھی اس لئے ان کا (احرام صرف) عمرہ کا نہیں رہا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے تو میں رو رہی تھی آپ نے دریافت فرمایا کہ رو کیوں رہی ہو؟ میں نے کہا آپ نے اپنے اصحاب سے جو کچھ فرمایا وہ میں سن رہی تھی اب تو میرا عمرہ ہو گیا آپ نے پوچھا کیا بات ہوئی؟ میں نے کہا کہ نماز نہیں پڑھ سکتی (حیض کی وجہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ کوئی حرج نہیں تو بھی آدم کی بیٹیوں میں سے ایک ہے اور جو ان سب کے مقدر میں لکھا ہے وہی تمہارا بھی مقدر ہے اب حج کا احرام باندھ لے شاید اللہ تعالیٰ تمہیں عمرہ بھی نصیب کرے (سیدہ عائشہ نے بیان کیا کہ میں نے حج کا احرام باندھ لیا پھر جب ہم (حج سے فارغ ہو کر اور) منی سے نکل کر محصب میں اترے تو آں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن کو بلایا اور ان سے کہا کہ اپنی بہن کو حد حرم سے باہر لے جا (تنعیم) تا کہ وہ وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ لیں پھر طواف و سعی کرو ہم تمہارا انتظار یہیں کریں گے ہم آدھی رات کو آپ کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے پوچھا کیا فارغ ہو گئے؟ میں نے کہا ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد اپنے اصحاب میں کوچ کا اعلان کر دیا بیت اللہ کا طواف وداع کرنے والے لوگ صبح کی نماز سے پہلے ہی روانہ ہو گئے اور مدینہ کی طرف چل دئیے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 758]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 26 كتاب العمرة: 9 باب المعتمر إذا طاف طواف العمرة ثم خرج هل يجزئه من طواف الوداع»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ ہم حج کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ہماری نیت حج کے سوا اور کچھ نہ تھی جب ہم مکہ پہنچے تو (اور لوگوں نے) بیت اللہ کا طواف کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا کہ جو قربانی اپنے ساتھ نہ لایا ہو وہ حلال ہو جائے چنانچہ جن کے پاس ہدی نہ تھی وہ حلال ہو گئے (افعال عمرہ کے بعد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ہدی نہیں لے گئی تھیں اس لئے انہوں نے بھی احرام کھول ڈالے سیدہ عائشہ نے کہا کہ میں حائضہ ہو گئی تھی اس لئے میں بیت اللہ کا طواف نہ کر سکی (یعنی عمرہ چھوٹ گیا اور حج کرتی چلی گئی) جب محصب کی رات آئی میں نے کہا یا رسول اللہ اور لوگ تو حج اور عمرہ دونوں کر کے واپس ہو رہے ہیں لیکن میں صرف حج کر سکی ہوں اس پر آپ نے پوچھا کیا جب ہم مکہ آئے تھے تو تم طواف نہ کر سکی تھیں؟ میں نے کہا کہ نہیں آپ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کے ساتھ تنعیم تک چلی جا اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ (پھر عمرہ ادا کر) ہم لوگ تمہارا فلاں جگہ انتظار کریں گے اور سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ معلوم ہوتا ہے میں بھی آپ لوگوں کو روکنے کا سبب بن جاؤں گی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سر منڈی کیا تو نے یوم نحر کا طواف نہیں کیا تھا؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں میں تو طواف کر چکی ہوں آپ نے فرمایا پھر کوئی حرج نہیں چل کوچ کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے کہا کہ پھر میری ملاقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو آپ مکہ سے جاتے ہوئے اوپر کے حصہ پر چڑھ رہے تھے اور میں نشیب میں اتر رہی تھی یا یہ کہا کہ میں اوپر چڑھ رہی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس چڑھاؤ کے بعد اتر رہے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 759]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 25 كتاب الحج: 34 باب التمتع والإقران والإفراد بالحج وفسخ الحج لمن لم يكن معه هدي»
سیّدنا عبدالرحمن بن ابی بکر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکو اپنے ساتھ سواری پر لے جائیں اور تنعیم سے انہیں عمرہ کرا لائیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 760]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 26 كتاب العمرة: 6 باب عمرة التنعيم»