ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ حج کے مہینوں اور آداب میں ہم حج کا احرام باندھ کر مدینہ سے چلے اور مقام سرف میں پڑاؤ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی نہ ہو اور وہ چاہے کہ اپنے حج کے احرام کو عمرہ سے بدل دے تو وہ ایسا کر سکتا ہے لیکن جس کے ساتھ قربانی ہے وہ ایسا نہیں کر سکتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعض مقدور (استطاعت) والوں کے ساتھ قربانی تھی اس لئے ان کا (احرام صرف) عمرہ کا نہیں رہا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے تو میں رو رہی تھی آپ نے دریافت فرمایا کہ رو کیوں رہی ہو؟ میں نے کہا آپ نے اپنے اصحاب سے جو کچھ فرمایا وہ میں سن رہی تھی اب تو میرا عمرہ ہو گیا آپ نے پوچھا کیا بات ہوئی؟ میں نے کہا کہ نماز نہیں پڑھ سکتی (حیض کی وجہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ کوئی حرج نہیں تو بھی آدم کی بیٹیوں میں سے ایک ہے اور جو ان سب کے مقدر میں لکھا ہے وہی تمہارا بھی مقدر ہے اب حج کا احرام باندھ لے شاید اللہ تعالیٰ تمہیں عمرہ بھی نصیب کرے (سیدہ عائشہ نے بیان کیا کہ میں نے حج کا احرام باندھ لیا پھر جب ہم (حج سے فارغ ہو کر اور) منی سے نکل کر محصب میں اترے تو آں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن کو بلایا اور ان سے کہا کہ اپنی بہن کو حد حرم سے باہر لے جا (تنعیم) تا کہ وہ وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ لیں پھر طواف و سعی کرو ہم تمہارا انتظار یہیں کریں گے ہم آدھی رات کو آپ کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے پوچھا کیا فارغ ہو گئے؟ میں نے کہا ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد اپنے اصحاب میں کوچ کا اعلان کر دیا بیت اللہ کا طواف وداع کرنے والے لوگ صبح کی نماز سے پہلے ہی روانہ ہو گئے اور مدینہ کی طرف چل دئیے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 758]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 26 كتاب العمرة: 9 باب المعتمر إذا طاف طواف العمرة ثم خرج هل يجزئه من طواف الوداع»